سیّد سردار علی شاہ شہید مقیم شاہی ہجویری
سال | مہینہ | تاریخ | |
یوم پیدائش | 1195 | ||
یوم وصال | 1228 | ربيع الأول | 11 |
سیّد سردار علی شاہ شہید مقیم شاہی ہجویری (تذکرہ / سوانح)
سیّد سردار علی شاہ شہید مقیم شاہی ہجویری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
جامع سیادت و شرافت تھے۔ علم و حلم، زہد و تقویٰ اور شجاعت و سخاوت میں یگانۂ آفاق تھے۔ تمام عمر ہدایت و ارشادِ خلق میں گزاری۔ ۱۲۲۸ھ میں شہادت پائی۔ یہ سانحہ اس طرح پر ہوا کہ جب رنجیت سنگھ تمام پنجاب پر قابض ہوگیا تو صاحب سنگھ بیدی جو گورو نانک کی اولاد سے تھا اور موضع اونہ میں مقیم تھا اور رنجیت سنگھ اس کی بڑی عزّت و توقیر کرتا تھا۔ اس وجہ سے وُہ اکثر و بیشتر مسلمانوں پر نار وا ظلم و ستم کرتا رہتا تھا۔ اس بد اندیش نے چاہا کہ حضرات پیرانِ حجرہ کی بھی زمین و جائداد پر قابض ہوجائے۔ اس وجہ سے وُہ اِن حضرات سے معاندانہ رویّہ اختیار کیے رہتا۔ پہلے تو حضرت سردار علی شاہ نے ’’بہ دہنِ سگ لقمہ دوختہ بہ‘‘ پر عمل کرتے ہوئے اسے کچھ زرو و نقد دے کر اہلِ حجرہ کو اس کے فتنہ و فساد سے محفوظ رکھا۔ لیکن جب وہ اس پر بھی باز نہ آیا تو آپ چند خدام اپنے ہمراہ لے کر اس مفسد و حریص کی افہام و تفہیم کے لیے اونہ تشریف لے گئے۔ اس نے وہاں نہایت مکاری سے کام لیتے ہوئے آپ کو اور آپ کے خدام کو گرفتار کرکے قلعہ میں قید کردیا۔ اس پر اہلِ حجرہ بڑے مشوش ہوئے اور آپ کی ربائی کے لیے سوچنے لگے۔ آخر طے پایا کہ یہاں سے چودھری قادر بخش لاہور کو اونہ بھیجا جائے اور وہ کسی نہ کسی طرح حضرت کو وہاں سے رہا کرائے۔ چنانچہ اس تجویز کے تحت اس نے اونہ میں جاکر رہائش اختیار کرلی اور چند روز کے بعد ایک رات کو اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ کسی نہ کسی طرح قلعہ میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگیا اور داخل ہوتے ہی تمام پابہ زنجیر اسیروں کی زنجیر کاٹنی شروع کردیں۔ مگر حضرت نے ازراہِ شفقت و عنایت یہ نہ چاہا کہ پہلے اُن کی رہائی عمل میں آئے۔ چنانچہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ پہلے دوسرے قیدیوں کو رہا کرایا جائے۔ اس کا نتیجہ یہ ہُوا کہ آپ کی اور آپ کے ہم جد ڈھولن شاہ کی اور ایک خادم کی رہائی عمل میں نہ آسکی اور صبح نمودار ہوگئی۔ چودھری قادر بخش۔ اس کے ہمرا ہی اور دیگر خدام تو قلعہ کی دیوار پھاند کر بھاگ گئے۔ مگر آپ اور آپ کا ایک بھائی قلعہ کے اندر ہی رہ گئے۔ ڈھولن شاہ نے پابہ زنجیر ہونے کے باوجود اپنے آپ کو قلعہ کی دیوار کے نیچے گِرا دیا جس سے وہ سخت مجروح ہُوئے اور ایک خادم انھیں اپنے گھوڑے پر اٹھا کر لے گیا۔ اتفاقاً راستے میں گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور سیّد ڈھولن شاہ گھوڑے سے گِر پڑے۔ خادم نے اس خوف سے کہ صاحب سنگھ بیدی کے آدمی اسے آکر پکڑ نہ لیں اُنہیں وہیں چھوڑ کر چلا گیا۔ ڈھولن شاہ نے بہ ہزار دقّت اپنے آپ کو ایک کھیت میں چھپایا اور دن بھر وہیں پڑے رہے۔ رات کو کھیت کے مالک کا لڑکا وہاں آیا اس نے ڈھولن شاہ کو وہاں نہایت خستہ حالت میں پڑے ہوئے پایا اور یہ حالت جاکر اپنے باپ سے کہی باپ بیٹا سکھ ہونے کے باجود انہیں اٹھا کر لے گئے اور صلاح یہ ٹھہری کہ رات گزرنے پر صبح کو انہیں اپنے گاؤں پہنچا دیا جائے۔ اُس سکھ نے اپنے ایک مسلمان ہمسایہ کو جو زراعت میں بھی اس کا شریکِ کار تھا یہ بات بتاکر اُسے تاکید کی یہ راز کسی پر کھلنے نہ پائے۔ مگر اس غدار اور لالچی مسلمان نے صبح ہوتے ہی اُسی ظالم و مفسد صاحب سنگھ بیدی کو جاکر اس کی اطلاع دے دی۔ اُس نے فوراً اپنے سوار بھیجے کہ ڈھولن شاہ، اُس سکھ کو اور اس کے لڑکے کو گرفتار کر کے میرے پاس لایا جائے۔ چنانچہ یہ تینوں اسیر ہوکر اُس کے سامنے آئے۔ اُس نے بلا توقّف اِن تینوں کو نیز حضرت سردار شاہ کو اور ان کے ایک بھائی کو قلعہ کے اندر قتل کرادیا اور اس مقتول سِکّھ کی تمام جائداد اس مخبر مسلمان کو دے دی۔
صاحبِ اسرار الاولیاء کے قول کے مطابق آپ کی ولادت ۱۱۹۵ھ اور شہادت ۱۲۲۸ھ میں واقع ہُوئی۔ اِن کے بعد ان کے فرزند سیّد مدد علی شاہ سجادہ نشین ہوئے جو علم و فضل اور ارشاد و ہدایتِ خلق میں اپنے پدربزرگوار کے صحیح جانشین تھے۔
قطعۂ تاریخِ ولادت و وفات:
شہ و سردار محبوب الٰہی |
|
شریف و سیّد و اشراف و دیندار |