حضرت سید شیخ محمد جعفر مکی
حضرت سید شیخ محمد جعفر مکی (تذکرہ / سوانح)
آپ شیخ نصیرالدین محمود کے ممتاز خلفاء میں سے تھے، مقام توحید و وحدت میں عالی مرتبہ رکھنے کے علاوہ بڑے بلند پایہ بزرگ اور ولی تھے، آپ نے جو اپنے ظاہری و باطنی حالات تحریر فرمائے ہیں ان کو دیکھ کر انسانی عقل حیران رہے بغیر نہیں رہ سکتی اگر ان تمام احوال کو بغیر کسی تاویل کے اپنے ظاہر ہی پر محمول کرلیا جائے تو یہ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ واقعی آپ اپنے وقت کے بہت بڑے کامل بزرگ تھے۔
آپ نے اپنی کتاب ’’بحرالمعانی‘‘ میں توحید کے اکثر دقائق اور مختلف قوموں کےعلوم اور معرفت کے اَسرار کو بیان فرمایا ہے اور آپ کی تحریر کا انداز بڑا ہی پیارا اور مستانہ وارانہ ہے۔ آپ نے اور بھی دو کتابیں جن میں ایک کا نام وقائق معانی اور دوسری کا نام حقائق معانی لکھنے کا وعدہ کیا ہے، اللہ معلوم آپ کی یہ کتابیں لکھی گئی ہیں یا نہیں، علاوہ ازیں آپ کے یہ رسالہ جات بھی ہیں۔ (1) یہ رسالہ روح کے بیان میں ہے (2) پنج نکات (3) بحرالانساب، اس میں اپنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کا نسب نامہ لکھا ہے۔ آپ نے بہت سے دعوے کیے ہیں لیکن آپ کے حالات ان کی سچائی پر بین دلیل اور ظاہر شاہد ہیں۔ آپ نے بڑی لمبی عمر پائی کہ سلطان محمد تغلق کے زمانہ سے سلطان بہلول کے زمانہ تک زندہ رہے اور ایک سو سال سے زائد عمر پائی، آپ کے آباؤاجداد مکہ کے بڑے شرفاء میں شمار کیے جاتے تھے، آپ مکہ سے دہلی تشریف لائے اور اس کے بعد سرہند رہنے لگے اور وہیں وفات پائی چنانچہ آپ کی قبر بھی وہیں ہے۔ آپ بحرالمعانی میں لکھتے ہیں کہ میں نے اپنی عمر کے ساٹھ سال علوم ظاہری میں صرف کیے تھے اور بڑے کمالات حاصل کرتا رہا، چنانچہ اس طویل زندگی میں اپنے محبوب زلی اور مقصود ابدی سے غافل رہا، اور اب تیس برس سے قوت بنیادی جو دکھاتی ہے اسے دیکھتا ہوں اور جو کچھ کانوں کے ذریعہ سنائی دیتا ہے اسے سنتا ہوں، اے محبوب! اہل ظاہر کے دل اور ان کی بانجھ عقل اس راستہ میں حائل تھی اور اگر مجھے اس کا علم نہ ہوتا تو اپنا سامان ابدی اور لم یزل جنگل کی طرف باندھ چکا ہوتا اے محبوب! میں جو کچھ کہہ رہا ہوں اسے لوگوں نے ابھی تک سنا نہیں، اور اللہ رب العزت نے بغیر حرف اور آواز کے جو ام الکتاب میں عطا فرمانے کا وعدہ کیا ہے اسے جب حروف اور آواز کے ذریعہ سے لوگوں تک ظاہر کرتا ہوں تو لوگ اسے سمجھتے ہی نہیں 33 برس ہوگئے ہیں کہ لوگوں کی طرح کہنے سے میں نے توبہ کرلی ہے اور جو کچھ کہتا ہوں اس میں اپنی کوئی غرض شامل نہیں ہوتی۔ اسی کتاب میں آپ نے ابدالوں، قطبوں، اوتادوں اور رجال الغیب، ان کے اسماء ان کی تعداد، ان کے مراتب، و درجات، ان کی عمریں اور حالات بھی درج کیے ہیں اور اس تفصیل سے لکھا ہے کہ اس سے زائد کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ آخر میں لکھتے ہیں کہ میں نے ان سب سے ملاقات کی ہے اور سب سے ایک ایک تحفہ حاصل کیا ہے اور ان کے مقامات کا مشاہدہ کیا ہے۔ علاوہ ازیں 357 ابدالوں سے ملا ہوں جو دریائے نیل کے کنارے پر پہاڑوں میں رہتے ہیں جو درختوں کا گوند اور جنگلوں کی ٹڈیاں کھاتے ہیں۔ اے محبوب! ان کے علاوہ بھی لامحدود افراد ہیں، جو اہل دنیا کی آنکھوں سے مستور ہیں، ان لوگوں کو صرف قطب جانتے ہیں یا وہ کامل لوگ جو حضرت علی کے سلوک پر چلتے ہیں اور قلبی طور پر ان کا تعلق رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوتا ہے اس لیے بہت بلند مرتبے پاتے ہیں، جس طرح کہ حضرت علی نے بھی مراتب علیا کا حصول رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، سو جب کوئی شخص اپنا قلبی تعلق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو قطب بنادیتا ہے اور پھر وہ مقام معشوقیت یعنی احدیت میں محو ہوجاتا ہے۔
اے محبوب! تمام لوگوں میں سے صرف دو آدمی مقام قطبیت سے مقام معشوقیت تک رسائی حاصل کرسکے ہیں۔ ایک شیخ محی الدین عبدالقدر جیلانی غوث ثقلین اور دوسرے شیخ نظام الدین بدایونی، ان دونوں بزرگوں نے نبوت کے چشمہ سے خوب سیر ہوکر علوم نبوت کو حاصل کیا ہے۔
اے محبوب! آپ اس بات کا یقین کریں کہ میں جو کچھ کہتا اور لکھتا ہوں اس کا پہلے مشاہدہ کرتا ہوں۔
اے محبوب! ایک دن میں اور حضرت خضر علیہ السلام مصر میں دریائے نیل میں ایک کشتی پر سوار تھے اور ہم دونوں میں رب تعالیٰ کے مشاہدے کے سلسلہ میں گفتگو ہو رہی تھی ، اسی دوران میں خضر علیہ السلام نے مجھ سے یہ بھی فرمایا کہ شیخ عبدالقادر جیلانی اور شیخ نظام الدین بدایونی مقام معشوقیت تک پہنچے ہوئے تھے، ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ اے محبوب! میں مسلسل نوے برس تک بیدار رہا ہوں اور اکیس سال تک ایسا مست رہا ہوں کہ مجھے اپنی ذات کی خبر تک نہ ہوا کرتی تھی، یہ اس زمانے کی بات ہے کہ جب میں زمانہ کے قطب شیخ یعقوب کے پڑوس میں رہتا تھا، انہوں نے ہی مجھے میری اکیس برس کی کیفیت کو سنایا تب مجھے معلوم ہوا کہ میں اتنی طویل مدت تک بے خود رہا ہوں اور اب کچھ برس سے اپنے پیر کی برکت سے مقام فردانیت میں آیا ہوں۔
فریدم فرد بہ نشستم کہ درخود
زفردیت بسے انوار دارم
اگر موسیٰ نیم موسیٰ چہ ہستم
درون سینہ موسیقار دارم
اے محبوب! ابن عربی صاحب فصوص الحکم لکھتے ہیں کہ منصور حلاج کو جب اللہ کی ذات کی تجلی ہوئی اس وقت وہ مقام فردانیت ہی میں تھا لیکن میں کہتا ہوں کہ اگر منصور حلاج کو ذات باری کی تجلی ہوئی ہوتی تو وہ ہرگز ہرگز انا الحق نہ کہتا اور نہ ہی انا سبحان کے نعرے لگاتا کیونکہ اللہ کی تجلی میں تو ایک خاص قسم کی محویت حاصل ہوجاتی ہے اور جو شخص اللہ کی ذات کے مشاہدہ میں محو و مستغرق ہوجائے اسے کیا خبر کہ میں کون اور کیا ہوں وہ اس کیفیت و حالت میں کسی وقت بھی انا الحق و سبحانی نہیں کہہ سکتا اس لیے کہ جس کو اللہ کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے اس کی زبان پھر اللہ کی تجلی میں ہی محو ہوجاتی ہے، البتہ تجلی صفات کی حالت میں زبان کھلتی رہتی ہو اور اس حالت میں وہ اپنے افعال و اثرات کو اپنی زبان سے بیان کرتا ہے۔
اے محبوب! جس وقت کسی درویش کو تجلی صفات میں استغراق ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنی جمالی صفات کو اللہ کی صفات تصور کرے یعنی درویش صفات الٰہی میں مستغرق ہوکر اس کی جمالی صفات کے نور کا ایک حصہ اور ٹکڑا بن جائے اس وقت وہ واجب الوجود کی صفتوں کو بیان کرتا ہے اس وقت چونکہ وہ تمام آلائشوں سے پاک ہوجاتا ہے، علاوہ ازیں چونکہ وہ واجب الوجود کی صفتوں میں مستغرق ہے اور اسے اپنی ذات کی کوئی خبر نہیں اس لیے وہ ان ہی اوصاف کو کبھی انا الحق اور کبھی سبحانی سے بیان کرتا، تو فی الواقع وہ نہیں بول رہا بلکہ اللہ کی صفت اس کے اندر بول رہی ہے اس کا ثبوت حدیث میں بھی ملتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (کہ اللہ تعالیٰ عمر کی زبان میں بولتا ہے۔)
کیا کروں! ابن عربی اس وقت زندہ نہیں ورنہ جو کچھ مجھے کہنا تھا وہ سب دل کھول کر کہتا اور یقین ہے کہ وہ ضرورتسلیم کرتے، میرے ملفوظات صرف بحرالمعانی ہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ اور ابھی ہیں جو اے محبوب تمہیں کسی روز لکھوں گا۔
اے محبوب! میں صاحب حقیقت شیخ نصیرالدین محمود سے مرید ہونے کے بعد آپ کی برکت سے تصوف اور سلوک کے راستہ میں ترقی کرتا رہا اور مقام تجلی صفات تے تجلی ذات میں جو مستور و پوشیدہ رکھنے کا مقام ہے داخل ہوا، ایک روز صاحب حقیقت شیخ نصیرالدین محمود ذکر خفی فرما رہے تھے اور میں آپ کی خدمت میں نہایت متواضعانہ صورت میں حاضر ہوا تو آپ نے مجھے دیکھتے ہی فرمایااے میدان عالمِ لاہوت کے شہباز، اے عالمِ جبروت کے پاکیزہ، اے عالم ملکوت و فاسوت کے شہسوار آئیے آئیے، اس کے بعد میری آنکھوں میں سرمہ کی ایک سلائی ڈالی اور فرمایا کہ یہ اللہ کی ذات کے جمال کے نور کا سرمہ ہے، یہ واقعہ 811ھ کا ہے۔ چنانچہ جب رات ہوئی تو میں اڑنے لگا اور شہر ختلان سے مصر پہنچ گیا اور شیخ اوحد سمنانی کی خدمت میں حاضر ہوا انہوں نے بھی مجھے انہیں کلمات سے یاد فرمایا جن کلمات سے شیخ نے یاد فرمایا تھا۔ بعد میں مجھے اپنے کمرے کے ایک گوشہ میں بٹھا دیا جہاں دو آدمی میرے علاوہ اور بھی بیٹھے تھے ان میں سے ایک صوفی تھا اور دوسرا طالب علم، قطب عالم شیخ اوحد سمنانی کی امامت میں میں نے عشاء کی نماز ادا کی اس کے بعد رات کے دو تہائی حصہ تک میں نے قرآن کریم کے تیرہ پارے پڑھے بعد میں جو میں نے اپنے دل کو دیکھا تو اسے نُور سے لبریز پایا جو عرش پر محیط ہوچکا ہے اور اس طرح معلوم ہو رہا ہے کہ گویا عرش میری نظروں میں رائی کے ایک دانہ کی مانند ہے اس کے بعد میں نے اپنے بالوں کو دیکھا تو ایسا محسوس ہوا کہ میرا ہر ہر بال ایک علیحدہ وجود و ہستی کا مالک ہے بعد میں وہ شکلیں ختم ہونے لگیں، پھرمیں نے دیکھا کہ تمام دنیا اور اس کی تمام چیزیں اپنی صورتیں بدلنے لگی ہیں اور تمام تجلیات صفات افعال اور اسماء و آثار نے بھی اپنی صورتیں تبدیل کرنا شروع کردی ہیں۔
اے محبوب! محو در محو ہونا اسی کو کہتے ہیں، اس طرح میں نے آنکھ کے جھپکنے کی دیر ہی ستر ہزار عوالم کی سیر کی ہے، اس کے بعد بذات خود میں نے یہ حکم سنا کہ اے میرے پُر جلال بندے! تیرے اور میرے درمیان حجاب جمال درپیش ہے اور میرے جمال کے انوار پُرجلال ہیں اور تو اس وقت جلال و جمال کے مابین ہے خلاصہ یہ کہ اتنی گفتگو کے بعد میں اللہ تعالیٰ کی تجلی سے سرفراز ہوا جس کی کیفیت صرف مشاہدہ سے تعلق رکھتی ہے، بعد میں مقام لاہوت میں جس کو مقام فردانیت بھی کہتے ہیں میں ٹھہرا رہا اور رب العالمین کی تجلی کے بعد سترہ دن تک میں عالم بیداری اور حیرانی میں اور حد صمنانی کے کمرے میں یہ پڑھتا رہا۔
از شراب شوق گشتم مست اد |
|
ہمت من گم گشت اندر ہست او |
|
||
|
||
|
اے محبوب! تجلی ذاتِ الٰہی کے بعد میں شیخ اوحد سمنانی کے کمرہ میں بالکل بےہوش پڑا رہا او رمیری بے ہوشی کے زمانے میں شیخ میری پیشانی کو چومتے رہتے تھے، شیخ جو ولی تھے اگر انہیں میری اندرونی کیفیت کا علم نہ ہوتا تو مجھے اسی کمرے میں مردہ اور میت سمجھ کر دفن کردیتے اور اس بے ہوشی کے عالم کو ختم ہوجانے کے بعد میں سترہ روز تک اسی کمرے میں بیدار تھا اور آنکھیں پھاڑے حیران بیٹھا دیکھتا رہتا تھا اس لیے کہ یہ تجلیات کی ابتداء تھی (جس کی وجہ سے میرے اوپر بہت اثر ہوا) اس کے بعد تو میں جدھر دیکھتا مجھے ایک نور دکھائی دیتا جو مجھے جوانب اربعہ سے گھیرے ہوئے ہوتا، مقام فردانیت میں اس صورت کو افاقہ کہتے ہیں جو تمام کائنات پر بحیثیت قدرت و تمکنت کے قابض اور سایہ کیے ہوئے ہے، اور یہ تمام حالات محض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ستودہ صفات کی برکتیں ہیں۔
میرے والد بزرگوار امیر کبیر جعفر نصیر ایک روز میرے شیخ خواجہ نصیرالدین محمود کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے، میرے شیخ نے ان سے فرمایا کہ اے جعفر! سید محمد میدان لاہوت کا شہباز ہے، تین سو اسی سے زیادہ اولیاء اور اقطاب ان سے فیض حاصل کریں گے اور ان کی بیعت سے سرفراز ہوں گے اور یہ وہ زمانہ تھا جبکہ میں خواجہ نظام الدین اولیاء کے خلیفہ مولانا شمس الدین یحییٰ سے تلخیص پڑھا کرتا تھا۔
اے محبوب! جب میں اس مقام تک پہنچا تو یہ اشعار پڑھا کرتا تھا۔
گفتم اکنوں من ندانم کیستم |
|
بندہ بارے نیم بس چیستم! |
|
||
|
||
|
اے محبوب! کوئی گمراہ بھی یہ کلام نہیں کہہ سکتا، سو جس نے یہ کہا ہے تو (وہ معذور تھا اس لیے کہ اس نے) تجلی صفات کے بعد یہ کہا ہے کیونکہ اس کلام ہی سے تجلی ظاہر ہو رہی ہے، جب میرے دل میں آتا ہے کہ آپ کے لیے کچھ لکھوں تو تجلی ذات کے نہ دیکھنے کی وجہ سے حیران و پریشان ہوجاتا ہوں وگرنہ کہاں آپ اور کہاں یہ گفتگو، آپ کو تو میرے حق میں یہ دعا کرنا چاہیے کہ میری حیرانی کے زمانہ میں آپ میرے ہمراہ رہیں تاکہ اس کتاب کو جو بغیر حروف و آواز کے ہے آپ پر حروف و آواز کی صورت میں بیان کرسکوں، اے محبوب! بڑی غور و فکر سے سوچو اور انسانی نظر سے مجھے نہ دیکھو۔
مردا دراے کاندریں راہ!
