ذکر حضرت عمر ابن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ
ذکر حضرت عمر ابن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ (تذکرہ / سوانح)
امام اہل برو بجر، متبغِ احکام بہ رے ڈھر، محدث اسرار ذات،مفصح رموز صفات محرم اشارات حضرت رب الارباب، ممتاز بعدالت، امیر المؤمنین حضرت عمر ابن الخطاب حضور سرور کونینﷺ کے دوسرے خلیفہ اور حضرت ابو بکر صدیق کے بعد افضل خلق ہیں۔ آپ کی کنیت ابو حفص ہے۔ آپ کو ابو حفصہ بھی کہا جاتا ہے۔ آپ کا نسب حضرت سید البشر کے نسب اطہر کے ساتھ آٹھ واسطوں کے بعد حضرت کعب سے جا ملتا ہے۔ آپ کی والدہ ماجدہ بھی اہل قریش سے تھیں۔
خلافت
آپ حضرت ابو بکر صدیق کے استصواب سے آپ کے بد مسند خلافت پر متمکن ہوئے کتب معتبرہ میں آپ کی خلافت کا واقعہ یوں ہے کہ حضڑت ابو بکر صدیق نے اپنی آخری مرض کے دوران فرمایا کہ آج رات میں نے خلافت کی تفویض کے متعلق کئی بار استخارہ کیا اور حق تعالیٰ سے درخواست کی کہ مجھے اپنی رضا سے آگاہی فرمائی جاوے تم لوگوں کے جاننا چاہئے کہ میں جھوٹ نہیں بولوں گا۔ اور دنیا میں کون ایسا شخص ہوسکتا ہے جو خدا تعالیٰ سے ملاقات کے وقت اس پر افترا (جھوٹ) روا رکھ سکتا ہے۔ یہ سُن کر تمام لوگوں نے کہا کہ اے خلیفۂ رسولِ خدا کسی شخص کو آپ کی صداقت میں شک نہیں ہے۔ آپ فرمائیں جو کچھ آپ فرمانا چاہتے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ آخر شب میں مجھ پر بلند کا غلبہ ہوا۔ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا۔ آپ نے دو سفید کپڑے زیب تن کر رکھے تھے اور ان کپڑوں کے کنارے میں جمع کر رہا تھا۔ یکا یک وہ دو کپڑے سبز ہوگئے اور چمکنے لگے جس سے آنکھوں کو سروع ہوا۔ آنحضرت کی دونوں طرف دو جوانمر و بالا قد اور خوبصورت، نورانی لباس پہنے کھڑے تھے۔ جن کو دیکھ کر دل خوش ہوتا تھا۔ چنانچہ رسول خداﷺ نے مجھ پر سلام کہا اور مصافحہ کا شرف بخشا۔ اس کے بعد میرے سینہ پر ہاتھ رکھا جس سے میر بیقراری رفع ہوگئی۔
آپ نے فرمایا اے ابو بکر ہمیں تمہاری ملاقات کا بہت شوق ہے لیکن ابھی تمہارے آنے کا وقت نہیں آیا۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ میں بھی شوق دیدار میں مبتلا ہوں۔ آپ نے فرمایا وصال میں تھوڑی دیر بقی ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے تجھے تفویض خلافت میں اختیار دیا ہے۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ آپ منتخب فرمادیں۔ فرمایا والئ رعایا پرور، عامل صادق، اور قوی عمر فاروق ہے جو زمین وآسمان میں پسندیدہ ترین اور پاکیزہ ترین زمانہ ہے۔ میں نے اس کو منتخب کیا ہے۔ اس کے بعد فرمایا کہ یہ دو جوان دنیا میں تمہارے وزیر، وفات میں تمہارے مددگار اور بہشت میں تمہارے رفیق ہیں۔ اس کے بعد آنحضرت نے مجھ پر سلام کیا اور اُن دو جوانوں نے بھی سلام کیا اور فرمایا کہ تم نے مکروہات سے نجات پائی۔ تم صدیق ہو ملائل میں او صدیق ہو خلائق ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ دو مرد کون ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ دو فرشتے جبرائل اور میکائل ہیں۔ یہ کہہ کر آپ چلے گئے اور میں بیدار ہوگیا۔ اس وقت میرا چہرہ آپ دیدہ سے تر تھا اور میرے گھر کے لوگ مجھ پر رورہے تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا شمار اکابر واشرف قریش میں ہوتا ہے ایام جاہلیت میں آپ قریش کے درمیان منصب مصالحت وشفاعت کا کام انجام دیتے تھے۔ اگر قریش او کسی دوسرے قبیلے کے درمیان خصوصت یا جھگڑا افساد ہوتا تو آپ کو مصالحت کے لیے بھیجا جاتا تھا۔
مشرف باسلام ہونا
حضرت عمر نبوت کے چھٹے سال مشرف باسلام ہوئے۔ آپ کے مسلمان ہونے سے اہل اسلام کو بہت تقویت حاصل ہوئی آپ بڑے صاحب کمال تھےے۔ آپ کے کمالات کا اندازہ اسبا ت سے ہوسکتا ہے کہ قرآن حکیم کی بعض آیات آپ کی رائے شریف کے مطابق نازل ہوئیں۔
فضائل عمر
تمام علمائے دین اسبات پر متفق ہیں کہ آپ بڑے صاحب علم، زہدو تواضع تھے۔ مسلمانوں پر آپ بڑے مہربان اور کفار پر بے حد سخت تھے۔ صاحب عدل وانصاف تھے، ہمیشہ حق پر رہتے تھے۔ باطل سے اجتناب کرتے تھے۔ رسول خدا تعالیٰ کی سنت کے پابند اور مسلمانوں کی اصاح وبہبود میں کوشاں رہتے تھے۔ روضۃ الاحباب میں لکھا ہے کہ آپ کے عہد خلافت میں ایک ہزار چھتیس شہر بمع مفصلات ولواحق فتح ہوئے، چار ہزار مساجد تعمیر ہوئیں۔ چار ہزار گرجے ختم ہوئے۔ جمعہ نماز کے لیے نو سو منبر نصب کیے گئے اسلام میں پہلے شخص جو امیر المؤمنین اور فاروق کے لقب سے ملقب ہوئے۔ آپ تھے پہلے شخص جو رات کو مدینہ کوچہ وبازار میں غرباومساکین کے حالات معلوم کرنے کے لیے گشت کرتے تھے آپ تھے، پہلے شخص نہوں نے تاریخ ہجری شروع ک ی آپ تھے۔ پہلے شخص جنہوں نے جمع قرآن کی تجویز پیش کی آپ تھے، پہلے شخص جنہوں نے شراب نوشی کے جرم میں اسی ذرے مقرر کیے آپ تھے، پہلے شخص جنہوں نے بیت المال کا نظام شروع کیا آپ تھے، پہلے شخص جنہوں نے خلق خدا کی ہجو کرنے والوں کے لیے سزا مقرر کی آپ تھے، پہلے شخص جنہوں نے اولاد کی امہات کی بیع کی ممانعت کی آپ تھے، پ لے شخص جنہوں نے نماز جنازہ میں چار تکبیر مقرر کیں۔ آپ تھے اس سے پہلے چار پانچ اور چھ تکبیر کہتے تھے، پہلے شخص جنہوں نے قانونِ وقف مقرر کیا آپ تھے۔ پہلے شخص جنہوں نے تادیب مردم کے لیے درہ کا استعمال کیا آپ تھے آپ کے زمانے میں بے شمار ممالک فتح ہوئے اور شہر آباد ہوئے جس سے ہر سال خراج وصول ہرکر بیت المال سے عمر کے لیے ملبوسات یعنی دو جوڑے کپڑا ایک موسم سرما کے لیے اور ایک گرما کے لیے سفر حج عمرہ و جہاد کے لیے اک سواری اور اس قدر خوراک کہ جس سے میرے اہل وعیال کے لیے قوت لا یموت کا سامان ہوسکے اور جو اہل قریش میں قوسط درجہ کا ہونہ غنی نہ فقیر کافی ہے حضرت امام جعفر فرماتے ہیں کہ میں اس شخص سے بیزار ہوں جو حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کو نیکی کے بغیر یاد کرے کیونکہ یہ دونوں اصحاب رسول خداﷺ کے نقش قدم پر چلنے والے تھے۔ مراۃ الاسرار میں لکھا ہے حضرت عمر کی خلافت کے عجیب و غریب کارناموں میں سے ایک یہ ہے کہ ایام جاہلیت میں دریائے نیل میں ہر سال ایک مرتبہ طغیانی آتی تھی جس سے شہر واطراف غرق ہوجاتے تھے۔ چنانچہ اہل مصر ایک صاحبِ حسن وجمال دوشیرہ کو زیورات سے آراستہ پراستہ کر کے دریا میں پھینکتے تھے۔ جس سے اس کی طغیانی رفع ہوجاتی تھی اورا پنے اصلی مقام پر آجاتا تھا۔ جب فتح مصر کے بعد وہ موسم قریب آیا تو حاکم مصر حضڑت عمرو بن عاص نے امیر المؤمنین کی کدمت میں خط لکھا کہ اب کیا حکم ہے۔ فاروق اعظم نے جواب میں لکھا کہ کوئی کام خلافِ شریعت نہیں کرنا چاہئے۔ چنانچہ دریا کے نام ایک رقعہ لکھ کر ارسال فرمایا کہ اس کو دریا میں ڈال دینا وہ خود بخود ٹھیک ہوجائے گا۔ جب دریا میں طغیانی آئی تو حضرت عمرو بن عاصنے وہ رقہ دریا میں ڈال دیا جس سے فوراً دریا کی طغیانی ختم ہوگئی اور حسب معمول چلنے لگا۔ رقعہ مذکور میں یہ لکھا تھا:۔
’’منجانب بندۂ خدا امیر المومنین بجانب نیل مصر
اما بعد ۔ اگر تو خود بخود چلتا ہے تو مت چل۔ اگر اللہ تعالی کے حکم سے چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی منشا یہ ہے کہ تو چلا کر‘‘
کرامات
’’رونق المجالس‘‘ میں لکھا ہے کہ ایک شخص جس کا نام جعفر خذری تھا اس کا بیان ہے کہ ایک دفعہ میں ایک قافلے کے ساتھ جرہا تھا۔ قافلے میں کچھ رافضی بھی تھے۔ میرے او ان کے درمیان فضیلت صحابہ کے متعلق بحث ومباحثہ ہوتا رہا جب ہم لیک جنگل میں پہنچے تو اچانک ایک جنگلی جانور نمودار ہوا۔ اس نے رافضیوں کو چھوڑا میرا رخ کیا۔ یہ دیکھ کر میں نے دل میں کہا کہ اعدائے دین جھ پر طعن کریں گے یہ سنی شیخین( حضرت ابو بکر حضرت عمر) کے معاملہ میں ہمارے ساتھ بحث کر رہا تھا۔ دیکھو اب اسے کس طرح جنگلی جانور نے گھیر لیا ہے۔ اس کے بعد وہ درندہ مجھےزندہ اپنے بچوں کے پاس لے گیا انہوں نے مجھ دیکھتے ہی خوش ہوکر مجھ پر حملہ کیا۔ جب میرے قریب پہنچے اور میری بو ان کی ناک میں پہنچی تو رک گئے۔ بڑے درندے نے چلا کر کہا کہ اس قدر پاک اور حلال لقمہ تماہرے لیے لالیا ہوں تم کیوں نہیں کھاتے۔ بچوں نے جواب دیا کہ تم نے ہمیں تین دن بھوکا رکھا ور تین دن کے بعد ایسا شخص ہمارے واسطے لائے ہو جوابو بکر وعمر کو محبوب رکھتا ہے۔ یہ سن کر میں آہستہ سے نکل آیا اور قافلے سے جا ملا۔ س طرح مجھ رافضیوں کے طعن سے نجات مل گئی۔
