حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ (تذکرہ / سوانح)
نام ونسب
مظہر انوار الجود الاحسان، معدن اسرار ذوق دو جدان، قتیل سیف محبت وعشق رحمٰن ملقب ملقب ذوی النورین، جامع القرآن مقتدائے دین امیر المومنین عثمان ابن عفان سید عالمﷺ کے خلیفہ سوم اور حضرت عمر کے بعد بہترین خلائق ہیں۔ زمانہ جاہلیت میں آپ کی کنیت ابو عمر تھی جب اسلام میں حضرت بیبی رقیہ بنت رسول اللہﷺ کے بطن مبارک سے آپ کے ہاں فرزند عبداللہ متولد ہوئے تو آپ کی کنیت ابو عبداللہ ہوگئی۔ آپ کا نسب کواجہ کائناتﷺ کے نسب سے عبد مناف پر جا ملتا ہے آپ کی والدہ ماجدہ بھی اہل قریش میں سے تھیں اور مشرف باسلام بھی ہوئیں تھیں حضرت عثمان بہترین قریش اور مقتدائے نبی امیہ سمجھے جاتے ہیں۔آپ بنی امیۃ کے محبوب ترین بزرگ تھے۔ آپ بڑے مالدار اور صاحب جاہ وحشمت تھے۔ اور آپ اقارب واغیار کے ساتھ لطف وکرم، حلم و حیا، تقویٰ وعبادت، اور جو دو سخا میں ضرب المثل تھے۔ آپ کا سب سے بڑا شرف یہ ہے کہ آنحضرتﷺ سے نہایت قریبی رشتہ تھا۔ یعنی آنحضرتﷺ کی اپنی دو بیٹیاں حضرت بیبی رقیہ اور حضرت بیبی ام کلثوم آپ کے عقد نکاح میں تھیں۔ لیکن اُن میں سے کوئی اولاد باقی نہ رہی۔
خلافت
جب حضرت عمر ابو لولو کے حملے کے بعد بستر پر تھے تو آپ نے خلافت کا معاملہ ان چھ صحابہ کرام کے سپرد کردیا، حضرت عثمان حضرت علی، حضرت طلحہٰ ، حضرت زبیر، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبد الرحمٰن بن عوف۔ آخر کافی بحث و تمحیص کے بعد حضرت عثمان بن عفان خلافت کے لیے منتخب ہوئے۔ آپ نہایت عدل وانصاف سے حکومت کرنے والے تھے۔
مہر نبوت کا چاہ میں گرجانا
صاحب مراۃ الاسرار نے تریخ طبری کے حوالہ سے لکھا ہے کہ وہ انگشتری جو سرور کائنات کے ہاتھ پر ہوا کرتی تھی اور جس پر لَا اِلہٰ اِلاَّ اللہ مُحمّد رَسُولَ اللہ لکھا تھا رسول خدا ﷺ کے حکم سے حضرت بی بی عائشہ صدیقہ کے ذریعے زمانۂ خلافت مین حضرت ابو بکر صدیق کو ملی۔ اس کے بعد وہ انگشتری حضرت بیبی حفصہ کے ذریعے حضرت عثمان کوملی۔ حضرت عثمان ایک کنواں کھدوار ہے تھے۔ ایک دن آپ کنوئیں کے کنارے پر بیٹھے تھے کہ ایک انگلی سے دوسری انگلی میں بدلتے وقت و کنوئیں میں گر گئی۔ اس سے آپ بہت بے قرار ہوئے اور کنوئیں کا سارا پانی نکالا گیا اور سب لوگوں نے بہت تلاش کیا لیکن وہ نہ ملی۔ اُسی دن سے فتنہ و فساد کا دروازہ کھل گیا۔ صحابہ کرام آپ سے متغیر ہوگئے، خلافت آپ پر گراں ہوگئی اور آپ پر حزن و ملال طاری ہوگیا ؎
چنین است کردارِ گروندہ دہر |
|
گہے نوش پیش آورد گاہ زہر |
(خالق کائنات کی حکمت ازلی سمجھ میں نہیں آتی کبھی تریاق عطا کرتا ہے اور کبھی زہرا)
جمع قرآن