نے بوئے ہمی خرندونے رنگ
افتادہ مباش در رہ تنگ
زنار معنانہ برمیاں بند
میداں بہ یقین در دو عالم!
در راہ توجزتو نسیت خرسنگ
یہ مبارک خط 30 شوال 834ھ کو مکمل ہوا۔
آپ بحرالمعانی میں ایک دوسری جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ میرے قلم سے جو کچھ نکلتا ہے وہ فی الواقع میرے دل کی صدا ہوتی ہے، ان باتوں کو میرا دل روح سے اخذ کرتا ہے اور میری روح ان باتوں کو حضرت علی سے اور حضرت علی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ کرتے ہیں، اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم براہ راست ان باتوں کو اللہ تعالیٰ کی ذات سے لیتے ہیں۔
اے محبوب! میں جتنا زیادہ لکھتا ہوں ا تنا ہی زیادہ مشکلات میں مبتلا ہوجاتا ہوں، یقین جانیے کہ بحرالمعانی کے مضامین برسہا برس تک، سفر و حضر میں مجھ سے حضرت خضر علیہ السلام دریافت فرماتے رہےمگر میں نے انہیں نہیں بتلائے، اور اب بھی پوچھتے رہتے ہیں مگر اللہ کی قسم میں انہیں ہرگز ہرگز نہیں بتاؤں گا، سبب اس کا یہ ہے کہ میں نے ابتداً یہ باتیں حضرت خضر علیہ السلام سے دریافت کی تھیں مگر انہوں نے کچھ ایسے بے رخے پن سے جواب دیا کہ میری تسلی نہ ہوسکی اور اب انہیں آرزو ہے مگر میں احتراز کرتا ہوں، وہ ان اسرار کے ذریعہ اپنی جان کی حفاظت کے خواہاں ہیں یعنی نیم جان کی حفاظت چاہتے ہیں اور میری کیفیت یہ ہے کہ اگر مجھے ہزارہا جانیں دی جائیں تو میں ان سب جانوں کو چھوڑ دینا چاہتا ہوں۔
اے محبوب! آپ بھی جاں نثار بن جائیں تاکہ حضرت خضر علیہ السلام جیسے ہزاروں آپ کے لیے سرگرداں نظر آئیں خیر الکلام قل و دل دامن گیر ہے اس لیے میں اپنے ما فی الضمیر کو اجمالاً لکھ رہا ہوں، اگر تفصیل سے لکھوں تو توراۃ کی مانند ایک ایسی ضخیم کتاب بن جائے جس کو اونٹ پر لادے بغیر نہ اٹھایا جاسکے چونکہ یہ تمام کلمات فی الواقع قرآن کریم کی شرح ہیں اس لیے ان کو بھی خیر الکلام ہی کہا جائے۔
بحرالمعانی میں ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ اس بوڑھے فقیر نے اللہ تعالیٰ کے عاشقوں کے آستانہ پر برابر بیس برس تک خاکروبی کی ہے میں صاحب حقیقت شیخ نصیرالدین محمود کی خدمت عالیہ میں تین مہینے بارہ یوم تک حاضر رہا اور بیعت ہونے کے بعد آپ کی تین ہدایات پر عمل کرنے میں ہمہ تن مشغول ہوگیا۔
پہلا کام یہ کہ پانچوں وقت پانی لاکر اپنے مرشد کو وضو کرانا،
دوسرا کام یہ کہ مرشد کے گھر کی روشنی کا انتظام کرنا،
تیسرا کام یہ کہ مرشد کے استنجاء کے لیے ڈھیلے لانا، مگر میں انہیں حاصل کرنے کے بعد اپنے رخساروں پر مسل کر صاف کرلیا کرتا تھا، یہ اس زمانہ کی بات ہے جبکہ سلطان تغلق کے دور حکومت میں میرے والد بزرگوار کے پاس تمام علاقہ کنبہات کی جاگیر تھی اور آپ کے لیے ایک ہزار تین سو سوار بھی مقرر تھے، اپنے مرشد کی اجازت سے میں نے تین ہزار اولیائے کرام کو پایا اور ان کی خدمت کی، ہر ایک سے مجھے فائدہ ہوا، ظاہر پرست صوفیا، اور عوام الناس یہ سمجھتےہیں کہ یہ منزل بڑی آسان ہے (حالانکہ یہ منزل بہت مشکل ہے)
نیز بحرالمعانی میں ان تین ہزار بیاسی مشہور بزرگوں کے حالات اور جائے سکونت اور مقام ملاقات، سفر و قیام اور ان کی خدمت میں اپنے ٹھہرنے کی مدت وغیرہ تمام چیزوں کو تفصیل سے لکھا گیا ہے۔ اور یہ بھی لکھا ہے کہ صفوان بن قیس عبد منان کے بھائی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاکر مسلمان ہوئے میں نے انہیں ایک غار میں (عبادت میں) مشغول دیکھا ہے، میں نے جس دن ان کی ملاقات کا شرف حاصل کیا اس وقت ان کی عمر نو سو بانوے برس کی تھی (ان سے میں نے دریافت کیا کہ آپ اس وقت یہاں کیسے ہیں) تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے درازیٔ عمر کی دعا کی تھی۔
میں مؤلف اخبار الاخیار کہتا ہوں کہ صفوان کا یہ واقعہ آپ کی ایک دوسری کتاب ’’بحرالانساب‘‘ میں بھی مذکور ہے یہ غرابت سے خالی نہیں ہے جو کتب احادیث اور سیر کے موافق نہیں (یعنی یہ قصہ صحیح نہیں بلا سند و بلا دلیل ہے) واللہ اعلم بالصواب آپ ایک جگہ اور فرماتے ہیں کہ اے محبوب! میں نے اتنی سیر کی ہے اور اس دوران اتنے مختلف مذاہب کے لوگوں سے ملا ہوں اور ان سے گفتگو کی ہے کہ اگر اس کو تفصیل سے ذکر کروں تو ایک ایسا ضخیم ذخیرہ ہوجائے جس کو اٹھانے کے لیے اونٹوں کی ضرورت محسوس کی جائے گی۔ ایک اور جگہ آپ لکھتے ہیں کہ میں اگر ان تمام کلمات کو بحرالمعانی میں درج کردیتا جو میرے اوپر وارد ہوئے ہیں تو یہ جہان لرزہ بر اندام ہوجاتا، میں اپنے نانا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی غیرت کی وجہ سے بڑا ہراساں ہوں (یعنی اس بات سے ہمیشہ ڈرتا ہوں کہ کہیں مجھ سے ایسا کام سرزد نہ ہوجائے جس کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غیور ہونے کی وجہ سے مجھ سے خفا ہوجائیں) اور دو غیوروں کے درمیان میں پڑا ہوں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں غیور ہوں اور اللہ عزوجل مجھ سے زیادہ غیور یعنی غیرت والا ہے)
اے محبوب! موسیٰ علیہ السلام جب علمِ نبوت اور ولایت میں مکمل ہوگئے تو آپ بھی خضر علیہ السلام کی طرح تین چیزوں کا تحمل نہ کرسکے اور خضر علیہ السلام میرے ان کلمات سے ابھی تک سرگرداں ہیں۔
اے محبوب! موسیٰ علیہ السلام تو تین چیزوں کا تحمل نہ کرسکے، اور اے محبوب حضرت تاجدارِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے در کا فقیر بحرالمعانی کے تمام (مضامین مشکلاۃ) کا حامل بن گیا اگر موسیٰ علیہ السلام اس زمانے میں ہوتے تو ان سے وہی کہتا جو کہا گیا ہے اس لیے اللہ کی نعمت کا شکر ادا کیا جائے اور ا پنے عزائم و اِرادے بلند رکھو تاکہ بحرالمعانی کے دقائق لکھ سکو اور میرے لیے شب و روز دعا کیا کرو تاکہ زندگی یاری کرے،
از دعائے زادہداں چوں برنیاید کار من
شاہداں راپائے بوسی بدکہ دل کارے کند
بحرالمعانی کے اخیر میں لکھتے ہیں کہ جمعرات 27؍ محرم الحرام کو 36 واں خط تحریر کر رہا تھا اور اسرار عشق میں قلم بڑی جولانی سے چل رہا تھا جب یہاں پہنچا (ایک دن چھوڑ کر زیارت کرکے محبت کو بڑھاؤ) تو ایک دوسرے ہی جہان میں جا پہنچا اور گھٹنوں پر سر رکھ کر حیران بیٹھ گیا، اسی عالم میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد قباء میں تشریف فرما دیکھا، تمام اصحاب رسول، اولیائے کرام حضرت علی سے لے کر شیخ نصیرالدین محمود تک تمام کے تمام لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فارسی زبان میں مجھ سے ارشاد فرمایا ترجمہ: (اے اللہ کی ذات میں مست بیٹے، بحرالمعانی لاؤ، چنانچہ اس وقت میں نے جو 35 یا 36 مکتوب لکھے تھے فوراً پیش کردیے، آپ نے ان تمام مکتوبات کو نبوت کی طاقت سے بہت جلدی پڑھ کر فرمایا، اے بیٹے! تمام تعریف اس ذات کی ہے جس نے آپ کو یہ رموز الہام کیے اور فرمایا کہ اللہ تمہیں اس سے بھی زیادہ علم دے، پھر میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فارسی زبان میں فرمایا، اے دوستو! بحرالمعانی کا یہ مصنف وہ شخص ہے جس نے قرآن کریم کے حقیقی معانی کو بحرالمعانی میں لکھ دیا ہے اگر دنیا کے تمام علوم ختم ہوجائیں اور علوم کا ایک ورق بھی باقی نہ رہے تب بھی یہ شخص ان علوم کو قلم کی ایک جنبش سے تحریر کردے گا۔ پھر فرمایا، اے اللہ کے مست بیٹے! ان رموز و اسرار کو صحرا میں نہ ڈال دینا کیونکہ شریعت کے امور دنیا میں کم ہوتے چلے جا رہے ہیں اور اہل مذہب سے اہل دنیا نفرت کرنے لگے ہیں۔ میں نے اقرار کیا کہ آپ کا ارشا د سر آنکھوں پر، چنانچہ 36 ویں مکتوب سے آگے اس واقعہ کے بعد لکھنا شروع کیا اور بحرالمعانی کو مکمل کیا۔
اے محبوب! اس کے بعد میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کتاب خود دیکھ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دی۔ انہوں نے حسن بصری کو، انہوں نے خواجہ عبدالواحد بن زید کو اس کے بعد سلسلہ وار تمام مشائخ کے پاس سے ہوتی ہوئی وہ کتاب شیخ نصیرالدین محمود چراغ دہلوی کے ہاں پہنچی۔
اے محبوب! یہ فقیر اس بات کا منتظر تھا کہ مدینے کے سلطان صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کی اجازت دیدیں کہ بحرالمعانی کے حقائق و دقائق کو تحریر کیا جائے، چنانچہ جب آپ نے مجھے یہ فرمایا کہ اللہ عزوجل تمہیں اس سے زیادہ علم دے تو میں نے اس کو تصنیف کی اجازت پر محمول کیا۔ والسلام
بحرالمعانی میں لکھتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام صاحبِ ذوق موسیٰ علیہ السلام صاحب لذت اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صاحب حلاوت پیغمبر تھے۔
نیز بحرالمعانی میں لکھتے ہیں کہ حُضور غوثِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں اللہ تعالیٰ کو امی صورت میں دیکھا اور امی، تو فرمایا کہ جس کا ذکر اللھم صل علی محمد النبی الامی میں ہے ارشاد ہے کہ تمام اولیائے کرام میری قبا کے دامن میں ہیں۔ لا یعرفھم غیری، اس غیری میں یائے متکلم نہیں بلکہ یائے نسبتی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی دوسرا نہیں سمجھ سکتا، یعنی صرف اللہ تعالیٰ ہی اپنے پیاروں کو پہچانتا ہے اور اس کے پیارے اپنے پیاروں کو جانتے ہیں۔
ایک جگہ اور لکھتے ہیں کہ سماع روح کی معراج ہے اور ماز دل کی معراج ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔
(میں رحمت کی ہوا یمن کی جانب سے محسوس کرتا ہوں) اس سے مراد پردہ یمن ہے۔
اے محبوب! آپ نے اس آواز کو سنا ہوگا جس کو ہندوستان میں بسنت راگ کہتے ہیں جو پردہ یمن سے بڑی نرم آواز سے کھینچا جاتا ہے۔
اے محبوب! سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سماع میں کنایۃ بیان فرمایا، اے محبوب اہل ظواہر اور علماء نادان کیا جانیں کہ میں کیا لکھتا ہوں افسوس اس بات کا ہے کہ اب کوئی ایسا آدمی ہی نہیں جس سے دل کی بات کہی جائے۔
میں (مؤلف اخبا رالاخیار) کہتا ہوں کہ اہل سُکر کے وہ کلمات جو حالت ذوق کے غلبہ کے وقت صادر ہوں اور معرضِ وجود میں آئیں وہ قواعد عقلیہ اور نقلیہ کے اعتبار سے معتبر نہیں ہوتے۔
اور یہ بات بلا شبہ سب کے نزدیک مسلم ہے کہ یائے نسبتی مشدد ہوتی ہے اور اس کا مخفف ہونا کبھی ضرورت کی وجہ سے جائز رکھا گیا ہے (اور اس جگہ کوئی ضرورت نہیں کہ غیری کی یا کو مخفف مانا جائے)
علاوہ ازیں اگر مذکورہ حدیث صحیح ثابت ہوجائے تو اس سے یمن شہر مراد ہے (نہ کہ پردہ) اور بعض مجذوب اور صاحب ذوق لوگوں سے جو اَسرار ظاہر ہوتے ہیں ان کے لیے قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ انہیں پوشیدہ رکھا جائے اور آگے بیان نہ کیا جائے اللہ تعالیٰ نے تمام عارفین کے اَسرار مقدس و پاکیزہ بنائے ہیں۔ واللہ اعلم بحرالمعانی میں آپ کے جو بعض اشعار ہیں ان میں سے ایک غزل لکھی جاتی ہے۔
اے صورت تو جہان معنی |
|
یا صورت قست جان معنی
|
آپ شیخ نصیرالدین محمود کے ممتاز خلفاء میں سے تھے، مقام توحید و وحدت میں عالی مرتبہ رکھنے کے علاوہ بڑے بلند پایہ بزرگ اور ولی تھے، آپ نے جو اپنے ظاہری و باطنی حالات تحریر فرمائے ہیں ان کو دیکھ کر انسانی عقل حیران رہے بغیر نہیں رہ سکتی اگر ان تمام احوال کو بغیر کسی تاویل کے اپنے ظاہر ہی پر محمول کرلیا جائے تو یہ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ واقعی آپ اپنے وقت کے بہت بڑے کامل بزرگ تھے۔
