حضرت سید محمد غوث گیلانی
حضرت سید محمد غوث گیلانی (تذکرہ / سوانح)
حضرت سید محمد غوث گیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
اوصافِ جمیلہ
آپ وارثِ خاتم النبیین، امام الصادقین، جامع العلوم و الحکم، کاشف اللوح القلم، زبدۃ الفقہا و المحدثین، سراج العلما و المفسرین قطب الاقطاب، غوثیت مآب، مرکزِ دائرۂ ایمان، نورِ نقطۂ عرفان، شمس الہند، صاحبِ عظمت و کرامت وابہت و جلالت و ولایت تھے، حضرت سید شمس الدین [۱] [۱۔ کتاب تکملہ مفتاح الفتوح، بحر السرائر، شجرۃ الانوار، خزینۃ الاصفیا، گنجینہ سروری، تذکرہ غوثیہ، نسب نامہ سادات پیر کوٹی، اسرار المعرفت، کنز الانساب، تاریخ اوچ اختر وغیرہ کتب میں حضرت سید محمد غوث رحمۃ اللہ علیہ کو سید شمس الدین بن سید شاہ میر کا بیٹا لکھا ہے۔ مگر مفتاح العارفین۔ تحفۃ الکرام۔ معارف العوارف اور نزہتہ الخواطر میں آپ کو سید شاہ میر کا فرزند تحریر کیا ہے۔ میرے نزدیک پہلی روایت مستند اور صحیح ہے۔ سید شاہ میر آپ کے دادا تھے۔ ان سے ولدیت اسی قبیل سے ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کبھی فرما دیا کرتے تھے۔ انا ابن عبد المطلب۔ (میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں) حالانکہ حضور پوتے تھے، نیز خاندان غوثیہ اوچ گیلانی میں آج تک سجادہ نشینوں کے اسماء گرامی شمس الدین نمبر دار چلے آتے ہیں جو انہیں سید شمس الدین حلبی رحمۃ اللہ علیہ سے شروع ہوئے ہیں۔ شرافت] محمد اعظم گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند اکبر و مرید و خلیفۂ اعظم و سجادہ نشین تھے۔
نام و لقب
آپ کا اسمِ گرامی محمد، کنیت ابو عبد اللہ، لقب غوث، مخدوم، بندگی، محبوب سبحانی تھا۔
ولادت و تربیت
آپ کی ولادت با سعادت ۸۰۳ھ آٹھ سو تین ہجری مطابق ۱۴۰۱ء ایک ہزار چار سو ایک عیسوی میں بمقامِ حلب ہوئی تاریخ اوچ میں ۸۳۳ھ پیدائش لکھی ہے۔
تحصیل علوم
آپ نے اپنے والد بزرگوار رحمۃ اللہ علیہ سے ہی تفقہ حاصل کیا، اور حدیث سنائی، دوسرے علمائے عراق و حجاز سے بھی استفادہ کیا، جامع علوم معقول و منقول تھے۔
بیعت و خلافت
آپ نے بیعتِ طریقت اپنے والد بزرگوار حضرت شیخ المشائخ سید ابو محمد شمس الدین محمد اعظم گیلانی حلبی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ مبارک پر کی، اور خرقہ خلافت و ارشاد حاصل کیا۔
بیعتِ روحی
آپ کو روحی بیعت حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ سے تھی۔ [۱] [۱۔ بحر الجمان بحوالہ جامع الاقوال ۱۲]
حج حرمین الشریفین
ابتدائے جوانی میں آپ نے دور دور ملکوں کے سیر کیے، اور کئی مرتبہ زیارتِ حرمین الشریفین زادھما اللہ تکریمًا وتشریفًا سے مشرف ہوئے، اور فریضہ حج ادا کیا۔ [۱] [۱۔ خزینۃ الاصفیا جلد اوّل ص ۱۱۶]
اقامتِ لاہور
اِسی طرح سفر کرتے ہوئے لاہور پہنچے، اور کچھ مدت محلہ کو فتگراں میں توطن اختیار کیا، اکثر لوگوں کو اپنے فیض سے مستفیض کیا۔ [۱] [۱۔ خزینۃ الاصفیا جلد اوّل ص ۱۱۶]
قیامِ ناگور
اور پھر شہر ناگور کی طرف رُخ کیا، وہاں بھی چندے مقیم رہے اور اُس جگہ عبادت کے لیے ایک مسجد بھی تعمیر کر وائی۔ [۱] [۱۔ خزینۃ الاصفیا جلد اوّل ص ۱۱۶]
سیاحت ممالک مختلفہ
پھر سیر اکثر معمورۂ عالم کیا، ہند، سندھ، خراسان، ترکستان، عرب، عجم وغیرہ ممالکِ مختلفہ کی سیاحت کی، اور بیشمار خلق اللہ کو دین اسلام و حلقہ قادریہ میں داخل کیا، پھر حلب میں مراجعت فرمائی، اور والد بزرگوار رحمۃ اللہ علیہ سے اجازت طلب کی، کہ میرا دل ہندوستان میں سکونت پکڑنے کو چاہتا ہے، اُنہوں نے فرمایا کہ میری زندگی تک یہیں رہو، بعد میں اختیار ہے جہاں چاہو رہنا۔ [۱] [۱۔ خزینۃ الاصفیا جلد اوّل ص ۱۱۶]
سفر بغداد شریف
چنانچہ بعد انتقال اُن کے آپ بغداد شریف میں اپنے جد امجد حضرت غوث الثقلین شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے آستانہ عالیہ پر پہنچے، اور زیارت سے مشرف ہوئے۔ [۱] [۱۔ بحر الجمان ۱۲ شرافت]
بشارتِ غوثیہ
وہاں سے آپ کو حکم ہوا کہ اے فرزند! آپ کا مکان سکونت ملکِ عجم میں ہے، جہاں آپ کی ناقہ بیٹھ جاوے، اور پھر نہ اُٹھے، اور عصا آپ کا زمین سے نہ نکلے، یقین جاننا کہ مکانِ سکونت آپ کا وہی ہوگا، جاؤ میر انور ارشاد آپ کے ذریعہ ملکِ عجم میں شایع ہوگا۔ [۱] [۱۔بحر الجمان ۱۲]
ورودِ مُلتان
حضور تعب میل ارشاد جدِّ بزرگوار رحمۃ اللہ علیہ دوسری دفعہ مع خیل و حشم و توابع بیشمار کے روانہ ہوئے، اور مخلوقِ خدا کو فیضانِ قادریہ سے مستفیض فرماتے ہوئے سیر کرتے ہوئے ملتان شریف رونق افروز ہوئے۔ [۱] [۱۔ اخبار الاخیار ص ۲۰۲۔ غوثِ اعظم ۱۲]
علمی مناظرہ
آپ جب ملتان پہنچے تو تمام اکابر فضلائے شہر وائی ملتان سلطان الوقت کے ساتھ ہوکر آپ کے ساتھ مناظرہ کرنے آئے۔ اور بحث مسائل مشکلہ درمیان لائے، حضور نے فرمایا کہ گل جواب دیا جاوے گا، اِسی فکر میں رات کو سوگئے۔ [۱] [۱۔ جامعِ الاقوال ۱۲ شرافت]
کشفِ علوم
خواب میں حضرت شاہِ ولایت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی زیارت ہوئی، انہوں نے فرمایا اے بیٹا! جس بات کا جواب ذہن میں نہ آوے اُس کے لیے وعدۂ فرد انہیں کرنا چاہیے۔ اب منہ کھول، اور اپنا لعاب دہن حضور کے منہ میں ڈالا، اور فرمایا جا جواب دے، جب اٹھے تو علوم لدنیہ کے دروازے آپ پر مفتوح تھے، پس صبح کو پھر جلسہ منعقد ہوا، آپ نے کئی وجوہات سے ان مسائل کے جواب با صواب دئیے، جن میں سے بعض اُن کے علم سے بالاتر تھے، آپ کا علم و فضل و زہد و تقدس و تصرّف دیکھ کر سب مطیع و خدمتگار ہوگئے، سلطانِ وقت بھی حلقہ ارادت میں داخل ہوا۔ [۱] [۱۔ جامعِ الاقوال ۱۲ شرافت]
سکونت اوچ
پھر آپ بہمراہی درویشوں کے اپنے مامورہ مکان کی تلاش کو نکلے، رفتہ رفتہ با یمائے غیب ماہِ رمضان المبارک ۸۸۷ھ میں اوچ بخاری کے قریب دریائے گھارا کے کنارہ پر اتفاق شب گذاری ہوا، علی الصباح پھر تیار ہوئے، ناقہ کو اٹھانا چاہا پر وہ نہ اُٹھی، اور عصا کی میخ بھی زمین سے نہ نکلی، اور دریا پر مسواک کر کے چوب زمین میں گاڑی، جو بامرِ الٰہی سر سبز ہوکر درخت اراک (وَن) بن گیا، پس بفراست معلوم کیا کہ مکانِ مامورہ یہی ہے، اور وہیں کنارۂ دریا پر اوچ گیلانی کی بنیاد ڈالی، اور سکونت اختیار کی۔ [۱] [۱۔ بحر الجمان ۱۲] اس دریا کے لوگوں نے آپ کی علوّ فطری اور عزّتِ ذاتی کے باعث آپ کی بہت کچھ قدر کی، اور آپ کے وجود مسعود کی برکت سے تمام ملک ہدایت و رشد سے بھر گیا، اور سلسلہ قادریہ کو بہت فروغ ہوا۔ [۱] [۱۔ خزینۃ الاصفیا جلد اول ص ۱۱۶]
کمالاتِ ذاتی
آپ سطوتِ ظاہر و عظمتِ باہر رکھتے تھے، فضائل حسبی و نسبی سے معمور، اور نعمائے ظاہری و باطنی سے بھر پور تھے، سخی، جواد، کریم النفس تھے۔ [۱] [۱۔ اخبار الاخیار ص ۲۰۲ شرافت]
کرامات
آپ صاحب خوارقِ ظاہرہ و کراماتِ باہرہ تھے۔
دعائے فتح
حضرت مخدوم سیّد عبد القادر ثانی رحمۃ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ سلطان بہلول لودھی بادشاہِ دہلی نے اپنے شہزادہ کو نوّے ہزار فوج جرار اور رسالہ فیلانِ جنگی دے کر ملتان پر دھاوا کرنے کے لیے بھیجا، ادھر سلطان حسین لنگاہ والی ملتان کے پاس صرف دس ہزار سوار اور بیس ہزار پیادہ کی جمعیت تھی، جب دونو لشکر رزمگاہ میں پہنچ گئے، تو دشمن کی اکثریت دیکھ کر سلطان حسین کے ہوش و حواس اُڑگئے، مگر چونکہ حضور غوثیہ محبوبیہ کا مرید تھا، اس لیے خدمت میں عریضہ بھیج کر حقیقت حال عرض کی، آپ نے بشارت بھیجی کہ مقابلہ فریقین ضرور ہوگا، لیکن غم نہ کرو دوسرے روز تم کو فتح نصیب ہوگی سلطان حسین کو اس خوشخبری سے بہت تسکین ہوئی، مگر مزید اطمینان کے لیے خود خدمتِ عالی میں حاضر ہوا، آپ نے فرمایا، تم کیوں گھبراتے ہو، حضرت غوث الثقلین رحمۃ اللہ علیہ نے ہم کو ارشاد فرمایا ہے کہ ہم خود دہلی کے لشکر کو منہزم کریں گے، سلطان کو یقین کامِل ہوگیا، چنانچہ دوسرے روز مقاتلہ و محاربہ شدید شروع ہوا، آخر کار بقدرتِ حق لشکر دہلی کے پاؤں اُکھڑ گئے، اور بھاگ گئے، سلطان حسین لنگاہ سجدہ شکر بجالایا، اور حضور کی پابوسی کا فخر حاصل کیا۔ [۱] [۱۔ بحر السرائر۔ غوثِ اعظم ص ۳۱۲]
عملیات
برائے مقہوریٔ اعداد