کتاب مذکور میں یہ بھی لکھا ہے کہ مختلف صحائف واوراق سے قرآن حکیمجمع کرنے اور عالمِ اسلام میں بھیجنے کا سبب یہ تھا کہ فتح آرمینیہ اور آوز بائجان کے بعد صحابہ کرام میں قرأت قرآن کے متعلق شدید اختلاف پیدا ہوگیا۔ جب یہ بات حضرت عثمان کی خدمت میں پیش کی گئی۔ تو آپ نےاکابر مہاجرین وانصار کےمشورہ سے تمام صحائف واوراق کو یکجا جمع کرنے کا فیصلہ کیا چنانچہ قرآن مجید کا وہ نسخہ جو حضرت صدیق اکبر کی خلافت کےزمانے میں حضرت عمر کے مشورہ کے مطابق لکھا گیا تھا۔ اور نیز وہ نسخہ جو حضرت علی ابن مسعود اور دیگر صھابہ کرام وغیرہ اصھاب نے جمع کیا تھا۔ سب کو منگوا کر حضرت عثمان نے یہ کام حضرت زید بن ثابت انصاری، عبد الہ بن زبیر، سعد بن ابی وقاص اور عبدالرحمٰن بن حارث کے سپرد کیا آخر انہوں نے نہایت جدو جہد کے بعد یہ کارنامہ بخوبی انجام دیا اور قرآن مجید کے سات نسخے لکھواکر مکہ، یمن، شام، بصرہ، بحرین، اور کوفہ بھیج دیئے اور ایک نسخہ مدینہ منورہ میں رکھا تیا اس کے بعد آپ نے حکم دے دیا کہ باقی اوراق وصحائف کو جمع کر کے دریا میں ڈال دیا جائے۔ تاکہ اختلاف باقی نہ رہے۔
شانِ امارت میں عجزوانکسار
حکایات الصالحین مین لکھا ہے کہ ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ میں نے زمانۂ خلافت میں حضرت عثمان کو دیکھا منبر پر کھڑے خطبہ دے رہے تھے۔ آپ کا کرتہ نہایت ہی بھدے اور موٹے کپڑے کا تھا۔ جس کی قیمت چار آنے یا اس سے بھی کم ہوگی، باوجود آپ کے کئی غلام اور کنیزیں تھیں آپ کسی کو بیدار نہیں کرتے تھ ے اور رات بھر قران مجید کی تلاوت میں مشغول رہتے تھے۔ لوگوں نے آپ سے عرض کیا کہ جب آپ قرآن مجید کے حافظ ہیں۔ تو آپ دیکھ کر کیوں پڑھتے ہیں۔ فرمایا یہ میرے خداوند تعالیٰ کا کلام ہے میں اس کے اندر یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ کس کا حکم فرمایا ہے اور کس کام سے باز رکھا ہے۔
آپ کا جودوکرم
کتاب مذکور میں یہ بھی لکھا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایسا قحط پڑا کہ بیان سے باہر ہے۔ لوگوں نے صدیق اکبر کی خدمت میں جاکر عرض کیا کہ یا امیر المؤمنین آپ دعا کریں تاکہ حق تعالیٰ خلقت کے حال زار پر رحمت کرے۔ آپ نے فرمایا واپس چلے جاؤ۔ انشاء اللہ آج ہی مصیبت دور ہوجائے گی۔ رادی کہتا ہے کہ ابھی رات نہیں ہوئی تھی کہ حضرت عثمان کے کارکنان گندم سے لدئے ہوئے ایک سو اونٹ لائے۔ یہ دیکھ کر لوگوں کے دل بشاش ہوگئے اور خریدار لوگ آپ کے گھر پر جمع ہوگئے اور کہنے لگے کہ اے امیر المومنین آپ کو معلوم ہے کہ خلق خدا کا کیا حال ہے۔ آپ کے پاس غلہ آگیا ہے اگر مناسب سمجھیں تو ہمارے پاس فروخت کردیں ہم آپ بارہ گنا نفع دیں گے۔ آپ نے فرمایا کہ تم سے پہلے اور لوگوں نے بھی غلہ خریدنے کے لیے مجھے کہا ہے۔ انہوںن ے کہا ہم آپ کے شہر کے رہنے والے ہیں ہم سے زیادہ غلہ خریدنے کا کون مستحق ہو سکتا ہے آپ نے فرمایا خدا تعالیٰ نے دس گنا منافع دینے کا وعدہ فرمایا ہے اور ہر منافع پر سوگنا نفع دینے کا وعدہ فرمایاہے۔ تم لو مجھے اس سے کم نفع دیتے ہو۔ تم گواہ رہو کہ میں نے یہ سو اونٹ غلہ فی سبیل اللہ غرباومساکین میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس کے بعد آپ نے غلہ ن کالا اور غریبوں میں تقسیم کردیا۔ راوی کہتا ہے کہ میں نے اُسی رات سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواب میں زیارت کی کہ ایک شاندار گھوڑے پر سوار ہیں۔ نورانی لباس زیب تن ہے نورانی تاج سرپر ہے نورانی جوڑا نعلین ہے اور نورانی چاہک ہاتھمیں ہے اور گھوڑے کو تیزی سے لیے جارہے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ذرا رک جائیں تاکہ میں سیر ہوکر دیدار کرلوں کیونکہ مجھے زیادہ کی بے حد تمنا تھی آپﷺ نے فرمایا عبداللہ! آج عثمان نے خیرات کی ہے اور حق تعالیٰ نے قبول فرماکر بہشت میں اس کی عید منانے کا حکم فرمایا اور مجھے اس شادی میں شامل ہونے کے لیے بلایاگیا۔
کرامات
‘‘جامع السلاسل’’ میں لکھا ہے کہ جہجاہ بن سعید غفاری نے وہ عصا جو آنحضرتﷺ سے امیر المؤمنین حضرت عثمان تک پہنچایا تھا۔ حضرت عثمان کے ہاتھ سے چھین کر زانوسے لگایا اور توڑنے کی کوشش کی۔ یہ دیکھ کرلوگوں نے شور مچایا کہ یہ رسول خداﷺ کا عصا ہے مت توڑو۔ لیکن اس نے پرواہ نہ کی۔ اس سے اس کے زانوں میں ایسا درد اٹھا کہ ایک سال تک درد سے چیخ چیخ کرمرگیا۔
اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ جس روز حضرت عثمان شہید ہوئے اس سے پہلے کی شب میں آپ کو آنحضرتﷺ کی زیارت نصیب ہوئی۔ آنحضرت نے فرمایا اے عثمان کل تم ہمارے ساتھ افطار کروگے۔ اس کے بعد آپ اپنے حامیوں کو حکم دے دیا کہ باغیوں کا مقابلہ نہ کریں اور اس طرح جام شہادت نوش فرمایا۔
شہادت
‘‘روضۃ الاحباب’’ میں لکھا ہے کہ یہ بات پایۂ ثبوت تک پہچن چکی ہے کہ جمعہ کے دن حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اطلاع ملی کے باغی لوگ آج حضرت عثمان کے قتل کا ارادہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ آپ نے حضرت امام حسن اور امام حسین اور اپنے خادم قنبر کو ایک جماعت دے کر حکم دیا کہ حضرت عثمان کی مدد کریں۔ حضرت طلحہ اور زبیر نے بھی اپنے آدمی امامین کے ہمراہ کر دیئے۔ باغیوں نے ان کو دیکھ کر پتھر برسانا شروع کیے جس سے حضرت امام حسن کا چہرہ مبارک زخمی ہوگیا۔ حضرت زبیر کا بیٹا بھی زخمی ہوگیا۔ اس کے بعد باغیوں نے حضرت عثمان کے گھر کو آگ لگادی تاکہ مدد کرنے والے بھاگ جائیں۔ پھر ایک انصاری ہمسایہ کی دیوار توڑکر دشمن آپ کے گھر میں داخل ہوگئے۔ اس وقت حضرت عثمان تلاوت قرآن میں مصروف تھے۔ کہتے ہیں کہ محمد بن ابو بکر نے آکر آپ کی داڑھی کو پکڑا۔ حضرت عثمان نے کہا کہ اے بیٹے اگر تیرا باپ زندہ ہوتا تو اس داڑھی کی شرم کرتا۔ یہ سن کر محمد ابو بکر شرمندہ ہوئے اور ایک طرف ہٹ گئے۔[1] لیکن ایک نیلی آنکھوں والےکم مایہ آدمی نے جس کا نام روان بن سرحان تھا۔ آگے بڑھ کر خلیفہ مظلوم اور کانِ حلم و حیا کو شہید کردیا۔ آپ کے خون کے قطرے قرآن مجید پر جا پڑے اور آپ کا روح جمعہ کے دن سال ۳۵ میں قفس عنصری سے روضہ رضوان کی طرف پرواز کر گیا۔
