سید بہاول شیر گیلانی حجروی کے فرزندِ ارشد تھے۔ تعلیم و تربیت اپنے والدِ گرامی ہی سے پائی تھی۔ تمام بھائیوں میں علومِ ظاہری و باطنی میں درجۂ کمال رکھتے تھے۔ ان کے خُسرشاہ کمال بخاری بھی جن کا مزار قصبۂ چونیاں میں ہے اور پیرِ جہانیاں کے خطاب سے مشہورِ زمانہ ہیں۔ اپنے عہد کے کامل و اکمل بزرگ گزرے ہیں ۔۔۔۔
سید بہاول شیر گیلانی حجروی کے فرزندِ ارشد تھے۔ تعلیم و تربیت اپنے والدِ گرامی ہی سے پائی تھی۔ تمام بھائیوں میں علومِ ظاہری و باطنی میں درجۂ کمال رکھتے تھے۔ ان کے خُسرشاہ کمال بخاری بھی جن کا مزار قصبۂ چونیاں میں ہے اور پیرِ جہانیاں کے خطاب سے مشہورِ زمانہ ہیں۔ اپنے عہد کے کامل و اکمل بزرگ گزرے ہیں۔ جب آپ کے پدر بزرگوار نے رحلت فرمائی تو اتفاق سے آپ اس وقت حجرہ میں نہیں تھے۔ آپ کے غیر حاضری ہی میں انھیں دفن کردیا گیا۔ جب آپ سفر سے واپس آئے تو دیدارِ پدر کے لیے نہایت مضطرب و بیقرار تھے۔ آپ نے چاہا کہ قبر کھول کر والدِ بزرگوار کا دیدار کیا جائے۔ چنانچہ آپ نے دیگر معتقدین ولواحقین پر یہ قدغن لگادی کہ کوئی قبر شریف کے پاس نہ آنے پائے۔ قبر پر خیمہ لگا کر اسے کھولاگیا۔ ایک معمار کسی طرح چھپ کر خیمہ کے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوگیا تاکہ وہ حضور کی زیارت سے مشرف ہوسکے۔ خود حضرت سید محمد نور نے لحد کھولی اور والدِ ماجد کے دیدار سے فیض یاب ہوئے۔ مگر وُہ چھپا ہُوا معمار تابِ دید نہ رکھتا تھا، اسی وقت اندھا ہوگیا۔ کچھ عرصہ کے بعد سید محمد نور نے آپ کی قبر پر گنبد بنانے کا ارادہ کیا۔ جہاں اور معمار تعمیرِ گنبد کے لیے آئے وہاں یہ اندھا معمار بھی حاضر ہوا اور درخواست کہ کہ اگر میں بینا ہوجاؤں تو حضرت کا مقبرہ خود بناؤں۔ فرمایا: اچھا یونہی سہی۔ دن بھر جب تُوکام کرتا رہے گا، بینا رہے گا۔ جب کام سے فارغ ہوگا تو اندھا ہوجائے گا۔ چنانچہ جب تک مقبرہ بنتا رہا اسی طرح ہوتا رہا۔ ۹۸۸ھ میں وفات پائی۔
گشت درجنّت چو روش مثلِ ماہ سالِ وصلش شفقتِ حق گو نیز ۹۸۸ھ
|
|
نورِ دیں نور محمد شاہ نور سالکِ اکبر محمد شاہ نیز ۹۸۸ھ
|