ارباب کمال اور صاحبان سکروجدووحال سے آپ کے گہرے تعلقات تھے ہمیشہ حال اور سرگرمی کی حالت میں رہتے اور مجذوبانہ باتیں کرتے تھے، ہمیشہ کسی خاص لباس میں نہ رہتے بلکہ کبھی تو مشائخین کا لباس پہنتے اور کبھی سپاہیانہ لباس زیب تن کرتے، دراصل سوانہ کے سادات میں سے تھے، طلب حق کے لیے سوانہ سے چل کر جونپور آئے جہاں درویشوں کی خدمت کی اور پھر شیخ بہاؤالدین جونپوری کے مرید ہوگئے، مخصوص مقبولیت اور مخصوص حالت نصیب ہوگئی، رزق کے دروازے آپ پر کھل گئے۔ آپ کی چار بیویاں تھیں، اور اکثر لوگوں کو وظیفے دیا کرتے تھے، اپنی آمدنی میں سے نصف اپنی بیویوں کو دیتے، اور باقی نصف کو غریبوں محتاجوں پر خرچ کردیا کرتے، آپ کی آمدنی مسلسل جاری رہی کبھی بند نہیں ہوئی۔ آپ نے چالیس برس تک کسی خادِم سے کام کرنے کو نہیں کہا، ایک رات آپ سوگئے تھے کہ یکایک آنکھ کھلی پیاس کا غلبہ تھا، جو آدمی ہمیشہ آپ کے لیے پانی رکھا کرتا تھا وہ اتفاق سے اس رات رکھنا بھول گیا، آپ نے کئی بار پیاس کی شدت سے پانی تلاش کیا لیکن نہیں مِلا، ایک مرتبہ جب پیاس نے بےجان کردیا تو آپ نے کسی نوکر سے پانی طلب کرنے کے بجائے اور اس عہد شکنی کے مد نظر جو آپ نے اللہ سے کیا تھا یہ کہا کہ اے موت آجا، تیرے آنے کا یہی وقت ہے، اس کے بعد پھر حالت اضطراب میں پانی تلاش کرنے لگے اس مرتبہ جب ہاتھ آگے بڑھایا تو پانی کا ایک بھرا ہوا پیالہ ہاتھ میں آیا اس کو پی کر اللہ کا شکر ادا کیا۔
میرے والد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ سید علی کی صحبت سے مشرف ہوچکاہوں اور آپ کی باتیں سُن چکا ہوں، ان کی گفتگو میں ذوق عرفان کا اثر تھا اور ان کی باتوں سے ان کے دل کی گرمی محبت ٹپکتی تھی۔
سید علی فرمایا کرتے تھے کہ میں نے اب تک دنیا دار کے گھر میں قدم نہیں رکھا ہے ہر ایک کو اس کے گھر سے اپنے گھر بلایاہے اور اپنے کسی نوکر کو بھی اپنے کسی کام کے لیے نہیں بھیجا، فرماتے تھے کہ بعض آدمی ایسے ہیں جو خود تو کسی کے گھر نہیں جاتے لیکن خادِم کو بھیج دیتے ہیں یا رقعہ بھیج دیتے ہیں یہ بھی مناسب نہیں ہے چونکہ اس میں اپنی احتیاج کو ظاہر کرنا ہے۔
ایک مرتبہ آپ نے فرمایا کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ اے علی تم اپنے دروازے پر نقارہ کیوں بجواتے ہو؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! نقارہ آپ ہی کی آمد کی اطلاع دہی کے لیے ہے، ورنہ میں کون ہوں، حضور نے ارشاد فرمایا کہ اے علی تم خلق خدا کے لیے دعا کرو کیونکہ تمہاری دعا فوراً قبول ہوتی ہے، آپ فرماتے تھے کہ میں فقرا کا خادم ہوں لیکن عصر اور مغرب کے درمیان مجھے معذور سمجھیں اور مجھے میری حالت پر رہنے دیا کریں۔
ایک مرتبہ آپ نے فرمایا کہ یہ لوگ بھی عجیب قسم ہے ہیں جو قوالوں سے کہتے ہیں کہ فلانی چیز اور فلانی غزل پڑھو کیونکہ ہم کو یہ پسند ہے، اور میری کیفیت یہ ہے کہ جو کچھ قوال سُناتا ہے مجھے اچھا معلوم ہوتا ہے اور اسی پر وجد آتا ہے۔ آپ نے 905ھ میں وفات پائی اور آپ کا مزار جونپور میں ہے۔
اخبار الاخیار