آپ نے فرمایا ہے کہ جو شخص یہ اسم جلالی نماز تہجد کے بعد اکتالیس (۴۱) بار پڑھے، اُس کو کوئی چیز ضرر نہ پہنچا سکے گی، اور اس کے تمام دشمن مقہور ہوں گے، اسم جلالی یہ ہے۔ یا قہار اجب یا عطر ائیل یا ھمرائیل بحق یا قہار۔ [۱] [۱۔ جواہر الاولیا جوہر دوم ۱۲]
برائے حصول سلطنت
آپ نے فرمایا ہے کہ جو شخص یہ چوبیسواں (۲۴) اسم جمعرات کو سو بار پڑھے، اُس کو بادشاہی نصیب ہوگی، چوبیسواں اسم یہ ہے یا کبیر انت الذی تعالٰی و تکبر بعظمتہٖ و جلالہٖ۔ [۱] [۱۔ ایضًا جوہر پنجم ۱۲ شرافت]
برائے بلندیٔ مرتبہ
آپ نے فرمایا ہے کہ جو شخص یہ چوتیسواں (۳۴) اسم اتوار کے دن نمازِ فجر کے بعد سو بار پڑھے، درمیان خلقت کے بلند اور مکرم ہوگا، چوتیسواں اسم یہ ہے یا عزیز انت الذی تذلّ الکافرین بعدلہٖ وتعزّ المؤمنین بفضلہٖ۔ [۱] [۱۔ ایضًا جوہر پنجم ۱۲ شرافت]
برائے حاجت روائی
آپ نے فرمایا ہے کہ جو شخص بعد نماز فجر کے ہمیشہ سورۂ مزمل ایک بار پڑھا کرے، اور اِس سورہ میں چار جگہ پر ان آیتوں کو تین تین بار کہے، اور بعد ختم کرنے سورہ کے جو حاجت رکھتا ہو اللہ تعالیٰ سے مانگے تو ان شاء اللہ پوری ہوگی، وُہ چار جگہ یہ ہیں، اوّل۔ رب المشرق والمغرب لا الٰہ الّا ھو فاتخذہ وکیلًا۔ تین بار، دوم۔ واللہ یقدّر الّیل والنہار۔ تین بار، سوم۔ یبتغون من فضل اللہ۔ تین بار، چہارم۔ واستغفروا اللہ ان اللہ غفورٌ رحیم۔ تین بار۔ [۱] [۱۔ مرقع کلیمی ۱۲]
تصنیفات
آپ کو عالم شعر میں بھی میل تھا، اپنا تخلص قادری کیا کرتے، عارفِ ربانی مولانا عبد الرحمٰن جامی رحمۃ اللہ علیہ آپ کے فضائل سن کر اپنے اشعار حضور کی خدمت میں بھیجا کرتے تھے۔ [۱] [۱۔ خزینۃ الاصفیا جلد اوّل ص ۱۱۶]
مفتاح الاخلاص
آپ اکثر مناقب حضرت غوث الثقلین رحمۃ اللہ علیہ منظوم فرمایا کرتے آپ نے کتاب خلاصۃ المفاخر فی مناقب الشیخ عبد القادر میں سے ایک سو حکایت بلا کم و کاست فارسی میں نظم کر کے اس کا نام ہفتاح الاخلاص رکھا، اور اس کو روض الرّیاحین یافعی رحمۃ اللہ علیہ کا تکملہ بنایا۔ [۱] [۱۔ تیسیر الشاغلین ۱۲]
دیوان قادری
آپ نے غزلیات کا ایک دیوان بھی بزبان فارسی ترتیب دیا ہے جو صوفیوں میں متبرک و مقبول ہے۔ [۱] [۱۔ اخبار الاخیار ص ۲۰۲]
ترجیعات
دیوان و غزلیات کے علاوہ آپ کی ترجیعات بھی بڑے ذوقیہ اشعار ہیں۔ اُن میں سے ایک یہ ہے۔
ترجیع
رندیم و قلندر یم و چالاک |
|
مستیم و معر بدیم و بیباک |
[۱۔ اخبار الاخیار ص ۲۰۲]
وراثتِ مرتبہ غوثیہ
حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اخبار الاخیار میں لکھتے ہیں کہ ترجیع کا آخری شعر تلمیح ہے ساتھ وراثت نسبت شہبازیت کے جنابِ غوثیہ رحمۃ اللہ علیہ سے کیونکہ باز اشہب جنابِ محبوب سبحانی رحمۃ اللہ علیہ کے القاب سے ایک لقب تھا، کہ بعض اولیائی متقدمین نے آنحضرت رضی اللہ عنہ کے ظہور سے پہلے خبردی تھی اور فرمایا تھا کہ حضور غوثیہ رحمۃ اللہ علیہ کو ملکوتِ اعلیٰ میں بازِ اشہب کہتے ہیں، جیسا کہ خود حضرت غوثیت مآب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے قصیدہ قطبیہ میں فرمایا ہے۔ ؎
انا بلبل الا فراح املأ دوحھا |
|
طرباوفی العلیاء باز اشھب[۱] |
[۱۔ اخبار الاخیار ص ۲۰۲]
صوفیاے کرام رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بازِ اشہب اُس ولی کو کہتے ہیں جو اپنے احوال میں متمکن ہو، اور طوارق و وار داتِ الٰہیہ اُس کو درجات سے جنبش نہ دیویں، ظاہر خلق کے ساتھ اور باطن حق کے ساتھ ہو، اُس کی صورت روشن اور ہمت بلند ہو، اور وہ خائفوں کا مددگار، اور عارفوں کا حافظ ہو۔ [۱] [۱۔ نورِ بانی ۱۲ شرافت]
ازواجِ محترمات
آپ کے تین حرم پاک تھے۔
۱۔ حضرت بی بی دیس گسائن رحمۃ اللہ علیہا
سید علی اصغر گیلانی شجرۂ الانوار میں لکھتے ہیں کہ سلطان قطب الدین لنگاہ حاکم ملتان کو خواب میں حضرت غوث الثقلین رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت ہوئی، انہوں نے فرمایا کہ اپنی بیٹی کا نکاح ہمارے فرزند سید محمد غوث رحمۃ اللہ علیہ سے کردو، تمہاری سعادت اسی میں ہے، چنانچہ سلطان نے اپنی صاحبزادی بی بی دیس گُسائن رحمۃ اللہ علیہا کا نکاح حضور سے کردیا، لیکن ان کے بطن سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ بقول دیگر سید عبد اللہ و سید مبارک اِن سے ہوئے۔
۲۔ حضرت بی بی خیر النسا رحمۃ اللہ علیہا
سید محبوب شاہ گیلانی رئیس داتہ بحر الجمّان میں لکھتے ہیں کہ بی بی خیر النسا شہزادہ جہان خاں بن شاہ ولی کلان لنگاہ ساکن شہر اپری کی بیٹی تھیں، ان کے بطن سے بھی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
۳۔ حضرت بی بی سیدہ فاطمہ رحمۃ اللہ علیہا
مفتی غلام سرور لاہوری رحمۃ اللہ علیہ خزینۃ الاصفیا میں لکھتے ہیں، کہ یہ بی بی صاحبہ رحمۃ اللہ علیہ حضرت سید ابو الفتح حسینی رحمۃ اللہ علیہ کی صاحبزادی تھیں، جو حضرت سید صفی الدین گاذرونی رحمۃ اللہ علیہ بانی اوچ کی اولاد سے تھے، اِنہیں کے بطن سے اولاد ہوئی۔
اولادِ کرام
آپ کے چار فرزندِ ارجمند تھے۔
۱۔ حضرت مخدوم سید عبد القادر ثانی رحمۃ اللہ علیہ
اِن کا ذکر آگے سجادہ نشینوں کے ضمن میں آئے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
۲۔ حضرت مخدوم سید عبد اللہ ربّانی رحمۃ اللہ علیہ
جامع علوم معقول و منقول، حاوی مسائل فروع و اصول تھے، صاحب علم و عمل، اہل توکل، ولایت میں مقامِ بلند اور مرتبہ ارجمند رکھتے تھے، ۹۷۸ھ میں وفات پائی، قبر اوچ شریف مقبرہ قادریہ کے اندر ہے۔ [۱] [۱۔ خزینۃ الاصفیا جلد اول ص ۱۲۶ شرافت]
اِن کی اولاد لاہور و دیگر مواضعات میں پائی جاتی ہے، ان میں سے حضرت سید علی اصغر صاحب رحمۃ اللہ علیہ فاضلِ مورخ بزرگ محتشم تھے، کتاب شجرۃ الانوار بزرگانِ گیلانیہ کے حالات میں بہت خوب لکھی ہے، ابن سید عبد القادر المعروف شاہ گدا (متوفی شب شنبہ ۱۱۵۴ھ) بن سید عمر المعروف شاہ لالہ (متوفی یکشنبہ ۱۶؍ شعبان ۱۱۱۵ھ) بن سید حاجی محمد ہاشم لاہوری (متوفی جمعہ ۷؍ محرم ۱۰۸۷ھ) بن سید صوفی علی لاہوری (متوفی ۱۰۰۲ھ) بن سید بدر الدین بن سید اسمٰعیل (متوفی ۵؍ ربیع الاول ۹۷۸ھ) بن سید عبد اللہ ربانی رحمہم اللہ۔ [۱] [۱۔ خزینۃ الاصفیا جلد اول ۱۲ شرافت]
۳۔ حضرت مخدوم سید مبارک حقانی رحمۃ اللہ علیہ
اِن کا ذکر آگے علیٰحدہ فصل میں آئے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
۴۔ حضرت مخدوم سید محمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ
یہ لا ولد فوت ہوئے۔
صحتِ نسب
صاحب تحقیقاتِ چشتی نے لکھا ہے کہ صحیح النسبی میں ساداتِ اوچ مشہور و ضرب المثل ہیں، فی زماننا اگرچہ صدہا سادات ہند و پنجاب میں ایسے ہیں جن کی صحیح النسبی میں عام و خاص کو جائے گرفت ہے، مگر ساداتِ اوچ کے باب میں کسی کو کلام نہیں، بلکہ اگر کسی سید کی صحتِ نسبی میں کچھ عقدہ پڑ جاتا ہے تو بشہادتِ ساداتِ اوچ طے ہوتا ہے، جس کو وہ حضرات سید صحیح النسب قبول کریں، پھر کسی کی مجال نہیں کہ دَم مار سکے۔
سلسلہ سجادہ نشینانِ اوچ مبرکہ
آپ کی اولاد و سجادہ نشینوں کے تمام حالات زمانہ حاضرہ تک کتاب نتائج الاخبار مؤلفہ مولوی محمد ادریس اوچی رحمۃ اللہ علیہ اور کتاب تاریخ اوچ مولفہ مولوی غلام احمد اختر اوچی مؤلف سر رشتہ تالیفات ریاست بہاولپور، اور کتب خانہ مخدوم صاحب سید حامد محمد شمس الدین ثامن گیلانی سجادۂ نشین دَورِ حاضرہ اوچ شریف سے نقل کیے گئے ہیں۔
سجادہ نشین اوّل: حضرت مخدوم سید محمد غوث گیلانی رحمۃ اللہ علیہ
صاحبِ ذکر ہذا، حضرات مخادیم گیلانیہ رحمۃ اللہ علیہ آپ کو پہلا سجادہ نشین شمار کرتے ہیں۔
سجادہ نشین دوم: حضرت مخدوم سید عبد القادر ثانی رحمۃ اللہ علیہ
اپنے والد بزرگوار حضرت مخدوم سید محمد غوث اوچی رحمۃ اللہ علیہ کے بعد سجادہ نشین ہوئے، ان کی نظرِ فیض اثر سے کفار اسلام قبول کر لیتے تھے، اور فسّاق و فجار کو توبہ نصیب ہوتی تھی، سلطان محمود لنگاہ والی ملتان اپنے خلافِ شرع مشاغِل کے امتناع کے باعث ان پر رنجیدہ ہوگیا، تو انہوں نے جاگیروں کی سندیں اُس کے پاس واپس بھیج دیں، اور لکھا کہ ہم کو اللہ تعالیٰ کافی ہے، سلطانی عطیہ کی کچھ ضرورت نہیں، والی ملتان اپنی غلطی اور حضور کی شان سے آگاہ ہوا، اور پھر کوشش کی کہ حضرت اس کی دعوت قبول فرما کر ملتان تشریف لائیں، مگر انہوں نے یہ قطعہ لکھ کر قاصد کو واپس کر دیا۔
بہیچ باب ازیں باب روئے گشتن نسیت |
|
ہر آنچہ بر سرما میر و دمبارک باد |
