حضرت سید سالار مسعود غازی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
آپ علوی سادات عظام میں سے تھے۔ حضرت محمد حنیفہ بن علی کرم اللہ وجہہ کی نسبت سے سلسلۂ نسب حضورنبی کریمﷺ سے ملتا ہے۔ آپ کے والد میر ساہوبن عطاء اللہ علوی تھا آپ کی والدہ ماجدہ سترمعّٰلی سلطان محمود سبکتگین غزنوی کی بیٹی تھیں۔ آپ کا اسم مبارک میر مسعود تھا۔ دہلی کے نواح میں آپ کا نام پیر پلہم مشہور تھا۔ دیار خراسان میں رجب سالار سے مشہور تھے بعض مقامات پر میاں غازی اور میاں بالی کے ناموں سے پکارے جاتے تھے۔ بالا پیر اور تہیلا پیر آپ کا ہی لقب تھا۔ آپ کا لقب مبارک سلطان الشہید اور سیدالشہید تھا۔ اہل تصوف کا اس بات پر اتفاق ہے۔ کہ آپ کی شہادت کے بعد بھی جو بھی شہادت کے رتبہ پر فائز ہوا۔ تو آپ کی اتباع میں شہید ہوا۔
آپ خواجہ محمد چشتی اور ابو یوسف چشتی کے ہمعصر تھے بعض کتابوں میں آپ کو خواجہ حسن سنجری خواجہ بزرگ معین الدین اجمیری کا ہم عصر لکھا ہے۔ اور آپ کے خادموں میں شمار کیا ہے ہمارے نزدیک اس بات میں سچائی نظر نہیں آتی مرأۃ سکندری میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت خواجہ مسعود غازی کو مادرزاد ولی پیدا فرمایا تھا۔ ظاہری معاملات دنیام میں مصروف ہونے کے باوجود احوال باطنی میں مشغول رہتے تھے۔ معارج الولائیت کے مصنف لکھتے ہیں۔ کہ جب مظفر خان حَاکمِ ہر مزار حوادثِ روزگار کی وجہ سے پریشان ہوا۔ تو اجمیر کے قلعہ میں فرد کش ہوا۔ ہندوستان کے زمیندار چاہتے تھے کہ مظفر خان کو اس قلعہ سے باہر نکال دیا جائے۔ اس نے محمود غزنوی کو پیغام بھیجا کہ اس کی امداد کے لیے آئے۔ سلطان محمود غزنوی ۹؍ذوالحجہ ۴۰۱ھ نے اپنے میر ساہو سپہ سالار علوی کو ایک لشکر جرار دے کر قندھار سے روانہ کیا۔ کہ وہ مظفر خان کی امداد کو پہنچے۔ میر ساہو اجمیر میں پہنچا۔ تو اس وقت مظفر خان سے مل کر اپنے دشمنوں سے جنگ میں مصروف ہوگئے۔ فتح یاب ہوکر اجمیر کے گرد و نواح کے علاقوں پر قابض ہوچکا تھا امن و امان قائم ہونے پر آپ نے اپنی بیوی ستر معلی کو غزنی سے اجمیر بلالیا۔ چنانچہ میر سعود غازی اجمیر میں ہی بتاریخ ۲۱؍ رجب المرجب ۴۰۵ھ کو پیدا ہوئے۔ سن شعور کوپہنچے کمالات ظاہری اور باطنی سے آراستہ ہوئے۔
