حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہا
حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ عنہا (تذکرہ / سوانح)
اِن کی کنیت ابو عبد اللہ، نام عثمان، لقب ذو النّورین تھا، والد کا نام عفّان بن ابی العاص بن حارث بن امیّہ بن عبد الشمس بن عبد المناف بن قصیّ القرشی تھا، [۱] [۱۔ مسالک السالکین جلد اوّل ص ۱۰۹] والدہ کا نام امّ حکیم بیضا بنت عبد المطّلب بن ہاشم بن عبد المناف تھا، جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حقیقی پھوپھی تھیں، [۱] [۱۔ سفینۃ الاولیا قلمی ۱۲ خزینۃ الاصفیا جلد اوّل ص ۱۳]
واقعہ فیل سے چھ سال بعد پیدا ہوئے، حضرت ابو بکر صدّیق رضی اللہ عنہ اور حضرت امیر رضی اللہ عنہ اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے بعد سب مردوں سے اوّل ایمان لائے، اور حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد یکم محرم ۲۴ھ کو باتفاق صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جلوہ افروزِ خلافت ہوئے اور بارہ سال تک ترویجِ دین فرما کر بروز جمعہ بتاریخ بارہویں (۱۲) ذی الحجہ ۳۵ھ باغیوں کے ہاتھ سے تلاوتِ قرآن مجید فرماتے ہوئے شہید ہوئے، اور شب شنبہ کو مغرب و عشا کے درمیان جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔ [۱] [۱۔ مدارج النبوۃ جلد دوم ص ۵۳۱]
فتوحاتِ عُثمانی
اِن کے زمانہ میں بھی اسلام کو کافی فتوحات حاصل ہوئیں۔
۲۴ھ میں شہر رَے اور ملک روم کے بہت سے قلعے فتح ہوئے، اسی سال تمام لوگ نکسیر کے عارضہ میں مبتلا ہوئے، چنانچہ اس سال کا نام اہلِ عرب نے سنۃ الرّعاف رکھ دیا۔ [۱] [۱۔ تاریخِ اسلام جلد دوم ص ۴۶۷ ۱۲ شرافت]
اِسی سال میں مروان بن الحکم کو اپنا مصاحب دمیر منشی مقرر کیا۔ [۱] [۱۔ مسالک السّالکین جلد اوّل ص ۱۲۴]
۲۵ھ میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو کوفہ سے معزول کر کے ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کو عامِل مقرر فرمایا۔ [۱] [۱۔ تاریخ اسلام جلد دوم ص ۴۶۸]
۲۶ھ میں ساپور، افریقہ (یعنی الجزائر اور مراکش) مسلمانوں کے قبضہ میں آئے، [۱] [۱۔ مسالک السّالکین جلد اوّل ص ۱۲۴]
اسی سال میں بعض مقامات خرید کر مسجد الحرام کو وسیع کیا۔ [۱] [۱۔ تاریخ اسلام جلد دوم ص ۴۶۸]
۲۷ھ میں طرابلس (ٹریپولی) پر چڑھائی کی گئی، اور وہاں کے لوگ حملہ کی تاب نہ لا سکے تو پچیس لاکھ دنیار پر مسلمانوں کے ساتھ صلح کرلی۔
اسی سال ارجان و داریحرو فتح ہوئے۔ [۱] [۱۔ ایضًا ۱۲]
۲۸ھ میں قبرس جو سائپرس کہلاتا ہے فتح ہوا۔
۲۹ھ میں اصطخر فتح ہوا، اسی سال مسجد نبوی کو وسیع کیا، اور منقوش پتھر سے تعمیر کی۔ [۱] [۱۔ ایضًا ۱۲]
۳۰ھ میں جرجان اور خراسان کا اکثر حصّہ نیشا پور، طوس، سرخس، مرو، اور بہق فتح ہوئے، ان سب فتوحات سے مال غنیمت کی ایسی کثرت ہوئی کہ خزانے بنانے پڑے، اور حضرت ذوالنورین رضی اللہ عنہ نے اس قدر مال غنیمت مسلمانوں میں تقسیم کیا کہ ہر ایک کے حصے میں چار چار ہزار اوقیہ کے ایک ایک لاکھ بدرے آئے۔ [۱] [۱۔ ایضًا ۱۲]
اسی سال میں ہرات، کابل ماورا النہر قبضے میں آئے۔
اسی سال میں خاتم نبوّت حضرت ذو النّورین رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے چاہِ اریس میں گر گئی اور باوجود بہت کوشش کے نہ مل سکی۔ [۱] [۱۔ مسالک السّالکین جلد اوّل ص ۱۲۴ ۱۲ شرافت]
۳۱ھ میں بقول بعض مورخین آرمینیہ فتح ہوا۔
