حضرت زاہد رحمۃ اللہ علیہا
حضرت زاہد رحمۃ اللہ علیہا (تذکرہ / سوانح)
امیر المومنین سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی ایک خادمہ تھیں جن کا نام حضرت زاہدہ تھا، ایک دن یہ بی بی جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئیں اور سلام عرض کیا، حضور نے دیکھا اور فرمایا زاہدہ تم بہت دیر کے بعد آئی ہو، خیر تھی، کہنے لگیں، یا رسول اللہ! آج میں نے اللہ تعالیٰ کے عجائبات سے ایک عجیب و غریب واقعہ دیکھا ہے، حضور نے تفصیل دریافت کی تو کہنے لگی۔
’’علی الصباح لکڑیاں لینے جنگل کی طرف نکل گئی، میں نے لکڑیوں کا ایک گٹھا اکٹھا کیا، باندھا اور ایک پتھر پر رکھا، میں نے دیکھا کہ ایک تیز رو سوار آسمان سے اتر رہا ہے، اس نے میرے پاس آکر مجھے سلام کیا، اور کہنے لگا کہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوکر میرا سلام کہنا، اور عرض کرنا کہ رضوان کلید بردار بہشت نے کہا ہے کہ آپ کو مبارک ہو کہ آپ کی اُمت کو جنت میں داخل ہونے کے لیے تین حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے، ایک حصہ حساب و کتاب کے بغیر جنت میں داخل ہوگا، ایک حصہ حساب میں نرمی کرنے سے جنت میں داخل ہوگا، اور ایک حصہ آپ کی شفاعت سے جنت میں جگہ پائے گا‘‘ یہ کہہ کر وہ آسمان کی طرف اڑا، مگر تھوڑی بلندی پر جاکر پھر مجھے مخاطب کرکے کہنے لگا کہ تم یہ لکڑیاں تو نہیں اٹھاسکتیں اسی پتھر پر رہنے دو، یہ پتھر خود بخود تمہاری لکڑیاں اٹھاکر گھر تک پہنچا دے گا پھر اس نے پتھر کو حکم دیا کہ زاہدہ کی لکڑیاں سیدنا عمر فاروق کے گھر تک پہنچا کر آؤ، میرے دیکھتے دیکھتے پتھر روانہ ہوا، میں بھی ساتھ ساتھ چلتی گئی حتی کہ سیدنا عمر فاروق کے گھر پہنچ گئے‘‘۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سنی تو اٹھے اور حضرت عمر کے گھر تشریف لائے زاہدہ بھی ساتھ تھی، آپ نے پتھر کے آنے کے نشانات دیکھے اور فرمایا الحمدللہ، ابھی میں دنیا سے نہیں گیا کہ رضوان نے میری امت کی بخشش کی بشارت دے دی۔ اللہ تعالیٰ نے میری امت کی ایک عورت کو حضرت مریم علیہا السلام کی طرح صاحبِ کرامت بنایا ہے۔
یہی بی بی زاہدہ ۲۵ھ کو فوت ہوئیں۔
زاہدہ مریم صفت عفت مآب |
|
والیہ معصومہ دور زماں |
بی بی ہاج۔ بی بی تاج۔ بی بی نور۔ بی بی حور۔ بی بی گوہر۔ بی بی شہباز رضی اللہ عنہم اجمعین
