ابو قحافہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ
(والد محترم سیدنا صدیق اکبر)
آپ کا تعارف:
آپ کا نام عثمان بن عامر بن عمر وبن کعب بن سعد بن تیم بن من کعب بن لؤی بن غالب بن فہر قر شی تیمی اور کنیت ابو قحافہ ہے۔فتح مکہ کے روز اسلام لائے،آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی بیعت کی، حضرت سید نا ابو بکر صد یق رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات کے بعد بھی زند ہ رہے اور ان کے وارث ہوئے، اسلام میں کسی خلیفہ کے بطور والد وارث بننے کا سب سے پہلے انہیں اعزاز حاصل ہوا،آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے خلا فت فا روقی میں وفات پا ئی۔ (تھذیب الاسما ء والغات للنو ری،باب العین والثا ء ج ا،ص ۲۹۶ تا ۲۹۷)
آپ کا قبو لِ اسلام:
حضرت سید تنا اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ جب نبی کریم روف رحیم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم فتح مکہ سے قبل شہر کے باہر وادی ذی طویٰ میں ٹہرے ہوئے تھے، حضرت سیدنا ابو قحا فہ عثمان بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی سب سے چھو ٹی بیٹی سے کہا، اے بیٹی مجھے جبل ابو قبیس پر لے چلو، چھو ٹی بچی سے اس لیے کہا کہ اس وقت آپ کی نظر تقر یبا زائل ہو چکی تھی، دونوں پہاڑ پر چڑ ھے تو آپ نے پو چھا: بیٹی تمہیں کیا نظر آرہا ہے؟ بچی نے کہا:بابا شہر کے باہر ایک قافلہ ہے، بولے، کیا یہ کو لشکر ہے، بچی بولی، ایک آدمی نظر آرہا ہے جو قافلہ کے آگے پیچھے آجا رہا ہے، کہنے لگے، بیٹی یہ لشکر کا سپہ سالا رہے،بچی کہنے لگی، بابا اب قافلہ منتشر ہو گیا ہے، بولے: بیٹی مجھے جلدی سے گھر لےچلو، بچی آپ کو لے کر گھر کی طرف چل دی، نبی کریم رؤف رحیم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم شہر میں فا تحا نہ داخل ہوئے اور مسجد حرام میں تشریف فرما ہوئے تو حضرت سید نا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اپنے والد حضرت سیدنا ابو قحافہ عثمان بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ کو لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ھلا تر کت الشیخ فی بیتہ حتی اکون انا اتیہ فیہ "یعنی ابو بکر ان کو گھر ہی میں رہنے دیتے ہم خود ان کے پاس جاتے، حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے عرٖض کیا:یا رسو ل اللہ ھو اٗ حق ان یمشی الیک من ان تمشی انت الیہ یعنی یا رسو ل اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم، یہ اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ آپ کی خدمت میں حاضر ہو ں نہ کہ آپ ان کے پاس تشریف لے جائیں، چنا چہ سرکار صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے والد کو اپنے سامنے بٹھا یا اور ان کے سینے پر ہا تھ پھیر کر فرمایا:اسلام قبول کرو، اتنا فرمانا تھا کہ وہ بے سا ختہ کلمہ پڑھنے لگے اور دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے۔(مسند امام احمد،حدیث اسما ء بنت ابی بکر، الحدیث،۲۳ ۲۷۰ ج ا،ص ۲۷۴ )