اِن کی ولادت بروز یکشنبہ وقتِ عشا پنجم ۵ صفر ۸۶۲ھ اور وفات بعمر اٹھتر ۷۸ سال بروز دوشنبہ دقتِ مغرب اٹھارہویں ربیع الاول ۹۴۰ھ میں ہوئی، مزار اوچ شریف مقبرہ قادریہ کے اندر اپنے والد بزرگوار رحمۃ اللہ علیہ کے متصل شرقی جانب ہے۔
اِن کی تین بیویاں تھیں، اول دختر سید فخر الدین گاذرونی رحمۃ اللہ علیہ، دوم ازقومِ لنگاہ، سوم دختر سید محمد بخاری اوچی رحمۃ اللہ علیہ۔
اِن کے سات بیٹے تھے۔ ۱۔ سید عبد الرزاق سجادہ نشین رحمۃ اللہ علیہ۔ ۲۔ سید فتوح الملک رحمۃ اللہ علیہ۔ ۳۔ سید جلال رحمۃ اللہ علیہ۔ ۴۔ سید حسن رحمۃ اللہ علیہ۔ ۵۔ سید جعفر رحمۃ اللہ علیہ۔ ۶۔ سید حسین رحمۃ اللہ علیہ۔ ۷۔ سید زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ۔
اس ساتویں صاحبزادے کی اولاد میں سے حضرت سید ریاض حسین صاحب و سید نوازش حسین صاحب دو بھائی صاحبِ علم و عمل و فضل و برکت نو جوان موضع جھیور انوالی ضلع گجرات پنجاب میں سکونت رکھتے ہیں، متشرع و خوش اخلاق حامئی اسلام، دینی و دنیوی حیثیت میں نامور ہیں، اس دیار میں ان کے ارادتمندوں کا سلسلہ ہزاروں تک پہنچتا ہے، مولف کتابِ ہذا فقیر شرافت عافاہ اللہ کے محترم مہربان دوست ہیں۔ سلّمہما اللہ تعالٰی۔ ہر دو (۲) پسرانِ سید حیدر شاہ بن سید غلام قادر المعروف پیر بنے شاہ بن سید غلام مصطفٰے بن سید غلام حسن بن سید عبد اللہ المعروف سخی سیدن سائیں بن سید عبد القادر دیپالپوری بن سید مجتبیٰ بن سید مصطفےٰ (متوفی ۱۳؍ شعبان ۱۰۸۴ھ) بن سید عبد الرزاق المعروف شاہ چراغ لاہوری (متوفی ۲۲؍ ذیقعدہ ۱۰۶۸ھ) بن سید عبد الوہاب (متوفی ۱۰۳۷ھ) بن سید جیون المعروف شاہ عبد القادر ثالث (متوفی ۱۰۲۲ھ) بن سید محمد غوث ہالا پیر ستگھردی (متوفی ۵؍ شوال ۹۵۹ھ) بن سید زین العابدین گیلانی رحمہم اللہ۔ [۱] [۱۔ سید مصطفٰے رحمۃ اللہ علیہ سے لے کر سید زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ تک سلسلہ نسب و تواریخِ وفات خزینۃ الاصفیا جلد اوّل سے لکھا گیا ہے۔ ۱۲]
مخدوم سید عبد القادر ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے خلفا میں سے شیخ ابراہیم خلیل خدا رحمۃ اللہ علیہ مشہور بزرگ گذرے ہیں۔ [۱] [۱۔ تحفۃ الکرام ۱۲ شرافت]
مخدوم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت سے فقیر شرافت عفٰے عنہ خواب میں مشرف ہوا ہے۔
سجادہ نشین سوم: حضرت مخدوم سید عبد الرزاق رحمۃ اللہ علیہ
اپنے والد بزرگوار مخدوم سید عبد القادر ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند اکبر تھے، فضائل و کمالاتِ تامہ رکھتے تھے، والد ماجد رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی میں بمقامِ ناگور مقیم رہے، شیخ ابو الفضل علامی رحمۃ اللہ علیہ وزیر اکبر بادشاہ رحمۃ اللہ علیہ کا دادا ان کی خدمت میں مستفیض ہوتا تھا۔
ایک روز نا گور مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے، فرمانے لگے اوچ سے مجھے کوئی بُلا رہا ہے، روانہ ہوئے، راستہ میں ہی وفاتِ والد رحمۃ اللہ علیہ کی خبر ملی، حسبِ وصیت والدِ خود سجادہ نشین ہوئے۔
ان کی وفات پنجم جمادی الآخر ۹۴۲ھ میں ہوئی، مزار اوچ شریف مقبرہ قادریہ میں ہے اِن کے تین بیٹے تھے۔ ۱۔ سید غلام علی رحمۃ اللہ علیہ طفولیت میں فوت ہوئے۔ ۲۔ سید حامد محمد گنج بخش کلان سجادہ نشین رحمۃ اللہ علیہ۔ ۳۔ سید محمد شریف لا ولد فوت ہوئے۔
سجادہ نشین چہارم: حضرت مخدوم سید حامد محمد گنج بخش کلان رحمۃ اللہ علیہ
اپنے والد بزرگوار مخدوم سید عبد الرزاق رحمۃ اللہ علیہ کے بعد سجادہ نشین ہوئے، عالم اجل تھے یادِ خدا ان کا وظیفہ تھا، اللہ تعالیٰ نے استجابتِ دعا کا مرتبہ عطا کیا تھا، اپنے جد امجد مخدوم سید غوث الحلبی الاوچی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر ۹۷۵ھ میں گنبد تعمیر کیا، جس کی تاریخ لفظ ’’جہد شیخ حامد (۹۷۵)‘‘ سے بر آمد ہوتی ہے۔
اِن کے معاصِر مورخ مولانا شیخ عبد اللہ نو مسلم مارواڑی اوچی رحمۃ اللہ علیہ کتاب مناقب الاصفیا میں ان کی تعریف میں رطب اللسان ہیں، اور ظاہر کرتے ہیں کہ شیخ حامد رحمۃ اللہ علیہ اس وقت زیب افزائے و سادۂ سجادۂ قادریہ ہیں۔
ان کی وفات انیسویں (۱۹) ذیقعدہ ۹۷۸ھ میں ہوئی، مزار مقبرہ قادریہ اوچ شریف میں ہے اِن کی اہلیہ محترمہ بی بی جاماں بنت سید صفی الدین گاذرونی رحمۃ اللہ علیہ تھیں، انہیں کے بطن سے اولاد ہوئی۔
اِن کے دو بیٹے تھے۔ ۱۔ سید عبد القادر ثالث رحمۃ اللہ علیہ۔ ۲۔ سید موسیٰ پاک شہید رحمۃ اللہ علیہ سجادہ نشین۔
ان کے دو خلیفہ بڑے مشہور ہوئے ہیں۔
۱۔ حضرت شیخ شیر شاہ رحمۃ اللہ علیہ جن کے نام پر ریلوے سٹیشن شیر شاہ جنکشن بنا ہوا ہے۔
۲۔ حضرت شیخ داوٗد کرمانی رحمۃ اللہ علیہ شیر گڈھی صاحب حال صحیح و کشفِ صریح تھے، ریاضت و مجاہدہ سجد کمال کرتے۔ ۹۸۲ھ میں انتقال کیا۔ [۱] [۱۔ اخبار الاخیار ص ۲۰۷] ان کا نسب اس طرح پر ہے، ابن سید فتح اللہ بن سید مبارک بن سید فیض اللہ باقی بن سید صفی الدین آدم کرمانی بن سید تقی الدین احمد بن سید عبد المجید بن سید عبد الحفیظ بن سید عبد الرشید بن سید ابو الغنائم بن سید ابو المکارم بن سید ابو المحاسن بن سید ابو الفیض بن سید ابو الفضل بن سید عبد الباقی بن سید ابو المعالی محمد بن سید ابو الواہب بن سید ابو الحیات بن سید محمد بن سید محمد ماہ بن سید محمد میر بن سید مسعود بن سید محمود بن سید ابو احمد بن سید داوٗد بن سید ابو ابراہیم اسمٰعیل بن سید محمد عرج بن سیہ ابو عبد اللہ احمد بن سید موسیٰ مبرقع بن حضرت امام محمد تقی علیہم [۱] [۱۔ خزینۃ الاصفیا جلد اول ص ۱۲۹۔ شرافت] الرضوان امامِ نہم۔
شیخ صاحب موصوف کی اولاد میں سے صاحبزادہ پیر ذاکر حسین صاحب نوجوان علم دوست خلیق حلیم فقیر شرافت عافاہ اللہ کے احبابِ خاص میں سے ہیں، سلمہ اللہ تعالیٰ۔
ابن سید خادم حسین بن سید بہادر علی شاہ بن سید غلام محی الدین بن سید فاضل شاہ بن سید قطب شاہ بن سید عظیم شاہ بن سید قائم شاہ بن سید غلام محی الدین بن سید محمد محسن بن دیوان سید ابو البقا بن سید عبد اللہ نورنگ نوری بن بندگی شیخ داوٗد کرمانی رحمہم اللہ۔
نیز شیخ داوٗد رحمۃ اللہ علیہ کے خلیفہ اور برادر زادہ سید خیر الدین ابو المعالی لاہوری رحمۃا للہ علیہ (متوفی ۱۶؍ ربیع الاوّل ۱۰۲۴ھ) صاحبِ کتاب تحفۃ القادریہ بڑے کامل اکمل غوثِ وقت گذرے ہیں، جو شخص اِن کا مرید ہوتا، پہلی رات کو ہی زیارتِ حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ سے مشرف ہوتا، فقیر شرافت عافاہ اللہ کئی مرتبہ اِن کے روضہ اطہر کی زیارت سے لاہور میں شرف اندوز ہوچکا ہے۔
نیز مؤلف فقیر شرافت عافاہ ربہٗ مخدوم شیخ حامد محمد گنج بخش کلان رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت سے خواب میں مشرف ہوا ہے۔
سجادہ نشین پنجم: حضرت مخدوم سید ابو الحسن جمال الدین موسیٰ پاک شہید رحمۃ اللہ علیہ
حضرت مخدوم سید حامد محمد گنج بخش کلان رحمۃ اللہ علیہ کے فرزندِ اصغر تھے، چونکہ بڑے عالم اور زاہد اور متقی صاحبِ کمالات تھے، حسبِ ارشادِ روحانیتِ غوثیہ رحمۃ اللہ علیہ والد بزرگوار رحمۃ اللہ علیہ نے اِن کو ولیعہدِ خلافت و سجادہ نشین کیا، یہ وارثِ نسبتِ قادریہ تھے، کتاب جامع الاقوال اور تیسیر الشاغلین اِن کی تصنیف ہیں، کتاب اخبار الاخیار میں اِن کی تعریف شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اِن الفاظ میں کرتے ہیں۔
سیّدی و سندی و شیخحی مشکاۃ مصباح الاحدیّۃ مرأۃ جمال الحقیقۃ المحمدیّۃ النّور الا زھر الا ظہر والسّرّ الاقدس الاطہر صاحب المجد والمفاخر کامل الباطن والظاھر المتحلّی بحلیۃ المصطفٰی والمتخلّق با خلاق المرتضیٰ الشیخ الوصیّ الرّضیّ البہی جمال الذین ابو الحسن شیخ موسیٰ سلّمہ اللہ تعالیٰ و ابقیٰ۔
اِن کے ساتھ اِن کے بڑے بھائی مخدوم سید عبد القادر ثالث رحمۃ اللہ علیہ نے سجادہ نشینی کے متعلق تنازعہ کیا، انہوں نے بوجہ ادب و رفع نزاع خلافت اُن کے سپرد کردی تھی، خود نواحِ ملتان میں ۱۰۰۱ھ میں ضربِ بندوقِ لنگاہاں سے شہید ہوئے، اِن کا مزار مقبرہ قادریہ کے اندر اوچ شریف میں تھا، لیکن کچھ عرصہ کے بعد اِن کی اولاد نعش مبارک کو وہاں سے نکال کر ملتان لے گئے، اور اندرون پاک دروازہ ملتان مدفون ہوئے، اِن کے چار فرزند تھے، ۱۔ مخدوم سید حامد گنج بخش ثانی رحمۃ اللہ علیہ۔ ۲۔ سید جان محمد خاں رحمۃ اللہ علیہ مدفون دہلی متصل قلعۂ فیروز شاہ۔ ۳۔ سید عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۱۰۳۱ھ)۔ ۴۔ نواب سید یحییٰ خاں المعروف نواب سخی صوبہ دار ملتان۔