یہ بات عام طور پر مشہور ہے کہ یہ بیباں حضرت مسلم بن عقیل بن علی رضی اللہ عنہ کی بیٹیاں تھیں اپنے وقت میں زہد و تقویٰ کے لحاظ سے یگانہ افراد میں سے تھیں، ہمیشہ روزہ رکھتی تھیں، ایک مہینہ میں ایک دوبار کھانا کھالیتی تھیں، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو سانحہ کربلا پیش آیا، یہ بیبیاں اس وقت شام میں موجود تھیں، ان حالات کو سنتے ہی میدان کربلا میں پہنچیں، دیکھا کہ ظلم و ستم کی تصویر بکھری پڑی ہے۔ سیّد الشہداء کی شہادت سے دہشت زدہ ہوگئیں، وہ حیران تھیں کہ کہاں جائیں، عرب کی سر زمین سے خوف آنے لگا، آخر کار غیبی اشارے سے ہندوستان کا رُخ کیا۔
تحفۃ الواصلین میں لکھا ہے کہ ان حضرات کو طیی الارض کی کرامت حاصل تھی، چلتی چلتی لاہور کے نواح میں پہنچیں، خدام اور اصحاب بھی ہمرکاب تھے، کچھ عرصہ رہیں، مخلوق خدا ان کی برکات سے فیض یاب ہونے لگی، ان کے انفاس زاکیات سے اسلام پھیلنے لگا، ارادت و عقیدت کا ماحول پیدا ہوگیا۔ یہ خبر لاہور کے فرمانروا کو پہنچی، تو سخت غضبناک ہوا۔ اپنے بیٹے کو ان حضرات کی خدمت میں روانہ کیا۔ اور حکم دیا کہ وہ یہاں سے چلی جائیں، مگر بیٹا حاضر ہوا تو مرید ہوگیا۔ اور باپ کے گھر جانے کے بجائے وہاں ہی رک گیا، بادشاہ کو اس صورت حال سے اور غصہ آیا، ایک لشکر لے کر روانہ ہوا۔ نزدیک پہنچا تو ان پاک دامن بیبیوں کو اس کے آنے کی خبر ہوئی۔ دعا کے لیے ہاتھ اٹھے۔ اے بار اللہ! ہمیں اس سے محفوظ رکھنا، ہم نامحرموں کی صورت دیکھنا نہیں چاہتیں، زمین کو حکم ہو وہ ہمیشہ پوشیدہ کرلے اسی وقت زمین پھٹی اور یہ حضرات معصومین زمین کی گود میں چلی گئیں، آپ کے خدام غلام اور عقیدت مندوں کو راجہ نے پکڑا اور تہہ تیغ کردیا، اپنے بیٹے کو اپنے ساتھ لے گیا لیکن شہزادے نے تاج و تخت کو خیر باد کہا اور ان مزارات پر مجاور بن کر بیٹھ گیا۔ جب تک زندہ رہا، ان مزارات کی خدمت کرتا رہا، اب تک ان مزارات کے مجاور اسی راجے کی اولاد میں سے ہیں۔
کہتے ہیں اس شہزادے کا نام شیخ جمال تھا، ایمان لانے او رارادت مندانہ پیش ہونے کے بعد حضرت بی بی ہاج نے یہ نام تجویز کیا تھا، رسالہ تحفۃ الواصلین میں ایک اور روایت بیان کی گئی ہے کہ اس زمانہ میں ایک نجومی علم نجوم میں ماہر تھا، اس کا دعویٰ تھا کہ وہ گزشتہ اور آئندہ واقعات کو ستاروں کی مدد سے معلوم کرنے میں کمال رکھتا ہے، اور اسے علم غیب پر دسترس حاصل ہے۔ اس نے ان حضرات کے خادموں سے بحث کا آغاز شروع کردیا جب یہ خبر بی بی صاحبہ کلاں نے سنی تو آپ نے تمام مسافروں اور غریبوں کے لیے کھانا تیار کرایا اور ایک مجلس میں کھانا بھیجا مگر کھانا اس طرح ترتیب سے لگایا کہ نیچے تو بہت عمدہ اور نفیس کھانا رکھا مگر ان کے اوپر خالی خشک چاول کی کھچڑی پکاکر لگادی، اس سادہ غذا کو دیکھ کر نجومی جسے علم غیب کا دعویٰ تھا بڑا خبریر کرنے لگا خادموں کو کہنے لگا کہ مہمانوں کو یہ غذا کھلائی جاتی ہے میں تو یہ کھچڑی نہیں کھاؤں گا خادموں نے اسے بتایا کہ اس کھچڑی کے نیچے نفیس کھانا رکھا ہوا ہے آپ اسے ہٹاکر کھائیں جب اسے صورت حال معلوم ہوئی تو سخت شرمندہ ہوا، اور اسے محسوس ہوا جو علم غیب کا دعویٰ کھچڑی کے نیچے اچھے کھانے کی حقیقت معلوم نہیں کرسکتا وہ کیسا علم غیب ہے وہ شرمندہ ہوکر آپ کا مرید ہوگیا۔