آپ نے اپنی کتاب ’’بحرالمعانی‘‘ میں توحید کے اکثر دقائق اور مختلف قوموں کےعلوم اور معرفت کے اَسرار کو بیان فرمایا ہے اور آپ کی تحریر کا انداز بڑا ہی پیارا اور مستانہ وارانہ ہے۔ آپ نے اور بھی دو کتابیں جن میں ایک کا نام وقائق معانی اور دوسری کا نام حقائق معانی لکھنے کا وعدہ کیا ہے، اللہ معلوم آپ کی یہ کتابیں لکھی گئی ہیں یا نہیں، علاوہ ازیں آپ کے یہ رسالہ جات بھی ہیں۔ (1) یہ رسالہ روح کے بیان میں ہے (2) پنج نکات (3) بحرالانساب، اس میں اپنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کا نسب نامہ لکھا ہے۔ آپ نے بہت سے دعوے کیے ہیں لیکن آپ کے حالات ان کی سچائی پر بین دلیل اور ظاہر شاہد ہیں۔ آپ نے بڑی لمبی عمر پائی کہ سلطان محمد تغلق کے زمانہ سے سلطان بہلول کے زمانہ تک زندہ رہے اور ایک سو سال سے زائد عمر پائی، آپ کے آباؤاجداد مکہ کے بڑے شرفاء میں شمار کیے جاتے تھے، آپ مکہ سے دہلی تشریف لائے اور اس کے بعد سرہند رہنے لگے اور وہیں وفات پائی چنانچہ آپ کی قبر بھی وہیں ہے۔ آپ بحرالمعانی میں لکھتے ہیں کہ میں نے اپنی عمر کے ساٹھ سال علوم ظاہری میں صرف کیے تھے اور بڑے کمالات حاصل کرتا رہا، چنانچہ اس طویل زندگی میں اپنے محبوب زلی اور مقصود ابدی سے غافل رہا، اور اب تیس برس سے قوت بنیادی جو دکھاتی ہے اسے دیکھتا ہوں اور جو کچھ کانوں کے ذریعہ سنائی دیتا ہے اسے سنتا ہوں، اے محبوب! اہل ظاہر کے دل اور ان کی بانجھ عقل اس راستہ میں حائل تھی اور اگر مجھے اس کا علم نہ ہوتا تو اپنا سامان ابدی اور لم یزل جنگل کی طرف باندھ چکا ہوتا اے محبوب! میں جو کچھ کہہ رہا ہوں اسے لوگوں نے ابھی تک سنا نہیں، اور اللہ رب العزت نے بغیر حرف اور آواز کے جو ام الکتاب میں عطا فرمانے کا وعدہ کیا ہے اسے جب حروف اور آواز کے ذریعہ سے لوگوں تک ظاہر کرتا ہوں تو لوگ اسے سمجھتے ہی نہیں 33 برس ہوگئے ہیں کہ لوگوں کی طرح کہنے سے میں نے توبہ کرلی ہے اور جو کچھ کہتا ہوں اس میں اپنی کوئی غرض شامل نہیں ہوتی۔ اسی کتاب میں آپ نے ابدالوں، قطبوں، اوتادوں اور رجال الغیب، ان کے اسماء ان کی تعداد، ان کے مراتب، و درجات، ان کی عمریں اور حالات بھی درج کیے ہیں اور اس تفصیل سے لکھا ہے کہ اس سے زائد کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ آخر میں لکھتے ہیں کہ میں نے ان سب سے ملاقات کی ہے اور سب سے ایک ایک تحفہ حاصل کیا ہے اور ان کے مقامات کا مشاہدہ کیا ہے۔ علاوہ ازیں 357 ابدالوں سے ملا ہوں جو دریائے نیل کے کنارے پر پہاڑوں میں رہتے ہیں جو درختوں کا گوند اور جنگلوں کی ٹڈیاں کھاتے ہیں۔ اے محبوب! ان کے علاوہ بھی لامحدود افراد ہیں، جو اہل دنیا کی آنکھوں سے مستور ہیں، ان لوگوں کو صرف قطب جانتے ہیں یا وہ کامل لوگ جو حضرت علی کے سلوک پر چلتے ہیں اور قلبی طور پر ان کا تعلق رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوتا ہے اس لیے بہت بلند مرتبے پاتے ہیں، جس طرح کہ حضرت علی نے بھی مراتب علیا کا حصول رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، سو جب کوئی شخص اپنا قلبی تعلق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو قطب بنادیتا ہے اور پھر وہ مقام معشوقیت یعنی احدیت میں محو ہوجاتا ہے۔
اے محبوب! تمام لوگوں میں سے صرف دو آدمی مقام قطبیت سے مقام معشوقیت تک رسائی حاصل کرسکے ہیں۔ ایک شیخ محی الدین عبدالقدر جیلانی غوث ثقلین اور دوسرے شیخ نظام الدین بدایونی، ان دونوں بزرگوں نے نبوت کے چشمہ سے خوب سیر ہوکر علوم نبوت کو حاصل کیا ہے۔
اے محبوب! آپ اس بات کا یقین کریں کہ میں جو کچھ کہتا اور لکھتا ہوں اس کا پہلے مشاہدہ کرتا ہوں۔
اے محبوب! ایک دن میں اور حضرت خضر علیہ السلام مصر میں دریائے نیل میں ایک کشتی پر سوار تھے اور ہم دونوں میں رب تعالیٰ کے مشاہدے کے سلسلہ میں گفتگو ہو رہی تھی ، اسی دوران میں خضر علیہ السلام نے مجھ سے یہ بھی فرمایا کہ شیخ عبدالقادر جیلانی اور شیخ نظام الدین بدایونی مقام معشوقیت تک پہنچے ہوئے تھے، ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ اے محبوب! میں مسلسل نوے برس تک بیدار رہا ہوں اور اکیس سال تک ایسا مست رہا ہوں کہ مجھے اپنی ذات کی خبر تک نہ ہوا کرتی تھی، یہ اس زمانے کی بات ہے کہ جب میں زمانہ کے قطب شیخ یعقوب کے پڑوس میں رہتا تھا، انہوں نے ہی مجھے میری اکیس برس کی کیفیت کو سنایا تب مجھے معلوم ہوا کہ میں اتنی طویل مدت تک بے خود رہا ہوں اور اب کچھ برس سے اپنے پیر کی برکت سے مقام فردانیت میں آیا ہوں۔
فریدم فرد بہ نشستم کہ درخود
زفردیت بسے انوار دارم
اگر موسیٰ نیم موسیٰ چہ ہستم
درون سینہ موسیقار دارم
اے محبوب! ابن عربی صاحب فصوص الحکم لکھتے ہیں کہ منصور حلاج کو جب اللہ کی ذات کی تجلی ہوئی اس وقت وہ مقام فردانیت ہی میں تھا لیکن میں کہتا ہوں کہ اگر منصور حلاج کو ذات باری کی تجلی ہوئی ہوتی تو وہ ہرگز ہرگز انا الحق نہ کہتا اور نہ ہی انا سبحان کے نعرے لگاتا کیونکہ اللہ کی تجلی میں تو ایک خاص قسم کی محویت حاصل ہوجاتی ہے اور جو شخص اللہ کی ذات کے مشاہدہ میں محو و مستغرق ہوجائے اسے کیا خبر کہ میں کون اور کیا ہوں وہ اس کیفیت و حالت میں کسی وقت بھی انا الحق و سبحانی نہیں کہہ سکتا اس لیے کہ جس کو اللہ کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے اس کی زبان پھر اللہ کی تجلی میں ہی محو ہوجاتی ہے، البتہ تجلی صفات کی حالت میں زبان کھلتی رہتی ہو اور اس حالت میں وہ اپنے افعال و اثرات کو اپنی زبان سے بیان کرتا ہے۔
اے محبوب! جس وقت کسی درویش کو تجلی صفات میں استغراق ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنی جمالی صفات کو اللہ کی صفات تصور کرے یعنی درویش صفات الٰہی میں مستغرق ہوکر اس کی جمالی صفات کے نور کا ایک حصہ اور ٹکڑا بن جائے اس وقت وہ واجب الوجود کی صفتوں کو بیان کرتا ہے اس وقت چونکہ وہ تمام آلائشوں سے پاک ہوجاتا ہے، علاوہ ازیں چونکہ وہ واجب الوجود کی صفتوں میں مستغرق ہے اور اسے اپنی ذات کی کوئی خبر نہیں اس لیے وہ ان ہی اوصاف کو کبھی انا الحق اور کبھی سبحانی سے بیان کرتا، تو فی الواقع وہ نہیں بول رہا بلکہ اللہ کی صفت اس کے اندر بول رہی ہے اس کا ثبوت حدیث میں بھی ملتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (کہ اللہ تعالیٰ عمر کی زبان میں بولتا ہے۔)
کیا کروں! ابن عربی اس وقت زندہ نہیں ورنہ جو کچھ مجھے کہنا تھا وہ سب دل کھول کر کہتا اور یقین ہے کہ وہ ضرورتسلیم کرتے، میرے ملفوظات صرف بحرالمعانی ہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ اور ابھی ہیں جو اے محبوب تمہیں کسی روز لکھوں گا۔
اے محبوب! میں صاحب حقیقت شیخ نصیرالدین محمود سے مرید ہونے کے بعد آپ کی برکت سے تصوف اور سلوک کے راستہ میں ترقی کرتا رہا اور مقام تجلی صفات تے تجلی ذات میں جو مستور و پوشیدہ رکھنے کا مقام ہے داخل ہوا، ایک روز صاحب حقیقت شیخ نصیرالدین محمود ذکر خفی فرما رہے تھے اور میں آپ کی خدمت میں نہایت متواضعانہ صورت میں حاضر ہوا تو آپ نے مجھے دیکھتے ہی فرمایااے میدان عالمِ لاہوت کے شہباز، اے عالمِ جبروت کے پاکیزہ، اے عالم ملکوت و فاسوت کے شہسوار آئیے آئیے، اس کے بعد میری آنکھوں میں سرمہ کی ایک سلائی ڈالی اور فرمایا کہ یہ اللہ کی ذات کے جمال کے نور کا سرمہ ہے، یہ واقعہ 811ھ کا ہے۔ چنانچہ جب رات ہوئی تو میں اڑنے لگا اور شہر ختلان سے مصر پہنچ گیا اور شیخ اوحد سمنانی کی خدمت میں حاضر ہوا انہوں نے بھی مجھے انہیں کلمات سے یاد فرمایا جن کلمات سے شیخ نے یاد فرمایا تھا۔ بعد میں مجھے اپنے کمرے کے ایک گوشہ میں بٹھا دیا جہاں دو آدمی میرے علاوہ اور بھی بیٹھے تھے ان میں سے ایک صوفی تھا اور دوسرا طالب علم، قطب عالم شیخ اوحد سمنانی کی امامت میں میں نے عشاء کی نماز ادا کی اس کے بعد رات کے دو تہائی حصہ تک میں نے قرآن کریم کے تیرہ پارے پڑھے بعد میں جو میں نے اپنے دل کو دیکھا تو اسے نُور سے لبریز پایا جو عرش پر محیط ہوچکا ہے اور اس طرح معلوم ہو رہا ہے کہ گویا عرش میری نظروں میں رائی کے ایک دانہ کی مانند ہے اس کے بعد میں نے اپنے بالوں کو دیکھا تو ایسا محسوس ہوا کہ میرا ہر ہر بال ایک علیحدہ وجود و ہستی کا مالک ہے بعد میں وہ شکلیں ختم ہونے لگیں، پھرمیں نے دیکھا کہ تمام دنیا اور اس کی تمام چیزیں اپنی صورتیں بدلنے لگی ہیں اور تمام تجلیات صفات افعال اور اسماء و آثار نے بھی اپنی صورتیں تبدیل کرنا شروع کردی ہیں۔
اے محبوب! محو در محو ہونا اسی کو کہتے ہیں، اس طرح میں نے آنکھ کے جھپکنے کی دیر ہی ستر ہزار عوالم کی سیر کی ہے، اس کے بعد بذات خود میں نے یہ حکم سنا کہ اے میرے پُر جلال بندے! تیرے اور میرے درمیان حجاب جمال درپیش ہے اور میرے جمال کے انوار پُرجلال ہیں اور تو اس وقت جلال و جمال کے مابین ہے خلاصہ یہ کہ اتنی گفتگو کے بعد میں اللہ تعالیٰ کی تجلی سے سرفراز ہوا جس کی کیفیت صرف مشاہدہ سے تعلق رکھتی ہے، بعد میں مقام لاہوت میں جس کو مقام فردانیت بھی کہتے ہیں میں ٹھہرا رہا اور رب العالمین کی تجلی کے بعد سترہ دن تک میں عالم بیداری اور حیرانی میں اور حد صمنانی کے کمرے میں یہ پڑھتا رہا۔
از شراب شوق گشتم مست اد |
|
ہمت من گم گشت اندر ہست او |
|
||
|
||
|
اے محبوب! تجلی ذاتِ الٰہی کے بعد میں شیخ اوحد سمنانی کے کمرہ میں بالکل بےہوش پڑا رہا او رمیری بے ہوشی کے زمانے میں شیخ میری پیشانی کو چومتے رہتے تھے، شیخ جو ولی تھے اگر انہیں میری اندرونی کیفیت کا علم نہ ہوتا تو مجھے اسی کمرے میں مردہ اور میت سمجھ کر دفن کردیتے اور اس بے ہوشی کے عالم کو ختم ہوجانے کے بعد میں سترہ روز تک اسی کمرے میں بیدار تھا اور آنکھیں پھاڑے حیران بیٹھا دیکھتا رہتا تھا اس لیے کہ یہ تجلیات کی ابتداء تھی (جس کی وجہ سے میرے اوپر بہت اثر ہوا) اس کے بعد تو میں جدھر دیکھتا مجھے ایک نور دکھائی دیتا جو مجھے جوانب اربعہ سے گھیرے ہوئے ہوتا، مقام فردانیت میں اس صورت کو افاقہ کہتے ہیں جو تمام کائنات پر بحیثیت قدرت و تمکنت کے قابض اور سایہ کیے ہوئے ہے، اور یہ تمام حالات محض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ستودہ صفات کی برکتیں ہیں۔
میرے والد بزرگوار امیر کبیر جعفر نصیر ایک روز میرے شیخ خواجہ نصیرالدین محمود کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے، میرے شیخ نے ان سے فرمایا کہ اے جعفر! سید محمد میدان لاہوت کا شہباز ہے، تین سو اسی سے زیادہ اولیاء اور اقطاب ان سے فیض حاصل کریں گے اور ان کی بیعت سے سرفراز ہوں گے اور یہ وہ زمانہ تھا جبکہ میں خواجہ نظام الدین اولیاء کے خلیفہ مولانا شمس الدین یحییٰ سے تلخیص پڑھا کرتا تھا۔
اے محبوب! جب میں اس مقام تک پہنچا تو یہ اشعار پڑھا کرتا تھا۔
گفتم اکنوں من ندانم کیستم |
|
بندہ بارے نیم بس چیستم! |
|
||
|
||
|
اے محبوب! کوئی گمراہ بھی یہ کلام نہیں کہہ سکتا، سو جس نے یہ کہا ہے تو (وہ معذور تھا اس لیے کہ اس نے) تجلی صفات کے بعد یہ کہا ہے کیونکہ اس کلام ہی سے تجلی ظاہر ہو رہی ہے، جب میرے دل میں آتا ہے کہ آپ کے لیے کچھ لکھوں تو تجلی ذات کے نہ دیکھنے کی وجہ سے حیران و پریشان ہوجاتا ہوں وگرنہ کہاں آپ اور کہاں یہ گفتگو، آپ کو تو میرے حق میں یہ دعا کرنا چاہیے کہ میری حیرانی کے زمانہ میں آپ میرے ہمراہ رہیں تاکہ اس کتاب کو جو بغیر حروف و آواز کے ہے آپ پر حروف و آواز کی صورت میں بیان کرسکوں، اے محبوب! بڑی غور و فکر سے سوچو اور انسانی نظر سے مجھے نہ دیکھو۔
مردا دراے کاندریں راہ!
