والد بزرگوار فرماتے تھے کہ سید سلطان بھڑائچی اہل دل، خاکسار اور صاحب ہمت درویش تھے، شیخ علاؤالدین کے مرید تھے مگر تلقین و ارشاد کا تعلق مشرب شطاریہ سے رکھتے تھے، لباس میں صرف ستر عورت پر اکتفا کرتے اور عام طور پر ننگے سر رہا کرتے کبھی درویشوں کے ساتھ رہتے اور کبھی عالم تنہائی میں رہتے، دنیوی رسوم سے آزاد رہا کرتے تھے، ذکر بالجہر زیادہ کرتے تھے، دَوران ذکر میں آپ اپنے دل پر اس زور سے ضرب لگاتے تھے کہ جس طرح صنوبر کی لکڑی چیرتے وقت کثر کثر کی آوازیں نکلتی ہیں اسی طرح آپ کے دل سے آوازیں نکلتی تھیں۔ اللہ اللہ
میرے والد صاحب نے فرمایا کہ میں پہلے طلب حق کے سلسلہ میں سلطان بھڑائچی کی خدمت میں حاضر ہوا آپ اس وقت کتابت میں مشغول تھے میں بیٹھے بیٹھے سر نیچا کیے چپکے چپکے ذکر کرنے لگا، تھوڑی دیر کے بعد سر اُٹھا کر میری طرف غصہ سے دیکھنے لگے اور بعد میں تبسم فرمایا اور مجھے اپنے سینہ سے لگایا اور مہربائی فرمائی، لیکن مجھے حقیقت دریافت کرنے کی جرات نہ ہوئی، پھر جب میں وہاں سے چلا گیا تو آپ نے خود مجلس میں ذکر کیا کہ آج میرے پاس ایک نوجوان آیا جو دل سے ذکر کررہا تھا مجھے غیرت آئی چاہا کہ اس کے دل پر ایک طمانچہ ماروں، لیکن میرے پیرومرشد حاضر ہوئے، فرمایا کہ رحم کا مقام ہے۔
آپ کو ایک ہندو عورت سے محبت ہوگئی تھی جو آپ کی توجہ کی بدولت مسلمان ہوگئی تھی، اس کے قبیلہ کے لوگوں نے محمد زماں کے یہان جو ظہیرالدین محمد بابر بادشاہ کے رشتہ دار تھے، مقدمہ داخل کردیا، محمد زماں نے آپ کی طرف پیغام بھیجا کہ اس عورت کو گھر سے نکال دو ورنہ تم پر حملہ کروں گا، آپ نے تلوار ہاتھ میں لے کر فرمایاکہ یہ مسلمان ہوگئی ہے اس کا کافروں کے سپرد کرنا نا جائز ہے، اگر آپ کو لڑائی کا شوق ہے تو جلد آجائیے، دیکھئے اللہ تعالیٰ کیا معاملہ فرماتا ہے، آپ کے اس جواب سے محمدزماں مرعوب ہوگیا اور اپنی حرکت پر شرمندہ ہوا۔
آپ کے مریدوں اور خلفاء میں سے شیخ ابن انبروھ بھی ہیں جو بوڑھے بابرکت اور مجذوب شکل تھے اللہ سب پر اپنی رحمتیں نازل کرے۔
اخبار الاخیار