سید بہاؤالدین جونپوری رزق کشا
سید بہاؤالدین جونپوری رزق کشا (تذکرہ / سوانح)
حضرت سید بہاؤالدین جونپوری رزق کشا رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ جونپور کے علاقہ کے مشہور مشائخ میں سے تھے۔ حضرت شیخ محمد عیسیٰ کے مرید تھے ترک و تجرید اور صدق و ورع میں ثابت قدم تھے کہتے ہیں کہ ایک شخص شیخ حسین نام تھا جو گجرات سے چل کر آپ کی زیارت کے لیے آیا یہ شخص شیخ محمدعیسیٰ کی زیارت کرنا چاہتا تھا شیخ بہاْؤالدین طالب علم تھے وہ اِس نوجوان کے ساتھ بھی اٹھنے بیٹھنے لگا اُس نے دیکھا کہ شیخ بہاؤالدین نوجوان بھی ہے اور فقیر مستحق بھی ہے اُسے اس پر بڑا ترس آیا کہنے لگا کہ میرے ساتھ جنگل میں چلو وہ ساتھ ہولیے جنگل میں پہنچ کر اُس نے کیمیا کا ایک نسخہ نکالا اور اُس کو دے کر کہا یہ لے لو اور جب تجھے ضرورت ہو اِس کا استعمال کرنا اگر ختم ہوجائے تو پھر مجھے آکر کہنا تاکہ تمہیں میں کوئی اور عمل سِکھا دوں شیخ بہاؤالدین نے عرض کیا میں تو آپ سے کسی اور کیمیا کی امید لے کر آیا تھا مجھے اِس کیمیا کی ضرورت نہیں مجھے تو یہ کیمیا گری فائدہ نہیں پہنچاسکتی یہ بات حضرت شیخ محمد عیسیٰ نے سنی تو بڑے خوش ہوئے اور اُس کی باطنی تربیت پر زیادہ توجہ دینے لگے ایک عرصہ کے بعد شیخ محمد عیسیٰ نے آپ کو خلافت دی اور خرقہ تبرک دے کر رخصت کردیا۔
شیخ بہاؤالدین نے شیخ حسین کا دامن پکڑلیا اور التجا کی کہ مجھے بھی کچھ روحانیت سے حصہ ملنا چاہیے انہوں نے فرمایا تمہارا پیر اسی شہر میں رہتا ہے ہم سے تو اتنا ہی فیض حاصل ہوسکتا تھا ایک عرصہ کے بعد شیخ بہاؤ الدین شیخ محمد عیسیٰ کی مجلس میں رہے مرید ہوئے بڑی نعمتیں پائیں مگر ابھی تک خلافت نہ ملی تھی کہ حضرت شیخ کی موت کا وقت قریب آگیا تھا آپ نے مرنے سے پلے فرمایا بہاؤ الدین تمارا خرقہ خلافت ایک سیّد کے پاس ہے جو مانک پور میں آئے گا کچھ عرصے کے بعد راجی حامد شاہ جونپور آئے شیخ بہاؤالدین اُن کے استقبال کو آگے بڑھے پہلی ہی ملاقات میں اُن کو خرقہ و خلافت عطا فرمادیا۔
شیخ بہاؤ الدین ۹۴۷ھ میں فوت ہوئے۔
رفت از دنیا بفردوس بریں
چوں بہاؤ الدین ولی نیکو شعار
آفتاب جنتی شد جلوہ گر
برسال وصل آں عالی تبار
۹۴۷ھ
آپ جونپور کے معروف مشائخ میں سے تھے اور شیخ محمد عیسیٰ کے مریدوں میں سے تھے۔ تارک الدنیا، مجرد، صداقت و پاکیزگی کا مجسمہ بزرگ تھے۔
شیخ حسین ایک بزرگ تھے جو دولقہ علاقہ گجرات سے شیخ عیسیٰ کی زیارت کے لیے جونپور آئے، شیخ بہاؤالدین اس وقت طالب علم تھے ان کی شیخ حسین سے ملاقات ہوگئی اور شیخ حسین کیمیا بنانا بھی جانتے تھے، ان کو شیخ بہاؤالدین جیسے طالب علم کی فقیری کو دیکھ کر صدمہ ہوا اور ان سے کہا کہ تم ہمارے ساتھ جنگل چلو چنانچہ دونوں جنگل میں گئے، شیخ حسین نے وہاں کیمیا کی اکسیر بنا کر ان کو دی اور کہا کہ جب کوئی ضرورت محسوس ہوتو اس سے سونا بنالیا کرنا اور جب یہ ختم ہوجائے توپھر ہم سے کہنا ہم تمہیں اور بنادیں گے ان تمام باتوں کو سننے کے بعد شیخ بہاؤالدین نے عرض کیا کہ حضرت مجھے آپ سے اس کیمیا کی اکسیر لینے کی نہ ضرورت ہے اور نہ خواہش، میں تو آپ سے ایک دوسری قسم کی اکسیر لینا چاہتا ہوں، یہ سن کر شیخ حسین بہت مسرور ہوئے اوران کی باطنی تربیت کی طرف مزید توجہ مبذول فرمادی اور اس باطنی تربیت کا سلسلہ اس وقت تک جاری رکھا جب تک کہ خود شیخ عیسیٰ سے خلافت نہ لے لی، اور جب شیخ حسین خرقہ خلافت لے کر اپنے وطن دولقہ روانہ ہونے لگے تو شیخ بہاؤالدین نے ان سے عرض کیا کہ اب آپ مجھے مرید کرکے اجازت دیدیں مگر شیخ حسین نے فرمایا کہ آپ کے شیخ توفی الواقع اسی اسی شہر میں ہیں ہم سے آپ کو جتنا فائدہ منظور تھا وہ ہوگیا، اس کے بعد شیخ حسین اپنے وطن چلے گئے، اس کے کئی روز بعد شیخ حسین کا قلب شیخ محمد عیسیٰ کی جانب متوجہ ہوا اور ان سے مرید ہوکر فیض حاصل کیا، ابھی آپ خلافت حاصل کرنے نہ پائے تھے کہ شیخ خدا کو پیارے ہوگئے اور آخری وقت یہ فرماگئے کہ اے بہاؤالدین! تمہارا خرقہ خلافت اس سید کے پاس ہے جو مانک پور میں تشریف لائیں گے چنانچہ راجی سید حامد شاہ کسی وقت جونپور آئے، شیخ بہاؤالدین نے ان کا استقبال کیا اور انہوں نے پہلی ہی ملاقات میں آپ کو خرقہ خلافت پہنا کر اپنا خلیفہ بنالیا۔
(اخبار الاخیار)