حضرت بی بی پاک دامن کے تاریخی واقعات کی تفصیل کہیں نہیں ملتی، مگر یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ یہ حضرات قدیم زمانہ کی صاحب کرامات بزرگ تھیں۔ تحفۃ الواصلین نے لکھا ہے کہ حضرت مخدوم علی ہجویری گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ اول اول لاہور تشریف لائے تو ہر جمعرات کی رات کو حضرت پاک دامنان کے مزارات پر تشریف لے جایا کرتے تھے، اور مزارات عالیہ سے دور بیٹھے متوجہ ہوتے تھے۔ یہ ان حضرات کے ادب کا لحاظ تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان پاک دامنوں کے مزارات حضرت علی ہجویری کے آنے سے قبل موجود تھے۔ مگر ہم کسی تذکرہ یا تحریر سے یہ معلوم کرنے سے قاصر رہے ہیں کہ یہ بیبیاں فلاں خاندان سے تعلق رکھتی ہیں یا فلاں سال اور فلاں سن میں لاہور میں قیام پذیر رہیں اور نہ ہی ان کا سال وصال معلوم ہوسکا ہے۔ ان کی بزرگی، سیادت اور کرامت کے واقعات تحفہ حمدیہ اور تذکرہ قطب العالم میں بھی ملتا ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اولیاء کرام ان مزارات سے فیض حاصل کرتے چلے آئے ہیں اب تک ان کا فیض عام جاری ہے۔ سینکڑوں حاجت مند اپنی مرادیں پاتے ہیں۔ اپنے مسائل کو حل کراتے ہیں، ان حضرات کی ایک خادمہ بی بی حلیماں المشہور بی بی تنوری کا مزار بھی اسی احاطے میں ہے۔
[حضرت مولف مفتی غلام سرور لاہوری نے اپنی ایک اور کتاب حدیقۂ اولیا میں اس روایت کو غلط قرار دیا ہے کہ بیبیاں حضرت مسلم بن عقیل کی اولاد تھیں۔ ان کی تحقیقی یہ ہےیہ سید احمد توختہ ترمذی (۶۰۲ھ) کی بیٹیاں تھیں ان کے نام عرب خواتین سے مختلف ہیں اور اہل بیت میں ان ناموں کی کوئی صاحبزادی آج تک تاریخ کے صفحات پر نظر نہیں آئی، یہ عارفات کا ملات غوث زمانہ حضرت توختہ ترمذی وفات کے بعد شہر چھوڑ کر قلعہ گوجر سنگھ (موجودہ مقام مزارات) کے مشرق کی طرف آکر قیام پذیر ہوئی ۶۱۴ھ کو جلال الدین خوارزم کے تعاقب میں چنگیز خان اپنا لشکرے کر آیا، تو اس نے لاہور میں قتل عام کیا، ان بیبیوں نے ان تاتاریوں کے ظلم و تشدد سے بچنے کے لیے اللہ سے اپنی حفاظت کی دعا مانگی، جو قبول ہوئی اور زندہ در زمین چلی گئیں، دوپٹوں کے پلے زمین سے باہر نظر آتے تھے جن پر موجودہ مزارات تعمیر کردیے گئے۔]
(حدائق الاصفیاء)