حضرت سیدّی محمد غوث گیلانی حلبی
حضرت سیدّی محمد غوث گیلانی حلبی (تذکرہ / سوانح)
مشاہیر و اکابر ساداتِ حسنی سے ہیں۔ حضرت غوث الاعظم سے نسبت آبائی ہے۔ صاحبِ عظمت و کرامت، واقفِ منقول و معقول تھا۔ عبادت وریاضت اور زہد و ورع میں یکتائے روز گار تھے۔ سید اصغر علی گیلانی صاحب شجرۃ الانوار رقم طراز ہیں کہ سیّد محمد کے بزرگوں میں سے اوّل سیّد ابوالعباس احمد بن سید صفی الدین المعروف بہ سید صوفی بن سید سیف الدین عبدالوہاب بن حضرت محی الدین سید عبدالقادر جیلانی قدس سرہٗ اپنے چھوٹے بھائی سید ابوسلیمان کے ساتھ ۶۵۶ھ میں ہلاکوخاں تاتاری کے حملۂ بغداد اور قتل و غارت کے وقت بغداد سے نکل کر روم میں آگئے۔ پھر جب کچھ امن و امان ہوا تو حلب میں آکر اقامت گزیں ہوگئے۔ سید محمد غوث یہیں پیدا ہوئے۔ تعلیم و تربیت اپنے والد سے حاصل کی۔ عنفوانِ شباب میں پدر بزرگوار کی اجازت سے مختلف ممالک اسلامیہ کی سیرو سیاحت کو نکلے۔ حرمین الشریفین کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ عراق، عرب، ایران، خراسان، ترکستان اور سندھ و ہند کی طویل سیاحت کی۔ یہاں کے اکابر علماء و فضلا اور مشائخ و صوفیا سے ملاقات کی۔ لاہور بھی تشریف لائے۔ چندے یہاں قیام کیا۔ پھر ناگور چلے گئے، یہاں ایک مسجد تعمیر کی۔ غرض اسی طرح سیرو سیاحت کرتے ہوئے حلب پہنچے۔ اپنے والد گرامی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ایک روز دورانِ گفتگو میں عرض کی کہ فقیر کا دل یہ چاہتا ہے کہ اقلیمِ ہند میں کسی جگہ سکونت اختیار کرلوں۔ حضرت کا کیا ارشاد ہے۔ انہوں نے فرمایا: میں چراغِ سحری ہوں۔ کچھ توقف کرو۔ میری وفات کے بعد تمہیں اختیار ہے جہاں جی چاہے رہنا۔ پس آپ اپنے والد ماجد سید شمس الدین بن سید شاہ میر بغدادی گیلانی کی وفات کے بعد براستہ خراسان ملتان آئے اور اوچ کے مقام پر سکونت اختیار کی۔ صاحب شجرۃ الانوار نے آپ کا ورودِ اوچ؍ ۸۸۷ھ لکھا ہے۔ اس وقت حسین لنگاہی المتوفیٰ ۹۰۸ھ حاکم ملتان و سندھ ،اور سلطان سکندر لودھی المتوفیٰ ۹۲۳ھ بادشاہِ ہند تھا۔ دونوں آپ کے حلقۂ ارادت میں داخل تھے۔ آپ کے وجود سعود سے سلسلۂ قادریہ ہندوستان میں پھیلا۔ آپ شاعر بھی تھے۔ قادری تخلص کرتے تھے اور اکثر اشعار حضرت غوث الاعظم کے مناقب میں کہا کرتے تھے۔ ایک دیوان بھی ترتیب دیا تھا۔ مولانا عبدالرحمان جامی صاحب نفحات الانس نے آپ کے فضائل کی خبر پاکر اپنے تصنیف کردہ اشعار آپ کی خدمت میں بھیجے تھے۔
