سید محمود نام، حضوری لقب، باپ کا نام خواجہ شمس الدین المشہور شمس العارفین تھا۔ سلسلۂ نسب امام موسیٰ[1] کاظم تک منتہی ہوتا ہے۔ غُور[2] کے رہنے والے تھے۔ سیّد محمود اپنے والدِ ماجد کی وفات کے بعد نقل مکان کرکے پہلے اوچ اور وہاں سے لاہور آکر محلہ حاجی[3] سرائے میں سکونت پذیر ہوگئے۔ آپ جامع علوم و فنون ۔۔۔۔
سید محمود نام، حضوری لقب، باپ کا نام خواجہ شمس الدین المشہور شمس العارفین تھا۔ سلسلۂ نسب امام موسیٰ[1] کاظم تک منتہی ہوتا ہے۔ غُور[2] کے رہنے والے تھے۔ سیّد محمود اپنے والدِ ماجد کی وفات کے بعد نقل مکان کرکے پہلے اوچ اور وہاں سے لاہور آکر محلہ حاجی[3] سرائے میں سکونت پذیر ہوگئے۔ آپ جامع علوم و فنون تھے۔ اپنے زمانے کے عارف کامل اور استاد گرامی تھے۔ ایک خلقِ کثیر نے آپ کے علمی و روحانی فیوض و برکات سے اخذِ فیض کیا۔ بیان کیا جاتا ہے کہ جو شخص آپ کے حلقۂ ارادت میں داخل ہوتا وُہ اسی روز رسول اللہﷺ کے دیدار سے خواب میں نعمت حاصل کرتا اسی لیے آپ حضوری کے لقب سے مشہور زمانہ ہوئے۔ دوسری روایت یہ کہ آپ کا مرید جلدی ہی اور اوجِ طریقت پر پہنچ کر درجۂ حضوری حاصل کرلیتا۔ آپ کا سلسلۂ ارادت حضرت غوث الاعظم تک اس طرح منتہی ہوتا ہے۔ آپ مرید اپنے والد شمس الدین کے اور یہ مرید سیّد یعقوب کے اور یہ عبدالقادر کے اور یہ سیّد علی کے اور یہ سید مسعود کے اور یہ سیّد احمد کے اور یہ سیّد اصغر کے اور یہ مرید ابوالفرح کے اور یہ سیّد عبدالوہاب بن سیّد شیخ عبدالقادر کے۔ قدس اللہ اسرارہم۔
۹۴۲ھ میں بعہدِ نصیرالدین ہمایوں وفات پائی۔
رفت از دنیا چو بر اوجِ جناں ۹۴۲ھ صاحبِ مشتاق تاریخش بگو
|
|
سیّدِ محمود پیرِ با کمال ۹۴۲ھ نیز ’’شمس العارفین اہلِ جمال‘‘
|
|
مزار موضع گڑھی شاہو لاہور کے مغرب کی طرف سڑک میاں میر پر واقع ہے۔
[1]۔ اسم گرامی موسیٰ بن جعفر الصادق ہے۔ کنیت ابوالحسن اور ابوابراہیم، لقب کاظم، ائمہ اثنا عشریہ کے ساتویں امام ہیں۔ ولادت ۷؍صفر ۱۲۷ھ بمقام ابوا میں ہوئی جو مکہ مدینہ کے درمیان ہے۔ آپ کی والدہ حمیدہ بر بریہ امِ تھیں۔ تعلیم و تربیت اپنے پدر بزرگوار کے زیر سایہ پائی تھی۔ ۵۴ برس کی عمر میں بحالت اسیری ۸۶۔۱۸۳ھ میں وفات پائی۔ خلیفہ ہارون الرشید عباسی نے اپنے امیر یحییٰ بن خالد کے ذریعے رطب میں زہر دلوادی تھی۔
[2]۔ غُور۔ بضم اول اور داؤ مجہول مجہول عجم کے ایک علاقے کانام ہے۔
[3]۔ یا محلہ سیّد سر۔ بیرونِ لاہور کے قدیم محلوں سے تھا۔ اونگ زیب عالمگیر کے عہد میں خیر گڑھ کے نام سے مشہور ہوا۔ سکھوں کے عہد میں یہی مقام گڑھی شاہوبن گیا جو آج تک اسی نام سے مشہور ہے۔