جان محمد اسم گرامی، حضور خطاب، والد ماجد کا نام شاہ نوربن سیّد محمود حضوری تھا، جن کا تذکرہ پہلے گزر چکا ہے۔ آبائی سلسلہ حضرت موسیٰ کاظم امام جعفر صادق اور سلسلۂ بیعت حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی غوث الاعظم تک منتہی ہوتا ہے۔ تربیت و تکمیل اپنے پدرِ بزرگوار اور جدِ امجد کے زیرِ سایہ پائی۔ سلسلۂ قادریہ میں بھی اُنہی کے مرید و خلیفہ تھے۔ اپنے والد کی وفات کے بعد سجادہ نشین ہُوئے۔ اپنے وقت کے عارفِ کامل اور مقتدائے شریعت و طریقت تھے۔ تمام عمر درس و تدریس اور ہدایتِ خلق میں گزاری۔ ایک خلقِ کثیر نے آپ کے ظاہری و باطنی عُلوم سے اکتسابِ فیض کیا۔ آپ کے حلقۂ ارادت میں جو داخل ہو جاتا تھا وُہ جلد اوجِ طریقت پر پہنچ کر حضوری ہو جاتا تھا اس لیے حضوری مشہور ہوئے ۶۵۔۱۰۶۴ھ میں بہ عہد شاہ جہان وفات پائی۔ سیّد محمد لطیف مرحوم نے اپنی کتاب تاریخ لاہور صفحہ ۱۷۱ میں آپ کی تاریخِ وفات ۱۱۲۰ھ اُس کتبہ سے نقل کر کے لکھی ہے جو آپ کے مزار کی مشرقی دیوار پر کندہ ہے۔ مولانا مفتی غلام سرور نے باقوالِ صحیح خزینۃ الاصفیہ جلد اول صفحہ ۱۷۱، گنجِ تاریخ صفحہ ۳۳، حدیقۃ الاولیاء صفحہ ۲۱، رائے بہادر کنھیا لال نے تاریخ لاہور ص۲۷۰ میں ۱۰۶۴ھ ہی لکھا ہے۔
جانِ ہر دوجہاں محمد جان! فیضِ دیں سالک است ترحیلش ۱۰۶۴ھ
|
|
کرد چوں ازجہاں بخلد ظہور باز چور وصلش از محب حضور ۱۰۶۴ھ
|
|
|