آپ بڑے جہاندیدہ اور صاحب صحبت درویش تھے ، سلطان سکندر کے زمانے میں مشہد مقدس طوس سے آکر دہلی میں سکونت پذیر ہوگئے، سلطان کی صحبت خوشگوار نہ آئی تو اس لیے قلعہ دہلی میں پائے منار کی مسجد میں گوشہ گیر ہوگئے، سلطان کی بعض رئیس زادیاں آپ کی معتقد ہوگئی تھیں اس لیے ضروری اسباب معیشت کا انتظام ہوگیا اس کے علاوہ اندرون قلعہ کی کچھ زمین پر خود کاشت کرتے تھے اور اس کی آمدنی فقراء پر خرچ کرتے تھے، آپ کے اور شیخ جمالی کے درمیان کچھ نا خوشگواری تھی، شیخ جمالی آپ سے مزاح کرتے اور آپ کی طرف ناشائستہ باتیں منسوب کرتے تھے، ایک دن آپ نے غصہ میں اپنا عضو مخصوص کاٹ کر شیخ جمالی کے پاس بھیج دیا، بعض لوگ اس واقعہ کی تردید بھی کرتے ہیں، لیکن صحیح یہ ہے کہ آپ کو استسقاء کی بیماری تھی، چنانچہ بمشورہ اطباء آپ نے آپریشن کرایا اور لوگوں میں یہ بات اس طرح مشہور ہوگئی۔
کہتے ہیں کہ آپ کی ایذا رسانی کے مد نظر شیخ جمالی نے بطور ظرافت یہ شعر کہا ہے۔
آلت خویش را چو بریدی
علت پس چکونہ خواہد افت
باقی حقیقت حال سے اللہ ہی زیادہ واقف ہے آپ نے 942ھ میں داعی اجل کو لبیک کہا، آپ کا مزار دہلی میں منار شمسی کے پائیں میں ہے اللہ آپ پر رحمتیں نازل کرے۔
اخبار الاخیار