شیخ محی الدین ابن عربی اپنی کتاب فتوحات مکیہ میں لکھتے ہیں اولیاء اللہ میں سے چالیس افاد ایسے ہوتے ہیں جو جنگلوں میں رہتے ہیں۔ رجب کے مہینے میں ان کو بہت کشف و کرامات ہوتے ہیں اور امور غیب سے مطلع ہوتے ہیں۔ لیکن جب شعبان کا مہینہ آتا ہے تو سب کچ ساب ہوجاتا ہے۔ لیکن کبھی کبھی سارا سال ان پر کشف جاری رہتا ہے۔ شیخ ابن عربی فرماتے ہیں تو خنزیل کی شکل میں نظر آتا تھا۔ ایک دفعہ دو آدمی اُن کے سامنے آئے جو حضرت ابو بکر صدیق اور عمر فاروق سے بد اعتقاد تھے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے متعلق کمال غلو رکھتے تھے ان کے رافضی ہونے کا کسی کو علم نہیں تھا۔ جب وہ دونوں اس بزرگ کے قریب پہنچے تو انہوں نےفرمایا کہ ان کو دور بھگا دو۔ جب انہوں نے اس کا سبب دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ م یں تم کو خنزیر کی شک ل میں دیکھ رہا ہوں۔ اور خدا تعالیٰ اور میرے درمیان یہ علامت ہے کہ رافضیوں کو خنزیر کی صورت میں دکھایا جاتا ہے یہ سن کر انہوں نے دل میں رفض سے توبہ کی۔ اس کے فوراً بعد اس بزرگ نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے کہ تم لوگوں نے توبہ کرلی ہے کیونکہ اب تم مجھے انسان کی صورت میں نظر آرہےہو۔ یہ دیکھ کر انہوں نے سب لوگوں کے سامنے اس باطل مذہب سے توبہ کرلی۔ حضرت عمر کے کمالات اس قدر ہیں کہ س مختصر سی کتاب میں ان کی گنجائش نہیں ہے۔ تفصیل کی خواہش ہو تو کتب تاریخ وسیرت کا مطالعہ کیا جائے۔
وصال پر ملال
’’مراۃ الاسرار‘‘ میں لکھا ہے کہ جب حضرت عمر ہجرت کے تئیسویں سال حج بیت اللہ ادا کر کے واپس آئے تو ایک دن مسجد نبوی میں منبر پر کھڑے ہوکر فرمایا کہ اے مسلمانو! مجھے خواب میں دکھایا گیا ہے کہ دو یا تین مرتبہ ایک مرغ نے مجھے چونچ لگائی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس کی تعبیریہ ہے کہ اب میر واقف اجل قریب ہے ایک اور روایت میں ہے کہ کعب احبار نے حضرت عمر کے کان میں کہا کہ جو کام آپ نے دنیا میں کرنا ہے کرلیں مجھے تو رات سے یوں معلوم ہوا ہے کہ آپ کی عمر اب تین دن سے زیادہ ہیں ہے۔ چنانچہ آپ نے لوگوں کو وصیت کی اگر میری جل آجائے تو خلافت کا مطالعہ یہ چھ آدمی بذریدہ شوریٰ طے کریں۔ حضرت عثمان حضرت علی طلحہ، حضرت سعد حضرت زبیر، حضرت عبد ارلحمٰن بن عوف ان میں سے جس کسی کو تمام مسلمان خلافت کے لیے قبول کریں خلافت اس کی ہوگی۔ اس کے چند یوم بعد مغیرہ بن شعبہ کے غلام فریوز نامی نے جس کی کنیت ابو لولو تھی امیر المؤمنین کو خنجر سے مجروح کردیا۔ صحیح روایت یہ ہے کہ اس نے آپ پر تین ضربیں لگائیں ایک پیٹ میں، دوسری پہلو میں، تیسری زیر ناف، اس کے تین روز بعد آپنے جام شہادت نوش کیا ور حضرت عائشہ صدیقہ کی اجازت سے رسول خدا علیہ السلام کے روضۂ اطہر میں حضرت ابو بکر کے پہلو میں دفن ہوئے۔
’’کتاب روضۃ الاحباب‘‘ میں لکھا ہے کہ تین قبروں کے محل وقوع کے متعلق اختلاف ہے اکثر لوگوں کا خیال ہے صدیق اکبر کی قبر رسول اللہﷺ کی قبر کے عقب میں ہے۔ اور حضرت عمر کی قبر حضرت ابو بکر کی قبر کے عقب میں ہے۔
مُدت عمر وتاریخ وصال
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ آپ کی ولادت سال فیل کے تیرہ سال بعد ہوئی اور آپ کی عمر تریسٹھ سال تھی۔ ایک روایت کے مطابق آپ کی عمر پچپن سال اور دوسری روایت کی روسے آپ کی عمر چون ۵۴ سال تھی۔ ایک اور روایت کے مطابق اٹھاون ۵۸ سال تھی۔ آپ کا وصال یکشنبہ کی رات بتاریخ یکم محمر ۲۳ھ ہوا۔ دوسری روایت کے مطابق آپ پر بروز چہار شنبہ ستائیس ذی الحجہ ۲۳ھ کو حملہ ہوا اور بروز پنجشنبہ رحلت فرمائی ایک اور روایت یہ ہے کہ ماہ ذی الحجہ میں سے چاردن باقی تھے کہ آپ نے دارفانی سے دار باقی کی طرف رحلت فرمائی۔ آپ کی مدت خلافت دس سال اور چند ماہ تھی۔
ازواج اولاد
آپ کی چھ منکوحہ بیویاں اور دو لونڈیاں تھیں۔ ان میں سے نو فرزند اور چار دختر و جود میں آئے، آپ کی بڑی بیوی کا اسم گرامی زینب تھا جو قبیلہ قریش سے تھیں۔ ان کے بطن سے دو فرزند یعنی حضرت عبداللہ اور حضرت عبد الرحمٰن اور ایک دختر یعنی حضرت بیبی حفصہ جو حضرت رسالت مآب کی زوجہ مطہرہ تھیں پیدا ہوئے۔ آپ کی دوسری بیوی حضرت علی کی صاحبزادی تھیں جن کا اسم گرامی حضرت بی بی ام کلثوم تھا۔ ان کے بطن مبارک سے ایک بیٹا زید اور ایک بیٹی پیدا ہوئے جن کا صغیر سنی میں انتقال ہوگیا۔ چھ بیٹے اور دو بیٹیاں باقی ازواج اور کنیزوں کے بطن سے پیدا ہوئے۔ ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔ فرزندان زید، اصغر، عبداللہ، عاصم، عیاض اور عبد الرحمٰن اوسط وعبد الرحمٰن اصغر یہ دونوں کنیزوں کے بطن سے تھے۔ اور دو بیٹیاں فاطمہ اور زینب حضرت عمر کے زمانہ خلافت میں فضل بن عباس بائیس سال کی عمر میں ۱۷ھ میں مرض طاعون میں مبتلا ہوکر فوت ہوئے اور ۲۰ھ میں حضرت ابو عبداللہ بلال محرم راز اور مؤذن رسول اللہﷺ کا وصال ہوا۔
اللّٰھمّ صلّ علیٰ محمد والہٖ واصحابہٖ اجمعین۔
ازرہگذرِ خاکِ سرکوئے شمابود |
|
ہر نافہ کہ دردستِ نسیم سحر افتاد |
(اقتباس الانوار)