حضرت سلطان محمود غزنوی بذات خود ۴۰۷ھ میں فتوح متوجہ ہوئے، تو راستہ میں دامنِ کوۂِ کشمیر میں قیام کیا۔ اور قلعہ گلچند کو فتح کیا۔ اور کاہلر میں اپنا نائب مقرر کرکے واپس غزنی چلے گئے۔ وادئ کشمیر کے زمینداروں نے چڑھائی کرکے قلعہ گلچند کے محافظوں اور کاہلر کو قتل کردیا۔ چنانچہ محمود غزنوی نے پھر اپنے سپہ سالار میر ساہو علوی کو حکم دیا۔ کہ وہ اجمیر سے نکل کر حکومت کاہلر کے انتظامات کو درست کریں۔ آپ اجمیر کی بجائے کاہلر میں قیام پذیر ہوگئے۔ کچھ عرصہ بعد محمود غزنوی نے سومنات کے حملہ کی تیاری شروع کی۔ اس زمانہ میں حضرت میر مسعود غازی ایک ابھرتے ہوئے نوجوان تھے۔ میر ساہو نے اپنے اس نوجوان بیٹے کو کئی ہزار نوجوانوں کی سر کردگی میں سلطان مہم میں شرکت کرنے کے لیے بھیجا۔ آپ نے اس مہم میں بڑی جرأت کا مظاہرہ کیا۔ محمود غزنوی اس نوخیز نوجوان کے حسنِ انتظام سے بے حد متاثر ہوا۔ سومنات فتح ہوا۔ سومنات کے بت کو محمود غزنوی نے اپنے ساتھ اٹھالیا تاکہ اس کے بعد ہندوؤں کو اس بت پرستی سے محروم کردیا جائے۔ محمود غزنوی نے اس بت کو مسجد غزنی کے سامنے پھینک دیا۔ اس لشکر میں میر مسعود غازی اپنی فوج کے ساتھ غزنی میں آئے تھے۔ ہندوستان کے کافروں کے پیغام رساں محمود غزنوی کے وزیر اعلیٰ خواجہ حسن مہمندی کی خدمت میں حاضر ہوکر درخواست گذار ہوئے کہ سلطان غزنوی کو آمادہ کریں کہ وہ ہمارے اس معبد بت کو اس طرح ذلیل نہ کرے اور اسے عبادت کے لیے ہمیں لوٹادے۔ ہم اس بت کے وزن کے برابر خالص سونا دینے کو تیار ہیں۔ خواجہ حسن مہمندی اس خطیر معاوضے پر راضی ہوگئے۔ اور سلطان محمود کی خدمت میں گذارش لے کر اندر گئے۔ اتفاق سے حضرت میر مسعود غازی بھی دربار میں موجود تھے۔ آپ جرأت سے اٹھے اور فرمانے لگے۔ کیا وزیر اعظم چاہتے ہیں کہ قیامت کے دن آذر کوبت تراش پکارا جائے اور محمود غزنوی کو بت فروش کہا جائے؟ آج تک سارے ہندوستان میں اور عالمِ اسلام میں سلطان محمود کی شہرت ’’بُت شکن‘‘ ہے پھر لوگ سلطان بت فروش کہہ کر پکاریں گے۔ وزیراعظم کی یہ سکیم تو پوری نہ ہوئی مگر اس نوجوان کی تقریر سے وزیراعظم کبیدہ خاطر ہوگیا۔ اور اس کی دلی خواہش تھی۔ کہ اسے کسی طرح اپنے انتقام کا نشانہ بنایا جائے۔
سلطان محمود اس صورت حال سے واقف تھا۔ ایک دن مہمندی کی دل جوئی کے لیے سلطان نے خواجہ مسعود سالار کو علیحدہ طلب فرمایا اور مسعود غازی کو مشورہ دیا۔ کہ آپ والدین کاہلر میں تمہارے منتظر ہیں تم وہاں پہنچو اور کچھ عرصہ کے لیے آرام کرو شکار کھیلو جب کسی مہم کی ضرورت پڑی تمہیں بلالیا جائے گا چند دن بعد اپنے سپہ سالار افواج مہکائیل کو اپنا وزیراعظم مقرر کردیا۔ اور کہا مجھے خواجہ حسن بہت پسند ہیں مگر بت فروشی کا تصور ذہن میں لانے والے سلطنت غزنویہ کے لیے مفید نہیں ہیں حضرت مسعود غازی غزنی سے روانہ ہوکر ہندوستان آئے۔ اور اپنے والدین کے پاس پہنچے۔ کچھ عرصہ کے بعد کئی ہزار لشکر کو لے کر ملتان کی شورش کو ختم کرنے کے لیے ملتان آئے وہاں سے پاک پٹن ہوتے ہوئے دہلی گئے۔ اور پھر قنوج میں قیام پذیر ہوئے۔ دریائے گنگا کے کنارے کے ایک طرف ہندوؤں کی سلطنت تھی حضرت غازی مسعود کی دلی خواہش تھی کہ ان علاقوں کو فتح کرلیا جائے اس وقت دہلی پر راجہ ہیسپال کی حکومت تھی۔ آپ نے کچھ عرصہ میں دہلی کے گرد نواح کے علاقوں کو اپنے حملوں سے صاف کردیا۔ پھر دہلی کے راجہ ہیسپال کو مقابلے کے لیے للکارا۔ راجہ بے پناہ لشکر لےکر مقابل آیا۔ ایک ماہ تک جنگ جاری رہی۔ اسی اثنا میں یہ خبر آئی۔ کہ دولت غزنویہ کے چند امرا جن میں ملک مہی بختیار۔ میر سیف الدین علوی۔ سیّد غرالدین۔ ملک دولت خان۔ میاں رجب وغیرہ جیسے معروف سپہ سالار شامل تھے۔ وزیر اعظم حسن مہمندی سے ناراض ہوکر ہندوستان آگئے اور وہ سیدھے میر مسعود کی خدمت میں آئے غازی مسعود سالار نے اس انقلاب اور امراء کے آنے کو اللہ تعالیٰ کی عنایت میں سے جانا۔ اور ان کا زبر دست استقبال کیا۔ اور بڑے اعزاز و اکرام سے اپنے لشکر میں مناسب مناصب پر مقرر کیا۔ اس دن لڑائی کا سخت ترین دن تھا۔ میر سیّد غرالدین چند نواجوانوں کے ساتھ شہید ہوگئے۔سالار مسعود غازی اپنے اشرف الملک کے ساتھ بات کررہے تھے۔ کہ راجہ ہیسپال کے لڑکے گوپال نے اپنے پر گرز سے حملہ کردیا۔ اس گرز کا وار تو خالی گیا۔ مگر آپ کی ناک زخمی ہوگئی اور دندان مبارک بھی زخمی ہوگئے۔ اشرف الملک نے یہ صورت حال دیکھی تو تلوار اٹھا کر آگے بڑھے اور گوپال کو ایک ہی وار سے وصل جہنم کردیا۔ اور پھر کفار کے لشکر پر بھروپور حملہ کردیا۔ شام سے پہلے پہلے راجہ ہیسپال بھی میدان جنگ میں مارا گیا۔ اور فتح کے بعد دہلی کے پایۂ تخت پر قبضہ کرلیا گیا۔
اس جنگ کے خاتمے پر بے پناہ مالِ غنیمت مسلمانوں کے ہاتھ آیا۔ حضرت میر مسعود پورے چھ ماہ دہلی میں قیام پذیر رہے وہاں کے معاملات کو ازسر نو درست فرماتے رہے اور سکہ و خطبہ بنام سلطان محمود غزنوی چلنے لگا۔ چھ ماہ کے بعد ملک بایزید کو دہلی کا گورنر مقرر فرماکر خود میرٹھ پر متوجہ ہوئے۔ میرٹھ سے زمینداروں کو اسلام کے زیر نگین کیا۔ یہ خبر سنتے ہی محمود غزنوی بڑا خوش ہوا۔ اس وقت ایک اجلاس میں خواجہ حسن مہمندی کو وزارت عظمیٰ سے ہٹا دیا۔ اور امیر جنگ میکائیل کو وزارت کا قلمدان سنبھالنے کا اعلان فرمادیا حضرت امیر مسعود میرٹھ کے علاقوں کو فتوحات کے بعد قنوج پر حلمہ آور ہوئے۔ اس علاقے کے زمینداروں نے مل کر آپ سے مقابلہ کیا۔ اس سارے علاقہ میں ان جنگلوں سے جو تباہی آئی۔ اس کے نتیجہ میں قنوج سے لے کر اودوھ تک تھوڑا سا علاقہ محفوظ اور آباد رہا۔ قنوج کی سلطنت ان دنوں راجہ جیپال کے پاس تھی۔