زمانہ حاضرہ میں حضرت سید محمد صدر الدین شاہ صاحب بلقب مخدوم محمد غوث رابع ملقب ہوکر ملتان میں اپنے بزرگوں کے سجادہ نشین میں، علم و فضل و دیانت و تقویٰ و رعب و اقبال میں یگانہ ہیں سلمہ اللہ۔ ابن مخدوم سید ولایت شاہ عبد القادر خامس (متوفی ۱۲۹۵ھ) بن مخدوم سید نور شاہ حامد گنج بخش رابع (متوفی ۱۲۸۴ھ) بن مخدوم سید صدر الدین محمد غوث ثالث (متوفی ۱۲۶۹ھ) بن مخدوم سید جمال الدین عبد القادر رابع (متوفی ۱۲۲۸ھ) بن مخدوم سید دین محمد حامد گنج بخش ثالث (متوفی ۱۱۹۳ھ) بن مخدوم سید ابو الحسن جمال الدین محمد غوث ثانی (متوفی ۱۱۳۷ھ) بن مخدوم سید ابو الخیر نجیب الدین عبد القادر ثالث پان (متوفی ۱۰۸۲ھ) بن مخدوم سید ابو العنایت فتح علی المعروف نواب موسیٰ پاک دین (متوفی ۱۰۷۴ھ) بن مخدوم سید حامد گنج بخش ثانی (متوفی ۱۰۱۶ھ) [۱] [۱۔ ؟؟] رحمہم اللہ۔
حضرت سید موسیٰ پاک شہید رحمۃ اللہ علیہ کے حلقہ بگوش جماعتِ علما و فضلا تھے، چنانچہ ان کے خلفا میں سے حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی ۱۰۵۲ھ بعمر چورانوے (۹۴) سال) اکابر علمائے محدثین و فقہا سے تھے، علومِ معقول و منقول میں بلند پایۂ تھے، ان کی تصانیف چھوٹی بڑی ایک سو (۱۰۰) کی تعداد میں ہیں۔ از انجملہ المعات التنیقح عربی شرح مشکوٰۃ المصابیح، اور اشقہ اللمعات فارسی شرح مشکوٰۃ، مدارج النبوۃ فی معارج الفتوۃ، اور اخبار الاخیار فی اسرار الابرار، جذب القلوب الیٰ دیار المحبوب، تکمیل الایمان فی تقویۃ الایقان، ما ثبت من السنۃ فی ایام السنۃ، شرح سِفر السعادت، مفتاح الفتوح شرح فتوح الغیب وغیرہ مقبولِ خلایق ہیں۔ اِن کے فرزند شیخ نور الحق بن عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب تیسیر القاری شرح صحیح بخاری لکھی ہے۔
سجادہ نشین ششم: حضرت سید نظام الدین المعروف مخدوم شیخ عبد القادر ثالث الملقب بہ مخدوم الملک
حضرت مخدوم سید حامد محمد گنج بخش کلان رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند اکبر تھے، سادہ لوح صاف طینت تھے، بعض خدّام کی ترغیب سے اپنے چھوٹے بھائی سید موسیٰ پاک شہید رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ سجادگی کے متعلق نزاع برپا کر دیا، دونو بھائی جب بادشاہ کی کچہری میں حاضر ہونے لگے اور دروازہ سے گذرے تو سید موسیٰ رحمۃ اللہ علیہ نے طریق ادب کی رعایت کی، اور بھائی کے بعد دروازہ سے گذرے، حکومت نے اس پر فیصلہ صادر کر دیا، کہ سید موسیٰ رحمۃ اللہ علیہ نے اِن کی بزرگی کا عملی طور پر اقرار کر لیا ہے، چنانچہ اوقاف و مزارات کی تولیت اِن کو مِل گئی، اور مخدوم الملک کا خطاب اسی وقت ملا، لنگر کی رونق اور صدقات و خیرات میں مبالغہ کرتے تھے، اِن کا مزار مقبرہ قادریہ کے اندر اوچ شریف میں ہے۔ ان کی دو بیویاں تھیں، اول بی بی صحت خاتوں قوم کانجوں، دوم بی بی رکھو بنت حسنعلی کھوکھر۔
ان کے چار بیٹے تھے۔
۱۔ سید محمد شریف سجادہ نشین رحمۃ اللہ علیہ۔
۲۔ سید محمد رحمۃ اللہ علیہ لا ولد۔
۳۔ سید شہاب الدین رحمۃ اللہ علیہ صاحب اولاد۔
۴۔ سید عبد الرزاق الملقب بہ نواب عزت یار خاں رحمۃ اللہ علیہ یہ لا ولد فوت ہوئے۔
سجادہ نشین ہفتم: حضرت سید محمد شریف المعروف مخدوم شیخ حامد محمد شمس الدین ثانی رحمۃ اللہ علیہ
اپنے والد بزرگوار مخدوم سید عبد القادر ثالث رحمۃ اللہ علیہ کے بعد سجادہ نشین ہوئے، زاہد عابد دین کے کاموں میں رات دن منہمک رہتے تھے، سلسلہ قادریہ کی ترویج میں کوشاں رہتے اپنے جد امجد مخدوم سید محمد غوث گیلانی اوچی رحمۃ اللہ علیہ کا روضہ جو بگنبدِ بلند اِن کے دادا سید حامد گنج بخش کلان رحمۃ اللہ علیہ نے تعمیر کر وایا تھا، وہ چونکہ تنگ تھا، اس لیے اُس کو گِروا کر از سرِ نو ۱۰۶۸ھ میں وسیع محل مسقف تیار کروایا، جو تا زمانہ حال موجود ہے، اور پاس ہی ایک فراخ مسجد بھی ۱۰۸۲ھ میں تعمیر کروائی، اِن کا مزار مقبرہ قادریہ کے اندر اوچ شریف میں ہے۔
ان کے چار بیٹے تھے۔ ۱۔ لطف علی سید عبد القادر رابع سجادہ نشین رحمۃ اللہ علیہ۔ ۲۔ سید مہر شاہ رحمۃ اللہ علیہ۔ ۳۔ سید محمد زمان کلان رحمۃ اللہ علیہ۔[۱] ۴۔ سید محمد رحمۃ اللہ علیہ۔
[۱] [۱۔ ان کی اولاد بہاولپور میں موجود ہے، چنانچہ ان میں سے سید محمد شریف بہاولپوری زندہ موجود ہیں، ابن سید غلام علی بن سید فضل شاہ بن سید محمد زمان رابع بن سید محمد شریف بن سید محمد زمان ثالث بن سید کالو شاہ بن سید محمد زمان ثانی بن سید محمد شریف بن سید محمد زمان کلان رحمہم اللہ]
سجادہ نشین ہشتم: حضرت مخدوم سید عبد القادر رابع رحمۃ اللہ علیہ اصلی نام لطف علی رحمۃ اللہ علیہ
اپنے والد بزرگوار مخدوم سید شمس الدین ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے بعد سجادہ نشین ہوئے، صاحبِ اخلاقِ حسنہ و صفاتِ حمیدہ تھے، آبا و اجداد کےپورے پورے متبع تھے، اِن کا مزار مقبرہ قادریہ کے اندر اوچ شریف میں ہے۔
ان کے دو فرزند تھے، ۱۔ سید شمس الدین ثالث رحمۃ اللہ علیہ سجادہ نشین، ۲۔ سید محمد ثانی رحمۃ اللہ علیہ بعد میں انہیں کے پوتا کو سجادگی کا منصب ملا تھا، اور زمانہ حال تک انہیں کی اولاد میں ہے۔
سجادہ نشین نہم: حضرت مخدوم سید حامد محمد شمس الدین ثالث رحمۃ اللہ علیہ
اپنے والد بزرگوار مخدوم سید عبد القادر رابع رحمۃ اللہ علیہ کے بعد سجادہ نشین ہوئے، سالکِ مسالکِ طریقت و حادی علومِ شریعت تھے، ان کا مزار مقبرہ قادریہ کے اندر اوچ شریف میں ہے، مخدوم سید شمس الدین ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے غربی جانب ہے۔
ان کے چار بیٹے تھے، ۱۔ سید محمد علی رحمۃ اللہ علیہ، ۲۔ سید مکھنہ شاہ رحمۃ اللہ علیہ، ۳۔ سید گل شاہ رحمۃ اللہ علیہ، ۴۔ سید محمد مراد شاہ سجادہ نشین رحمۃ اللہ علیہ۔
اور مخدوم سید شمس الدین ثالث رحمۃ اللہ علیہ کی پانچ بیٹیاں تھیں جو مندرجہ ذیل بزرگوں کے نکاح میں تھیں۔ ۱۔ سید عبد الوہاب بن سید محمد شریف رحمۃ اللہ علیہ کی بیوی تھی۔ ۲۔ سید رسول شاہ بن سید مہر شاہ کلان رحمۃ اللہ علیہ کی بیوی تھی۔ ۳۔ سید بہاو الدین لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کی بیوی تھی۔ ۴۔ سید مہر شاہ ثانی بن سید مصطفٰے رحمۃ اللہ علیہ کی بیوی تھی۔ ۵۔ سید سلطان شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی بیوی تھی۔
سجادہ نشین دہم: حضرت سید محمد مراد شاہ المعروف مخدوم شیخ حامد محمد گنج بخش ثانی رحمۃ اللہ علیہ
اپنے والد بزرگوار مخدوم سید شمس الدین ثالث رحمۃ اللہ علیہ کے بعد سجادہ نشین ہوئے، اِن کے زمانہ میں لنگر کی عُسرت تھی، خرچ زیادہ اور آمدنی کم تھی، یہ اکثر مسجد دربار شریف میں معتکف رہا کرتے تھے۔
ایک بار خان صاحب محمد فتح خاں عباسی و جہان خاں بمعہ علمہائے سیاہ عباسی بتقریب سیر و شکار معہ خدم و حشم و لشکر بغرضِ زیارت خانقاہ و ملاقاتِ حضور اوچ شریف آے، اور ایک آ ہوئے بریاں (سجی) بطورِ ہدیہ اِن کے پیش کیا، اور دعائے خیر کروائی، اِن کا مزار مقبرہ قادریہ کے اندر اوچ شریف میں ہے، مخدوم والد ماجد رحمۃ اللہ علیہ کے غربی جانب ہے، اِن کا ایک ہی بیٹا سید خدا داد سجادہ نشین تھا۔
سجادہ نشین یاز دہم (۱۱): حضرت سید خدا داد المعروف مخدوم شیخ حامد محمد شمس الدین رابع نورانی رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد بزرگوار مخدوم سید حامد گنج بخش ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے بعد سجادہ نشین ہوئے، نہایت نیکو کار زاہد عابد تھے، مشاغل روحانی کی وجہ سے اِن کا لقب شمس الدین نورانی اور صالح پڑگیا، تھوڑی عمر میں لا ولد فوت ہوئے، اِن کا مزار مقبرہ قادریہ کے اندر اوچ شریف میں ہے۔
اِن کے ایک خلیفہ سید عبد القادر آخریں کیمیا نظر گیلانی رحمۃ اللہ علیہ موضع پیر کوٹ سدھانہ ضلع جھنگ میں مشہور ولی اللہ گذرے ہیں۔
مخدوم نورانی رحمۃ اللہ علیہ کے بعد سلسلہ سجادگی ان کے دادا مخدوم سید شمس الدین ثالث رحمۃ اللہ علیہ کے چھوٹے بھائی سید محمد ثانی رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد میں منتقل ہوا، اور تا زمانہ حال انہیں میں ہے۔
