حضرت سید شمس الدین محمد اعظم گیلانی رضی اللہ عنہ
حضرت سید شمس الدین محمد اعظم گیلانی رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
آپ سلطان الاوتاد، رئیس الافرا، قطب الواصلین، غوث العالمین، مہر سپہر حقائق، بدرِ فلک دقائق، جمالِ شریعت و طریقت شاہبازِ حقیقت و معرفت مہبطِ انوار الٰہی تھے۔ حضرت سید ابو محمد سراج الدین شاہ میر گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے فرزند اکبر و مرید و خلیفہ اعظم و سجادہ نشین تھے۔
نام و لقب
آپ کا نام نامی محمد، نصر، [۱] [۱۔ غوث اعظم ص ۳۰۵] کنیت سامی ابو محمد، لقب بزرگ شمس الدین، اعظم تھا۔[۱] [۱۔ تذکرہ غوثیہ ۱۲ شرافت]
ولادت
آپ کی ولادت با سعادت ۷۵۴ھ سات سو چَون ہجری مطابق ۱۳۵۳ء ایک ہزار تین سو تریپن عیسوی میں بمقام حلب ہوئی۔
تحصیلِ علوم
آپ نے علوم ظاہری اپنے والد ماجد رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کر کے دستارِ فضیلت باندھی، بحر العلوم اور مرجع انام ہوئے، سلسلہ تدریس بھی جاری رکھا، اپنے آبائے کرام کی طرح جامِع فضائل و کمالات ہوئے۔
بیعت و خلافت
آپ نے بیعتِ طریقت اپنے والد بزرگوار حضرت شیخ المشایخ سید ابو محمد سراج الدین شیخ شاہ میر اطہر گیلانی حلبی رحمۃ اللہ علیہ کے ہاتھ پر کی، اور خرقہ خلافت و اجازت حاصِل کیا۔
اخلاق و کمالات
آپ تصوّف میں مقام بلند رکھتے تھے، خاندان اہلیتِ رسالت میں یگانۂ روزگار تھے، اسم با مسمٰے یعنی دین کے آفتاب تھے، جو شخص خدمت میں آتا با مراد واپس جاتا، آپ کے دروازہ پر زائرین و ارباب حاجات کا ہجوم رہتا، بڑے جلیل القدر صاحبِ شان و شوکت تھے، حلب میں نہایت عزّت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے، آپ کے کمالات کا بڑا شہرہ تھا۔ [۱] [۱۔ غوث اعظم ص ۳۰۶]
کرامات
آپ صاحب تصرّفات و کشف و کرامات تھے۔
کشفِ وقائع
آپ کے بیٹے حضرت سید محمد غوث اوچی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ مجھے سیر و سیاحت کا شوق تھا، میں نے حضرت قبلہ گاہِ بزرگوار رحمۃ اللہ علیہ سے ہندوستان جانے کی اجازت مانگی، تو حضور نے فرمایا کہ چند عرصہ تاخیر کیجیے ہماری عمر کا آفتاب غروب ہونے والا ہے، اس کے بعد پھر جہاں چاہو چلے جاؤ، چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ تھوڑے عرصہ کے بعد آپ کا انتقال ہوگیا، اور بعد ازاں میں ہندوستان چلا آیا۔ [۱] [۱۔ خزینۃ الاصفیا جلد اول ص ۱۱۶]
افاضۂ رُوحانی
آپ کی وفات کے بعد بھی مزار شریف سے فیض جاری ہے خانقاہِ مبارک حلب میں مظہر فیوض مشہور ہے۔ [۱] [۱۔ تحقیقاتِ چشتی ص ۵۲۱]
آپ کی اولاد میں سے سید حاجی محمد ہاشم گیلانی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ سیر و سیاحت کرتے ہوئے حلب میں پہنچے، اور حضور کی قبر متبرک سے روحانی فیض حاصل کیا۔ [۱] [۱۔ خزینۃ الاصفیا جلد اول ص ۱۷۷۔ شرافت]
کلمات طیبات
نصایح: آپ نے روحانی ارتقا کے طالبوں کو فرمایا ہے، جو شخص طریقِ صوفیہ کا مخالف ہو اُس کی صحبت سے اجتناب رکھو، جس کام سے دِل میں تشویش پیدا ہو اس سے احتراز کرو، اور سماع اور اس کے اعتبارات کو اختیار نہ کرو، اگرچہ لہو و لعب کے طور پر نہ ہو، خدا تعالیٰ کے ساتھ دِل حاضر رکھو، تلاوتِ قرآن پر مواظبت کرو، اور صلوٰۃ الاسرار کو پابندی سے ادا کیا کرو، جس کے بعد گیارہ (۱۱) قدم عراق کی طرف چلنا ہوتا ہے، احکامِ شریعت کی محافظت کرو، اور آدابِ طریقت کی رعایت رکھو، محبت شیخ میں استغراق حاصِل کرو، اور خدا کی طرف اس کا وسیلہ بناؤ، اور اس کے غیر سے انقطاع کرو، تمہارا جینا اور مرنا اُسی کی محبت میں ہونا چاہیے۔ [۱] [۱۔ تکملہ مفتاح الفتوح قلمی مکتوبہ شیخ عبد الحق محدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ ۱۲]
