آپ حسب و نسب میں صاحب فضیلت بزرگ تھے، آپ کے آبا ؤ اجداد سب کے سب عالم، صالح اور متقی تھے، تفسیر معینی کے مصنف میر معین الدین آپ کے اجداد میں سے تھے جو سالہا سال تک مدینہ منورہ کے مجاور رہے ہیں اور اب تک آپ کی اولاد میں سے بعض مکہ معظمہ میں قیام پذیر ہیں، یہ تفسیر معینی جامع پاکیزہ اور مفید تفسیر ہے، اس کے علاوہ چند رسائل جو جزوی مسائل کی تحقیق میں ہیں سپرد قلم کیے ہیں۔
شیخ صفی الدین کی طرف نسبت کرنے والے اپنے کو سادات صفویہ بتلاتے ہیں یہ بھی آپ کے اجداد میں سے ہیں، غالباً شیخ الحدیث قدوتہ المحققین مولانا جلال الدین محمد دوانی جن کو سادات اسلامیہ کہتے ہیں یہ بھی آپ کے اجداد میں سے تھے اور یہ وہ بزرگ ہیں جن کو روضۂ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کے سلام علیک کا جواب ملا کرتا تھا، غرضیکہ میر سید رفیع الدین صفوی بڑے دانشمند محدث تھے، جودو سخاوت اخلاق اور مہربانیوں کے مجسمہ تھے آپ معقولات میں مولانا جلال الدین کے شاگرد ہیں جو آپ کے آباؤ اجداد کی بزرگی کے پیش نظر شیراز میں آپ کے گھر آکر آپ کو پڑھاتے تھے، آپ کے علم حدیث میں شیخ شمس الدین محمد ابن عبدالرحمٰن محقق علم حدیث اور قدوۂمتاخرین سے شرف تلمذ حاصل ہے، کہتے ہیں کہ شیخ سخاوی نے میر سید رفیع الدین کی آمد سے قبل تقریباً پچاس کتابوں سے روایت کرنے کی اجازت دی تھی جس کے بعد میر سید رفیع الدین نے بالمشافہ حدیث پڑھی اور عرصہ دراز تک شاگرد رہے۔
آپ کا اصل وطن شیراز تھا اور پیدائش بھی شیراز میں ہوئی ہے اس کے بعد اپنے والدین کے ساتھ حرمین شریفین میں سکونت پذیر ہوگئے پھر سلطان سکندر کے کے زمانے میں گجرات سے دہلی روانہ ہوئے اور سلطان سکندر کو آپ سے بے حد عقیدت تھی اگرچہ آپ کو مال و دولت بہت ملتا تھا لیکن سب کو اللہ کے راستہ میں لٹادیتے تھے آخر میں سلطان سکندر کی اجازت سے آگرہ میں مقیم ہوگئے، اب آپ کی نسل میں سے کوئی بھی زندہ نہیں ہے جس کو آپ سے معمولی سی بھی رشتہ داری ہو، آپ کی نسل بالکل ختم ہوگئی ہے ایک فرد بھی زندہ نہ رہا انا للہ وانا الیہ راجعون آپ نے 954ھ میں وفات پائی، آپ کا مزار آگرہ میں آپ کے اسی گھر میں ہے جہاں آپ مقیم تھے اللہ آپ پر رحمتیں نازل کرے۔
اخبار الاخیار