سجادہ نشین دواز دہم (۱۲): حضرت سید سوہانرا شاہ المعروف مخدوم شیخ عبد القادر خامس شہید رحمۃ اللہ علیہ خلف الرشید سید مرتضیٰ علی بن سید محمد ثانی بن مخدوم سید عبد القادر رابع رحمۃ اللہ علیہ گیلانی اوچی۔
مخدوم سید شمس الدین رابع نورانی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات پر باستحقاقِ وراثت سجادہ نشین ہوئے بڑے نیک اہلِ زہد و عبادت تھے، اپنی صاحبزادیوں کا نکاح بہاولپوری برادری میں کر دیا تھا، اِن کو ۱۱۶۳ھ میں حجام نے استرہ سے شہید کر ڈالا، مزار مقبرہ قادریہ کے اندر اوچ شریف میں ہے۔
ان کے تین بیٹے تھے، دو لا ولد فوت ہوئے، اور تیسرا سید فضل علی سجادہ نشین وارث چھوڑا۔
سجادہ نشین سیز دہم (۱۳): حضرت سید فضل علی المعروف مخدوم شیخ حامد محمد گنج بخش ثالث رحمۃا للہ علیہ بانی قلعہ اوچ اپنے والد بزرگوار مخدوم سید عبد القادر خامس رحمۃ اللہ علیہ کی شہادت کے بعد بعمر چودہ سالہ سجادہ نشین ہوئے، اِن کی ولادت ۱۱۴۹ھ میں بمقام اوچ شریف ہوئی، اس قطعہ سے تاریخ ظاہر ہوتی ہے۔
خدائے کہ در خلقتِ ہر وجود |
|
نیازش نباشد با سباب و رخت |
جب اِن کے والد ماجد رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال ہوا تو نواب جان نثار خاں گوجر والی ڈیرہ غازیخاں نے اپنی لڑکی کا نکاح اِن کے ساتھ کر کے اپنے پاس خانہ داماد رکھا، چنانچہ سات سال تک وہاں رہے، بعد ازاں رخصت ہوکر ۱۱۷۰ھ میں اوچ تشریف لائے، اس قطعہ سے تاریخ ظاہر ہوتی ہے۔ از مُلّا محمد وارث رحمۃ اللہ علیہ
چو مخدوم ہر دو جہاں شیخ حامد |
|
بمتبرکہ اوچ مبارک در آمد |
اِن کو بوجہ تعلق رشتہ نوابانِ ڈیرہ غازیخاں بہرہ ثروت وافی حاصل ہوا، نیز غلام شاہ کلہوڑہ والی سندھ اِن کا بمزلف (سانڈھو) تھا۔
مورخین نے لکھا ہے کہ اُن دنوں میں حکومتوں کے درمیان انقلابِ عظیم تھا، فتنہ و فساد کا بازار گرم تھا، نوابانِ ریاست بہاولپوری کی والی سندھ کے ساتھ عداوت تھی، مخدوم صاحب رحمۃ اللہ علیہ چونکہ تعلق رشتہ کے باعث اُس کے ساتھ اتحاد رکھتے تھے۔ اس لیے نوابانِ بہاولپور کی طرف سے اِن کو بھی خطرہ رہتا تھا، اس واسطے غلام شاہ کلہوڑہ نے بیش بہا اور قیمتی جواہرات اور زر کثیر بغرض تعمیر قلعہ و محلات عطا کیے، انہوں نے صرف کثیر سے قلعہ اوچ گیلانی ۱۱۸۵ھ میں تعمیر کر وایا، اور قلعہ کے اندر رہائش کےلیے ایک عایشان محل بھی تیار کر وایا، جو تا حال موجود ہے۔ لیکن قلعہ منہدم ہوچکا ہے، قلعہ کا مشرقی دروازہ جس کو ہاتھی دروازہ کہا جاتا ہے وہ اب بھی موجود ہے، تاریخ بنا اب تک اُس دروازہ پر ثبت ہے۔ ؎
در زمانِ جانشین غوثِ اعظم گنج بخش |
|
رُخ نمود ایں قلعۂ دار الامانِ قادری |
اِن کا نام اسی لیے مخدوم بانی قلعہ مشہور ہوگیا، اسی سال انہوں نے اپنی وزارت کے واسطے میاں اللہ داد خاں کو منتخب کیا، چنانچہ اِس قطعہ سے تاریخ ظاہر ہوتی ہے۔
مبارک ست ترا دولتِ قوی بنیاد |
|
وزارتِ شہِ عالم بتو مبارک باد |
میاں اللہ داد خاں کے اہتمام سے ہی قطعہ دار الامان مکمل ہوا، کہا جاتا ہے کہ حضرت بانی قلعہ علمِ نجوم کے ماہر تھے۔
ان کے معاصر مؤرخ مولانا علی شیر قانِع رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب تحفۃ الکرام میں جو ۱۱۸۷ھ کی تالیف ہے لکھتے ہیں کہ ’’سید گنج بخش ولد سید عبد القادر اکنون بشانِ سترگی و نشانِ متکسی صدر خلافتِ جد بزرگوار ست’’
ان کی وفات بعمر اٹھتالیس (۴۸) سال تیئیسویں (۲۳) ربیع الآخر ۱۱۹۷ھ میں ہوئی، مزار مقبرہ قادریہ کے اندر اوچ شریف میں ہے۔
اِن کے دو بیٹے تھے۔ ۱۔ سید غوث بخش رحمۃ اللہ علیہ، ۲۔ سید حسن بخش رحمۃ اللہ علیہ و دنو یکے بعد دیگرے سجادہ نشین ہوئے۔
حضرت بانی قلعہ کے خلفا میں سے سید نور اللہ شاہ خراسانی رحمۃ اللہ علیہ مشہور بزرگ گذرے ہیں، اُن کا سلسلہ فقر موجود ہے، کتاب حدیقۃ الاسرار مصنفہ مولوی امام بخش جام پوری رحمۃا للہ علیہ میں ان کے حالات دیکھے گئے ہیں۔
سجادہ نشین چہار دہم (۱۴): حضرت سید غوث بخش المعروف و شیخ عبد القادر سادس ملقب مخدوم اولیا یا مخدوم عُلیا رحمۃ اللہ علیہ۔
اپنے والد بزرگوار مخدوم سید حامد محمد گنج بخش ثالِث رحمۃ اللہ علیہ بانی قلعہ کی وفات کے بعد سجادہ نشین ہوئے۔ بڑے متقی متورع پابند شریعتِ غرا تھے، اِن کا نکاح نواب مولا داد خاں گوجر کی دختر سے ہوا تھا، جس کے بطن سے ایک لڑکا پیدا ہوکر فوت ہوگیا، اور یہ لا ولد رہے۔ ان کی وفات بمرض صرع ۱۲۰۱ھ میں ہوئی، مزار مقبرہ قادریہ کے اندر اوچ شریف میں ہے۔
سجادہ نشین پانزدہم (۱۵): حضرت سید حسن بخش المعروف مخدوم شیخ حامد محمد گنج بخش رابع ملقب مخدوم جنگاور رحمۃ اللہ علیہ مخدوم سید حامد محمد گنج بخش ثالث رحمۃ اللہ علیہ بانی قلعہ کے فرزند اصغر تھے، اپنے بڑے بھائی مخدوم سید عبد القادر سادِس اولیا رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد سجادہ نشین ہوئے، اِن کی طبیعت زبردست جنگجو واقع ہوئی تھی، اسی لیے ان کو مخدوم جنگاور کہتے تھے، متعلقین دربار شیخ حبیب اللہ اور محمد عمر خاں ڈہر، اور فتح محمد غوری اِن کی طبیعت سے گھبرا کر ملازمت چھوڑ گئے۔
اِن کا نوابان ریاستِ بہاولپور سے مقابلہ ہوگیا، نواب محمد بہاول خاں ثانی والی ریاست نے فوج کو آمادہ کیا، تو اِن کے ہمراہی آدھی رات کو بلا اجازت بھاگ گئے، یہ قلعہ پلولی میں محصور ہوئے، وہاں بچاؤ نہ ہوسکا تو قلعہ ٹھٹھہ میں متحصن ہوئے، یہ قلعہ بھی مفتوح ہوا تو قلعہ اوچ میں متمکن ہوئے، یہ قلعہ بھی توڑ دیا گیا، تو وہاں سے قلعہ رام کلی میں آرام کیا، وہاں بھی فوجوں نے محاصرہ کر دیا تو بطور مہمان گڑھی اختیار خاں کا رُخ کیا، وہاں چندے قیام کیا، اور پھر سندھ کو تشریف لے گئے۔ مخدوم شیخ حامد نو بہار سجادہ نشین جلالیہ اوچ بخاری، اور گل محمد خاں داوٗد پوثرہ، اور اختیار خاں رئیس گڑھی جس کو مخدوم جنگاور رحمۃ اللہ علیہ لالہ جی کہا کرتے تھے، اُن تینوں پر اِن کو اعتماد تھا، لیکن جنگ کے وقت کسی نے امداد نہ کی، سب بیوفا ثابت ہوئے تو انہوں نے اپنے حسب حال یہ شعر کہا۔
بہار سر کش و گُل بیوفا و لالہ دو رنگ |
|
دریں چمن بچہ امید آشیانہ کنیم |
ف اس شعر میں مخدوم جنگاور رحمۃ اللہ علیہ نے بہار سے مراد مخدوم نو بہار اور گل سے گل محمد خاں، اور لالہ سے اختیار خاں، اور چمن سے ریاست بہاولپور مراد لی ہے۔
انہوں نے حکومت سندھ میں گھوٹکی کے قریب موضع قادر پور میں سکونت اختیار کی، چھ سال وہاں رہ کر بروز سہ شنبہ چوبیسویں ذیقعدہ ۱۲۲۱ھ میں اپنی والدہ سے آٹھ دن بعد وفات پائی، اور قادر پور میں مدفون ہوئے، ان کے پوتے مخدوم سید حامد محمد گنج بخش خامس رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے عہد خلافت میں ان کا تابوت اوچ شریف لا کر مقبرہ قادریہ میں دفن کیا۔
ان کے دو بیٹے تھے۔ ۱۔ سید نتھلہ حسین علی رحمۃ اللہ علیہ جو اپنے والد ماجد کے قادر پور چلے جانے کے بعد ملقب بہ مخدوم محمد غوث رحمۃ اللہ علیہ ہوکر اوچ شریف میں متولی مزارات رہے، پانچ سال کی بعمر انیس سالہ لا ولد فوت ہوئے، ۲۔ سید عباس علی سجادہ نشین جو والد صاحب رحمۃا للہ علیہ کے ہمراہ سندھ چلے گئے۔
سجادہ نشین شانزدہم (۱۶): حضرت سید عباس علی المعروف مخدوم شیخ حامد محمد شمس الدین خامس رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد بزرگوار مخدوم سید حامد محمد گنج بخش رابع جنگاور رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد بمقام قادر پور سجادہ نشین ہوئے، قادر پور ان کی جاگیر تھا، وہاں کی آمدنی اور نذرو نیاز پر لنگر کا گذارہ تھا، بڑے زاہد عابد صاحب عصمت تھے۔
اِن کی وفات ۱۲۳۱ھ میں ہوئی، مزار قادر پور میں والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے پاس ہوا، بعد میں اِن کے بیٹے مخدوم سید حامد محمد گنج بخش خامس رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ایامِ خلافت میں اِن کا تابوت اوچ شریف لا کر مقبرہ قادریہ میں دفن کیا۔
ان کا ایک ہی بیٹا سید حسن بخش سجادہ نشین تھا۔
