حضرت سیّد قطب الدین حَیدر
حضرت سیّد قطب الدین حَیدر (تذکرہ / سوانح)
حضرت سیّد قطب الدین حَیدر بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ کا اسم گرامی سیّد قطب الدین بخاری، عرف محمد اشرف اور لقب حیدر حسین ہے۔ آپ کی ولادت با سعادت ماوراء النہر میں ہوئی۔ ماوراء النہر ہی میں مختلف اساتذہ سے حدیث، فقہ، تفسیر اور معقولات و منقولات میں یدِ طولیٰ حاصل کیا۔ آپ عالمِ باعمل اور فاضلِ بے بدل تھے۔ کئی زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ پیرِ کامل کی تلاش میں سرہند شریف پہنچے اور حضرت خواجہ محمد زبیر قیّوم چہارم قدس سرہ کے دستِ حق پرست پر بیعت کر کے اجازت و خلافت حاصل کی اور اپنے شیخ کے انتقال کے بعد مسندِ خلافت پر بیٹھے۔
آپ کو امراء و اغنیاء کے اختلاط سے سخت نفر تھی۔ آپ شب و روز تلاوتِ قرآن مجید، ذکر الٰہی اور درود شریف میں مشغول رہتے تھے۔ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں فنا فی الرّسول کے درجہ تک پہنچے ہوئے تھے۔ اور زیارتِ روضۂ انور کے لیے دن رات تڑپتے رہتے تھے۔
مسندِ شیخ پر چند سال بیٹھنے کے بعد ایک صاحبزادہ صاحب کے ساتھ کسی بات پر جھگڑا ہوگیا اور یہ جھگڑا اور رنجش یہاں تک پہنچی کہ آپ کی غیرت اور رنجیدگی سے سرہند شریف تباہ ہوگیا اسی واسطے حضرت امام رفیع الدین رحمۃ اللہ علیہ کو بانیٔ سرہند اور آپ کو فانی سرہند کہتے ہیں۔ چھ سال تک سرہند شریف میں لرزہ اور زلزلہ رہا۔[۱]
[۱۔ سرہند شریف سے دہلی میں آکر آپ حضرت خواجہ باقی بااللہ کے آستانے پر کچھ عرصہ حاضر رہے تھے (قصوری)]
۱۱۷۳ء میں آپ حضرت حافظ سیّد محمد جمال اللہ قدس سرہ کو اپنا خلیفہ و جانشین مقرر کر کے مدینہ منوّرہ روانہ ہوگئے۔ راستے میں ہر دو قدم پر سو سو بار درود شریف پڑھتے اور ہر فرسنگ پر دوگانہ نماز ادا کرتے تھے۔ راہ میں طرح طرح کے عجائبات ملاحظہ میں آئے مدینہ شریف کے قریب پہنچ کر دوگانۂ شکریہ ادا کر کے پا برہنہ شہر میں داخل ہوئے اور دیوانہ وار درودیوار کو چومتے ہوئے روضہ مقدسہ پر حاضر ہوئے۔ اور شرفِ زیارت سے مشرّف ہوکر سعادتِ ابدی اور دولتِ سرمدی کو پہنچے۔ پھر آپ کو مدینہ طیّبہ کی جدائی گوارا نہ ہوئی اور وہاں کی فضائے جان فزا دل کو ایسی بھائی کہ زبانِ حال سے پُکار اُٹھے۔ کہ اب یہاں سے کہیں نہیں جاؤں گا، محبوب کے قدموں ہی میں جان دے دوں گا۔ بقول حکیم سنائی رحمۃ اللہ علیہ
باد و قبلہ در رہِ توحید نتواں رفت راست |
|
یا رضائے دوست بایٔد یا ہوائے خویشتن |
توحید کے راستے میں دو قبلوں کے ساتھ چلنا درست نہیں۔
یا دوست کی مرضی کرنا چاہیے یا اپنی نفسانی خواہش پر عمل۔
