سید کریم شاہ سہروردی لاہوری رحمتہ اللہ علیہ
مولوی نور احمد چشتی ولد مولوی احمد بخش یکدم مصنف،تحقیقات چشتی،اپنی کتاب مطبوعہ ۱۸۶۷ء کے صفحہ ۳۹۰پر ،احوال مزار کریم شاہ مرحوم ،کے زیر عنوان تحریر فرماتے ہیں:
گنبد ابوالحسناب اس کاوجود باقی نہیں ہےکے شرق رویہ مائیل بہ شمال تھڑہ خانقاہ حضرت کریم شاہ صاحب کا ہے یہ چبو ترہ خشتی تابہ سینہ بلند مربع چار گز ہے۔اس کے اوپر قبر پختہ سرہانے چراغ دان خشتی جس میں بارہ طاقچہ خورد اور ایک زینہ آمد ورفت جنوب رویہ تھا اب مسمار ہوگیا، اس تھڑہ کے مشرق کی طرف ایک اور تھڑا ملحقہ تھڑہ ہذا ہے اس پر بھی ایک قبر اور گوشہ پائیں میں ایک کوٹھ خشتی ،اب صر ف ایک ایک دیوار کھڑی ہے،جنوب رویہ تھڑہ کے ایک اور تھڑہ بوسیدہ خشتی اس پر پانچ قبریں نامعلوم الا سم گو شہ ککنی کی طرف دو کوٹھہ بے سقف ان کے شمال رویہ بطرف شرق و شمال قدرے دیوار ایک گز بلند کھڑی ہے۔
اس کے غرب رویہ پانچ قبریں اور ہیں اور گوشہ ایشان میں شاہ بے چر خی کا تھڑہ ہے۔دو فٹ بلند مدہ اس مکان کو اگر مقبرہ ابوالحسن خان کے پاس کھڑے ہوکر دیکھیں تو یوں ہی درخت کیکر نظر آتے ہیں مگر جب نزدیک جائیں تو قبر معلوم ہوتی ہے، یہاں بعہد سکھاں بڑی رونق رہتی تھی، ایک دو فقیر بھی حاضر رہتے تھے اور نوبت نقا رہ بھی بجتا تھا،فقط قاضیاں لاہور ان کے خادم ہیں وہ ان کا میلہ بڑی دھوم سے کیا کرتے تھے،مگر اب جب کہ بقضا ئے الہیٰ قاضی بیچا رے مفلس ہو گئے ہیں یہ مکان غیر آباد ہوگیا ہے۔
آپ کی تاریخ وفات کے متعلق کوئی تذکرہ نہیں کیا گیا،موجودہ صورت میں آپ کا مزار ایک چھو ٹی سی چار دیواری میں جو سطح زمین سے تین چار فٹ بلند ہے جی ٹی روڈ اور ویٹ کے مقام اتصال پر با غبا نپور نزدیک کوٹھی میاں معراج دین واقع ہے، آپ کے مزار اقدس پر تحریر ہے،مزار حضرت سید کریم شاہ سہروردی رحمتہ اللہ علیہ ،آج ایک سوسال قبل چشتی صاحب نے اس مزار کی حالت اور محل وقوع کاذکر کیا ہے مگر جب میں نے اسے جاکر دیکھا تو اب اس سے کسی قدر مختلف حالت ہے،مزار کا کوئی پر سان حال نہیں،البتہ ہر جمعرات کوکوئی نہ کوئی اللہ کا بندہ چراغ ضرور جلا دیتا ہے،مزار کے علاوہ اب اس جگہ پر اور کوئی چیز موجود نہیں، مزار پر تاریخ وفات درج ہے مگر چراغ جلانے سے جو سیا سی تختی پر چڑھ گئی ہے وہ صحیح طور پر پڑھی نہیں جاتی۔
(لاہور کے اولیائے سہروردیہ)