سجادہ نشین ہفدہم (۱۷): حضرت سید حسن بخش المعروف مخدوم شیخ حامد محمد گنج بخش خامس رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد بزرگوار مخدوم سید شمس الدین خامس رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد بعمر چار سالہ بمقامِ قادر پور سجادہ نشین ہوئے، جدہ صاحبہ کے زیر سایہ تربیت پائی، اللہ تعالیٰ نے ان کے مزاج میں حلم و وقار، ہمدردی و سخاوت کا جوھَرْ و دیعت رکھا تھا، اہل علم و ہنر کی قدر دانی حوصلہ سے بڑھ کر کرتے تھے، افتادہ خاندانوں کی دل جوئی اِن کا وظیفہ تھا،
ان کے حسن خلق سے متاثر ہوکر والی بہاولپور نے پھر اِن کو اوچ شریف میں لا کر آباد کیا، انہوں نے اپنے جد امجد مخدوم جنگاور رحمۃ اللہ علیہ اور والد صاحب مخدوم شمس الدین خامس رحمۃ اللہ علیہ کے ہر دو تابوت جو امانت دفن کیے گئے تھے، قادر پور سے اوچ شریف لا کر اندرون مقبرہ قادریہ کے دوبارہ دفن کئے۔
اِن کے طفیل ہی اُجڑی بستی پھر آباد ہوئے اور یہ از سر نو بانی خاندان ہوئے۔
ان کی ولادت ۱۲۲۷ھ میں اور وفات بعمر ستاون (۵۷) سال ماہِ ربیع الاول ۱۲۸۴ھ میں ہوئی، مزار مقبرہ قادریہ کے اندر اوچ شریف میں ہے۔
ان کی اہلیہ محترمہ حضرت گانموں بی بی بنت سید حیدر شاہ گیلانی رحمۃ اللہ علیہ تھیں، جو سید عبد الرزاق المعروف شاہ چراغ لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد امجاد سے تھے، انہیں کے بطن سے اولاد ہوئی۔
ان کے تین بیٹے تھے، ۱۔ سید محمد شاہ سجادہ نشین رحمۃ اللہ علیہ، ۲۔ سید فیض محمد رحمۃ اللہ علیہ، ۳۔ سید بھاون شاہ رحمۃ اللہ علیہ جو بعد وفات والد کے لا ولد فوت ہوئے۔
اِن کی دو صاحبزادیاں تھیں، ایک تو ناکتخدا فوت ہوئیں، دوسری کی شادی سید اللہ ڈتہ شاہ بن سید حسن شاہ بن سید محمد بخش بن سید محمد زمان ثالث بہاولپوری کے ساتھ ہوئی، اِن کا ایک لڑکا مخدوم سید اللہ بچایا شاہ بہاولپور میں زندہ موجود ہے۔
سجادہ نشین ہژدہم: حضرت سید محمد شاہ المعروف مخدوم شیخ حامد محمد شمس الدین سادِس رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد بزرگوار مخدوم سید حامد محمد گنج بخش خامس رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد سجادہ نشین ہوئے، اولاً دونو بھایوں کے درمیان غبار نزاع برپا ہوا، پھر صلح ہوگئی، صاحبِ علم و فضل سخن سج اور صاحب تصانیف بھی تھے، شاعر بھی تھے، تخلص سید محمد تھا، ان کو زیادہ تر کتبِ تصوّف میں شغف تھا، کئی رسالے تالیف کیے جن میں سے زیادہ تر حضرت شاہ امجد عرف شاہ مَدْن رحمۃ اللہ علیہ کے رسائل کو انہوں نے اردو کیا ہے۔
اِن کے رسالہ جات مندرجہ ذیل راقم الحروف فقیر شرافت عافاہ ربہٗ نے کتب خانہ قادریہ مخادیم گیلانیہ اوچ شریف میں دیکھے تھے،
ان میں سے فارسی رسالے یہ ہیں۔
۱۔ پند نامہ فارسی، ۲۔ رسالہ مراقب، ۳۔ اسرار قادری، ۴۔ تحفۃ العرفان منظوم، ۵۔ چند پند، ۶۔ تزکیۃ الانفاس، ۷۔ لطائف قادری، ۸۔ زبدۃ الاخلاق۔
اور رسائل اردو یہ ہیں۔
۹۔ زبدۃ السلوک ترجمہ اردو تحفۃ الملوک، ۱۰۔ میراث العاشقین، ۱۱۔ نزھۃ العاشقین، ۱۲۔ ترجمۃ الصلوٰۃ، ۱۳۔ چراغ العابدین ترجمہ اردو منہاج العارفین، ۱۴۔ اسرار العشاق ترجمہ اردو بیسر نامہ، ۱۵۔ مرأۃ الجمال، ۱۶۔ مظہر الصفات ترجمۂ اردو رسالہ شاہ شرف الدین ابو علی قلندر رحمۃ اللہ علیہ، ۱۷۔ رسالہ موحد بن ترجمہ اردو رسالہ شیخ الاسلام شیخ عبد اللہ انصاری رحمۃ اللہ علیہ، ۱۸۔ جامع المواعظ، ۱۹۔ مواعظ الحسنیٰ، ۲۰۔ اٰثار القادریہ، ۲۱۔ اسرار الشہود ترجمۂ اردو رسالہ شیخ عطار رحمۃ اللہ علیہ، ۲۲۔ مفادِ گیلانیہ، ۲۳۔ نھال الانور کا الشجر الاطہر، ۲۴۔ پنج گنج عشق۔ مشتمل برا بواب پنجگانہ، اوّل: تشریحِ عمل صالح، دوم: تعلیم علوم برخور دار سید حسن بخش شاہ رحمۃ اللہ علیہ، سوم: خیرات متعلقہ سیّار گاں، چہارم: پند نامہ، پنجم: وصیت نامہ مصطفوی بجناب مرتضوی رضی اللہ عنہ۔
یہ مخدوم صاحب رحمۃ اللہ علیہ اکثر اوراد و وظائف میں مشغول رہتے، اور حضوری غوثیہ تھے۔
اِن کی وفات ۱۳۰۳ھ میں ہوئی، مزار مقبرہ قادریہ کے اندر اوچ شریف میں ہے۔
اِن کی اہلیہ محترمہ حضرت چنن بی بی بنت سید سلطان شاہ ملتانی رحمۃ اللہ علیہ تھیں، جو کہ حضرت سید موسیٰ پاک شہید گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد سے تھے، انہیں کے بطن سے اولاد ہوئی۔
ان کے چار بیٹے تھے۔ ۱۔ سید حسن بخش سجادہ نشین رحمۃ اللہ علیہ، ۲۔ سید مراد شاہ رحمۃ اللہ علیہ، ۳۔ سید جیون شاہ رحمۃ اللہ علیہ، یہ جوانی میں ناکتخدا فوت ہوئے، ۴۔ سید ولایت شاہ رحمۃ اللہ علیہ۔
سجادہ نشین نوز دہم (۱۹): حضرت سید حسن بخش المعروف مخدوم شیخ حامد گنج بخش سادس رحمۃ اللہ علیہ اپنے والد بزرگوار مخدوم سید شمس الدین سادس رحمۃ اللہ علیہ کے بعد سجادہ نشین ہوئے، نہایت عقلمند خوب صورت اور صاحب ہمت بلند تھے، لوگ اِن کو دُوْلا گنج بخش کہا کرتے۔
ان کی ولادت بروز جمعہ وقت عصر بیسویں (۲۰) ذی الحجہ ۱۲۸۰ھ اور وفات بعمر تینتالیس سال ۱۳۲۳ھ میں ہوئی، مزار مقبرہ قادریہ کے اندر اوچ شریف میں ہے۔
اِن کی اہلیہ محترمہ حضرت پیڑاں بی بی بنت سید فیض محمد بن مخدوم شیخ حامد محمد گنج بخش خامس رحمۃ اللہ علیہ تھیں، اِن کے بطن سے اولاد ذکور پیدا ہوکر فوت ہوگئی، صرف ایک دوشیزہ لڑکی یاد گار چھوڑی، جن کا اسم گرامی معصومہ بُچل بی بی ہے، تارک الدنیا مجردہ زاھدہ عابدہ زندہ موجود ہیں، فقیر شرافت مؤلف عافاہ اللہ کو قیام اوچ کے زمانہ میں ایک روز حضرت معصومہ صاحبہ دامت عصمتہا نے اندرون محل شریف سے پلاؤ اخنی کا تبرّک بھیجا تھا۔
سجادہ نشینِ بیستم (۲۰): حضرت سید مراد شاہ المعروف مخدوم شیخ حامد محمد شمس الدین سابع رحمۃ اللہ علیہ مخدوم سید شمس الدین سادِس رحمۃ اللہ علیہ کے دوسرے بیٹے تھے، اپنے بڑے بھائی مخدوم سیّد حامد محمد گنج بخش سادِس رحمۃ اللہ علیہ کے بعد سجادہ نشین ہوئے، نہایت فیاض نیک طبع حلیم منکسر المزاج تھے۔
انہوں نے اپنے عہد خلافت میں خانقاہِ مبارک جدِ بزرگوار حضرت مخدوم سید محمد غوث گیلانی رحمۃ اللہ علیہ اور جامع مسجد گیلانیہ کی مرمت باہتمام منشی شاہ محمد خاں مختار کار ۱۳۲۴ھ میں کروائی، مسجد شریف اور خانقاہِ معلّٰے کے دروازوں پر کتبات تحریر ہیں۔
اِن کی ولادت شبِ یکشنبہ وقتِ عشا چودھویں ربیع الثانی ۱۲۸۶ھ میں اور وفات بعمر اکتالیس (۴۱) سال ۱۳۲۷ھ میں ہوئی، مزار مقبرہ قادریہ کے اندر اوچ شریف میں ہے۔ اِن کا کوئی فرزند نرینہ نہیں تھا، ایک لڑکی معصومہ گانموں بی بی یاد گار چھوڑی، جو مجرّد اہل عبادت زندہ ہیں۔
سجادہ نشین بست یکم (۲۱): حضرت سید ولایت شاہ المعروف مخدوم شیخ حامد محمد گنج بخش سابع رحمۃ اللہ علیہ مخدوم سید شمس الدین سادِس رحمۃ اللہ علیہ کے چھوٹے بیٹے تھے، اپنے بڑے بھائی مخدوم سید شمس الدین سابع رحمۃ اللہ علیہ کے بعد سجادہ نشین ہوئے، خوبصورت ذہین فہیم صاحبِ لیاقت و دانش تھے، آخر عمر میں دائم المرض ہوگئے تھے۔
انہوں نے اپنے عہد خلافت میں حضرت سید صفی الدین حقانی گاذرونی رحمۃ اللہ علیہ بانی اوچ متبرکہ کی خانقاہِ مبارک یعنی محل شریف از سر نو تعمیر کر وایا، یہ تعمیر با ہتمام منشی شاہ محمد خاں مختارِ کار ۱۳۲۹ھ میں ہوئی۔
ان کی وفات بعالم شباب اٹھائیسویں (۲۸) ذی الحجہ ۱۳۴۲ھ میں ہوئی، مزار مقبرہ قادریہ کے اندر اوچ شریف میں ہے، انہوں نے ایک ہی فرزند سید خیرات حسین یاد گار چھوڑا۔ فقیر شرافت عافاہ ربہٗ کو خواب میں مخدوم صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا ہے۔
سجادہ نشین بست دوم (۲۲): حضرت سید خیرات حسین المعروف مخدوم شیخ حامد محمد شمس الدین ثامن اپنے والد بزرگوار مخدوم سید حامد محمد گنج بخش سابع رحمۃ اللہ علیہ کی وفات کے بعد بعمر چار سالہ سجادہ نشین ہوئے، اِن کی ولادت با سعادت یکم محرم الحرام ۱۳۳۹ھ میں ہوئی، تاریخی ہجری نام ’’مخدوم عبد القادر سابع جیلانی‘‘ ہے، خوبصورت نیک سیرت صاحب حسن خلق ہیں، بچپن سے ہی آثارِ شد و ہدایت اِن کے چہرہ انور سے درخشاں ہیں، فی الحال زیر تعلیم ہیں، مولوی محمد قطب الدین صاحب آلہ آبادی خطیب جامعہ مسجد گیلانیہ و مدرس مدرسہ العلوم قادریہ سند یافتہ دیوبند، اور مولوی غلام رسول صاحب تالیق بہاولپوری سند یافتہ بریلی سے تعلیم حاصل کرتے ہیں، آج کل ان کی عمر سترہ سال ہے۔
اِن کے وزیر اعلیٰ اور مدار المہام حضرت سید غلام زین العابدین شاہ صاحب ہیں، جو آنریری مجسٹریٹ بھی ہیں، بڑے مدبر روشن دماغ لائق ہستی ہیں، با ایں ہمہ متقی متورع بھی ہیں، ضعیف العمر مرتاض ہیں۔ سلمہ اللہ۔