صاحب کتاب شجرۃ الانوار لکھتے ہیں: حضرت سید محمد کے عروج کے زمانے میں شاہ حسین لنگاہی حاکم ملتان نے حضرت غوث الاعظم کو خواب میں دیکھا کہ حضرت غوثیہ فرماتے ہیں کہ اپنی دختر کا نکاح میرے فرزند سید محمد سے کردو۔ تمہاری سعادت اسی میں ہے۔ اس نے حسبِ ارشاد حضرت ایسا ہی کیا۔ لیکن اس کے بطن سے کوئی اولاد نہ ہوئی۔ پھر کچھ عرصہ کے بعد سید ابوالفتح حسینی جن کی آبائی نسبت چار واسطوں سے سیّد صفی الدین بانیٔ اوچ جو حضرت سید ابواسحاق گازرونی[1] المعروف بہ میراں بادشاہ لاہوری کے ہمشیر زاد تھے تک پہنچتی ہے ان کی دختر سے شادی کی جن کے بطن سے چار لڑکے پیدا ہوئے جن میں بزرگ ترین سید عبدالقادر ثانی، دوم عبداللہ ربانی، سوم مبارک حقانی، چہارم سید محمد نورانی تھے۔ موخرالذکر ولدفوت ہوئے۔ سید ابوالفتح جوبانیٔ اوچ کی اولاد سے تھے انھوں نے اوچ کی متعلقہ زمین اپنی چار لڑکیوں میں تقسیم کردی تھی۔ نیز آبادیِ اوچ گیلانیاں اوچ بخاریاں سے الگ ہے۔ یہ وہ حصۂ زمین ہے جو بی بی فاطمہ زوجہ محترمہ حضرت سید محمد غوث کے حصے میں آئی تھی۔
قصبۂ اوچ کی آبادی کا حال شیخ عبدالحق محدث دہلوی صاحب اخبار الاخیار اس طرح تحریر کرتے ہیں کہ جب سید ابواسحاق گاز رونی لاہوری نے اپنے ہمشیر زادہ صفی الدین کو خرقۂ خلافت عطا کرکے رخصت فرمایا تو حکم دیا کہ اونٹ پر سوار ہوجائیے اور جس جگہ اونٹ بیٹھ جائے اسی جگہ سکونت اختیار کیجیے۔ چنانچہ سیّد صفی الدین نے اسی طرح عمل کیا اور جب اونٹ سابقہ مقامِ اوچ کی آبادی کے متصل پہنچا تو بیٹھ گیا۔ پس شیخ صفی الدین نے وہیں اقامت اختیار کرلی اور ایک الگ آبادی کی بنا ڈالی۔ شیخ ابوالفتح بھی اپنے زمانے کے بزرگ و متبرک شخص تھے اور دعوۃ اسمائے الٰہی میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔ حضرت سید محمد غوث کی وفات بقول صاحبِ شجرۃ الانوار وتشریف الشرفا ۹۲۳ھ میں واقع ہوئی۔ مزار اوچ میں زیارت گاہِ خلق ہے۔
قطعۂ تاریخ وفات:
چوں شد از جہاں در بہشتِ بریں |
|
جناب محمّد امامِ زماں |
[1]۔ اپنے وقت کے شیخ المشائخ اور قطب الاولیا تھے۔ حضرت شیخ اوحدالدین اصفہانی المتوفیٰ ۷۳۷ھ جو عہد کے شیخ کمال عالم و فاضل اور شاعرِ بے بدل تھے ان کے مرید و خلیفہ تھے۔ اصل وطن کا زر دن تھا۔ وہاں سے نقلِ مکان کرکے لاہور آکر سکونت پذیر ہوگئے تھے۔ آپ نے طویل عمر پائی تھی۔ تمام عمر ہدایتِ خلق میں مصروف رہے۔ آپ کے علمی و روحانی فیوض و برکات سے ایک خلقِ کثیر مستفیض ہوئی۔ ۷۸۶ھ میں وفات پائی۔ مزار لاہور دہلی دروازہ کے اندر ہے۔ شاہ جہان کے عہد میں جب نواب وزیر خاں نے یہاں جامع مسجد تعمیر کی تو مزار کو مسجد کے صحن کے اندر ایک تہ خانہ میں محفوظ کردیا جواب تک زیارت گاہِ خلق ہے۔