ازواج و اولاد و خلفا
آپ کے اہلیہ محترمہ کا نام حضرت سیّدہ جنت بنت سید شاہ لطیف اوچی رحمۃ اللہ علیہ [۱] [۱۔ باغِ سادات قلمی ۱۲ شرافت] تھا ان کے بطن سے اولاد ہوئی۔
آپ کے تین فرزند ارجمند تھے۔
۱۔ حضرت مخدوم سید ابو عبد اللہ محمد غوث رحمۃ اللہ علیہ
اِن کا ذکر آگے آئے گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔
۲۔ حضرت سید ابو القاسِم رحمۃ اللہ علیہ
یہ حلب سے بغداد تشریف لے گئے، اور وہیں بُرج اولیا میں مدفون ہوئے۔ اِن کی اولاد بہت ہوئی، چنانچہ پنجاب میں بھی اِن کی کچھ بَستیاں موجود ہیں زمانہ حاضرہ میں اس خاندان کے ایک بزرگ خان صاحب سید سردار شاہ صاحب گیلانی پروفیسر پنجاب وٹریزی کالج لاہور، آج کل موضع پیر کوٹ سدھا نہ ضِلع جھنگ میں اپنے آبا و اجداد کے جانشین ہیں، ایک کتاب انوار قادریہ نام بزبانِ اردو اپنے بزرگوں کے حالات میں تالیف کی ہے، ابن سید حسن شاہ (متوفی ۲۷؍ جمادی الاول ۱۳۲۳ھ) بن سید پیر شاہ (متوفی ۲۵؍ رجب ۱۲۹۰ھ) بن سید ابراہیم شاہ (متوفی ۱۲؍ رمضان ۱۲۷۳ھ) بن سید عبد القادر آخریں کیمیا نظر پیر کوٹی (متوفی ۱۵؍ شوال ۱۱۹۱ھ) یہ با کمال اولیاء اللہ سے تھے، اِن کا ایک وصیّت نامہ بنام قول معروف اولاد کے پاس محفوظ ہے، چوہدری غلام محمد بن پیر محمد چٹھ رئیس اعظم منچر ضلع گوجرانوالہ انہیں کا مرید تھا، ابن سید ابراہیم بن سید عبد الرزاق بن سید علی بن سید حاجی ہاشم بن سید ابراہیم طاہر بن سید مرتضیٰ بن سید عیسیٰ بن سید جعفر ربانی بن سید ابو القاسم بغدادی رحمہم اللہ۔ [۱] [۱۔ انوارِ قادریہ للسید سردار شاہ گیلانی ۱۲]
۳۔ حضرت میراں سید یعقوب رحمۃ اللہ علیہ [۱] [۱۔ باغِ سادات قلمی ۱۲ شرافت]
مگر صاحب بحر السرائر نے لکھا ہے کہ سوائے سید محمد غوث کے سید شمس الدین کے اور کوئی بیٹا بیٹی نہیں تھا۔
تاریخ وفات
حضرت سید ابو محمد شمس الدین محمد اعظم گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات بقول صاحب کتاب غوث اعظم ۸۳۴ھ آٹھ سو چونتیس ہجری مطابق ۱۴۳۱ء ایک ہزار چار سو اکتیس عیسوی میں بعہد خلافت المعتضد با للہ داوٗد بن المتوکل خلیفہ چہل ہفتم (۴۷) عباسی مصری کے ہوئی۔ مگر صحیح روایت یہ ہے کہ آپ کی وفات ۸۸۵ھ میں ہوئی۔
مدفنِ پاک
آپ کا مزار پُر انوار شہر حلب میں اپنے آبا و اجداد کے جوار ہیں ہے رحمۃ اللہ علیہ
قطعہ تاریخ
از حضرت مولانا شاہ غلام مصطفٰے صاحب نوشاہی دام برکاتہٗ
جناب پیر شمس الدین اعظم |
|
بخلدِ پاک شد معمور عمدہ |
منہ
شیخ مارفت زیں جہان ملال |
|
شاہِ مابود (۸۳۴) پیر پیراں سال |
منہ
شد ز دنیا چو پیر بس بیباک |
|
سالِ فوتش بداں ضیاء (۸۳۴) پاک |
منہ
وصال ولی گفتم اے یارِ غار |
|
بخواں پاک مقبول (۸۳۴) پرور دگار |
دیگر
از اسماء الحسنیٰ
ماجد ذی الطول (۸۳۴) |
امجد ذی الطول (۸۳۴) |
ناجی مذل (۸۳۴) |
ملک مقتدر (۸۳۴) |
مقدم مستقیم (۸۳۴) |
صدیق منتقم (۸۳۴) |
اکرم باعث (۸۳۴) |
فرد مقیت (۸۳۴) |
رزاق شکور (۸۳۴) |
|
رازق شکور (۸۳۴) |
|
از آیت شریف
فزادھم ایمانًا وقالوا حسبنا اللہ (۸۳۴) ونعم الوکیل۔
(شریف التواریخ)