نے بوئے ہمی خرندونے رنگ
افتادہ مباش در رہ تنگ
زنار معنانہ برمیاں بند
میداں بہ یقین در دو عالم!
در راہ توجزتو نسیت خرسنگ
یہ مبارک خط 30 شوال 834ھ کو مکمل ہوا۔
آپ بحرالمعانی میں ایک دوسری جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ میرے قلم سے جو کچھ نکلتا ہے وہ فی الواقع میرے دل کی صدا ہوتی ہے، ان باتوں کو میرا دل روح سے اخذ کرتا ہے اور میری روح ان باتوں کو حضرت علی سے اور حضرت علی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ کرتے ہیں، اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم براہ راست ان باتوں کو اللہ تعالیٰ کی ذات سے لیتے ہیں۔
اے محبوب! میں جتنا زیادہ لکھتا ہوں ا تنا ہی زیادہ مشکلات میں مبتلا ہوجاتا ہوں، یقین جانیے کہ بحرالمعانی کے مضامین برسہا برس تک، سفر و حضر میں مجھ سے حضرت خضر علیہ السلام دریافت فرماتے رہےمگر میں نے انہیں نہیں بتلائے، اور اب بھی پوچھتے رہتے ہیں مگر اللہ کی قسم میں انہیں ہرگز ہرگز نہیں بتاؤں گا، سبب اس کا یہ ہے کہ میں نے ابتداً یہ باتیں حضرت خضر علیہ السلام سے دریافت کی تھیں مگر انہوں نے کچھ ایسے بے رخے پن سے جواب دیا کہ میری تسلی نہ ہوسکی اور اب انہیں آرزو ہے مگر میں احتراز کرتا ہوں، وہ ان اسرار کے ذریعہ اپنی جان کی حفاظت کے خواہاں ہیں یعنی نیم جان کی حفاظت چاہتے ہیں اور میری کیفیت یہ ہے کہ اگر مجھے ہزارہا جانیں دی جائیں تو میں ان سب جانوں کو چھوڑ دینا چاہتا ہوں۔
اے محبوب! آپ بھی جاں نثار بن جائیں تاکہ حضرت خضر علیہ السلام جیسے ہزاروں آپ کے لیے سرگرداں نظر آئیں خیر الکلام قل و دل دامن گیر ہے اس لیے میں اپنے ما فی الضمیر کو اجمالاً لکھ رہا ہوں، اگر تفصیل سے لکھوں تو توراۃ کی مانند ایک ایسی ضخیم کتاب بن جائے جس کو اونٹ پر لادے بغیر نہ اٹھایا جاسکے چونکہ یہ تمام کلمات فی الواقع قرآن کریم کی شرح ہیں اس لیے ان کو بھی خیر الکلام ہی کہا جائے۔
بحرالمعانی میں ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ اس بوڑھے فقیر نے اللہ تعالیٰ کے عاشقوں کے آستانہ پر برابر بیس برس تک خاکروبی کی ہے میں صاحب حقیقت شیخ نصیرالدین محمود کی خدمت عالیہ میں تین مہینے بارہ یوم تک حاضر رہا اور بیعت ہونے کے بعد آپ کی تین ہدایات پر عمل کرنے میں ہمہ تن مشغول ہوگیا۔
پہلا کام یہ کہ پانچوں وقت پانی لاکر اپنے مرشد کو وضو کرانا،
دوسرا کام یہ کہ مرشد کے گھر کی روشنی کا انتظام کرنا،
تیسرا کام یہ کہ مرشد کے استنجاء کے لیے ڈھیلے لانا، مگر میں انہیں حاصل کرنے کے بعد اپنے رخساروں پر مسل کر صاف کرلیا کرتا تھا، یہ اس زمانہ کی بات ہے جبکہ سلطان تغلق کے دور حکومت میں میرے والد بزرگوار کے پاس تمام علاقہ کنبہات کی جاگیر تھی اور آپ کے لیے ایک ہزار تین سو سوار بھی مقرر تھے، اپنے مرشد کی اجازت سے میں نے تین ہزار اولیائے کرام کو پایا اور ان کی خدمت کی، ہر ایک سے مجھے فائدہ ہوا، ظاہر پرست صوفیا، اور عوام الناس یہ سمجھتےہیں کہ یہ منزل بڑی آسان ہے (حالانکہ یہ منزل بہت مشکل ہے)
نیز بحرالمعانی میں ان تین ہزار بیاسی مشہور بزرگوں کے حالات اور جائے سکونت اور مقام ملاقات، سفر و قیام اور ان کی خدمت میں اپنے ٹھہرنے کی مدت وغیرہ تمام چیزوں کو تفصیل سے لکھا گیا ہے۔ اور یہ بھی لکھا ہے کہ صفوان بن قیس عبد منان کے بھائی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاکر مسلمان ہوئے میں نے انہیں ایک غار میں (عبادت میں) مشغول دیکھا ہے، میں نے جس دن ان کی ملاقات کا شرف حاصل کیا اس وقت ان کی عمر نو سو بانوے برس کی تھی (ان سے میں نے دریافت کیا کہ آپ اس وقت یہاں کیسے ہیں) تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے درازیٔ عمر کی دعا کی تھی۔
میں مؤلف اخبار الاخیار کہتا ہوں کہ صفوان کا یہ واقعہ آپ کی ایک دوسری کتاب ’’بحرالانساب‘‘ میں بھی مذکور ہے یہ غرابت سے خالی نہیں ہے جو کتب احادیث اور سیر کے موافق نہیں (یعنی یہ قصہ صحیح نہیں بلا سند و بلا دلیل ہے) واللہ اعلم بالصواب آپ ایک جگہ اور فرماتے ہیں کہ اے محبوب! میں نے اتنی سیر کی ہے اور اس دوران اتنے مختلف مذاہب کے لوگوں سے ملا ہوں اور ان سے گفتگو کی ہے کہ اگر اس کو تفصیل سے ذکر کروں تو ایک ایسا ضخیم ذخیرہ ہوجائے جس کو اٹھانے کے لیے اونٹوں کی ضرورت محسوس کی جائے گی۔ ایک اور جگہ آپ لکھتے ہیں کہ میں اگر ان تمام کلمات کو بحرالمعانی میں درج کردیتا جو میرے اوپر وارد ہوئے ہیں تو یہ جہان لرزہ بر اندام ہوجاتا، میں اپنے نانا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی غیرت کی وجہ سے بڑا ہراساں ہوں (یعنی اس بات سے ہمیشہ ڈرتا ہوں کہ کہیں مجھ سے ایسا کام سرزد نہ ہوجائے جس کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غیور ہونے کی وجہ سے مجھ سے خفا ہوجائیں) اور دو غیوروں کے درمیان میں پڑا ہوں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں غیور ہوں اور اللہ عزوجل مجھ سے زیادہ غیور یعنی غیرت والا ہے)
اے محبوب! موسیٰ علیہ السلام جب علمِ نبوت اور ولایت میں مکمل ہوگئے تو آپ بھی خضر علیہ السلام کی طرح تین چیزوں کا تحمل نہ کرسکے اور خضر علیہ السلام میرے ان کلمات سے ابھی تک سرگرداں ہیں۔
اے محبوب! موسیٰ علیہ السلام تو تین چیزوں کا تحمل نہ کرسکے، اور اے محبوب حضرت تاجدارِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے در کا فقیر بحرالمعانی کے تمام (مضامین مشکلاۃ) کا حامل بن گیا اگر موسیٰ علیہ السلام اس زمانے میں ہوتے تو ان سے وہی کہتا جو کہا گیا ہے اس لیے اللہ کی نعمت کا شکر ادا کیا جائے اور ا پنے عزائم و اِرادے بلند رکھو تاکہ بحرالمعانی کے دقائق لکھ سکو اور میرے لیے شب و روز دعا کیا کرو تاکہ زندگی یاری کرے،
از دعائے زادہداں چوں برنیاید کار من
شاہداں راپائے بوسی بدکہ دل کارے کند
بحرالمعانی کے اخیر میں لکھتے ہیں کہ جمعرات 27؍ محرم الحرام کو 36 واں خط تحریر کر رہا تھا اور اسرار عشق میں قلم بڑی جولانی سے چل رہا تھا جب یہاں پہنچا (ایک دن چھوڑ کر زیارت کرکے محبت کو بڑھاؤ) تو ایک دوسرے ہی جہان میں جا پہنچا اور گھٹنوں پر سر رکھ کر حیران بیٹھ گیا، اسی عالم میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد قباء میں تشریف فرما دیکھا، تمام اصحاب رسول، اولیائے کرام حضرت علی سے لے کر شیخ نصیرالدین محمود تک تمام کے تمام لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فارسی زبان میں مجھ سے ارشاد فرمایا ترجمہ: (اے اللہ کی ذات میں مست بیٹے، بحرالمعانی لاؤ، چنانچہ اس وقت میں نے جو 35 یا 36 مکتوب لکھے تھے فوراً پیش کردیے، آپ نے ان تمام مکتوبات کو نبوت کی طاقت سے بہت جلدی پڑھ کر فرمایا، اے بیٹے! تمام تعریف اس ذات کی ہے جس نے آپ کو یہ رموز الہام کیے اور فرمایا کہ اللہ تمہیں اس سے بھی زیادہ علم دے، پھر میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فارسی زبان میں فرمایا، اے دوستو! بحرالمعانی کا یہ مصنف وہ شخص ہے جس نے قرآن کریم کے حقیقی معانی کو بحرالمعانی میں لکھ دیا ہے اگر دنیا کے تمام علوم ختم ہوجائیں اور علوم کا ایک ورق بھی باقی نہ رہے تب بھی یہ شخص ان علوم کو قلم کی ایک جنبش سے تحریر کردے گا۔ پھر فرمایا، اے اللہ کے مست بیٹے! ان رموز و اسرار کو صحرا میں نہ ڈال دینا کیونکہ شریعت کے امور دنیا میں کم ہوتے چلے جا رہے ہیں اور اہل مذہب سے اہل دنیا نفرت کرنے لگے ہیں۔ میں نے اقرار کیا کہ آپ کا ارشا د سر آنکھوں پر، چنانچہ 36 ویں مکتوب سے آگے اس واقعہ کے بعد لکھنا شروع کیا اور بحرالمعانی کو مکمل کیا۔
اے محبوب! اس کے بعد میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کتاب خود دیکھ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دی۔ انہوں نے حسن بصری کو، انہوں نے خواجہ عبدالواحد بن زید کو اس کے بعد سلسلہ وار تمام مشائخ کے پاس سے ہوتی ہوئی وہ کتاب شیخ نصیرالدین محمود چراغ دہلوی کے ہاں پہنچی۔
اے محبوب! یہ فقیر اس بات کا منتظر تھا کہ مدینے کے سلطان صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کی اجازت دیدیں کہ بحرالمعانی کے حقائق و دقائق کو تحریر کیا جائے، چنانچہ جب آپ نے مجھے یہ فرمایا کہ اللہ عزوجل تمہیں اس سے زیادہ علم دے تو میں نے اس کو تصنیف کی اجازت پر محمول کیا۔ والسلام
بحرالمعانی میں لکھتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام صاحبِ ذوق موسیٰ علیہ السلام صاحب لذت اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صاحب حلاوت پیغمبر تھے۔
نیز بحرالمعانی میں لکھتے ہیں کہ حُضور غوثِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں اللہ تعالیٰ کو امی صورت میں دیکھا اور امی، تو فرمایا کہ جس کا ذکر اللھم صل علی محمد النبی الامی میں ہے ارشاد ہے کہ تمام اولیائے کرام میری قبا کے دامن میں ہیں۔ لا یعرفھم غیری، اس غیری میں یائے متکلم نہیں بلکہ یائے نسبتی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی دوسرا نہیں سمجھ سکتا، یعنی صرف اللہ تعالیٰ ہی اپنے پیاروں کو پہچانتا ہے اور اس کے پیارے اپنے پیاروں کو جانتے ہیں۔
ایک جگہ اور لکھتے ہیں کہ سماع روح کی معراج ہے اور ماز دل کی معراج ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔
(میں رحمت کی ہوا یمن کی جانب سے محسوس کرتا ہوں) اس سے مراد پردہ یمن ہے۔
اے محبوب! آپ نے اس آواز کو سنا ہوگا جس کو ہندوستان میں بسنت راگ کہتے ہیں جو پردہ یمن سے بڑی نرم آواز سے کھینچا جاتا ہے۔
اے محبوب! سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سماع میں کنایۃ بیان فرمایا، اے محبوب اہل ظواہر اور علماء نادان کیا جانیں کہ میں کیا لکھتا ہوں افسوس اس بات کا ہے کہ اب کوئی ایسا آدمی ہی نہیں جس سے دل کی بات کہی جائے۔
میں (مؤلف اخبا رالاخیار) کہتا ہوں کہ اہل سُکر کے وہ کلمات جو حالت ذوق کے غلبہ کے وقت صادر ہوں اور معرضِ وجود میں آئیں وہ قواعد عقلیہ اور نقلیہ کے اعتبار سے معتبر نہیں ہوتے۔
اور یہ بات بلا شبہ سب کے نزدیک مسلم ہے کہ یائے نسبتی مشدد ہوتی ہے اور اس کا مخفف ہونا کبھی ضرورت کی وجہ سے جائز رکھا گیا ہے (اور اس جگہ کوئی ضرورت نہیں کہ غیری کی یا کو مخفف مانا جائے)
علاوہ ازیں اگر مذکورہ حدیث صحیح ثابت ہوجائے تو اس سے یمن شہر مراد ہے (نہ کہ پردہ) اور بعض مجذوب اور صاحب ذوق لوگوں سے جو اَسرار ظاہر ہوتے ہیں ان کے لیے قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ انہیں پوشیدہ رکھا جائے اور آگے بیان نہ کیا جائے اللہ تعالیٰ نے تمام عارفین کے اَسرار مقدس و پاکیزہ بنائے ہیں۔ واللہ اعلم بحرالمعانی میں آپ کے جو بعض اشعار ہیں ان میں سے ایک غزل لکھی جاتی ہے۔
اے صورت تو جہان معنی |
|
یا صورت قست جان معنی |
آپ شیخ نصیرالدین محمود کے ممتاز خلفاء میں سے تھے، مقام توحید و وحدت میں عالی مرتبہ رکھنے کے علاوہ بڑے بلند پایہ بزرگ اور ولی تھے، آپ نے جو اپنے ظاہری و باطنی حالات تحریر فرمائے ہیں ان کو دیکھ کر انسانی عقل حیران رہے بغیر نہیں رہ سکتی اگر ان تمام احوال کو بغیر کسی تاویل کے اپنے ظاہر ہی پر محمول کرلیا جائے تو یہ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ واقعی آپ اپنے وقت کے بہت بڑے کامل بزرگ تھے۔