اسی مہم کے دوران آپ کے چچا سیّد سیف الدین کو رخصت کرکے ایک لشکر کی سربراہی میں برانچ کی طرف روانہ کیا۔ آپ کے ساتھ میر نصراللہ جو اپنی قوم کے سپہ سالار تھے آپ کی مدد کے لیے ساتھ روانہ کیا میاں رجب جو آپ کے راز دار اور کوتوال تھے کو بھی اسی لشکر کے ساتھ کہا اور ان کے لڑکے کو کوتوال بنادیا میاں رجب اس لشکر میں شریک ہوئے اور ایک معرکے میں میر سیّد سیف الدین شہید ہوگئے۔ سید میر سیف الدین کا مزار بہرانچ میں ہے اور ایک بہت بڑا گنبد آج تک قبر پر موجود ہے اس قبر مبارک پر لوگوں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ اس شہر میں میر نصراللہ ایک میل کے فاصلہ پر آسودۂ خاک ہیں۔ یہ روضہ برسات کے موسم میں زیارت گاہ عوام ہوتا ہے میر مسعود غازی کی خانقاہ عالیہ سے ایک میل کے فاصلے پر میاں رجب کا مزار ہے۔ چونکہ اس قبر پر صاحب مزار کے جلالی تاثرات موجود ہیں عام لوگ وہاں جاتے ہوئے خوف کھاتے ہیں۔
ملک مہی بختیار جو حضرت مسعود غازی کے رشتہ دار بھی تھے۔ ایک لشکر جرّار لےکر اس علاقہ کی طرف بڑھے۔ فتح پر فتح کرتے ممالک شرفیہ کوز پر تصرف لے آئے۔ آپ کی فتوحات کا سلسلہ خطۂ کا نور تک جاپہنچا۔ وہاں پہنچ کر آپ نے شربت شہادت نوش کیا۔ آپ کا مزار پُر انوار خطہ کانور میں واقع ہے اس مقام سے حضرت مسعود غازی نے میر حسن عرب کو جنوب کی طرف روانہ کیا۔ وہ قصبہ مہدیہ داکاسی تک ایک بڑا لشکر لے کر پہنچے وہاں پہنچ کر انہوں نے بڑے کارنامے انجام دئیے اور لڑتے لڑتے شہادت پائی۔ اس سر زمین میں آج تک شہدا کے مقابر پائے جاتے ہیں۔
سیّد غرالدّین المعروف بہ لعل پیر ایک لشکر لے کر قصبہ گوپامو اور اس کےملحقات کی طرف بڑھے۔ اس علاقہ میں آپ نے بہت بہادرانہ جنگیں لڑیں۔ اور میدان جنگ میں شہید ہوئے۔ آپ کا مرقد گوپامو میں زیارت گاۂِ خلق بناہوا ہے ملک فضل کو ان کے اہل و عیال اور اقربا سمیت بنارس اور اس کے نواح کی طرف جانے کا حکم دیا۔ وہ بھی مرتبہ شہادت پر فائز ہوئے اسی طرح ملک عمر اور طغرل کو ان کے ساتھیوں کے ساتھ میواڑہ کی طرف روانہ کردیا۔ آپ نے بھی اسی نواح شہادت پائی۔ ملک عمر اور طغرل کے مزارات بخبور میں واقعہ ہیں خاص و عام کی زیارت گاہ نہیں انہیں حضرات میں سے میر سید قاسم بھی اسی علاقہ میں شہید ہوئے تھے۔ آپ کا مزار قصبہ مددسرائے اور کنتور کے درمیان واقع ہے۔ ان کے پہلو میں ہی ابراہیم خواص شیخ صدّد اور شیخ بدد اور دوسرے شہداء عظام آسودہ ہیں۔ ان کے دوسرے احباب شہید اور دوسرے شہدا قصبہ سد ہور میں آرام فرماہیں انہیں پیر کھوکھر بھی کہتے ہیں۔ ان اصحاب کے علاوہ نرانجی شہید اور دسوائے شہید تصرفات روحانی اور باطنی میں ممتاز مانے جاتے ہیں ان کے علاوہ حاجی شریف شہید ہیں۔ ان کا روضہ اقدس موضع انبورہ سلیکہ پر گنہ میں واقع ہے آپ کے جان نثار دوستوں میں قاضی طاہر شہید خاص طور پر قابلِ ذکر بزرگ ہیں جن کا مزار پرگنہ سدھور کے جنگل میں پایا جاتا ہے آپ کے دوسرے فدیوں میں حضرت میر سیّد عبداللہ شہید اپنے تمام شہید دوستوں سمیت قصبۂ ابنہی میں آسودہ خاک ہیں۔ اس طرح حضرت سیّد الشہید جناب مسعود غازی نے اپنے احباب کو وسط ہند کے ان جنگلی محاذوں پر داد شجاعت دینے پر لگا دیا تھا کہ انہوں نے کفار کے مقابلے میں لڑتے لڑتے قدم قدم پر قربانیاں دیں آپ اس عرصہ میں قصبہ سترگہ میں قیام پذیر ہوئے اسی اثنا میں آپ کو خبر ملی کہ آپ کی والدہ مکرمہ ستر معّٰلی کاہلر میں دفات پاگئی ہیں۔ میر ساہو علوی نے آپ کی والدہ کا جنازہ غزنی کو بھیج دیا اور خود اپنے بیٹے کو ملنے اور اسے تسلّی دینے کے لیے سترگہ تشریف لائے باپ کے آنے کی خبر سن کر سلطان الشہداء میر مسعود غازی استقبال کے لیے آگے بڑھے۔ اور والد مکرم کو نہایت اعزاز و احترام سے اپنے گھر لائے اس سال حضرت سلطان محمود غزنوی واصل بحق ہوئے آپ کو غزنین کے باغ فیروزی میں دفن کیا گیا جونہی سلطان محمود کی وفات کی خبر برصغیر ہندوستان میں پہنچی کافرون کے حوصلے بلند ہوگئے اور وہ جوق در جوق اسلامی لشکر اور چھاؤنیوں پر ٹوٹ پڑے وہ متفق ہوکر چاہتے تھے۔ کہ اسلام کے نام لیواؤں کو ہندوستان سے نکال باہر پھینکیں ایک منافق حجام نے یوں کیا حضرت میر کی حجامت بناتے وقت ناخن تراش زہر میں بھگو کر ناخنوں میں زخم لگادیا تاکہ زہر آپ کے جسم میں سرایت کر جائے آپ کو زہر اثر کرنے ہی والا تھا کہ آپ کے خادموں کو معلوم ہوگیا میر ساہو نے حکم دیا کہ اس بدنہار سازشی حجام کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے میر ساہو ایک لشکر لے کر علاقے کے ہندو زمینداروں پر ٹوٹ پڑے بڑی جنگ کے بعد بہت سے دشمن کھیت رہے ہندو زمینداروں کے دوبڑے سرداروں کو قید کرکے زنداں خانے میں رکھا گیا ملک عبداللہ راجو کو قصبہ گرد اور ملک حیدر کو مانک پور میں متعین کردیا اور خود اپنے مرکز کی طرف واپس آگئے چند دنوں بعد میر سیف الدّین نے بُہرانچ سے عرضداشت بھیجی کہ اس علاقے کے کافروں نے بہت بڑا حلمہ کردیا ہے اس لیے میری امداد کو پہنچنا چاہیے حضرت میر مسعود غازی نے اپنے والد مکرم میر ساہو سے رخصت لی اور بہرانچ کو روانہ ہوئے آپ وہاں پہنچے ہی تھے کہ دشمنوں کا زور ٹوٹنے لگا اسی اثنا میں دو ماہ کے بعد آپ کو اپنے والد میرساہو کے انتقال کی خبر ملی کہ وہ بتاریخ ۲۴؍ماہ شوال ۴۲۳ھ سر درد کی شدت سے انتقال فرماگئے ہیں۔ قصبہ سترگہ میں دفن کردیے گئے یہ خبر سنتے ہی دشمنوں نے پھر شورش برپاکردی اور اسلامی لشکر پر چاروں طرف سے حملے ہونے شروع ہوئے آخر کار تیرہ ماہ رجب کی آخری رات کو موضع جوگی کے جو شہر سے ایک کوس کے فاصلہ پر تھا سخت جنگ کا آغاز ہوا پیر کے دن علی الصباح سالار سیف الدین کو ایک لشکر دے کر تمام سپاہیوں کے جمع کرنے کا حکم دیا خود حضرت سلطان الشہید غازی مسعود نے غسل کرکے عمدہ پوشاک زیب تن کی شمشیر اور خنجر سے مسلح ہوئے اور خوش و خرم شہر سے باہر نکلے۔ میر سیّد ابراہیم کو جو آپ کے ہم عمر بھی تھے اور محبوب و مصاحب بھی تھی چند معتبرا مراء کے ساتھ ڈہرہ میں چھوڑ کر سوار ہوئے اور اپنی فوجوں کو عسکری قاعدے سے ترتیب دے کر میدان جہاد کو روانہ کیا۔ یہ لشکر باغ سورخ کندپہنچا انہوں نے دیکھا کہ دشمن سالار سیف الدین پر غالب آرہے ہیں میر نصراللہ کو چند امراء کے ساتھ سالار موصوف کی امداد کو روانہ کیا اور خود درختوں کے ایک چبوترے پر بیٹھ کر جنگ کی کارروائیوں کی نگرانی کرنے لگے۔
ہفتہ کے روز یہ جنگ زوروں پر تھی۔ اتوار کی دوپہر تک سخت جنگ جاری تھی اسی جنگ میں آپ کے اکثر ساتھی جن میں سیّد نصراللہ میاں رجب کوتوال اور سالار سیف الدّین تھے شہادت کے رتبہ پر سرفراز ہوئے بعضے دفنادئیے گئے بعضے سورخ کند کے حوض میں ڈال دیے گئے بعض کو انہی کپڑوں میں لپیٹ کر خاک بوس کردیا گیا حضرت میر مسعود غازی گھوڑے سے اترے تازہ وضو کیا شہداء کی نماز جنازہ ادا کی فاتحہ خوانی کے بعد دوبارہ اپنی جنگی گھوڑی پر سوار ہوئے۔ بقّیۃ الَسیّف ساتھیوں کو ساتھ لے کر دوبارہ میدان جنگ میں اترے آپ کی جرات دیکھ کر کافروں کا لشکر میدان جنگ سے بھاگ کھڑا ہوا آپ اپنے باغ میں رک گئے اور اپنے ساتھیوں کو جمع کرنے لگے دشمنوں نے پھر اپنے قدم جمالیے اور لوٹ آئے اس میدان جنگ میں حدِ نگاہ تک کشتوں کے پُشتے دکھائی دیتے تھے۔ مورّخہ چودہ رجب المرجب ۴۲۴ھ بروز اتوارنماز عصر کے وقت قضاء سے چار تیر بیک وقت آپ کے گلے میں آپیوست ہوئے کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے گھوڑی کی پشت سے نیچے گرے سکندر دیوالہ اور دوسرے خدمت گزاروں نے آپ کو چبوترے پر ایک بستر پر لٹادیا سکندر دیوالہ نے آپ کے سرکو اپنے پہلو میں رکھا تھا۔ اور آنکھوں سے آنسوؤں کی نہر جاری تھی وہ زار زار رو رہا تھا سلطان الشہید نے ایک بار آنکھ کھولی تھوڑے سے مسکرائے اور کلمہ ہو زبان پر لائے اور جان جانِ آفریں کے سپرد کردی۔