ازاں بعد جنّت البقیع میں حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے روضۂ مبارک کے قریب جہاں قبۂ مبارک کا پانی گرتا ہے، جا بیٹھے اور ذکر الٰہی میں مشغول ہوگئے کہتے ہیں کہ حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور سے لوگوں کو بشارت ہوئی کہ سیّد قطب الدین میرا فرزند اور میرا مہمان ہے۔ اس سے باطنی فیوض و برکات حاصل کر۔ چنانچہ بہت سے لوگ آپ کی خدمت با برکت میں بصد آداب و احترام حاضر ہوئے اور سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ مجدّدیہ میں داخل ہوکر دین و دنیا عقبیٰ و آخرت اور ظاہر و باطن کی نعمتوں کے سزاوار ٹھہرے۔
وفات
آپ نے ۱۱؍رجب ۱۱۸۰ھ/۱۷۶۶ء کو رحلت فرمائی تو روضہ مقدسہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی جالی مبارک سے ایک دستار برآمد ہوئی اور ارشاد ہوا کہ میرے فرزند قطب الدین کو اسی کا کفن دو۔ چنانچہ وہ دستار فیض آثار آپ کے کفن کو کافی دوافی ہوئی۔ آپ کا مزارِ پُر انوار حضرت خواجہ آدم نبوری رحمۃ اللہ علیہ [۲] (خلیفہ حضرت مجدّد الف ثانی قدس سرہ) اور خواجہ محمد پارسا رحمۃ اللہ علیہ[۳] (مرید و خلیفہ حضرت خواجہ خواجگان خواجہ نقشبند بخاری قدس سرہ) کے مزارات کے قریب جنت البقیع مدینہ منوّرہ میں واقع ہے۔ اور یہ تینوں مزارات حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے روضۂ مبارک کے شمال مغربی گوشہ میں واقعہ ہیں۔ اور دوسری قبروں سے ممتاز ہیں۔ حضرت عثمان ذالنُّورین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مزار مقدس کی چھت کا پانی آپ کے مرقد انور پر گرتا ہے۔[۴]
جِس طرح ہندوستان میں خواجہ غریب نواز حضرت خواجہ بزرگ معین الدین حسن سنجری اجمیری رحمۃ اللہ علیہ ہندالولی مشہور ہیں۔ اسی طرح مدینہ منوّرہ میں آپ بھی ہندالولی کہے جاتے ہیں۔
[۲۔ حضرت خواجہ سیّد آدم نبوری رحمۃ اللہ علیہ حضرت مجدّد الف ثانی قدس سرہ کے ارشد خلفاء میں سے تھے۔ آپ کی وفات ۱۳؍شوال ۱۰۵۳ھ کو ہوئی۔ جنت البقیع مدینہ منورہ میں دفن ہوئے۔ (قصور)]
[۳۔ خواجہ محمد پارسا رحمۃ اللہ علیہ ۷۳۹ھ میں بخارا میں پیدا ہوئے۔ حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ شرف بیعت حاصل کرکے روحانی منازل طے کیں اور حضرت خواجہ کے ممتاز خلفاء میں شمار ہوئے۔ آپ نے طریقہ نقشبندیہ پر بڑی جامع تصانیف کی اشاعت کی جو آج تک سلسلہ نقشبندیہ کیے اصول احوال پر بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ آپ کو وصال ۸۲۲ھ میں بعمر شریف تراسی (۸۳) سال مدینہ منورہ میں ہوا ۔ (قصوری)]
[۴۔ تُرک دورِ حکومت تک جنت البقیع میں تمام مزارات مقدسہ بڑی شان کے ساتھ موجود تھے۔ مگر نجدی دور حکومت میں ہل چلا کر تمام مزارات کو منہدم کردیا گیا ہے۔ تفصیل کے لیے شورش کاشمیری کی کتاب ’’شب جائے کہ من بودم‘‘ اور صلاح الدین محمود کی کتاب ’’خاکِ حجاز کے نگہبان‘‘ کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ (قصوری)]
(تاریخِ مشائخ نقشبند)