آپ نے اپنی کتاب ’’بحرالمعانی‘‘ میں توحید کے اکثر دقائق اور مختلف قوموں کےعلوم اور معرفت کے اَسرار کو بیان فرمایا ہے اور آپ کی تحریر کا انداز بڑا ہی پیارا اور مستانہ وارانہ ہے۔ آپ نے اور بھی دو کتابیں جن میں ایک کا نام وقائق معانی اور دوسری کا نام حقائق معانی لکھنے کا وعدہ کیا ہے، اللہ معلوم آپ کی یہ کتابیں لکھی گئی ہیں یا نہیں، علاوہ ازیں آپ کے یہ رسالہ جات بھی ہیں۔ (1) یہ رسالہ روح کے بیان میں ہے (2) پنج نکات (3) بحرالانساب، اس میں اپنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کا نسب نامہ لکھا ہے۔ آپ نے بہت سے دعوے کیے ہیں لیکن آپ کے حالات ان کی سچائی پر بین دلیل اور ظاہر شاہد ہیں۔ آپ نے بڑی لمبی عمر پائی کہ سلطان محمد تغلق کے زمانہ سے سلطان بہلول کے زمانہ تک زندہ رہے اور ایک سو سال سے زائد عمر پائی، آپ کے آباؤاجداد مکہ کے بڑے شرفاء میں شمار کیے جاتے تھے، آپ مکہ سے دہلی تشریف لائے اور اس کے بعد سرہند رہنے لگے اور وہیں وفات پائی چنانچہ آپ کی قبر بھی وہیں ہے۔ آپ بحرالمعانی میں لکھتے ہیں کہ میں نے اپنی عمر کے ساٹھ سال علوم ظاہری میں صرف کیے تھے اور بڑے کمالات حاصل کرتا رہا، چنانچہ اس طویل زندگی میں اپنے محبوب زلی اور مقصود ابدی سے غافل رہا، اور اب تیس برس سے قوت بنیادی جو دکھاتی ہے اسے دیکھتا ہوں اور جو کچھ کانوں کے ذریعہ سنائی دیتا ہے اسے سنتا ہوں، اے محبوب! اہل ظاہر کے دل اور ان کی بانجھ عقل اس راستہ میں حائل تھی اور اگر مجھے اس کا علم نہ ہوتا تو اپنا سامان ابدی اور لم یزل جنگل کی طرف باندھ چکا ہوتا اے محبوب! میں جو کچھ کہہ رہا ہوں اسے لوگوں نے ابھی تک سنا نہیں، اور اللہ رب العزت نے بغیر حرف اور آواز کے جو ام الکتاب میں عطا فرمانے کا وعدہ کیا ہے اسے جب حروف اور آواز کے ذریعہ سے لوگوں تک ظاہر کرتا ہوں تو لوگ اسے سمجھتے ہی نہیں 33 برس ہوگئے ہیں کہ لوگوں کی طرح کہنے سے میں نے توبہ کرلی ہے اور جو کچھ کہتا ہوں اس میں اپنی کوئی غرض شامل نہیں ہوتی۔ اسی کتاب میں آپ نے ابدالوں، قطبوں، اوتادوں اور رجال الغیب، ان کے اسماء ان کی تعداد، ان کے مراتب، و درجات، ان کی عمریں اور حالات بھی درج کیے ہیں اور اس تفصیل سے لکھا ہے کہ اس سے زائد کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ آخر میں لکھتے ہیں کہ میں نے ان سب سے ملاقات کی ہے اور سب سے ایک ایک تحفہ حاصل کیا ہے اور ان کے مقامات کا مشاہدہ کیا ہے۔ علاوہ ازیں 357 ابدالوں سے ملا ہوں جو دریائے نیل کے کنارے پر پہاڑوں میں رہتے ہیں جو درختوں کا گوند اور جنگلوں کی ٹڈیاں کھاتے ہیں۔ اے محبوب! ان کے علاوہ بھی لامحدود افراد ہیں، جو اہل دنیا کی آنکھوں سے مستور ہیں، ان لوگوں کو صرف قطب جانتے ہیں یا وہ کامل لوگ جو حضرت علی کے سلوک پر چلتے ہیں اور قلبی طور پر ان کا تعلق رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوتا ہے اس لیے بہت بلند مرتبے پاتے ہیں، جس طرح کہ حضرت علی نے بھی مراتب علیا کا حصول رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، سو جب کوئی شخص اپنا قلبی تعلق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو قطب بنادیتا ہے اور پھر وہ مقام معشوقیت یعنی احدیت میں محو ہوجاتا ہے۔
اے محبوب! تمام لوگوں میں سے صرف دو آدمی مقام قطبیت سے مقام معشوقیت تک رسائی حاصل کرسکے ہیں۔ ایک شیخ محی الدین عبدالقدر جیلانی غوث ثقلین اور دوسرے شیخ نظام الدین بدایونی، ان دونوں بزرگوں نے نبوت کے چشمہ سے خوب سیر ہوکر علوم نبوت کو حاصل کیا ہے۔
اے محبوب! آپ اس بات کا یقین کریں کہ میں جو کچھ کہتا اور لکھتا ہوں اس کا پہلے مشاہدہ کرتا ہوں۔
اے محبوب! ایک دن میں اور حضرت خضر علیہ السلام مصر میں دریائے نیل میں ایک کشتی پر سوار تھے اور ہم دونوں میں رب تعالیٰ کے مشاہدے کے سلسلہ میں گفتگو ہو رہی تھی ، اسی دوران میں خضر علیہ السلام نے مجھ سے یہ بھی فرمایا کہ شیخ عبدالقادر جیلانی اور شیخ نظام الدین بدایونی مقام معشوقیت تک پہنچے ہوئے تھے، ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ اے محبوب! میں مسلسل نوے برس تک بیدار رہا ہوں اور اکیس سال تک ایسا مست رہا ہوں کہ مجھے اپنی ذات کی خبر تک نہ ہوا کرتی تھی، یہ اس زمانے کی بات ہے کہ جب میں زمانہ کے قطب شیخ یعقوب کے پڑوس میں رہتا تھا، انہوں نے ہی مجھے میری اکیس برس کی کیفیت کو سنایا تب مجھے معلوم ہوا کہ میں اتنی طویل مدت تک بے خود رہا ہوں اور اب کچھ برس سے اپنے پیر کی برکت سے مقام فردانیت میں آیا ہوں۔
فریدم فرد بہ نشستم کہ درخود
زفردیت بسے انوار دارم
اگر موسیٰ نیم موسیٰ چہ ہستم
درون سینہ موسیقار دارم
اے محبوب! ابن عربی صاحب فصوص الحکم لکھتے ہیں کہ منصور حلاج کو جب اللہ کی ذات کی تجلی ہوئی اس وقت وہ مقام فردانیت ہی میں تھا لیکن میں کہتا ہوں کہ اگر منصور حلاج کو ذات باری کی تجلی ہوئی ہوتی تو وہ ہرگز ہرگز انا الحق نہ کہتا اور نہ ہی انا سبحان کے نعرے لگاتا کیونکہ اللہ کی تجلی میں تو ایک خاص قسم کی محویت حاصل ہوجاتی ہے اور جو شخص اللہ کی ذات کے مشاہدہ میں محو و مستغرق ہوجائے اسے کیا خبر کہ میں کون اور کیا ہوں وہ اس کیفیت و حالت میں کسی وقت بھی انا الحق و سبحانی نہیں کہہ سکتا اس لیے کہ جس کو اللہ کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے اس کی زبان پھر اللہ کی تجلی میں ہی محو ہوجاتی ہے، البتہ تجلی صفات کی حالت میں زبان کھلتی رہتی ہو اور اس حالت میں وہ اپنے افعال و اثرات کو اپنی زبان سے بیان کرتا ہے۔
اے محبوب! جس وقت کسی درویش کو تجلی صفات میں استغراق ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنی جمالی صفات کو اللہ کی صفات تصور کرے یعنی درویش صفات الٰہی میں مستغرق ہوکر اس کی جمالی صفات کے نور کا ایک حصہ اور ٹکڑا بن جائے اس وقت وہ واجب الوجود کی صفتوں کو بیان کرتا ہے اس وقت چونکہ وہ تمام آلائشوں سے پاک ہوجاتا ہے، علاوہ ازیں چونکہ وہ واجب الوجود کی صفتوں میں مستغرق ہے اور اسے اپنی ذات کی کوئی خبر نہیں اس لیے وہ ان ہی اوصاف کو کبھی انا الحق اور کبھی سبحانی سے بیان کرتا، تو فی الواقع وہ نہیں بول رہا بلکہ اللہ کی صفت اس کے اندر بول رہی ہے اس کا ثبوت حدیث میں بھی ملتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (کہ اللہ تعالیٰ عمر کی زبان میں بولتا ہے۔)
کیا کروں! ابن عربی اس وقت زندہ نہیں ورنہ جو کچھ مجھے کہنا تھا وہ سب دل کھول کر کہتا اور یقین ہے کہ وہ ضرورتسلیم کرتے، میرے ملفوظات صرف بحرالمعانی ہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ اور ابھی ہیں جو اے محبوب تمہیں کسی روز لکھوں گا۔
اے محبوب! میں صاحب حقیقت شیخ نصیرالدین محمود سے مرید ہونے کے بعد آپ کی برکت سے تصوف اور سلوک کے راستہ میں ترقی کرتا رہا اور مقام تجلی صفات تے تجلی ذات میں جو مستور و پوشیدہ رکھنے کا مقام ہے داخل ہوا، ایک روز صاحب حقیقت شیخ نصیرالدین محمود ذکر خفی فرما رہے تھے اور میں آپ کی خدمت میں نہایت متواضعانہ صورت میں حاضر ہوا تو آپ نے مجھے دیکھتے ہی فرمایااے میدان عالمِ لاہوت کے شہباز، اے عالمِ جبروت کے پاکیزہ، اے عالم ملکوت و فاسوت کے شہسوار آئیے آئیے، اس کے بعد میری آنکھوں میں سرمہ کی ایک سلائی ڈالی اور فرمایا کہ یہ اللہ کی ذات کے جمال کے نور کا سرمہ ہے، یہ واقعہ 811ھ کا ہے۔ چنانچہ جب رات ہوئی تو میں اڑنے لگا اور شہر ختلان سے مصر پہنچ گیا اور شیخ اوحد سمنانی کی خدمت میں حاضر ہوا انہوں نے بھی مجھے انہیں کلمات سے یاد فرمایا جن کلمات سے شیخ نے یاد فرمایا تھا۔ بعد میں مجھے اپنے کمرے کے ایک گوشہ میں بٹھا دیا جہاں دو آدمی میرے علاوہ اور بھی بیٹھے تھے ان میں سے ایک صوفی تھا اور دوسرا طالب علم، قطب عالم شیخ اوحد سمنانی کی امامت میں میں نے عشاء کی نماز ادا کی اس کے بعد رات کے دو تہائی حصہ تک میں نے قرآن کریم کے تیرہ پارے پڑھے بعد میں جو میں نے اپنے دل کو دیکھا تو اسے نُور سے لبریز پایا جو عرش پر محیط ہوچکا ہے اور اس طرح معلوم ہو رہا ہے کہ گویا عرش میری نظروں میں رائی کے ایک دانہ کی مانند ہے اس کے بعد میں نے اپنے بالوں کو دیکھا تو ایسا محسوس ہوا کہ میرا ہر ہر بال ایک علیحدہ وجود و ہستی کا مالک ہے بعد میں وہ شکلیں ختم ہونے لگیں، پھرمیں نے دیکھا کہ تمام دنیا اور اس کی تمام چیزیں اپنی صورتیں بدلنے لگی ہیں اور تمام تجلیات صفات افعال اور اسماء و آثار نے بھی اپنی صورتیں تبدیل کرنا شروع کردی ہیں۔
اے محبوب! محو در محو ہونا اسی کو کہتے ہیں، اس طرح میں نے آنکھ کے جھپکنے کی دیر ہی ستر ہزار عوالم کی سیر کی ہے، اس کے بعد بذات خود میں نے یہ حکم سنا کہ اے میرے پُر جلال بندے! تیرے اور میرے درمیان حجاب جمال درپیش ہے اور میرے جمال کے انوار پُرجلال ہیں اور تو اس وقت جلال و جمال کے مابین ہے خلاصہ یہ کہ اتنی گفتگو کے بعد میں اللہ تعالیٰ کی تجلی سے سرفراز ہوا جس کی کیفیت صرف مشاہدہ سے تعلق رکھتی ہے، بعد میں مقام لاہوت میں جس کو مقام فردانیت بھی کہتے ہیں میں ٹھہرا رہا اور رب العالمین کی تجلی کے بعد سترہ دن تک میں عالم بیداری اور حیرانی میں اور حد صمنانی کے کمرے میں یہ پڑھتا رہا۔
از شراب شوق گشتم مست اد |
|
ہمت من گم گشت اندر ہست او |
|
||
|
||
|
اے محبوب! تجلی ذاتِ الٰہی کے بعد میں شیخ اوحد سمنانی کے کمرہ میں بالکل بےہوش پڑا رہا او رمیری بے ہوشی کے زمانے میں شیخ میری پیشانی کو چومتے رہتے تھے، شیخ جو ولی تھے اگر انہیں میری اندرونی کیفیت کا علم نہ ہوتا تو مجھے اسی کمرے میں مردہ اور میت سمجھ کر دفن کردیتے اور اس بے ہوشی کے عالم کو ختم ہوجانے کے بعد میں سترہ روز تک اسی کمرے میں بیدار تھا اور آنکھیں پھاڑے حیران بیٹھا دیکھتا رہتا تھا اس لیے کہ یہ تجلیات کی ابتداء تھی (جس کی وجہ سے میرے اوپر بہت اثر ہوا) اس کے بعد تو میں جدھر دیکھتا مجھے ایک نور دکھائی دیتا جو مجھے جوانب اربعہ سے گھیرے ہوئے ہوتا، مقام فردانیت میں اس صورت کو افاقہ کہتے ہیں جو تمام کائنات پر بحیثیت قدرت و تمکنت کے قابض اور سایہ کیے ہوئے ہے، اور یہ تمام حالات محض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ستودہ صفات کی برکتیں ہیں۔
میرے والد بزرگوار امیر کبیر جعفر نصیر ایک روز میرے شیخ خواجہ نصیرالدین محمود کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے، میرے شیخ نے ان سے فرمایا کہ اے جعفر! سید محمد میدان لاہوت کا شہباز ہے، تین سو اسی سے زیادہ اولیاء اور اقطاب ان سے فیض حاصل کریں گے اور ان کی بیعت سے سرفراز ہوں گے اور یہ وہ زمانہ تھا جبکہ میں خواجہ نظام الدین اولیاء کے خلیفہ مولانا شمس الدین یحییٰ سے تلخیص پڑھا کرتا تھا۔
اے محبوب! جب میں اس مقام تک پہنچا تو یہ اشعار پڑھا کرتا تھا۔
گفتم اکنوں من ندانم کیستم |
|
بندہ بارے نیم بس چیستم! |
|
||
|
||
|
اے محبوب! کوئی گمراہ بھی یہ کلام نہیں کہہ سکتا، سو جس نے یہ کہا ہے تو (وہ معذور تھا اس لیے کہ اس نے) تجلی صفات کے بعد یہ کہا ہے کیونکہ اس کلام ہی سے تجلی ظاہر ہو رہی ہے، جب میرے دل میں آتا ہے کہ آپ کے لیے کچھ لکھوں تو تجلی ذات کے نہ دیکھنے کی وجہ سے حیران و پریشان ہوجاتا ہوں وگرنہ کہاں آپ اور کہاں یہ گفتگو، آپ کو تو میرے حق میں یہ دعا کرنا چاہیے کہ میری حیرانی کے زمانہ میں آپ میرے ہمراہ رہیں تاکہ اس کتاب کو جو بغیر حروف و آواز کے ہے آپ پر حروف و آواز کی صورت میں بیان کرسکوں، اے محبوب! بڑی غور و فکر سے سوچو اور انسانی نظر سے مجھے نہ دیکھو۔
مردا دراے کاندریں راہ!