‘‘کتاب جامع السلاسل’’ میں لکھا ہے کہ شہادت کے بعد تین دن آپ کا جسم مبارک پڑارہا [2]اور دفن نہ ہوا۔ اس کے بعد لوگوں نے غیب سے آواز سنی کہ اس کو دنف کردو۔ اور جنازہ نہ پڑھو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کا جنازہ پڑھا ہے رات کے وقت آپ کو جنت البقیع میں دفن کرے کے لیے لے گئے۔ لوگوں نے دیکھا کہ ایک گھڑ سوار دستہ غیب سے بر آمد ہوا۔ قریب تھا کہ لوگ ڈر کے مارے گھاگ جاتے کہ انہوں نے آواز دی کہ تھیرے رہو۔ اور ڈرو مت ہم اس لیے آئے ہیں کہ دفن کرنے میں تمہارے ساتھ رہیں۔ دیکھنے والوں کا بیان ہے کہ یہ فرشتوں کی جماعت تھی۔
مدت خلافت ومدت عمر
‘‘مراۃ الاسرار’’ میں لکھا ہے کہ آپ کی مدت خلافت گیارہ سال اور گیارہ ماہ اور اٹھارہ دن تھی۔
ایک[3] روایت کے مطابق آپ کی عمر اٹھاسی سال اور دوسری روایت کے مطابق بیاسی سال تھی۔ ایک اور روایت کی رو سے آپ کی عمر نوے سال تھی۔
آل واولاد
آپ کی آٹھ بیویاں تھیں (یعنی یکے بعد دیگرے نہ کہ بیک وقت) اُن میں سے جو آنحضرتﷺ ی دختران نیک اختر تھیں ان میں سے آٹھ بیٹے اور نو بیٹیاں تھیں۔ ایک روایت کے مطابق ساتھ بیٹے اور آٹھ بیٹیاں تھیں۔ آپ کے زمانہ خلافت میں حضرت وحیہ کلبی کا جن کی شکل میں جبرائل علیہ السلام آیا کرتےتھے۔ ۳۱ھ میں وصال ہوا۔ آپ ہی کے زمانے میں آنحضرتﷺ کے چچا حضرت عباس بن عبد المطلب کا ۳۳ ھ میں وصال ہوا آپ کے کمالات اور کرامات اس قدر ہیں کہ اس کتاب میں ان کی گنجائش نہیں۔ تفصیل کے لیے کتب تریخ وسیرت کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔
|
|
|
اللّٰھمّ صلّ علیٰ محمد والہٖ واصحابہٖ اجمعین۔
ازرہگذرِ خاکِ سرکوئے شمابود |
|
ہر نافہ کہ دردستِ نسیم سحر افتاد |
[1] ۔ بعد میں جب حضرت محمدﷺ بن ابوبکر سے دریافت کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ میں حضرت عثمان کے سامنے ضرور گیا لیکن ان کو دیکھ کر مجے شرم آگئی اور واپس آگیا۔ نہ میں نے ان کی داڑھی پکڑی نہ قتل کیا۔
[2] ۔ اس وجہ سے تجہیز و تکفین نہ ہو سکی کہ مدینہ منورہ پر باغیوں کا قبضہ ہوگیا اور تمام لوگوں نے اپنے گھروں کے دروازے بند کرلیے۔ اور اندر بیٹھ گئے۔
[3] ۔ حضرت عثمانکی خلافت کے پہلے دس سال نہایت امن و امان کے ساتھ گذرے تھے۔ لیکن یہودیوں نے اسلام کو ختم کرنے کے لیے ایک عظیم سازش تیار کی اور عبداللہ بن سبا یہودی جاسوس کو مسلمانوں کے بھیس میں مسلمانوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے اور قتل و غارت کرنے کی خاطر مقرر کیا۔ عبداللہ بنسبا بڑا چالاک اور ذہین آدمی تھا۔ اس نے حضرت علی کو مظلوم قرار دے کر ان کی خلافت بحال کرنے کا بہانہ بنایا او چند سادہ لوح حامیان حضرت علی بھی لا علمی سے عبداللہ بن سبا کے ساتھ ہوگئے لیکن حضرت علی آپ کے تمام رشتہ دار حضرت عثمان کی مدد کرتے رہے کیونکہ وہ اسلام میں تفقہ بازی کو پسند نہیں کرتے تھے اور حضرت عثمان کی خلافت کو قبول کرچکے تھے۔
(اقتباس الانوار)