حضرت علامہ سید محمود احمد رضوی لاہور علیہ الرحمۃ
ماہرِ علوم عقلیہ و نقلیہ حضرت علامہ سیّد محمود احمد رضوی بن مفتی اعظم پاکستان علامہ ابو البرکات سیّد احمد بن امام المحدّثین حضرت علامہ ابو محمد سیّد دیدار علی شاہ ( م ۲۲؍ رجب المرجب، ۲۰؍ اکتوبر ۱۳۵۴ھ / ۱۹۳۵ء) بن سیّد نجف علی، ۱۳۴۳ھ / ۱۹۲۴ء میں آگرہ (ہند) میں پیدا ہوئے۔
آپ کا سلسلۂ نسب حضرت امام موسیٰ کاظم رضا تک پہنچتا ہے۔ آپ کے آباؤ اجداد مشہد سے ہندوستان آئے اور اَلور میں قیام پذیر ہوگئے۔ آپ کا خاندان علم و حکمت اور روحانیّت کا سرچشمہ ہے۔
آپ کے جدِّ امجد حضرت علامہ مولانا سیّد دیدار علی شاہ رحمہ اللہ علم و فضل کے سمندر تھے۔ کسی مسئلے پر گفتگو شروع کرتے، تو گھنٹوں بیان جاری رہتا سُورۂ فاتحہ کا درس ایک سال میں ختم ہوا۔ سُنیّت اور حنفیّت کےتحفظ اور فروغ کے لیے آپ نے نہایت اہم خدمات انجام دیں۔[۱]
[۱۔ عبدالحکیم شرف قادری، مولانا: تذکرہ اکابرِ اہل سنّت، ص ۱۴۰۔]
علامہ سیّد محمود احمد رضوی کے والد گرامی مفتی اعظم پاکستان علامہ ابو البرکات سیّد احمد رحمہ اللہ بھی کسی تعارف کے محتاج نہیں، ان کے علِم و عمل اور زہد و تقویٰ کا ایک عالم گواہ ہے۔
غازی کشمیر قائدِ تحریکِ ختمِ نبوت اور صدر جمعیت علماء پاکستان مولانا سیّد ابو الحسنات قادری رحمہ اللہ (م ۲؍ شعبان المعظم ۲۰؍ جنوری ۱۳۸۰ھ / ۱۹۶۱ء) علّامہ رضوی کے عمِّ مکرم تھے۔
علّامہ محمود احمد رضوی نے چونکہ ایک علمی و روحانی ماحول میں آنکھ کھولی، اس لیے آپ کی تربیت بھی اسی انداز پر ہوئی۔
مرکزی دار العلوم حزب الاحناف آپ جدِّ امجد امام المحدثین ابو محمد سیّد دیدار علی شاہ رحمہ اللہ نے قائم فرمایا تھا۔ اس دار العلوم سے بڑی بڑی نابغۂ روزگار شخصیتیں فراغت حاصل کر کے میدانِ عمل میں آئیں علّامہ رضوی نے بھی تمام علوم کی تکمیل اور دورۂ حدیث اسی دار العلوم سے کیا۔ آپ کے اساتذہ میں استاذ العلماء حضرت علّامہ مولانا عطا محمد بندیالوی، شیخ الحدیث حضرت علامہ مولانا مہر الدین جماعتی اور رئیس المنا طقہ حضرت مولانا محمد دین بدھوی رحمۃ اللہ علیہ جیسے اکابر کے نام آتے ہیں۔
حضرت علامہ سیّد محمود احمد رضوی نہ صرف قابل مدرس اور فاضل مقرر ہیں، بلکہ میدانِ تحریر کے بھی شہسوار ہیں سیاسی اور دیگر ملکی دہلی مسائل پر نہ صرف گہری نظر رکھتے ہیں، بلکہ آپ کی صواب رائے قابلِ تحسین و داد ہوتی ہے۔
مرکزی دار العلوم حزب الاحناف میں تدریسی فرائض سر انجام دیتے رہے دارالعلوم کے جملہ انتظامی امور کی نگرانی اور مختلف مساجد اہل سنّت میں خطبۂ جمعہ کے علاوہ ملک کے اطراف و اکناف میں تبلیغی و اصلاحی اجلاسوں سے بھی خطاب فرماتے ہیں۔ ملکی و ملّی مسائل پر آپ کے علمی و تحقیقی مضامین رسائل و جرائد میں چھپتے ہیں جو قوم کے لیے خضر راہ ثابت ہوتے ہیں۔
تحریکِ ختم نبوّت ۱۹۵۳ء میں آپ کے غمِ مکرم حضرت مولانا سیّد ابو الحسنات قادری رحمہ اللہ تحریک کے قائد تھے۔ علامہ رضوی نے حضرت علامہ مفتی محمد حسین نعیمی کے تعاون سے اپنی ذاتی مشین پر پمفلٹ چھاپ کر فوج اور پولیس کے نو جوانوں کو تحریک کی افادیّت اور اہمیت سے آگاہ کیا۔
[۱۔ علامہ اقبال احمد فاروقی پیر زادہ، تذکرہ علماء اہل سنت و جماعت لاہور، ص ۳۷۲۔]