نے بوئے ہمی خرندونے رنگ
افتادہ مباش در رہ تنگ
زنار معنانہ برمیاں بند
میداں بہ یقین در دو عالم!
در راہ توجزتو نسیت خرسنگ
یہ مبارک خط 30 شوال 834ھ کو مکمل ہوا۔
آپ بحرالمعانی میں ایک دوسری جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ میرے قلم سے جو کچھ نکلتا ہے وہ فی الواقع میرے دل کی صدا ہوتی ہے، ان باتوں کو میرا دل روح سے اخذ کرتا ہے اور میری روح ان باتوں کو حضرت علی سے اور حضرت علی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ کرتے ہیں، اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم براہ راست ان باتوں کو اللہ تعالیٰ کی ذات سے لیتے ہیں۔
اے محبوب! میں جتنا زیادہ لکھتا ہوں ا تنا ہی زیادہ مشکلات میں مبتلا ہوجاتا ہوں، یقین جانیے کہ بحرالمعانی کے مضامین برسہا برس تک، سفر و حضر میں مجھ سے حضرت خضر علیہ السلام دریافت فرماتے رہےمگر میں نے انہیں نہیں بتلائے، اور اب بھی پوچھتے رہتے ہیں مگر اللہ کی قسم میں انہیں ہرگز ہرگز نہیں بتاؤں گا، سبب اس کا یہ ہے کہ میں نے ابتداً یہ باتیں حضرت خضر علیہ السلام سے دریافت کی تھیں مگر انہوں نے کچھ ایسے بے رخے پن سے جواب دیا کہ میری تسلی نہ ہوسکی اور اب انہیں آرزو ہے مگر میں احتراز کرتا ہوں، وہ ان اسرار کے ذریعہ اپنی جان کی حفاظت کے خواہاں ہیں یعنی نیم جان کی حفاظت چاہتے ہیں اور میری کیفیت یہ ہے کہ اگر مجھے ہزارہا جانیں دی جائیں تو میں ان سب جانوں کو چھوڑ دینا چاہتا ہوں۔
اے محبوب! آپ بھی جاں نثار بن جائیں تاکہ حضرت خضر علیہ السلام جیسے ہزاروں آپ کے لیے سرگرداں نظر آئیں خیر الکلام قل و دل دامن گیر ہے اس لیے میں اپنے ما فی الضمیر کو اجمالاً لکھ رہا ہوں، اگر تفصیل سے لکھوں تو توراۃ کی مانند ایک ایسی ضخیم کتاب بن جائے جس کو اونٹ پر لادے بغیر نہ اٹھایا جاسکے چونکہ یہ تمام کلمات فی الواقع قرآن کریم کی شرح ہیں اس لیے ان کو بھی خیر الکلام ہی کہا جائے۔
بحرالمعانی میں ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ اس بوڑھے فقیر نے اللہ تعالیٰ کے عاشقوں کے آستانہ پر برابر بیس برس تک خاکروبی کی ہے میں صاحب حقیقت شیخ نصیرالدین محمود کی خدمت عالیہ میں تین مہینے بارہ یوم تک حاضر رہا اور بیعت ہونے کے بعد آپ کی تین ہدایات پر عمل کرنے میں ہمہ تن مشغول ہوگیا۔
پہلا کام یہ کہ پانچوں وقت پانی لاکر اپنے مرشد کو وضو کرانا،
دوسرا کام یہ کہ مرشد کے گھر کی روشنی کا انتظام کرنا،
تیسرا کام یہ کہ مرشد کے استنجاء کے لیے ڈھیلے لانا، مگر میں انہیں حاصل کرنے کے بعد اپنے رخساروں پر مسل کر صاف کرلیا کرتا تھا، یہ اس زمانہ کی بات ہے جبکہ سلطان تغلق کے دور حکومت میں میرے والد بزرگوار کے پاس تمام علاقہ کنبہات کی جاگیر تھی اور آپ کے لیے ایک ہزار تین سو سوار بھی مقرر تھے، اپنے مرشد کی اجازت سے میں نے تین ہزار اولیائے کرام کو پایا اور ان کی خدمت کی، ہر ایک سے مجھے فائدہ ہوا، ظاہر پرست صوفیا، اور عوام الناس یہ سمجھتےہیں کہ یہ منزل بڑی آسان ہے (حالانکہ یہ منزل بہت مشکل ہے)
نیز بحرالمعانی میں ان تین ہزار بیاسی مشہور بزرگوں کے حالات اور جائے سکونت اور مقام ملاقات، سفر و قیام اور ان کی خدمت میں اپنے ٹھہرنے کی مدت وغیرہ تمام چیزوں کو تفصیل سے لکھا گیا ہے۔ اور یہ بھی لکھا ہے کہ صفوان بن قیس عبد منان کے بھائی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاکر مسلمان ہوئے میں نے انہیں ایک غار میں (عبادت میں) مشغول دیکھا ہے، میں نے جس دن ان کی ملاقات کا شرف حاصل کیا اس وقت ان کی عمر نو سو بانوے برس کی تھی (ان سے میں نے دریافت کیا کہ آپ اس وقت یہاں کیسے ہیں) تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے درازیٔ عمر کی دعا کی تھی۔
میں مؤلف اخبار الاخیار کہتا ہوں کہ صفوان کا یہ واقعہ آپ کی ایک دوسری کتاب ’’بحرالانساب‘‘ میں بھی مذکور ہے یہ غرابت سے خالی نہیں ہے جو کتب احادیث اور سیر کے موافق نہیں (یعنی یہ قصہ صحیح نہیں بلا سند و بلا دلیل ہے) واللہ اعلم بالصواب آپ ایک جگہ اور فرماتے ہیں کہ اے محبوب! میں نے اتنی سیر کی ہے اور اس دوران اتنے مختلف مذاہب کے لوگوں سے ملا ہوں اور ان سے گفتگو کی ہے کہ اگر اس کو تفصیل سے ذکر کروں تو ایک ایسا ضخیم ذخیرہ ہوجائے جس کو اٹھانے کے لیے اونٹوں کی ضرورت محسوس کی جائے گی۔ ایک اور جگہ آپ لکھتے ہیں کہ میں اگر ان تمام کلمات کو بحرالمعانی میں درج کردیتا جو میرے اوپر وارد ہوئے ہیں تو یہ جہان لرزہ بر اندام ہوجاتا، میں اپنے نانا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی غیرت کی وجہ سے بڑا ہراساں ہوں (یعنی اس بات سے ہمیشہ ڈرتا ہوں کہ کہیں مجھ سے ایسا کام سرزد نہ ہوجائے جس کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غیور ہونے کی وجہ سے مجھ سے خفا ہوجائیں) اور دو غیوروں کے درمیان میں پڑا ہوں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں غیور ہوں اور اللہ عزوجل مجھ سے زیادہ غیور یعنی غیرت والا ہے)
اے محبوب! موسیٰ علیہ السلام جب علمِ نبوت اور ولایت میں مکمل ہوگئے تو آپ بھی خضر علیہ السلام کی طرح تین چیزوں کا تحمل نہ کرسکے اور خضر علیہ السلام میرے ان کلمات سے ابھی تک سرگرداں ہیں۔
اے محبوب! موسیٰ علیہ السلام تو تین چیزوں کا تحمل نہ کرسکے، اور اے محبوب حضرت تاجدارِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے در کا فقیر بحرالمعانی کے تمام (مضامین مشکلاۃ) کا حامل بن گیا اگر موسیٰ علیہ السلام اس زمانے میں ہوتے تو ان سے وہی کہتا جو کہا گیا ہے اس لیے اللہ کی نعمت کا شکر ادا کیا جائے اور ا پنے عزائم و اِرادے بلند رکھو تاکہ بحرالمعانی کے دقائق لکھ سکو اور میرے لیے شب و روز دعا کیا کرو تاکہ زندگی یاری کرے،
از دعائے زادہداں چوں برنیاید کار من
شاہداں راپائے بوسی بدکہ دل کارے کند
بحرالمعانی کے اخیر میں لکھتے ہیں کہ جمعرات 27؍ محرم الحرام کو 36 واں خط تحریر کر رہا تھا اور اسرار عشق میں قلم بڑی جولانی سے چل رہا تھا جب یہاں پہنچا (ایک دن چھوڑ کر زیارت کرکے محبت کو بڑھاؤ) تو ایک دوسرے ہی جہان میں جا پہنچا اور گھٹنوں پر سر رکھ کر حیران بیٹھ گیا، اسی عالم میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد قباء میں تشریف فرما دیکھا، تمام اصحاب رسول، اولیائے کرام حضرت علی سے لے کر شیخ نصیرالدین محمود تک تمام کے تمام لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فارسی زبان میں مجھ سے ارشاد فرمایا ترجمہ: (اے اللہ کی ذات میں مست بیٹے، بحرالمعانی لاؤ، چنانچہ اس وقت میں نے جو 35 یا 36 مکتوب لکھے تھے فوراً پیش کردیے، آپ نے ان تمام مکتوبات کو نبوت کی طاقت سے بہت جلدی پڑھ کر فرمایا، اے بیٹے! تمام تعریف اس ذات کی ہے جس نے آپ کو یہ رموز الہام کیے اور فرمایا کہ اللہ تمہیں اس سے بھی زیادہ علم دے، پھر میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فارسی زبان میں فرمایا، اے دوستو! بحرالمعانی کا یہ مصنف وہ شخص ہے جس نے قرآن کریم کے حقیقی معانی کو بحرالمعانی میں لکھ دیا ہے اگر دنیا کے تمام علوم ختم ہوجائیں اور علوم کا ایک ورق بھی باقی نہ رہے تب بھی یہ شخص ان علوم کو قلم کی ایک جنبش سے تحریر کردے گا۔ پھر فرمایا، اے اللہ کے مست بیٹے! ان رموز و اسرار کو صحرا میں نہ ڈال دینا کیونکہ شریعت کے امور دنیا میں کم ہوتے چلے جا رہے ہیں اور اہل مذہب سے اہل دنیا نفرت کرنے لگے ہیں۔ میں نے اقرار کیا کہ آپ کا ارشا د سر آنکھوں پر، چنانچہ 36 ویں مکتوب سے آگے اس واقعہ کے بعد لکھنا شروع کیا اور بحرالمعانی کو مکمل کیا۔
اے محبوب! اس کے بعد میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کتاب خود دیکھ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دی۔ انہوں نے حسن بصری کو، انہوں نے خواجہ عبدالواحد بن زید کو اس کے بعد سلسلہ وار تمام مشائخ کے پاس سے ہوتی ہوئی وہ کتاب شیخ نصیرالدین محمود چراغ دہلوی کے ہاں پہنچی۔
اے محبوب! یہ فقیر اس بات کا منتظر تھا کہ مدینے کے سلطان صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کی اجازت دیدیں کہ بحرالمعانی کے حقائق و دقائق کو تحریر کیا جائے، چنانچہ جب آپ نے مجھے یہ فرمایا کہ اللہ عزوجل تمہیں اس سے زیادہ علم دے تو میں نے اس کو تصنیف کی اجازت پر محمول کیا۔ والسلام
بحرالمعانی میں لکھتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام صاحبِ ذوق موسیٰ علیہ السلام صاحب لذت اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صاحب حلاوت پیغمبر تھے۔
نیز بحرالمعانی میں لکھتے ہیں کہ حُضور غوثِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں اللہ تعالیٰ کو امی صورت میں دیکھا اور امی، تو فرمایا کہ جس کا ذکر اللھم صل علی محمد النبی الامی میں ہے ارشاد ہے کہ تمام اولیائے کرام میری قبا کے دامن میں ہیں۔ لا یعرفھم غیری، اس غیری میں یائے متکلم نہیں بلکہ یائے نسبتی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی دوسرا نہیں سمجھ سکتا، یعنی صرف اللہ تعالیٰ ہی اپنے پیاروں کو پہچانتا ہے اور اس کے پیارے اپنے پیاروں کو جانتے ہیں۔
ایک جگہ اور لکھتے ہیں کہ سماع روح کی معراج ہے اور ماز دل کی معراج ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔
(میں رحمت کی ہوا یمن کی جانب سے محسوس کرتا ہوں) اس سے مراد پردہ یمن ہے۔
اے محبوب! آپ نے اس آواز کو سنا ہوگا جس کو ہندوستان میں بسنت راگ کہتے ہیں جو پردہ یمن سے بڑی نرم آواز سے کھینچا جاتا ہے۔
اے محبوب! سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سماع میں کنایۃ بیان فرمایا، اے محبوب اہل ظواہر اور علماء نادان کیا جانیں کہ میں کیا لکھتا ہوں افسوس اس بات کا ہے کہ اب کوئی ایسا آدمی ہی نہیں جس سے دل کی بات کہی جائے۔
میں (مؤلف اخبا رالاخیار) کہتا ہوں کہ اہل سُکر کے وہ کلمات جو حالت ذوق کے غلبہ کے وقت صادر ہوں اور معرضِ وجود میں آئیں وہ قواعد عقلیہ اور نقلیہ کے اعتبار سے معتبر نہیں ہوتے۔
اور یہ بات بلا شبہ سب کے نزدیک مسلم ہے کہ یائے نسبتی مشدد ہوتی ہے اور اس کا مخفف ہونا کبھی ضرورت کی وجہ سے جائز رکھا گیا ہے (اور اس جگہ کوئی ضرورت نہیں کہ غیری کی یا کو مخفف مانا جائے)
علاوہ ازیں اگر مذکورہ حدیث صحیح ثابت ہوجائے تو اس سے یمن شہر مراد ہے (نہ کہ پردہ) اور بعض مجذوب اور صاحب ذوق لوگوں سے جو اَسرار ظاہر ہوتے ہیں ان کے لیے قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ انہیں پوشیدہ رکھا جائے اور آگے بیان نہ کیا جائے اللہ تعالیٰ نے تمام عارفین کے اَسرار مقدس و پاکیزہ بنائے ہیں۔ واللہ اعلم بحرالمعانی میں آپ کے جو بعض اشعار ہیں ان میں سے ایک غزل لکھی جاتی ہے۔
اے صورت تو جہان معنی |
|
یا صورت قست جان معنی |
آپ شیخ نصیرالدین محمود کے ممتاز خلفاء میں سے تھے، مقام توحید و وحدت میں عالی مرتبہ رکھنے کے علاوہ بڑے بلند پایہ بزرگ اور ولی تھے، آپ نے جو اپنے ظاہری و باطنی حالات تحریر فرمائے ہیں ان کو دیکھ کر انسانی عقل حیران رہے بغیر نہیں رہ سکتی اگر ان تمام احوال کو بغیر کسی تاویل کے اپنے ظاہر ہی پر محمول کرلیا جائے تو یہ اقرار کرنا پڑتا ہے کہ واقعی آپ اپنے وقت کے بہت بڑے کامل بزرگ تھے۔