مؤلف کتاب ہذا فقیر شریف احمد شرافت اصلح اللہ حالہٗ ومآلہٗ ماہ محرم ۱۳۵۳ھ میں اوچ شریف میں حضرت مخدوم صاحب دام برکاتہٗ کی ملازمت سے مشرف ہوا، اور یہ چند اشعار فارسی و اردو ان کی تعریف میں لکھ کر حضور میں پیش کیے، جو انہوں نے کمال مہربانی سے پسند فرمائے، اور فقیر کے حق میں دعائے خیر مانگی۔ فللہ الحمد۔ اشعار
در اوصافِ پاک برگزیدۂ درگاہِ ذوالجلال، مقبولِ بارگاہِ لایزال، قرۃ العینین حسنین، نورِ نظر غوث الثقلین، سلالہ دود مانِ قادریہ محبوبیہ، زبدۂ خاندانِ گیلانیہ عالیہ، حضرت جناب مخدوم الملت سید خیرات حسین عبد القادر زاہد المعروف مخدوم شیخ حامد محمد شمس الدین ثامن سجادہ نشین درگاہِ عرش پائگاہ اوچ شریف گیلانی ادام اللہ برکاتہٗ وفیوضہٗ۔
فارسی
اے جنابِ شاہِ شمس الدین خیراتِ حسین |
|
ذاتِ تو حضرت محمد مصطفٰے را نورِ عین |
اردو
نام ہے کیسا پیارا شمس الدین کا |
|
خادموں کو ہے سہارا پیر شمس الدین کا |
اللہ تعالیٰ ہمیشہ کے لیے آفتاب قادریہ گیلانیہ کو تاباں رکھے، اور حضرت مخدوم صاحب کی عمر و اقبال میں برکت دیوے۔
خلفایٔ عُظام
۴۔ حضرت صاحبزادگانِ والاتبار رحمۃ اللہ علیہ
حضرت مخدوم سید محمد غوث گیلانی حلبی اوچی رحمۃ اللہ علیہ کے چاروں بیٹے خود آپ کے ہی خلیفہ تھے۔
۵۔ حضرت سلطان قطب الدین لنگاہ رحمۃ اللہ علیہ
اِن کا پہلا نام رائے سہرہ تھا، قصبہ سیوی نواحِ سندھ کے حاکم تھے، پھر شیخ محمد یوسف ملتانی رحمۃ اللہ علیہ کو قید کر کے دہلی بھیج دیا، اور خود سلطان قطب الدین لنگاہ کا لقب اختیار کر کے بادشاہِ ملتان بن گئے، [۱] [۱۔ تاریخ اوچ حفیظ ص ۸۴] حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ کے روحانی ارشاد کے مطابق اپنی لڑکی کا نکاح حضرت مخدوم سید محمد غوث گیلانی رحمۃ اللہ علیہ سے کر دیا، اور اُن کے حلقہ ارادت میں داخل ہوئے۔ [۱] [۱۔ شجرۃ الانوار ۱۲] ۸۷۴ھ میں وفات پائی، [۱] [۱۔ تاریخ فرشتہ جلد دوم ۱۲] قبر مقبرہ قادریہ کے اندر اوچ شریف میں ہے۔ [۱] [۱۔ تاریخ اوچ ص ۸۵ شرافت]
۶۔ حضرت سلطان حسین لنگاہ رحمۃ اللہ علیہ
ابنِ سلطان قطب الدین لنگاہ رحمۃ اللہ علیہ، اپنے والد کی وفات کے بعد حکمران ہوئے، نیک دیندار قدر دانِ علم تھے، [۱] [۱۔ تاریخ اوچ ص ۸۵ شرافت] غازیخاں سے قلعہ سور فتح کیا، پھر بھیرہ، چنیوٹ، خوشاب پر بھی تسلط جمایا، بعد ازاں کو تکر سے قلعہ دھنکوٹ کو تحت تصرف کیا، اِن کے بھائی شاہ مہتاب الدین نے حاکم قلعہ کوٹ کروڑ کی بغاوت فرد کر کے بہلول لودہی کی فوج کا مقابلہ کیا، جو ملتان پر چڑھ آئی تھی، اور اُسے شکستِ فاش دی، سلطان حسین رحمۃ اللہ علیہ کو کیچ مکران کے بلوچوں سے بڑی تقویت پہنچی، اس لیے انہوں نے سیت پور سے لے کر دھنکوٹ تک تمام علاقہ اُن کی جاگیر کر دیا، ولایتِ بھکر اور ٹھٹھہ کے درمیان کا علاقہ قومِ سمّہ سے آباد تھا، وہ جمشید کی نسل ہونے کی وجہ سے جام مشہور تھے، اُن کے دو سرداروں نے باہمی مخاصمت کی وجہ سے اِن کی طرف رجوع کیا، انہوں نے اُن میں سے جام ابراہیم کو ولایت سور اور اوچ کی جاگیر عطا کر دی۔ [۱] [۱۔ تاریخ جلیلہ ص ۷۱۔ تاریخ اوچ ص ۸۵]
سلطان نے دہلی کی سلطنت کے ساتھ بھی باہم مصالحت کا عہد نامہ کیا، اور حکومتِ گجرات و احمد آباد کے ساتھ بھی اتحاد قائم کیا۔ [۱] [۱۔ تاریخ اوچ ۱۲] اور چھبیسویں (۲۶) صفر ۹۰۸ھ کو وفات پائی۔ [۱] [۱۔ تاریخ جلیلہ ۱۲] چونکہ سلطان کا بیٹا فیروز شاہ اِن کی زندگی میں ہی فوت ہوچکا تھا، اس لیے اُس کا بیٹا محمود شاہ تخت نشین ہوا، جو ۹۳۱ھ میں فوت ہوا، اور اُس کے فرزند حسین ثانی سے مرزا شاہ حسین ارغون نے ۹۳۲ھ میں ملتان فتح کر لیا۔ [۱] [۱۔ ایضًا شرافت]
۷۔ حضرت سلطان سکندر بن سلطان بہلول لودھی رحمۃ اللہ علیہ
ان کا اصلی نام نظام خاں، لقب علاو الدین تھا، ۸۹۴ھ میں تخت دہلی پر جلوہ افروز ہوئے، اِن کے چھ لڑکے اور باون (۵۲) افسر وزرا و امرا و اراکین سلطنت تھے، نہایت منصف تھے، رات کو رعایا کی خود خبر گیری کرتے، دور و دراز کے حالات کے واسطے جاسوس رکھے ہوئے تھے جو ہر ایک امر کی اطلاع پہنچاتے، فضلا و اولیا کے پاس تشریف لے جایا کرتے، اور ان سے استفاضہ کیا کرتے، سال میں دو بار فقرا و مستحقین کو صدقات تقسیم کیا کرتے، جمعہ کے روز فقرائے شہر کو زر نقد دیا جاتا، عیدوں کے دنوں میں قیدی رہا کیے جاتے، شہر میں ہر روز مسکینوں و غریبوں کے واسطے مطبخ جاری تھے، محتاجوں کے واسطے وظیفے مقرر کیے ہوئے تھے، اور تمام ملک کی مسجدوں میں موذن، خطیب،جاروب کش متعین کر کے ان کے وظیفے معین کیے تھے، ادنٰے ادنٰے موذنِ مسجد کی ملک میں تین تین لاکھ کا سرمایہ و اثاثہ تھا، بعد نمازِ عصر مسجد میں بزرگانِ دین صلحا و علما کی ملاقات کر کے تا مغرب تلاوتِ قرآن مجید اور ذکر و تسبیح و تہلیل و اوراد میں مشغول رہتے، علم دوست تھے، امرا و ارکانِ دولت و سپاہ بھی بکسبِ فضائل اشتغال رکھتے، اسلام کے از حد پابند تھے۔ [۱] [۱۔ گنجینہ عرفان ۱۲]
شاعرانہ مذاق بھی تھا، گُلرخی تخلص کیا کرتے، اور اشعارِ لطیف کہتے تھے، چنانچہ کہا ہے
مارا ز خاک کویت پیراہنے ست برتن |
|
آں ہم ز آبِ دیدہ صد چاک شد بدامن، |
[۱۔ رسالہ عالمگیر لاہور خاص نمبر ص ۴۵ بابت ۱۹۴۴ء ۱۲]
اٹھائیس سال پانچ مہینے تخت سلطنت پر رہ کر بروز یکشنبہ ساتویں ذیقعدہ ۹۳۳ھ کو وفات پائی۔ [۱] [۱۔ گنجینہ عرفان ۱۲]
۸۔ حضرت سید محمد قادری رحمۃ اللہ علیہ۔
۹۔ حضرت شیخ غلام محمد قادری رحمۃ اللہ علیہ۔
۱۰۔ حضرت شیخ علو قادری رحمۃ اللہ علیہ۔
۱۱۔ حضرت سید میر بغدادی رحمۃ اللہ علیہ۔
تاریخ وفات
حضرت مخدوم سید ابو عبد اللہ محمد غوث گیلانی اوچی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات بقولِ صاحب شجرۃ الانوار و تشریف الشرفا و خزینۃ الاصفیا جلد اول بعمر ایک سو بیس (۱۲۰) سال [۱] [۱۔ بحر السرائر اور تاریخ اوچ اختر و حفیظ دونو سے آپ کی عمر نوّے (۹۰) سال ثابت ہوتی ہے شرافت] موسم گرما میں بوقت یکشنبہ دوپہر بتاریخ ہفتم رجب المرجب ۹۲۳ھ نو سو تیئیس ہجری مطابق ۱۵۱۷ء ۲۶؍ جوالائی ایک ہزار پانسو سترہ عیسوی میں بعہدِ سلطنت سلطان ظہیر الدین محمد بابر بادشاہ ہوئی۔
مدفن پاک
آپ کا مزار مبارک اوچ شریف گیلانی، تحصیل احمد پور شرقیہ، ریاستِ بہاولپور میں ہے۔ رحمۃ اللہ علیہ۔
اوچ شریف
اوچ اسم مذکر ہندی زبان کا ایک لفظ ہے جو بلندی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے، یہ مقام چونکہ پنجاب کے متعدد دریاؤں کے ساحل پر ایک مرتفع موقعہ پر واقعہ ہوا ہے، اس لیے اس کا نام اوچ رکھا گیا، کننگھم صاحب نے بھی اسی توجیہ کو اختیار کیا ہے، اور بھی تمام جغرافیہ نویسوں کا اسی پر اتفاق ہے کیونکہ سطحِ سمندر سے یہ مقام تین سو ستائیس (۳۲۷) فیٹ بلند موقعہ پر واقعہ ہے۔
یہ شہر ہر زمانہ میں مختلف ناموں سے موسوم ہوتا چلا آیا ہے، مثلاً سکندر اعظم کے وقت اِن کا نام الیگزینڈرہ، سکندرہ، اسکالندہ، کننگھم صاحب نے اپنے جغرافیہ ہند قدیم میں جو نقشہ دیا ہے، اس میں اس مقام کو اسکالنڈہ اوچ کے نام سے درج کیا ہے، راجہ دیو سنگھ بھٹی کے وقت اس مقام کا نام دیو گڑھ تھا۔
میر معصوم بھکری رحمۃ اللہ علیہ نے اور کرنل منچن سابق ایجنٹ بہاولپور نے اِس مقام کو تلواڑا اور چاچ پور سے موسوم کیا ہے، نیز ہوڈ، بسمد، سندر، بابنیرا، بھاٹیہ، پیبیا، کچھی سید جلال، اوچ، اوچہ، اوسہ وغیرہ نام بھی بعض تواریخ میں پائے جاتے ہیں، [۱] [۱۔ تاریخ اوچ حفیظ] علامہ ابن بطوطہ تخبیری سیاح رحمۃ اللہ علیہ اپنے سفر نامہ میں لکھتے ہیں، ثمّ سافرتُ من مدینۃ بکار فوصلتُ الٰی مدینۃِ اوجہ وھی مدینۃ کبیرۃٌ علٰی نھرِ السّندِ لھا اسواقٌ حسنۃٌ و عمارۃٌ۔ [۱] [۱۔ تحفۃ النظار فی غرائب الامصار احوال ۷۳۴ھ ۱۲ شرافت]
اکثر مورخین نے اپنی تاریخوں میں، اور سیّاحین نے اپنے سفر ناموں میں اوچ شریف کے تذکرے لکھے ہیں، چارلس میسن یورو پین سیّاح نے اپنے سفر نامہ میں، اور مولانا علی شیر قانع رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب تحفۃ الکرام ہیں، اور میر معصوم بھکری رحمۃ اللہ علیہ نے تاریخ سندھ ہیں، اور مفتی غلام سرور لاہوری رحمۃ اللہ علیہ نے مخزنِ پنجاب میں، اور مرزا قلیچ بیگ نے تاریخ سندھ میں اوچ کے متعلق بہت کچھ تحریر کیا ہے، بخوفِ طوالت درج نہیں کیا جاتا، صرف مخزانِ پنجاب سے مضمون سپردِ قلم کیا جاتا ہے۔
