حضرت حافظ اکبر امام عبدالرزاق رضی اللہ عنہ
ولادت: ۱۲۶ھ وفات: ۲۱۱ھ
اسم گرامی عبدالزاق ابو بکر کنیت۔ سلسلۂ نسب یہ ہے عبدالرزاق ابو بکر کنیت۔ سلسلۂ نسب یہ ہے عبدالرزاق بن ہمام بن نافع یمن کے پایۂ تخت صنعاء میں ۱۲۶ھ میں آپ کی ولادت ہوئی صنعانی مشہور ہوئے آپ کے والد ہمام ثقہ تابعین میں شمار ہوتے تھے۔ ابتداء میں اپنے والد اور مقامی شیوخ سے علم حاصل کیا تجارت کے لیے اسلامی بلادو امصار کے سفر کیے اور وہاں کے شیوخ سے استفادہ کیا۔ حافظ ذہبی لکھتے ہیں: ‘‘رحل فی تجارۃ الی الشام ولقی الکبار’’ وہ تجارت کی غرض سے شام ہوجاتے اور وہاں کے کبار علماء کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ (تذکرہ، ج۱، ص۳۳۱) غیر معمولی قوت حفظ و ضبط کے مالک تھے ابراہیم بن عباد زہری کا بیان ہے کہ ان کو سترہ ہزار حدیثیں یاد تھیں۔ (الاعلام، ج۲، ص۵۱۹)
امام عبدالرزاق نے بیس سال کی عمر میں تمام علوم متداولہ میں مہارت پیدا کرلی تھی انہوں نے مشہور امام فن معمر بن راشد کی بارگاہ میں کامل سات سال گزارے تھے خود کہتے ہیں ‘‘جالست معمرا سبع سنین’’ (تذکرہ، ج۱، ص۳۳۱) اور ان کے زمانہ میں امام معمر کی مرویات کا ان سے بڑا کوئی حافظہ نہ تھا۔ امام احمد کہتے ہیں ‘‘کان عبدالرزاق یحفظ حدیث معمر’’ (ایضاً) ان کے شیوخ حسب ذیل ہیں:
ہمام، وہب، معمر، عبید اللہ بن عمر عمری، ایمن بن نابل، عکرمہ بن عمار، ابن جریج، اوزاعی، مالک، سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ، عبداللہ بن عمرعمری، زکریا بن اسحاق مکی، جعفر سلیمان، یونس بن سلیمان صنعانی، ابن ابی رواد، اسرائیل، اسماعیل بن عیاش۔ (تہذیب، ج۶،ص۲۷۸)
علم و فضل:
عبدالرزاق بن ہمام علم و فن میں امتیازی شان رکھتے تھے ‘‘تبحر علمی، مہارت فن، قوت حفظ، وضبط’’ میں نہایت بلند مقام پر فائز تھے ان کے علم و فضل کا اعتراف ارباب علم نے اس طرح کیا ہے۔
v خیر الدین زرکلی: ‘‘من حفاظ الحدیث الثقات’’ وہ ثقہ حفاظ حدیث میں سے تھے۔
v علامہ یافعی: ‘‘الحافظ العلامۃ’’ حافظ اور بڑے علم والے تھے۔
v حافظ ذہبی: ‘‘احد الاعلام الثقات’’ وہ بڑے ثقہ عالم تھے۔ (تذکرہ، ج۱، ص۳۳۱)
v ہشام بن یوسف: ‘‘کان عبدالرزاق اعلمنا واحفظنا’’ عبدالرزاق ہم میں سب سے بڑے عالم اور حافظ الحدیث تھے۔ (تہذیب، ج۶، ص۲۷۹)
v احمد بن صالح کہتے ہیں میں نے امام احمد بن حنبل سے پوچھا ‘‘رایت احدا احسن حدیثا من عبدالرزاق قال لا’’ کیا آپ نے کسی کو عبدالرزاق سے عمدہ حدیث والا پایا انہوں نے جواب دیا نہیں۔ (تہذیب، ج۶، ص۲۷۹)
v ابو زرعہ کا بیان ہے میں نے امام احمد سے پوچھا ‘‘من اثبت فی ابن جریج عبدالرزاق او البرسانی قال عبدالرزاق’’۔ (ایضاً)
ماہرین علم حدیث امام عبدالرزاق کی صداقت و عدالت پر متفق ہیں ان کے ثقہ دعا و عادل ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے ان کی احادیث صحاح ستہ میں مرقوم ہیں: حافظ ذہبی لکھتے ہیں ‘‘وثقھہ غیر واحد وحدیثہ فخرج فی الصحاح’’ بہت سے ائمہ فن نے ان کی توثیق کی ہے ان کی احادیث صحاح ستہ کی ساری کتابوں میں میں مذکور ہیں۔ (تذکرہ، ج۱، ص۳۳۱) امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں معمر سے ابن ہمام کی روایت میرے نزدیک تمام بصری علماء سے زیادہ پسندیدہ اور قابل ترجیج ہے نیز یہ بھی فرمایا ابن جریج کے تلامذہ میں عبدرالرزاق اثبت ہیں۔
حلقۂ درس:
امام عبدالرزاق کے فضل و کمال کا شہر سن کر اقصائے عالم سے تشنگان علم کا ہجوم سیل رواں بن کر ان کے پاس آنے لگا اور شہر صنعاء قال اللہ وقال الرسول کے نغموں سے معمور ہوگیا ان کے استاذ معمر بن راشد پیشین گوئی کی تھی ‘‘اما عبدالرزاق فان عاش فخلیق ان تضرب الیہ اکباد الابل’’ اگر عبدالرزاق کی زندگی رہی تو لوگ دور دراز مقامات سے سفر کرکے اس کے گرد ہجوم کریں گے۔ (تہذیب، ج۶، ص۲۷۹) یہ پیشین گوئی حرف بحرف حقیقت ہوکر رہی مورخین کا بیان ہے کہ عہد رسالت کے بعد کوئی شخصیت اتنی مرجوعۂ خلائق اور پرکشش ثابت نہ ہوسکی۔ علامہ یافعی نے آپ کو المرتحل الیہ من الآفاق لکھا ہے یعنی وہ شخص جس کے پاس لوگ مختلف اطراف و اکناف سے آتے تھے۔ (مرأۃ الجنان، ج۲، ص۵۲) ابن اثیر لکھتے ہیں رسول اکرمﷺ کے بعد کسی کے پاس اس قدر کثرت سے لوگ نہیں آئے جتنے ابن ہمام کے پاس آئے۔ (اللباب فی تہذیب الانساب، ج۲، ص۶۱) ابن خلکان لکھتے ہیں ‘‘ما رحل الناس الی احد بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مثل ما رحلوا الیہ رسول اللہ ﷺ کے بعد لوگوں نے کسی کی طرف اتنا سفر نہیں کیا جس قدر لوگ عبدالرزاق کی خدمت میں حاضر ہوئے’’۔ (وفیات الاعیان، ج۲، ص۱۰۳)
آپ کے خرمن علم کے خوشہ چینوں کی تعداد کا اندازہ لگانا از بس دشوار ہے۔ چند اہم اور مشہور تلامذہ یہ ہیں:
ابن عیینہ، معتمر بن سلیمان، وکیع، ابو اسامہ، احمد اسحاق، علی یحییٰ، ابو خثیمہ، احمد بن صالح، ابراہیم بن موسیٰ، عبداللہ بن محمد مسندی، سلمہ بن شبیب، عمرو الناقد، ابن ابی عمر، حجاج بن شاعر، یحییٰ بن جعفر بیکندی، یحییٰ بن موسیٰ، اسحاق بن ابراہیم، سعدی، اسحاق بن منصور کو سج، احمد بن یوسف سلمی، حسن بن علی خلال، عبدالرحمٰن بن بشر بن حکم، عبد بن حمید، محمد بن رافع، محمد بن مہران حمال، محمود بن غیلان، محمد بن یحییٰ ذہلی، ابو مسعود رازی، اسحاق بن ابراہیم دبری۔ (تہذیب التہذیب، ج۶، ص۲۷۸)
الزام تشیع:
بعض علمائے جرح و تعدیل نے آپ کو نقد و جرح کا بھی نشانہ بنایا ہے مگر تحقیق سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان اعتراضات کی کوئی اصل نہیں ان پر ایک اعتراض رفض و تشیع کی طرف میلاد کابھی ہے مگر اس بارے میں خود آپ نے فرمایا: ‘‘واللہ ما انشرح صدری قط ان افضل علیا علیٰ ابی بکر و عمر’’ بخدا میں اس بات پر کبھی راضی نہیں ہوا کہ میں علی کو ابو بکر اور عمر پر فضیلت دوں۔ (تذکرہ، ج۱، ص۳۳۱)
آپ پر الزام تشیع کی حقیقت محض اتنی ہے کہ بعض اکابر کی طرح وہ بھی حضرت علی اوعر اہل بیت کے بڑے گرویدہ تھے لیکن دوسرے صحابہ کے درجات و مراتب کو اہل سنت ہی کی طرح مانتے تھے شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کا یہ قول نقل کیاہے۔ مجھ کو یہ جرأت نہیں ہے کہ امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو امیر المومنین حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما پر ترجیح دوں اور میرا دل یاوری نہیں کرتا کہ ان کے تفاضل کو ثابت کروں کیوں کہ امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بہ تواثر ثابت ہے اور یقین کی حد تک پہنچ گیا ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے مجھ کو ان دونوں حضرات پر فضیلت مت دو۔ (بستان المحدثین، ص۸۰)
تصانیف:
امام عبدالرزاق متعدد کتابوں کے مصنف بھی تھے مگر ان کی اکثر کتابیں امتداد زمانہ کی وجہ سے ناپید ہوچکتی ہیں بعض کے نام یہ ہیں جامع سنن عبدالرزاق، کتاب السنن فی الفقہ، کتاب المغازی، تفسیر میں بھی ایک کتاب لکھی تھی۔ مصنف عبدالرزاق، یہ کتاب نہایت اہم اور مشہور کتاب ہے اس میں حدیثوں کو ابواب فقہ پر ترتیب دیا گیا ہے ابو بکر بن ابی شیبہ کی مصنف اگر چہ مجموعی حیثیت سے زیادہ اہم اور وقیع ہے لیکن قدامت کے لحاظ سے وہ بھی اس مصنف سے کم پایہ ہے مصنف عبدالرزاق کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی اکثر حدیثیں ثلاثی ہیں۔ شاہ عبدالعزیز محدثدہلوی لکھتے ہیں اس کی اکثر حدیثیں ثلاثی ہیں عجیب بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنی مصنف کو شمائل پر ختم کیا ہے اور شمائل کو حضور ﷺ کے موئے مبارک کے ذکر پر تمام کیا چناں چہ اس کے آخر میں یہ حدیث ہے ‘‘حدثنا معمر عن ثابت عن انس قال کان شعر النبی صلی اللہ علیہ وسلم الٰی انصاف اذنیہ’’ حضرت انس فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ کے موئے مبارک آپ کے کانوں کے نصف حصہ تک پہنچتے تھے۔ (بستان المحدثین، ص۸۰)
وفات:آپ وصال ماہ شوال ۲۱۱ھ میں ہوا۔