تحریکِ ختم نبوت ۱۹۷۴ء میں آپ کو تمام مکاتبِ فکر کے اتحاد سے وجود میں آنے والی مجلس عمل تحفظِ ختم نبوت کا مرکزی ناظمِ اعلیٰ مقرر کیا گیا۔ آپ کی قیادت میں ملک بھر میں ملّتِ اسلامیہ پاکستان نے تحفظِ ختم نبوت کے لیے جدو جہد کی قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور بالآکر ۷ ؍ ستمبر ۱۹۷۴ء کو قومی اسمبلی پاکستان نے مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا۔
۱۹۷۱ء میں برطانیہ کے ایک بدطینت ڈاکٹر منہاس نے ایک دل آزار کتاب لکھی جس میں اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی اس کتاب کی اشاعت کے خلاف اور اس کی ضبطی کے مطالبہ میں جمعیت علماء پاکستان نے لاہور میں احتجاجی جلوس نکالے جس پر حکومت نے ۱۰؍ جنوری ۱۹۷۱ء کو علامہ سیّد محمود احمد رضوی اور مولانا اکرام حسین مجددی کو گرفتار کرلیا، جبکہ مولانا فیض القادری، پیرِ طریقت حضرت صاحبزادہ جمیل احمد شرقپوری پہلے ہی گرفتار کیے جا چکے تھے۔
ان راہنماؤں کی رہائی کے سلسلے میں ۱۱ ؍ جنوری کو حضرت خواجہ محمد قمر الدین سیالوی سابق صدر جمعیت علماء پاکستان لاہور تشریف لائے اور ۳؍ جنوری کو پیرِ طریقت مجاہد تحریکِ نظام مصطفےٰ حضرت مولانا حامد علی خان کی قیادت میں جمعیت علماء پاکستان کے راہنماؤں نے اس وقت کے گورنر پنجاب جنرل عتیق الرحمان سے ملاقات کر کے گرفتار شدگان راہنماؤں کی رہائی کا مطالبہ کیا اور ۲۱؍ جنوری کو علامہ سیّد محمود احمد رضوی اور دوسرے راہنماؤں کو رہا کر دیا گیا۔ [۱]
[۱۔ محمد صدیق ہزاروی، مولانا: ذاتی ڈائری ۱۹۷۱ء۔]
آپ سیاسی طور پر جمعیت علماء پاکستان سے متعلق رہے ہیں۔ اب اگرچہ عملی طور پر میدانِ سیاست میں نہیں ہیں، لیکن آپ کی تمام تر ہمدردیاں اور تعاون جمعیت کے ساتھ ہے۔ آپ جمعیّت کے مرکزی ناظم بھی رہ چکے ہیں۔
ٹوبہ ٹیک سنگھ (دار السلام میں منعقد ہونے والی عظیم الشّان سنّی کانفرنس میں آپ کی کاوشیں قابلِ قدر ہیں۔
۱۹۷۱ء کے انتخابات میں آپ نے جمعیت کے ٹکٹ پر حلقہ نمبر ۱ لاہور سے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا۔ ۲۸ ؍ جنوری ۱۹۷۹ء کو آپ مختلف مکاتب فکر کی مشترکہ تنظیم ’’مجلس تحفظ حقوقِ عالم اسلامی‘‘کے صدر منتخب ہوئے۔
رمضان المبارک ۱۳۹۸ھ میں آپ کو رویتِ ہلال کمیٹی کا چیئر مین منتخب کیا گیا۔ اس سے قبل اہل سنّت کے ممتاز عالمِ دین حضرت مولانا شاہ عارف اللہ قادری یہ فرائض سر انجام دیتے تھے۔
آپ کو میدانِ تحریر میں یدِ طولیٰ حاصل ہے۔ مختلف رسائل و جرائد میں علمی و تحقیقی مضامین کے علاوہ آپ کی زیرِ ادارت ماہنامہ ’’رضوان‘‘کے نام سے ایک رسالہ جاری ہے جس میں مختلف عنوانات کے تحت علمی و تحقیقی مضامین کے علاوہ فقہی مسائل بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ علاوہ ازیں آپ نے بہت سی کتب تصنیف فرمائیں، جو یہ ہیں۔
۱۔ فیوض الباری (شرح صحیح بخاری) ۷ جلد ۲۔ ذکرِ اخیار
۳۔ برکاتِ شریعت ۴۔ جواہر پارے حصہ اول، دوم
۵۔ جامع الصّفات ۶۔ روحِ ایمان
۷۔ رزقِ حلال ۸۔ مسائلِ نماز
۹۔ المباح و المحظور ۱۰۔ مذاکرہ علمی حصّہ اوّل، دوم، سوم
۱۱۔ دینِ مصطفےٰ ۱۲۔ شانِ مصطفےٰ
۱۳۔ خصائصِ مصطفےٰ ۱۴۔ معراج النبی
۱۵۔ بصیرت ۱۶۔ اسلامی تقریبات
۱۷۔ شانِ صحابہ ۱۸۔ حدیثِ قرطاس
۱۹۔ مکالمہ رضوی و گوجروی [۱]
[۱۔ عبدالستار نظامی، مولانا: تصانیف علماء اہل سنّت۔]