’’اوچ سیدوں کا بہاولپور کی ریاست کے متعلق یہ ایک پورانا شہر دریائے پنجند کے بائیں کنارہ سے بفاصلہ چار میل آباد ہے، اُس کے گرد نہایت خوبصورتی کے ساتھ درختوں کے مجموعے لگے ہوئے ہیں، اور علاقہ نہایت سر سبز و سیراب ہے، تین آبادیاں شہر کی علیٰحدہ علیٰحدہ واقعہ ہیں، اور تین آبادیوں کے گرد الگ الگ شہر پناہ بنے ہوئے ہیں، آبادی شہر کی گنجان گلیاں تنگ، بازار کشادہ اور بڑے ہیں، برتن ہر ایک دھانت کے عمدہ و خوبصورت بَن کر یہاں سے اور ملکوں میں تحفہ بھیجے جاتے ہیں، تجارت بھی اگرچہ یہاں ہر ایک قسم کی بہت ہوتی ہے مگر برتنوں کی تجارت بہت ہی وافر ہوتی ہے، قدامت میں ملتان کی طرح یہ شہر بھی ضرب المثل ہے، اگرچہ کئی مرتبہ یہ اُجڑا، اور کئی دفعہ آباد ہوا، مگر اخیر آبادی اس کی جو شیخ بہاو الدین زکریا ملتانی رحمۃ اللہ علیہ کے وقت ۶۳۲ھ میں ہوئی، اس سے بعد بھی صدمات اس پر بہت آئے، مگر ویران نہیں ہوا، سکھوں کی فوج نے رنجیت سنگھ کے حملے کے وقت اس کو لوٹا، اور قریب تھا کہ اُجڑ جائے، مگر جب ریاستِ بہاولپور انگریزی حکومت کے تحت میں آکر محفوظ ہوگئی، تو سکھوں کا دستِ غارت پھر اس پر نہ چلا، یہ آبادیاں اونچے ٹیلے کے اوپر ہیں جو پہلے کھنڈرات سے بنے ہیں۔‘‘
مولوی محمد حفیظ الرحمٰن حفیظ بہاولپوری نے تاریخ اوچ میں زمانہ حاضرہ کی اوچ گیلانی کی کل آبادی ایک ہزار پانسو بارہ (۱۵۱۲) نفوس کی لکھی ہے، جن میں سے چھیاسٹھ (۶۶) ہندو ہیں، باقی سب مسلمان ہیں۔
خانقاہِ مبارک
آپ کے مزار مبارک پر مخدوم سید حامد محمد گنج بخش کلان سجادہ نشین چہارم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے عہد خلافت میں ۹۷۵ھ میں روضہ عالی اور گنبد بلند تعمیر کیا، جس کی تاریخ لفظ ’’جہد شیخ حامد‘‘ سے نکلتی ہے، پھر مخدوم سید شمس الدین ثانی سجادہ نشینِ ہفتم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے عہدِ خلافت میں اُس گنبد کو تنگ ہونے کے باعث گروا کر از سَر نو ۱۰۶۸ھ میں وسیع محل مسقف تیار کر وایا، ابیات مشعر تاریخ عمارت پتھر کی اینٹ پر کندہ کر کے محل شریف کی شمالی دیوار میں باہر کی جانب لگے ہوئے ہیں۔
یا اللہ
اے آمدنت مبارک بادا
حمد ایزو راکہ آخر گشت کار از ابتدا |
|
ور زمانِ صاحب سجادہ شیخ مقتدا |
پھر مخدوم سید حامد محمد گنج بخش ثالث بانی قلعہ سجادہ نشین سیزدہم (۱۳) نے اپنے عہد خلافت میں اس محل شریف کی ترمیم و تزمین کی، اور ۱۱۹۳ھ میں دروازہ عالی از سر نو لگوایا چنانچہ دروازہ پر یہ تاریخ تحریر ہے۔
یا اللہ یا محمد
الٰہی بحقِ بنی فاطمہ |
|
کہ بر قوالِ ایماں کنی خاتمہ |
کتبہٗ تراب اقدامِ کلاب قادریہ فقیر محمد سعید مخدومانہ
یا غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ
اگر دعوتم ردکنی ور قبول |
|
من و دست و دامانِ آلِ رسول |
پھر مخدوم سید شمس الدین سابع سجادہ نشین بیستم نے اپنے عہدِ خلافت میں باہتمامِ منشی شاہ محمد خاں مختار کار ۱۳۲۴ھ میں دوبارہ مرمت کروائی، چنانچہ بر آمدہ درگاہ کے دروازے پر یہ کتبہ تحریر ہے ’’بعونہٖ تعالیٰ بنائے ایں خانقاہ مبارک در زمانِ مخدوم شیخ حامد محمد گنج بخش صاحب کلان سجادہ نشین چہارم ۹۷۵ہجری قرار یافت و پس در عہدِ حضرت مخدوم شیخ حامد محمد شمس الدین صاحب سابع سجادہ نشین بیستم باہتمام منشی شاہ محمد خاں مختار کار در ۱۳۲۴ھ مرمت یافت‘‘ زمانہ حاضرہ میں یہی محل شریف فراخ مزین مسقف موجود ہے، نیچے منقش فرش ہے، خالص محل شریف میں اناسی قبریں ہیں، جو دو قبریں بلند چبوترہ پر سنگِ مر مر کے کٹہرہ کے اندر ہیں مغربی مزار مخدوم سید محمد غوث گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا، اور مشرقی مزار مخدوم سید عبد القادر ثانی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے، باقی سب قبریں سجادہ نشینان و اولاد کی پست چبوترہ پر واقع ہیں، اُن کے گرد لکڑی کا کٹہرہ لگا ہوا ہے۔
مؤلف کتاب ہذا فقیر شرافت عافاہ اللہ ۱۳۵۳ھ کے آغاز میں دربار شریف گیلانیہ پر معتکف رہ کر زیارات اور فیوضات سے مشرف ہوتا رہا ہے۔
جامع مسجد گیلانی
دربار شریف کے شمالی جانب عظیم الشان جامع مسجد ہے تین گنبد ہیں، سامنے کی دیوار پر کانشی کا کام بڑا خوبصورتی سے کیا ہوا ہے جو نہایت دیدہ زیب ہے، اِس مسجد کی تعمیر مخدوم سید شمس الدین ثانی سجادہ نشینِ ہفتم نے ۱۰۸۲ھ میں کروائی، اِس قطعہ سے تاریخ ظاہر ہوتی ہے۔
از عنایاتِ خدا بیچون و چند |
|
شیخ شمس الدین پیر اقبالمند |
بعد ازاں مخدوم سید شمس الدین سابع رحمۃ اللہ علیہ سجادہ نشین بیستم (۲۰) نے ۱۳۲۴ھ میں باہتمام منشی شاہ محمد خاں مختار کار مرمت کروائی۔
مسجد شریف کے تین دروازے ہیں، صحن وسیع ہے، صحن کے جنوبی طرف محل شریف حضرت مخدوم سید محمد غوث گیلانی رحمۃ اللہ علیہ ہے، جس کا دروازہ خاص مسجد میں ہے، اور صحن کے شمالی حصہ میں حوض ہے، پانچوں وقت نماز با جماعت ہوتی ہے، جمعہ کے دن خلقت کا بہت ہجوم ہوتا ہے، حضرت مخدوم صاحب سجادہ نشین دام برکاتہٗ اندرون محلات سے نہایت تزک و احتشام کے ساتھ نماز جمعہ کے واسطے مسجد میں تشریف لاتے ہیں، اِس وقت مسجد گیلانیہ کے خطیب مولی حکیم محمد قطب الدین صاحب آلہ آبادی فاضلِ دیوبند ہیں۔ سلمہ اللہ۔
دار العلومِ قادریہ
یہ دار العلوم شروع سے ہی مخادیمِ گیلانیہ رحمۃ اللہ علیہ کے اہتمام سے جاری ہے، جامع مسجد گیلانی سے شرقی جانب، اور درگاہ شریف غوثیہ سے شمالی جانب دروازہ کے سامنے ہے، وسیع اور بلند گنبد ہے، اس کے دو دروازے ہیں، ایک جنوب کو جو درگاہِ غوثیہ کو سامنا ہے، دوسرا مشرق کو جو بازار میں ہے اس دروازہ پر یہ تاریخ تحریر ہے ’’رب العٰلمین فیاض‘‘ اور یہ بھی ہے، ’’استقلال دار العلوم قادریہ‘‘
اکثر طلبہ اس مدرسہ میں پڑھتے ہیں، جن ایام میں فقیر شرافت عافاہ اللہ درگاہِ غوثیہ میں معتکف رہا، اُن دنوں مندرجہ ذیل طالب علم پڑھتے تھے، مولوی عبد الغنی خوانندہ شرح عبد الغفور، مولوی محمد ظریف خوانندہ مشکوٰۃ شریف، مولوی رحیم بخش خوانندہ کتب حدیث، میاں فیض بخش، سید غلام محی الدین وغیرہم۔
خدامِ درگاہ
زمانہ حاضرہ میں درگاہِ غوثیہ کے سجادہ نشین حضرت مخدوم سید حامد محمد شمس المدین ثامن گیلانی ہیں، اور مدار المہام وزارت پناہ سید غلام زین العابدین شاہ ہیں، سب کاروبار جاگیرات و انتظامِ خانگی و درگاہ شریف انہیں کے اہتمام سے ہو رہا ہے، اور خلفائے مقربین میں سے خلیفہ دائم خاں، اور خلیفہ واحد بخش، اور خلیفہ احمد بخش قابل شخص ہیں، اور منشیان میں سے منشی حسن بخش، اور منشی بقا محمد ہیں، مخدوم صاحب کے اتالیق مولوی غلام رسول صاحب بہاولپوری ہیں، جامع گیلانی کے امام اور مدرسہ قادریہ کے مدرس مولوی محمد قطب الدین آلہ آبادی ہیں، درگاہِ غوثیہ کے مجاوران خلیفہ قادر بخش، اور خلیفہ اللہ بچایا خاں ہیں، اور جاروب کش کا نام میاں حاجی، اور لانگری کا نام میاں پیارا ہے۔
لنگر شریف
لنگر ہر ایک مسافر شب باش کو دو وقت ملتا ہے، رات کو شکر چاول اور دن کو دال روٹی، اور ہفتہ کے بعد ایک دن گوشت بھی ملتا ہے۔
عرس مبارک
جو عُرس قمری تاریخ کو ہوتا ہے، وہ ساتویں محرم کو ہر سال ہوتا ہے اور جو میلہ شمسی تاریخ کو ہوتا ہے، وہ ہر سال ماہِ چیت کے اندر چاروں جمعہ کے دن ہوتا ہے، خصوصًا آخری جمعہ کو بہت ہجوم ہوتا ہے، میلہ کے دنوں میں گوشت روٹی کا لنگر ملتا ہے۔
قطعہ تاریخ
از حضرت مولانا شاہ غلام مصطفٰے صاحب نوشاہی دام برکاتہٗ
چو حضرت شاہ محمد غوث اوچی رفت درجنت |
|
بقربِ غوثِ اعظم یافت منزل خوب سلطانی |
منہ
چوں ز دنیا شاہ محمد غوث رفت |
|
درجناں فائز بشد پیرِ منیر |
منہ
جناب شاہ محمد غوث حسنی |
|
ز دنیا رفت درجنت بہ ابرار |
منہ
چوں رفت پیر ازما اعلیٰ بیافت جنت |
|
تاریخِ رحلت او گفتم۔ شہِ حقیقت (۹۲۳) |
منہ
بجنات چوں رفت شاہ بے ملال |
|
ز۔ مخدومِ (۹۲۳) عالم محمد۔ وصال |
منہ
رحلتِ شاہ ولی مادری |
|
ہادیٔ زہّاد (۹۲۳) شاعر قادری |
منہ
بے سر اندیشہ نوشاہی بگفت |
|
شیخ اچی (۹۲۳) گوہر تاریخ سُفت |
دیگر
از اسماء الحسنیٰ
قابض ودود (۹۲۳) |
قابض ھادی (۹۲۳) |
قابض بدوح (۹۲۳) |
خبیر اعلٰی (۹۲۳) |
خبیر عالی (۹۲۳) |
خبیر کافی (۹۲۳) |
خیر باقی (۹۲۳) |
اٰخر معبود (۹۲۳) |
متکبر اکرم (۹۲۳) |
ستار اکرام (۹۲۳) |
منتقم صابر (۹۲۳) |
مستعان بصیر (۹۲۳) |
باعث نصیر (۹۲۳) |
رشید توّاب (۹۲۳) |
|
(شریف التواریخ)