حضرت عبید اللہ بن حسین کرخی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
عبید اللہ بن حسین بن دلال بن ولہم کرخی: اپنے زمانہ کے امام عالم فقیہ فاضل شیخ ثقہ طبقہ مجتہدین فی المسائل میں سے نزیل بغداد تھے،بد ابی خازم اور ابو سعید بروعی کے ریاست مذہب کی آپ پر منتہی ہوئی،علاوہ فضیلت علم کے آپ بڑے صاحب قدر،عابد،قانع،زاہد،متورع۔ ۔۔۔۔
حضرت عبید اللہ بن حسین کرخی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
عبید اللہ بن حسین بن دلال بن ولہم کرخی: اپنے زمانہ کے امام عالم فقیہ فاضل شیخ ثقہ طبقہ مجتہدین فی المسائل میں سے نزیل بغداد تھے،بد ابی خازم اور ابو سعید بروعی کے ریاست مذہب کی آپ پر منتہی ہوئی،علاوہ فضیلت علم کے آپ بڑے صاحب قدر،عابد،قانع،زاہد،متورع۔ کثیر الصوم والصلوٰۃ تھے۔ابو الحسن کنیت تھی،۲۶۰ھ میں پید ہوئے،فقہ کو ابو سعدی بروعی تلمیذ اسمٰعیل بن حماد سے اخذ کیا اور حدیث کو اسمٰعیل بن قاضی اسحٰق اور محمد بن عبد اللہ حضرمی سے سنا اور روایت کیا اور آپ سے ابو حفص بن شاہین وغیرہ محدثوں نے روایت کی،اور آپ کے تلامذہ میں سے مثل ابو بکؔر الرازی احمد جصاص وابو علی احمد بن محمد الشاشی وابو حامد احمد البطری و ابا القاسم علی التنوخی وابو عبد اللہ الدامغانی اور ابو الحسن قدوری وغیرہم کے بہت سے ائمہ دین ہوئے۔آپ کی عادت تھی کہ خود جاکر بازار سے سود اخرید کرتے اور اس دو کاندار سے لیتے جو آپ کو نہ جانتا اور اس سے عرض یہ تھی کہ اگر کسی واقف کار سے خریدا تو وہ ضرور رعایت کرے گا۔
آپ کی تصانیف میں سے کتاب مختصر وکتاب شرح جامع صغیر اور کتاب شرح جامع کبیر وغیرہ ہیں۔کہتے ہیں کہ جب آ پ کو اخیر عمر میں فالج ہو گیا تو آپ کے اصحاب نے سیف الدولہ بن حمدان کو آپ کے معالجہ کے خراجات کے لے لکھا،جب آپ کو اس بات کی خبر ہوئی تو آپ رونے لگے اور کدا سے دعا مانگی کہ الٰہا! میرا رزق اسن جگہ کے سوا کہ جہاں پھر مجھ کو لے جائے،اور کہیں سے نصیب نہ کر۔ پس دیف الدولہ کا صلہ جو اس نے دس ہزار درم کا بھیجا تھا،ابھی پہنچے نہیں پایا تھا کہ ۱۵؍شعبان ۲۴۰ھ کی رات میں فوت ہوگئے۔کرخی،شہر کرخ کی طرف منسوب ہے جو عراق کے علاقہ میں واقع ہے۔’’فقیہ یگانۂ جہاں‘‘ آپ کی تاریخ وفات ہے۔
(حدائق الحنفیہ)