آپ نے اپنی کتاب ’’بحرالمعانی‘‘ میں توحید کے اکثر دقائق اور مختلف قوموں کےعلوم اور معرفت کے اَسرار کو بیان فرمایا ہے اور آپ کی تحریر کا انداز بڑا ہی پیارا اور مستانہ وارانہ ہے۔ آپ نے اور بھی دو کتابیں جن میں ایک کا نام وقائق معانی اور دوسری کا نام حقائق معانی لکھنے کا وعدہ کیا ہے، اللہ معلوم آپ کی یہ کتابیں لکھی گئی ہیں یا نہیں، علاوہ ازیں آپ کے یہ رسالہ جات بھی ہیں۔ (1) یہ رسالہ روح کے بیان میں ہے (2) پنج نکات (3) بحرالانساب، اس میں اپنا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کا نسب نامہ لکھا ہے۔ آپ نے بہت سے دعوے کیے ہیں لیکن آپ کے حالات ان کی سچائی پر بین دلیل اور ظاہر شاہد ہیں۔ آپ نے بڑی لمبی عمر پائی کہ سلطان محمد تغلق کے زمانہ سے سلطان بہلول کے زمانہ تک زندہ رہے اور ایک سو سال سے زائد عمر پائی، آپ کے آباؤاجداد مکہ کے بڑے شرفاء میں شمار کیے جاتے تھے، آپ مکہ سے دہلی تشریف لائے اور اس کے بعد سرہند رہنے لگے اور وہیں وفات پائی چنانچہ آپ کی قبر بھی وہیں ہے۔ آپ بحرالمعانی میں لکھتے ہیں کہ میں نے اپنی عمر کے ساٹھ سال علوم ظاہری میں صرف کیے تھے اور بڑے کمالات حاصل کرتا رہا، چنانچہ اس طویل زندگی میں اپنے محبوب زلی اور مقصود ابدی سے غافل رہا، اور اب تیس برس سے قوت بنیادی جو دکھاتی ہے اسے دیکھتا ہوں اور جو کچھ کانوں کے ذریعہ سنائی دیتا ہے اسے سنتا ہوں، اے محبوب! اہل ظاہر کے دل اور ان کی بانجھ عقل اس راستہ میں حائل تھی اور اگر مجھے اس کا علم نہ ہوتا تو اپنا سامان ابدی اور لم یزل جنگل کی طرف باندھ چکا ہوتا اے محبوب! میں جو کچھ کہہ رہا ہوں اسے لوگوں نے ابھی تک سنا نہیں، اور اللہ رب العزت نے بغیر حرف اور آواز کے جو ام الکتاب میں عطا فرمانے کا وعدہ کیا ہے اسے جب حروف اور آواز کے ذریعہ سے لوگوں تک ظاہر کرتا ہوں تو لوگ اسے سمجھتے ہی نہیں 33 برس ہوگئے ہیں کہ لوگوں کی طرح کہنے سے میں نے توبہ کرلی ہے اور جو کچھ کہتا ہوں اس میں اپنی کوئی غرض شامل نہیں ہوتی۔ اسی کتاب میں آپ نے ابدالوں، قطبوں، اوتادوں اور رجال الغیب، ان کے اسماء ان کی تعداد، ان کے مراتب، و درجات، ان کی عمریں اور حالات بھی درج کیے ہیں اور اس تفصیل سے لکھا ہے کہ اس سے زائد کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ آخر میں لکھتے ہیں کہ میں نے ان سب سے ملاقات کی ہے اور سب سے ایک ایک تحفہ حاصل کیا ہے اور ان کے مقامات کا مشاہدہ کیا ہے۔ علاوہ ازیں 357 ابدالوں سے ملا ہوں جو دریائے نیل کے کنارے پر پہاڑوں میں رہتے ہیں جو درختوں کا گوند اور جنگلوں کی ٹڈیاں کھاتے ہیں۔ اے محبوب! ان کے علاوہ بھی لامحدود افراد ہیں، جو اہل دنیا کی آنکھوں سے مستور ہیں، ان لوگوں کو صرف قطب جانتے ہیں یا وہ کامل لوگ جو حضرت علی کے سلوک پر چلتے ہیں اور قلبی طور پر ان کا تعلق رسالت ماب صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوتا ہے اس لیے بہت بلند مرتبے پاتے ہیں، جس طرح کہ حضرت علی نے بھی مراتب علیا کا حصول رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، سو جب کوئی شخص اپنا قلبی تعلق رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وابستہ کرلیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو قطب بنادیتا ہے اور پھر وہ مقام معشوقیت یعنی احدیت میں محو ہوجاتا ہے۔
اے محبوب! تمام لوگوں میں سے صرف دو آدمی مقام قطبیت سے مقام معشوقیت تک رسائی حاصل کرسکے ہیں۔ ایک شیخ محی الدین عبدالقدر جیلانی غوث ثقلین اور دوسرے شیخ نظام الدین بدایونی، ان دونوں بزرگوں نے نبوت کے چشمہ سے خوب سیر ہوکر علوم نبوت کو حاصل کیا ہے۔
اے محبوب! آپ اس بات کا یقین کریں کہ میں جو کچھ کہتا اور لکھتا ہوں اس کا پہلے مشاہدہ کرتا ہوں۔
اے محبوب! ایک دن میں اور حضرت خضر علیہ السلام مصر میں دریائے نیل میں ایک کشتی پر سوار تھے اور ہم دونوں میں رب تعالیٰ کے مشاہدے کے سلسلہ میں گفتگو ہو رہی تھی ، اسی دوران میں خضر علیہ السلام نے مجھ سے یہ بھی فرمایا کہ شیخ عبدالقادر جیلانی اور شیخ نظام الدین بدایونی مقام معشوقیت تک پہنچے ہوئے تھے، ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ اے محبوب! میں مسلسل نوے برس تک بیدار رہا ہوں اور اکیس سال تک ایسا مست رہا ہوں کہ مجھے اپنی ذات کی خبر تک نہ ہوا کرتی تھی، یہ اس زمانے کی بات ہے کہ جب میں زمانہ کے قطب شیخ یعقوب کے پڑوس میں رہتا تھا، انہوں نے ہی مجھے میری اکیس برس کی کیفیت کو سنایا تب مجھے معلوم ہوا کہ میں اتنی طویل مدت تک بے خود رہا ہوں اور اب کچھ برس سے اپنے پیر کی برکت سے مقام فردانیت میں آیا ہوں۔
فریدم فرد بہ نشستم کہ درخود
زفردیت بسے انوار دارم
اگر موسیٰ نیم موسیٰ چہ ہستم
درون سینہ موسیقار دارم
اے محبوب! ابن عربی صاحب فصوص الحکم لکھتے ہیں کہ منصور حلاج کو جب اللہ کی ذات کی تجلی ہوئی اس وقت وہ مقام فردانیت ہی میں تھا لیکن میں کہتا ہوں کہ اگر منصور حلاج کو ذات باری کی تجلی ہوئی ہوتی تو وہ ہرگز ہرگز انا الحق نہ کہتا اور نہ ہی انا سبحان کے نعرے لگاتا کیونکہ اللہ کی تجلی میں تو ایک خاص قسم کی محویت حاصل ہوجاتی ہے اور جو شخص اللہ کی ذات کے مشاہدہ میں محو و مستغرق ہوجائے اسے کیا خبر کہ میں کون اور کیا ہوں وہ اس کیفیت و حالت میں کسی وقت بھی انا الحق و سبحانی نہیں کہہ سکتا اس لیے کہ جس کو اللہ کی معرفت حاصل ہوجاتی ہے اس کی زبان پھر اللہ کی تجلی میں ہی محو ہوجاتی ہے، البتہ تجلی صفات کی حالت میں زبان کھلتی رہتی ہو اور اس حالت میں وہ اپنے افعال و اثرات کو اپنی زبان سے بیان کرتا ہے۔
اے محبوب! جس وقت کسی درویش کو تجلی صفات میں استغراق ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنی جمالی صفات کو اللہ کی صفات تصور کرے یعنی درویش صفات الٰہی میں مستغرق ہوکر اس کی جمالی صفات کے نور کا ایک حصہ اور ٹکڑا بن جائے اس وقت وہ واجب الوجود کی صفتوں کو بیان کرتا ہے اس وقت چونکہ وہ تمام آلائشوں سے پاک ہوجاتا ہے، علاوہ ازیں چونکہ وہ واجب الوجود کی صفتوں میں مستغرق ہے اور اسے اپنی ذات کی کوئی خبر نہیں اس لیے وہ ان ہی اوصاف کو کبھی انا الحق اور کبھی سبحانی سے بیان کرتا، تو فی الواقع وہ نہیں بول رہا بلکہ اللہ کی صفت اس کے اندر بول رہی ہے اس کا ثبوت حدیث میں بھی ملتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ (کہ اللہ تعالیٰ عمر کی زبان میں بولتا ہے۔)
کیا کروں! ابن عربی اس وقت زندہ نہیں ورنہ جو کچھ مجھے کہنا تھا وہ سب دل کھول کر کہتا اور یقین ہے کہ وہ ضرورتسلیم کرتے، میرے ملفوظات صرف بحرالمعانی ہی نہیں بلکہ اس کے علاوہ اور ابھی ہیں جو اے محبوب تمہیں کسی روز لکھوں گا۔
اے محبوب! میں صاحب حقیقت شیخ نصیرالدین محمود سے مرید ہونے کے بعد آپ کی برکت سے تصوف اور سلوک کے راستہ میں ترقی کرتا رہا اور مقام تجلی صفات تے تجلی ذات میں جو مستور و پوشیدہ رکھنے کا مقام ہے داخل ہوا، ایک روز صاحب حقیقت شیخ نصیرالدین محمود ذکر خفی فرما رہے تھے اور میں آپ کی خدمت میں نہایت متواضعانہ صورت میں حاضر ہوا تو آپ نے مجھے دیکھتے ہی فرمایااے میدان عالمِ لاہوت کے شہباز، اے عالمِ جبروت کے پاکیزہ، اے عالم ملکوت و فاسوت کے شہسوار آئیے آئیے، اس کے بعد میری آنکھوں میں سرمہ کی ایک سلائی ڈالی اور فرمایا کہ یہ اللہ کی ذات کے جمال کے نور کا سرمہ ہے، یہ واقعہ 811ھ کا ہے۔ چنانچہ جب رات ہوئی تو میں اڑنے لگا اور شہر ختلان سے مصر پہنچ گیا اور شیخ اوحد سمنانی کی خدمت میں حاضر ہوا انہوں نے بھی مجھے انہیں کلمات سے یاد فرمایا جن کلمات سے شیخ نے یاد فرمایا تھا۔ بعد میں مجھے اپنے کمرے کے ایک گوشہ میں بٹھا دیا جہاں دو آدمی میرے علاوہ اور بھی بیٹھے تھے ان میں سے ایک صوفی تھا اور دوسرا طالب علم، قطب عالم شیخ اوحد سمنانی کی امامت میں میں نے عشاء کی نماز ادا کی اس کے بعد رات کے دو تہائی حصہ تک میں نے قرآن کریم کے تیرہ پارے پڑھے بعد میں جو میں نے اپنے دل کو دیکھا تو اسے نُور سے لبریز پایا جو عرش پر محیط ہوچکا ہے اور اس طرح معلوم ہو رہا ہے کہ گویا عرش میری نظروں میں رائی کے ایک دانہ کی مانند ہے اس کے بعد میں نے اپنے بالوں کو دیکھا تو ایسا محسوس ہوا کہ میرا ہر ہر بال ایک علیحدہ وجود و ہستی کا مالک ہے بعد میں وہ شکلیں ختم ہونے لگیں، پھرمیں نے دیکھا کہ تمام دنیا اور اس کی تمام چیزیں اپنی صورتیں بدلنے لگی ہیں اور تمام تجلیات صفات افعال اور اسماء و آثار نے بھی اپنی صورتیں تبدیل کرنا شروع کردی ہیں۔
اے محبوب! محو در محو ہونا اسی کو کہتے ہیں، اس طرح میں نے آنکھ کے جھپکنے کی دیر ہی ستر ہزار عوالم کی سیر کی ہے، اس کے بعد بذات خود میں نے یہ حکم سنا کہ اے میرے پُر جلال بندے! تیرے اور میرے درمیان حجاب جمال درپیش ہے اور میرے جمال کے انوار پُرجلال ہیں اور تو اس وقت جلال و جمال کے مابین ہے خلاصہ یہ کہ اتنی گفتگو کے بعد میں اللہ تعالیٰ کی تجلی سے سرفراز ہوا جس کی کیفیت صرف مشاہدہ سے تعلق رکھتی ہے، بعد میں مقام لاہوت میں جس کو مقام فردانیت بھی کہتے ہیں میں ٹھہرا رہا اور رب العالمین کی تجلی کے بعد سترہ دن تک میں عالم بیداری اور حیرانی میں اور حد صمنانی کے کمرے میں یہ پڑھتا رہا۔
از شراب شوق گشتم مست اد |
|
ہمت من گم گشت اندر ہست او |
|
||
|
||
|
اے محبوب! تجلی ذاتِ الٰہی کے بعد میں شیخ اوحد سمنانی کے کمرہ میں بالکل بےہوش پڑا رہا او رمیری بے ہوشی کے زمانے میں شیخ میری پیشانی کو چومتے رہتے تھے، شیخ جو ولی تھے اگر انہیں میری اندرونی کیفیت کا علم نہ ہوتا تو مجھے اسی کمرے میں مردہ اور میت سمجھ کر دفن کردیتے اور اس بے ہوشی کے عالم کو ختم ہوجانے کے بعد میں سترہ روز تک اسی کمرے میں بیدار تھا اور آنکھیں پھاڑے حیران بیٹھا دیکھتا رہتا تھا اس لیے کہ یہ تجلیات کی ابتداء تھی (جس کی وجہ سے میرے اوپر بہت اثر ہوا) اس کے بعد تو میں جدھر دیکھتا مجھے ایک نور دکھائی دیتا جو مجھے جوانب اربعہ سے گھیرے ہوئے ہوتا، مقام فردانیت میں اس صورت کو افاقہ کہتے ہیں جو تمام کائنات پر بحیثیت قدرت و تمکنت کے قابض اور سایہ کیے ہوئے ہے، اور یہ تمام حالات محض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ستودہ صفات کی برکتیں ہیں۔
میرے والد بزرگوار امیر کبیر جعفر نصیر ایک روز میرے شیخ خواجہ نصیرالدین محمود کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے، میرے شیخ نے ان سے فرمایا کہ اے جعفر! سید محمد میدان لاہوت کا شہباز ہے، تین سو اسی سے زیادہ اولیاء اور اقطاب ان سے فیض حاصل کریں گے اور ان کی بیعت سے سرفراز ہوں گے اور یہ وہ زمانہ تھا جبکہ میں خواجہ نظام الدین اولیاء کے خلیفہ مولانا شمس الدین یحییٰ سے تلخیص پڑھا کرتا تھا۔
اے محبوب! جب میں اس مقام تک پہنچا تو یہ اشعار پڑھا کرتا تھا۔
گفتم اکنوں من ندانم کیستم |
|
بندہ بارے نیم بس چیستم! |
|
||
|
||
|
اے محبوب! کوئی گمراہ بھی یہ کلام نہیں کہہ سکتا، سو جس نے یہ کہا ہے تو (وہ معذور تھا اس لیے کہ اس نے) تجلی صفات کے بعد یہ کہا ہے کیونکہ اس کلام ہی سے تجلی ظاہر ہو رہی ہے، جب میرے دل میں آتا ہے کہ آپ کے لیے کچھ لکھوں تو تجلی ذات کے نہ دیکھنے کی وجہ سے حیران و پریشان ہوجاتا ہوں وگرنہ کہاں آپ اور کہاں یہ گفتگو، آپ کو تو میرے حق میں یہ دعا کرنا چاہیے کہ میری حیرانی کے زمانہ میں آپ میرے ہمراہ رہیں تاکہ اس کتاب کو جو بغیر حروف و آواز کے ہے آپ پر حروف و آواز کی صورت میں بیان کرسکوں، اے محبوب! بڑی غور و فکر سے سوچو اور انسانی نظر سے مجھے نہ دیکھو۔
مردا دراے کاندریں راہ!