انا لِلہٖ وَاِنَّا اِلَیْہ رَاجِعُونط
دہلی کے سلطان محمد تغلق بادشاہ بہڑانچ پہنچے میر مسعود غازی کے مدفن کی زیارت کی اور روضہ منورہ مطاہرہ کی زیارت سے آنکھوں کو روشن کیا مجاروں کو ہزاروں روپیہ نقد نذرانہ پیش کیا ایک جاگیر عطاء کی۔ اور روضہ مبارک کی تعمیر نو کرائی۔
حضرت میر مسعود غازی کی شہادت کے بعد آپ سے بہت سی کرامات اور خوارق ظاہر ہوئے ان کرامات کو لکھنے بیٹھیں تودفتروں کے دفتر بھر جائیں بہت سی مخلوق آپ کی کرامات کی قائل ہے ہر سال عرس کے موقعہ پر ہزاروں کی تعداد میں عقیدت مند بڑے بڑے جھنڈے اٹھائے ہندوستان کے گوشے گوشے سے جمع ہوتے ہیں جو لوگ عرس پر پہنچنے سے قاصر ہوتے ہیں وہ اپنے اپنے شہروں اور قصبوں میں حضرت مسعود غازی کے علم تیار کرکے آپ کی یادوں کو تازہ کرتے ہیں۔
صاحب اخبار الاخیار لکھتے ہیں۔ علمبرداروں کی یہ بدعت پہلے موجود نہ تھی حضرت مسعود غازی کی شہادت کے چار سو (۴۰۰) سال بعد یہ رسم نکلی نویں (۹) صدی ہجری میں ہندوستان کا ایک راجہ جس کے اولاد نہیں تھی حضرت سالار کے مقبرے پر حاضر ہوا اور نذر مانی کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے اولاد دے گا تو میں ایک ریشمی جھنڈا جس پر موتی جھڑے ہوں گے حضرت کے دروازے پر چڑاؤں گا اللہ کی مہربانی سے اسی سال اس راجہ کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا اس نے اپنی نذر کو پورا کرنے کے لیے ایک بہت بڑا ریشمی جھنڈا تیار کرایا اور حضرت کے روضہ عالیہ پر نصب کیا اس دن سے اس بدعت کو رواج ملا اب جس شخص کے ہاں اولاد نہ ہوتی نذر مانتا اور جھنڈا لےکر آتا ہوتے ہوتے دہلی اور لاہور تک کے شہروں میں سے ہزاروں علم جانے لگے۔ ڈھول بجانے والے جو اپنے آپ کو حضرت سالار کے مزار کے حقدار قرار دیتے ہیں علم کے آگے ڈھول بجاتے ہوئے اور نذریں اکٹھی کرتے ہوئے روانہ ہوتے ہیں اس علم برداری اور دف بازی میں بڑی بڑی چابکدستی کا مظاہرہ کرتے اور منزل بمنزل پھرتے پھرتے روضہ اقدس پر پہنچتے ہیں جو لوگ حضرت کے روضہ پر نہیں پہنچ سکتے وہ سارے جھنڈے نذرانے اور سازو سامان ان ڈھول بجانے والوں کو بخش دیتے ہیں۔
معارج الولایت کے مصنّف نے آپ کا سن وفات ۴۲۴ھ لکھا ہے تذکرۃ الشہدا اور دوسرے تذکرہ نویس اسی تاریخ کو درست مانتے ہیں مگر صاحب سفینۃ الاولیا نے آپ کا سن وفات ۴۲۹ھ تحریر کیا ہے میرے خیال میں صاحب سفینۃ الاولیا کی تاریخ درست نہیں ہے۔
شاہ سالار سیّد مسعود |
|
غازی دین احمد مختار |
|
||
عقل تاریخ نقلِ آں سرور |
|
گفت محبوب سید سالار |
(خزینۃ الاصفیاء)