حضرت سید محمد عبد اللہ بغدادی قادری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
حضرت سیدعبداللہ قادری موردفیض ایزدی ہیں۔
خاندانی حالات:
آپ غوث الاعظم میراں محی الدین شیخ عبدالقادرجیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی اولادمیں سےہیں۔
والد:
آپ کےوالدماجدکانام سیدعبدالجلیل ہے۔۱؎
بیعت:
آپ کی نسبت باطن و نسبت ظاہرگیارہ واسطوں سےحضرت سیدعبدالعزیزبغدادی فرزندحضرت غوث الاعظم تک پہنچتی ہے۔
ہندوستان میں آمد:
ہندوستان میں آپکےتشریف لانےکی دووجوہات بتائی جاتی ہیں۔آپ کےصاحب زادےکاانتقال آپ کےلئے صدمہ جانکاہ تھا۔اس کےرنج وغم میں آپ نےدوردرازکاسفراختیارکیااورسفرکی تکلیف کوبرداشت کیا۔۲؎
دوسری وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ حضرت غوث الاعظم نےآپ کوحضرت شاہ نیازاحمدقادری سلسلہ میں بیعت کرنےکی غرض سےہندوستان بھیجا۔۳؎
دہلی میں قیام:
آپ نےدہلی پہنچ کرجامع مسجدمیں قیام فرمایا۔دہلی میں آپ کوبہت شہرت اورمقبولیت حاصل
ہوئی۔حضرت مولانافخرالدین فخرجہاں حضرت مرزاجان جاناں مظہرشہید،ظفرعلی شاہ،شاہ آبادانی،میران نانواورمیرفتح علی ایسے بزرگ اورباکمال ہستیوں نےآپ کی انتہائی تعظیم وتکریم کی۔ آپ کی پالکی کوان بزرگوں نےاپنےکاندھےپررکھا۔
رام پورمیں قیام:
دہلی سےآپ رام پورمیں رونق افروزہوئے۔نواب فیض اللہ خاں صاحب والی رام پورآپکےحلقہ ارادت میں داخل ہوئے۔بیعت سےمشرف ہوکرانہوں نےاس بات کی کوشش کی کہ آپ رام پور ہی میں سکونت رکھیں۔نواب صاحب کےاصرارپرآپ راضی ہوگئے۔نواب صاحب نےآپ کو جاگیرپیش کی۔آغاپورگاؤں آپ کونذرکیا۔۴؎
مسجدکی تعمیر:
رام پورمیں آپ نےایک عالی شان مسجدتعمیرکرائی۔مسجدتعمیرہورہی تھی کہ ایک دن آپ کوالہام و مکاشفہ حضرت غوث الاعظم کی طرف اس بات کاہواکہ مسجدجوزیرتعمیرتھی،گرجائےگی۔آپ فوراًخلوت سےباہرآئےاورمعماروں اورمزدوروں کوباہرآنےکی تاکیدفرمائی،جب معماراورمزدور باہرآگئے،مسجدگرگئی۔
آپ نےازسرنومسجدکی تعمیرکی۔نواب فیض اللہ صاحب نےمسجدکی تعمیرکےواسطےروپیہ نذرکرنا چاہا،لیکن آپ اس بات پرراضی نہ ہوئےاورنواب صاحب کی نذرقبول نہیں فرمائی۔
وفات:
آپ نے۱۴محرم۱۲۰۷ھ کوعالم جاودانی کی طرف کوچ فرمایا۔۵؎مزارفیض آثاررام پورمیں مرجع خاص وعام ہے۔
آپ کےمزارمبارک کےدروازےپرآپ کی تاریخ وفات کندہ ہے،اشعارحسب ذیل ہیں۔۶؎
دریغا حسرتاقطب معظم
|
چراغ دودمان غوث اعظم
|
گواہی گوھردریائے پرنور
|
کہ نامش سید عبداللہ مشہور
|
بیک شنبہ دوہ چارازمحرم
|
بروں زدخیمہ ازآفاق عالم
|
دریں غم باہزاراں آہ و حسرت
|
طلب کردم زدل تاریخ رحلت
|
بدل گستاسروش رحمت حق
|
جناں راروح پاکش دادرونق
|
(۱۲۰۷ہجری)
آپ کی وصیت کے مطابق جوقدم شریف آپ بغدادسے اپنے ہمراہ لائے تھے،وہ آپ کے مزارپر نصب کردیاگیا۔
خلفاء:
آپ کے تین خلیفہ تھے،جو حسب ذیل ہیں۔۷؎
مولوی امجدعلی،حضرت نیازاحمد بریلوی،شمس الضحیٰ اکبرآبادی۔
سیرت پاک:
آپ قادری سلسلہ کے جلیل القدربزرگ ہیں۔حضرت غوث الاعظم کی روحانیت آپ کی معاون و مددگارتھی۔آپ غوث پاک کے روحانی فیوض سےمستفیدومستفیض ہوتےتھے۔اموردینی و دنیوی آپ پرمنکشف ہوتے رہتے تھے۔فتوحات بکثرت آتی تھیں۔آپ اس میں کچھ نہیں بچاتے تھے۔ سب غرباءفقراءاورمساکین پرخرچ کردیتے تھے۔آپ بزرگی اورعظمت کے مالک تھے،جس شہر میں آپ تشریف لے جاتے،وہاں کے لوگ آپ کی پالکی کوکاندھادینااپنے لئے باعث سعادت سمجھتے تھے۔۸؎
کرامت:
آپ رام پورمیں مسجد تعمیرکرارہے تھے۔بظاہرآپ کے پاس کوئی مال و متاع نہ تھا۔جس مصلے پرآپ بیٹھاکرتے تھے،اس کے نیچے سے جب خرچ کی ضرورت ہوتی،نکال کردیتے تھے۔ایک مزدورکوخیال ہواکہ شاہ صاحب کا ساراروپیہ مصلے کے نیچے دفن ہے۔رات کواس مزدورنے زمین کھودی،لیکن کچھ برآمد نہیں ہوا،زمین کوپھراس نے برابرکردیااورکسی سے ذکرنہیں کیا۔آپ نے دوسرے دن پھرمصلے کے نیچے سے نکال کرخرچ کیا۔شام کو سب مزدوروں کاحساب کیا۔اس مزدور کودوگنی مزدوری یہ کہہ کردی کہ آدھی مزدوری دن کی ہے اورآدھی مزدوری رات کی ہے۔
اس مزدورنے جب یہ سنابہت شرمندہ ہوااورمعافی کاخواستگارہوا۔
حواشی
۱؎کرامات نظامیہ ص۲۱
۲؎انوارالعارفین(فارسی)ص۵۲۲
۳؎کرامات نظامیہ ص۲۰،۱۹
۴؎انوارالعارفین (فارسی)ص۵۲۲
۵؎انوارالعارفین(فارسی)ص۵۲۲
۶؎کرامات نظامیہ ص۲۷
۷؎انوارالعافین(فارسی)ص۲۳
۸؎انوارالعارفین(فارسی)ص۲۲
(تذکرہ اولیاءِ پاک و ہند)