نے بوئے ہمی خرندونے رنگ
افتادہ مباش در رہ تنگ
زنار معنانہ برمیاں بند
میداں بہ یقین در دو عالم!
در راہ توجزتو نسیت خرسنگ
یہ مبارک خط 30 شوال 834ھ کو مکمل ہوا۔
آپ بحرالمعانی میں ایک دوسری جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ میرے قلم سے جو کچھ نکلتا ہے وہ فی الواقع میرے دل کی صدا ہوتی ہے، ان باتوں کو میرا دل روح سے اخذ کرتا ہے اور میری روح ان باتوں کو حضرت علی سے اور حضرت علی رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ کرتے ہیں، اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم براہ راست ان باتوں کو اللہ تعالیٰ کی ذات سے لیتے ہیں۔
اے محبوب! میں جتنا زیادہ لکھتا ہوں ا تنا ہی زیادہ مشکلات میں مبتلا ہوجاتا ہوں، یقین جانیے کہ بحرالمعانی کے مضامین برسہا برس تک، سفر و حضر میں مجھ سے حضرت خضر علیہ السلام دریافت فرماتے رہےمگر میں نے انہیں نہیں بتلائے، اور اب بھی پوچھتے رہتے ہیں مگر اللہ کی قسم میں انہیں ہرگز ہرگز نہیں بتاؤں گا، سبب اس کا یہ ہے کہ میں نے ابتداً یہ باتیں حضرت خضر علیہ السلام سے دریافت کی تھیں مگر انہوں نے کچھ ایسے بے رخے پن سے جواب دیا کہ میری تسلی نہ ہوسکی اور اب انہیں آرزو ہے مگر میں احتراز کرتا ہوں، وہ ان اسرار کے ذریعہ اپنی جان کی حفاظت کے خواہاں ہیں یعنی نیم جان کی حفاظت چاہتے ہیں اور میری کیفیت یہ ہے کہ اگر مجھے ہزارہا جانیں دی جائیں تو میں ان سب جانوں کو چھوڑ دینا چاہتا ہوں۔
اے محبوب! آپ بھی جاں نثار بن جائیں تاکہ حضرت خضر علیہ السلام جیسے ہزاروں آپ کے لیے سرگرداں نظر آئیں خیر الکلام قل و دل دامن گیر ہے اس لیے میں اپنے ما فی الضمیر کو اجمالاً لکھ رہا ہوں، اگر تفصیل سے لکھوں تو توراۃ کی مانند ایک ایسی ضخیم کتاب بن جائے جس کو اونٹ پر لادے بغیر نہ اٹھایا جاسکے چونکہ یہ تمام کلمات فی الواقع قرآن کریم کی شرح ہیں اس لیے ان کو بھی خیر الکلام ہی کہا جائے۔
بحرالمعانی میں ایک اور جگہ فرماتے ہیں کہ اس بوڑھے فقیر نے اللہ تعالیٰ کے عاشقوں کے آستانہ پر برابر بیس برس تک خاکروبی کی ہے میں صاحب حقیقت شیخ نصیرالدین محمود کی خدمت عالیہ میں تین مہینے بارہ یوم تک حاضر رہا اور بیعت ہونے کے بعد آپ کی تین ہدایات پر عمل کرنے میں ہمہ تن مشغول ہوگیا۔
پہلا کام یہ کہ پانچوں وقت پانی لاکر اپنے مرشد کو وضو کرانا،
دوسرا کام یہ کہ مرشد کے گھر کی روشنی کا انتظام کرنا،
تیسرا کام یہ کہ مرشد کے استنجاء کے لیے ڈھیلے لانا، مگر میں انہیں حاصل کرنے کے بعد اپنے رخساروں پر مسل کر صاف کرلیا کرتا تھا، یہ اس زمانہ کی بات ہے جبکہ سلطان تغلق کے دور حکومت میں میرے والد بزرگوار کے پاس تمام علاقہ کنبہات کی جاگیر تھی اور آپ کے لیے ایک ہزار تین سو سوار بھی مقرر تھے، اپنے مرشد کی اجازت سے میں نے تین ہزار اولیائے کرام کو پایا اور ان کی خدمت کی، ہر ایک سے مجھے فائدہ ہوا، ظاہر پرست صوفیا، اور عوام الناس یہ سمجھتےہیں کہ یہ منزل بڑی آسان ہے (حالانکہ یہ منزل بہت مشکل ہے)
نیز بحرالمعانی میں ان تین ہزار بیاسی مشہور بزرگوں کے حالات اور جائے سکونت اور مقام ملاقات، سفر و قیام اور ان کی خدمت میں اپنے ٹھہرنے کی مدت وغیرہ تمام چیزوں کو تفصیل سے لکھا گیا ہے۔ اور یہ بھی لکھا ہے کہ صفوان بن قیس عبد منان کے بھائی جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاکر مسلمان ہوئے میں نے انہیں ایک غار میں (عبادت میں) مشغول دیکھا ہے، میں نے جس دن ان کی ملاقات کا شرف حاصل کیا اس وقت ان کی عمر نو سو بانوے برس کی تھی (ان سے میں نے دریافت کیا کہ آپ اس وقت یہاں کیسے ہیں) تو انہوں نے فرمایا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لیے درازیٔ عمر کی دعا کی تھی۔
میں مؤلف اخبار الاخیار کہتا ہوں کہ صفوان کا یہ واقعہ آپ کی ایک دوسری کتاب ’’بحرالانساب‘‘ میں بھی مذکور ہے یہ غرابت سے خالی نہیں ہے جو کتب احادیث اور سیر کے موافق نہیں (یعنی یہ قصہ صحیح نہیں بلا سند و بلا دلیل ہے) واللہ اعلم بالصواب آپ ایک جگہ اور فرماتے ہیں کہ اے محبوب! میں نے اتنی سیر کی ہے اور اس دوران اتنے مختلف مذاہب کے لوگوں سے ملا ہوں اور ان سے گفتگو کی ہے کہ اگر اس کو تفصیل سے ذکر کروں تو ایک ایسا ضخیم ذخیرہ ہوجائے جس کو اٹھانے کے لیے اونٹوں کی ضرورت محسوس کی جائے گی۔ ایک اور جگہ آپ لکھتے ہیں کہ میں اگر ان تمام کلمات کو بحرالمعانی میں درج کردیتا جو میرے اوپر وارد ہوئے ہیں تو یہ جہان لرزہ بر اندام ہوجاتا، میں اپنے نانا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی غیرت کی وجہ سے بڑا ہراساں ہوں (یعنی اس بات سے ہمیشہ ڈرتا ہوں کہ کہیں مجھ سے ایسا کام سرزد نہ ہوجائے جس کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غیور ہونے کی وجہ سے مجھ سے خفا ہوجائیں) اور دو غیوروں کے درمیان میں پڑا ہوں جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں میں غیور ہوں اور اللہ عزوجل مجھ سے زیادہ غیور یعنی غیرت والا ہے)
اے محبوب! موسیٰ علیہ السلام جب علمِ نبوت اور ولایت میں مکمل ہوگئے تو آپ بھی خضر علیہ السلام کی طرح تین چیزوں کا تحمل نہ کرسکے اور خضر علیہ السلام میرے ان کلمات سے ابھی تک سرگرداں ہیں۔
اے محبوب! موسیٰ علیہ السلام تو تین چیزوں کا تحمل نہ کرسکے، اور اے محبوب حضرت تاجدارِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے در کا فقیر بحرالمعانی کے تمام (مضامین مشکلاۃ) کا حامل بن گیا اگر موسیٰ علیہ السلام اس زمانے میں ہوتے تو ان سے وہی کہتا جو کہا گیا ہے اس لیے اللہ کی نعمت کا شکر ادا کیا جائے اور ا پنے عزائم و اِرادے بلند رکھو تاکہ بحرالمعانی کے دقائق لکھ سکو اور میرے لیے شب و روز دعا کیا کرو تاکہ زندگی یاری کرے،
از دعائے زادہداں چوں برنیاید کار من
شاہداں راپائے بوسی بدکہ دل کارے کند
بحرالمعانی کے اخیر میں لکھتے ہیں کہ جمعرات 27؍ محرم الحرام کو 36 واں خط تحریر کر رہا تھا اور اسرار عشق میں قلم بڑی جولانی سے چل رہا تھا جب یہاں پہنچا (ایک دن چھوڑ کر زیارت کرکے محبت کو بڑھاؤ) تو ایک دوسرے ہی جہان میں جا پہنچا اور گھٹنوں پر سر رکھ کر حیران بیٹھ گیا، اسی عالم میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد قباء میں تشریف فرما دیکھا، تمام اصحاب رسول، اولیائے کرام حضرت علی سے لے کر شیخ نصیرالدین محمود تک تمام کے تمام لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فارسی زبان میں مجھ سے ارشاد فرمایا ترجمہ: (اے اللہ کی ذات میں مست بیٹے، بحرالمعانی لاؤ، چنانچہ اس وقت میں نے جو 35 یا 36 مکتوب لکھے تھے فوراً پیش کردیے، آپ نے ان تمام مکتوبات کو نبوت کی طاقت سے بہت جلدی پڑھ کر فرمایا، اے بیٹے! تمام تعریف اس ذات کی ہے جس نے آپ کو یہ رموز الہام کیے اور فرمایا کہ اللہ تمہیں اس سے بھی زیادہ علم دے، پھر میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فارسی زبان میں فرمایا، اے دوستو! بحرالمعانی کا یہ مصنف وہ شخص ہے جس نے قرآن کریم کے حقیقی معانی کو بحرالمعانی میں لکھ دیا ہے اگر دنیا کے تمام علوم ختم ہوجائیں اور علوم کا ایک ورق بھی باقی نہ رہے تب بھی یہ شخص ان علوم کو قلم کی ایک جنبش سے تحریر کردے گا۔ پھر فرمایا، اے اللہ کے مست بیٹے! ان رموز و اسرار کو صحرا میں نہ ڈال دینا کیونکہ شریعت کے امور دنیا میں کم ہوتے چلے جا رہے ہیں اور اہل مذہب سے اہل دنیا نفرت کرنے لگے ہیں۔ میں نے اقرار کیا کہ آپ کا ارشا د سر آنکھوں پر، چنانچہ 36 ویں مکتوب سے آگے اس واقعہ کے بعد لکھنا شروع کیا اور بحرالمعانی کو مکمل کیا۔
اے محبوب! اس کے بعد میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کتاب خود دیکھ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دی۔ انہوں نے حسن بصری کو، انہوں نے خواجہ عبدالواحد بن زید کو اس کے بعد سلسلہ وار تمام مشائخ کے پاس سے ہوتی ہوئی وہ کتاب شیخ نصیرالدین محمود چراغ دہلوی کے ہاں پہنچی۔
اے محبوب! یہ فقیر اس بات کا منتظر تھا کہ مدینے کے سلطان صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کی اجازت دیدیں کہ بحرالمعانی کے حقائق و دقائق کو تحریر کیا جائے، چنانچہ جب آپ نے مجھے یہ فرمایا کہ اللہ عزوجل تمہیں اس سے زیادہ علم دے تو میں نے اس کو تصنیف کی اجازت پر محمول کیا۔ والسلام
بحرالمعانی میں لکھتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام صاحبِ ذوق موسیٰ علیہ السلام صاحب لذت اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صاحب حلاوت پیغمبر تھے۔
نیز بحرالمعانی میں لکھتے ہیں کہ حُضور غوثِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے خواب میں اللہ تعالیٰ کو امی صورت میں دیکھا اور امی، تو فرمایا کہ جس کا ذکر اللھم صل علی محمد النبی الامی میں ہے ارشاد ہے کہ تمام اولیائے کرام میری قبا کے دامن میں ہیں۔ لا یعرفھم غیری، اس غیری میں یائے متکلم نہیں بلکہ یائے نسبتی ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی دوسرا نہیں سمجھ سکتا، یعنی صرف اللہ تعالیٰ ہی اپنے پیاروں کو پہچانتا ہے اور اس کے پیارے اپنے پیاروں کو جانتے ہیں۔
ایک جگہ اور لکھتے ہیں کہ سماع روح کی معراج ہے اور ماز دل کی معراج ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔
(میں رحمت کی ہوا یمن کی جانب سے محسوس کرتا ہوں) اس سے مراد پردہ یمن ہے۔
اے محبوب! آپ نے اس آواز کو سنا ہوگا جس کو ہندوستان میں بسنت راگ کہتے ہیں جو پردہ یمن سے بڑی نرم آواز سے کھینچا جاتا ہے۔
اے محبوب! سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سماع میں کنایۃ بیان فرمایا، اے محبوب اہل ظواہر اور علماء نادان کیا جانیں کہ میں کیا لکھتا ہوں افسوس اس بات کا ہے کہ اب کوئی ایسا آدمی ہی نہیں جس سے دل کی بات کہی جائے۔
میں (مؤلف اخبا رالاخیار) کہتا ہوں کہ اہل سُکر کے وہ کلمات جو حالت ذوق کے غلبہ کے وقت صادر ہوں اور معرضِ وجود میں آئیں وہ قواعد عقلیہ اور نقلیہ کے اعتبار سے معتبر نہیں ہوتے۔
اور یہ بات بلا شبہ سب کے نزدیک مسلم ہے کہ یائے نسبتی مشدد ہوتی ہے اور اس کا مخفف ہونا کبھی ضرورت کی وجہ سے جائز رکھا گیا ہے (اور اس جگہ کوئی ضرورت نہیں کہ غیری کی یا کو مخفف مانا جائے)
علاوہ ازیں اگر مذکورہ حدیث صحیح ثابت ہوجائے تو اس سے یمن شہر مراد ہے (نہ کہ پردہ) اور بعض مجذوب اور صاحب ذوق لوگوں سے جو اَسرار ظاہر ہوتے ہیں ان کے لیے قاعدہ کلیہ یہ ہے کہ انہیں پوشیدہ رکھا جائے اور آگے بیان نہ کیا جائے اللہ تعالیٰ نے تمام عارفین کے اَسرار مقدس و پاکیزہ بنائے ہیں۔ واللہ اعلم بحرالمعانی میں آپ کے جو بعض اشعار ہیں ان میں سے ایک غزل لکھی جاتی ہے۔
اے صورت تو جہان معنی |
|
یا صورت قست جان معنی |
اخبار الاخیار