آپ خواجہ حسن بصری کے شاگرد اور مرید تھے۔ زہد و تقویٰ میں کمال رکھتے تھے۔ ایک دن آپ خواجہ حسن بصری کے ساتھ دریا کے کنارے بیٹھے تھے۔ عقبہ دریا پر چلنے لگے۔ حضرت حسن نے پوچھا کہ آپ کو یہ مقام کیسے حاصل ہوا۔ آپ نے فرمایا: تیس سال ہوچکے ہیں۔ میں وہ کرتا ہوں جو وہ چاہتا ہے۔ مگر تم وہ کام کرتے ہو۔ جو وہ فرماتا ہے۔ یہ مقام اس کی تسلیم و رضا سے حاصل ہوا ہے۔
آپ کے توبہ کرنے کا واقعہ بھی تذکرہ نگاروں نے یوں بیان کیا ہے کہ ایک دن ایک عورت سر پر چادر لپیٹے جا رہی تھی۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو پیچھے عقبہ جا رہے تھے جونہی اس کی خوبصورت آنکھیں عقبہ کی نگاہوں میں آئیں وہ بدل و جان عاشق ہوگئے۔ اس کی خوب صورت آنکھوں کی کشش نے انہیں جذب کرلیا۔ عورت نے پوچھا تو نے میرے اندر کیا دیکھا کہ عاشق ہوگئے ہو، کہنے لگے کہ تمہاری آنکھوں نے مجھے مسحور کر ڈالا ہے۔ اس پاک دامن عورت نے اپنی دونوں آنکھوں کو نکال ڈالا اور ایک پلیٹ میں رکھ کر عقبہ کے پاس بھیج دیا۔ اور کہلا بھیجا کہ جسے تم دیکھ کر عاشق ہوگئے ہو وہ تمہاری نذر کر رہی ہوں۔ عقبہ نے دیکھا تو ان کے دل کی آنکھیں کھل گئیں۔ خواب غفلت سے بیدار ہوئے توبہ کی اور خواجہ حسن نظامی کی خدمت میں حاضر ہوئے مرید ہوئے اور یگانہ عالم بن گئے۔
ایک بار عقبہ کا ایک قدیم دوست آپ کے پاس آیا۔ اور کہنے لگا لوگ مجھے آپ کی کرامات اور بلند عادات کا پوچھتے ہیں۔ کوئی ایسی چیز دکھائیں کہ میں انہیں تسلی دے سکوں۔ آپ نے فرمایا: تم کیا چاہتے ہو، کہنے لگا اس موسم میں کھجوریں نہیں ہوتیں مجھے تازہ کھجوریں چاہییں۔ آپ نے اپنی زنبیل کی طرف اشارہ کیا۔ اس شخص نے دیکھا کہ زنبیل کھجوروں سے بھری پڑی ہے۔
ایک رات آپ نے خواب میں حور کو دیکھا۔ اس نے کہا۔ عقبہ خبردار کوئی ایسا کام نہ کرنا۔ جو تمہیں مجھ سے جدا کردے۔ آپ نے فرمایا: آج سے میں نے دنیا کے حسن و جمال کو طلاق دے دی ہے جب تک میں تمہیں نہ پالوں۔ دنیا کی کسی چیز سے رغبت نہیں کردوں گا۔
آپ ۱۶۷ھ میں فوت ہوئے۔
شیخ نامی عقبہ ابن انعلام سال ترحیلش بگو عالی جناب
|
|
بود مقبول جناب کبریا ہم امین اللہ بخواں باصد صفا ۱۶۷
|
مہدی حق سے بھی تاریخ وفات نکلتی ہے۔ (۱۶۷)
(خزینۃ الاصفیاء)