۳۲ھ میں قسطنطنیہ تک فتوحات کا دائرہ وسیع ہَوا، اسی سال طالقان، فاریاب، اور جو زجان بھی مفتوح ہوئے۔
۳۳ھ میں رعایا نے بغاوت کردی، اور فتنوں کا آغاز ہوگیا، کوفہ و بصرہ و مصر میں آتش فساد و مبدم تیز ہوتی گئی۔ [۱] [۱۔ مسالک السّالکین جلد اوّل ص ۱۲۴]
۳۴ھ میں ایک یہودی الاصل عبد اللہ بن سبا نامی نے منافقانہ طور پر اسلام قبول کیا، اور اسلام میں رخنہ ڈالنے کی نیّت سے ایک نیا مذہب ایجاد کیا، جس کے یہ دو (۲) اصول رکھے۔ اول آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مثل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ دنیا پر رجعت فرمائیں گے، دوم مستحقِ خلافت حضرت امیر رضی اللہ عنہ میں خلفائے ثلاثہ نے ناحق خلافت لے لی، وہ اپنے خیالات کی اشاعت کرتا ہو ایمن سے حجاز آیا، وہاں سے بصرہ گیا، پھر کوفہ سے ہوتا ہوا شام پہنچا، وہاں سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے نکال دیا، اور مصر پہنچ کر اُس نے مصریوں کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف کردیا، اور وہ ہمیشہ کی واسطے اختلاف فی الدّین کے مقصد میں کامیاب ہوگیا۔ [۱] [۱۔ ایضًا ص ۱۲۵]
۳۵ھ ماہِ شوال میں مخالفانِ خلافت مصر، کوفہ اور بصرہ سے یہانۂ حج روانہ ہوئے اور آتے ہی مدینہ منورہ کا محاصرہ کر لیا، اور آب و دانہ اندر جانا بند کر دیا، حتّٰے کہ ذیجہ کے مہینے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید[۱] [۱۔ ایضًا ص ۱۲۶ تا ۱۳۱ شرافت] کردیا۔
فضائلِ عثمانی
اِن کے فضائل میں آیاتِ قرآنی و احادیث نبوی بہت ہیں، یہاں صرف تین حدیثیں تبرّگًا لکھی جاتی ہیں۔
حدیث: عن ابن عمر قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انا نشبّہٗ عثمان با بینا ابراھیم (ابن عدی و ابن عساکر)
حدیث: عن ابی ھریرۃ انّ النّبی صلی اللہ علیہ وسلم قال عثمان من اشبہ اصحابی خلقًا بی۔ (ابن عساکر)
حدیث: عن طلحۃ بن عبید اللہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لکلّ نبی رفیق و رفیقی یعنی فے الجنّۃ عثمان۔ (ترمذی)
اس کے علاوہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قرآن مجید جمع کرنا، اور اس کی سات (۷) نقلیں کر واکر مختلف بلاد میں اشاعتِ اسلام کے واسطے بھیجنا ان کے اعلیٰ فضائل سے ہے۔
اولادِ عثمانی
اِن کے دس (۱۰) بیٹے تھے، اوّل حضرت عبد اللہ اکبر۔ دوم حضرت عبد اللہ اصغر۔ سوم حضرت ابو سعید ابان اکبر حاکمِ مدینہ بعہدِ عبد الملک بن مروان۔ چہارم حضرت عمرو۔ پنجم حضرت خالد۔ ششم حضرت ابو عثمان سعید حاکمِ خراسان بعہد معاویہ۔ ہفتم حضرت ولید۔ ہشتم حضرت عبد الملک۔ نہم حضرت فرار۔ دہم حضرت ابان اصغر۔[۱] [۱۔ مسالک السّالکین جلد اوّل ص ۱۳۵ ؍ ۱۲ شرافت]
حضرت عثمان ذو النّورین رضی اللہ عنہ کی نسل دو بیٹوں عبد اللہ اکبر اور ابان سے باقی ہے، جو عثمانی کہلاتے ہیں۔
خلفائے عثمانی
حضرت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان ذو النورین رضی اللہ عنہ کو خلافتِ باطنی دے کر کلاہِ سہ (۳) تر کی عطا فرمائی، چونکہ اِن کا زیادہ خیال اشاعت و تدریس قرآن کی طرف تھا اِس لیے باطنی نسبت صرف ایک شخص حضرت کمیل بن زیاد رضی اللہ عنہ کو عطا فرمائی، مگر چونکہ اُن کی تربیت و تکمیل حضرت امیر رضی اللہ عنہ کے وجودِ مسعود سے ہوئی اس لیے اُن کا تذکرہ خلفائی مرتضوی میں آئے گا۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
(شریف التواریخ)