حضرت زین الدین ابوبکر خوانی علیہ الرحمۃ
خواجہ محمد پارسا علیہ الرحمۃ نے اپنے بعض مکتوب میں ان کا القاب اس طرح لکھا ہے۔ذوالعلم النانفع والعمل الرافع ملا ذالجمھور شفاء الصدور صلوۃ العلما ء والعرفا رافع اعلام السنۃ قامع اضا لیل البدعۃ ناھج الحقیقۃ سالک مسالک الشریعۃ والطریقۃ الداعی الی اللہ سبحانہ علی طریق الیقین سیدنا ومولانازین الملۃ والدین یعنی علم نافع اور رافع (چڑھنے والے)کے صاحب جمہور کے پشت پناہ۔سینوں کے شفا۔علما عرفا کے برگزیدہ۔سنت کے جھنڈے بلند کرنے والے۔بدعت کے گمراہیوں کے توڑنے والے حقیقت کے راستوں میں چلنے والے ،شریعت و طریقت کے راستوں میں چلنے والے اللہ سبحانہ کی طرف طریق یقین پر بلانے والے ۔سیدنا مولانا زین المانہ والدین۔آپ علوم ظاہر و باطنی کے جامع تھے۔اول سے آخر تک شریعت کے راست اور سنت کے متابعت پر اس گروہ کے محققین کے نزدیک بہت بڑی کرامت ہے۔استقامت کی توفیق حاصل ہوئی ہے۔طریقت می ان کی نسبت شیخ نور الدین عبدالرحمٰن مصری سےہےاور شیخ نورالدین عبدالرحمٰن نے ان کی تربیت کے کمال اور تکمیل و ارشاد تک پہنچنے کے بعد اس کی اجازت میں یوں لکھا ہے،لما استحق الخلوۃ وقبول الوردات الغیبیہ والفتوحات استخرت اللہ واخلیت خلوۃ المھودۃ وھی سبعۃ ایام من اللہ تعالی فیھا علی بمیامن فضلہ ففتح اللہ علیہ ابواب المواھب من عندہ فی لیلۃ الرابعۃ وازداد فی الترقیات فی درجات المقامات الی مقام حقیقہ التوحید وانحلت منہ قیودا لتفرقۃ فی شھود الجمع قیل اتمام الایام السبعۃ ثم فی اتمامھا ظھر لہ لوامع التوحید الحقیقی الذاتی المشار الیہ علی لسان اھل الحقیقۃ لجمع الجمع وھو لقوۃ استعدادہ بعد فی الترقی والزیادۃ وانی علی رجاء من اللہ ان یاخذہ الیہ تماما وببقیہ بقا ء دوا ما ویجملہ للمتقین اماما۔یعنی جب وہ خلوت وارادت غیبیہ کے قبول اور فتوحات کا مستحق ہوا تو میں نے خدا سے استخارہ کیااور اس خلوت مقرر کرائی،جو سات دن ہوتی ہے۔تب خدائے تعالی نے مجھ پر احسان کیااور اپنی مہربانی کے درازے اس پر چوتھی رات کو کھول دئےاور وہ بڑھ گیا۔ترقیات میں مقامات کے درجوں پر توحید کی حقیقت کے مقام تک اور تفرقہ کے قیدیں جمع کے شہود میں سات دن کے پورا ہونے سے پہلے اس سے کھل گئیں۔پھر ان کے پارے ہونے پر اس کے لیےتوحید حقیقی ذاتی کے انوار جس کو اہل حقیقت جمع الجمع کے ساتھ اشارہ کیا کرتے ہیں،چمکنے لگے۔وہ اپی استعداد کی قوت کی وجہ سے اب تک ترقی پر ہے اور مجھے خدا سے یہ امید ہے کہ وہ اس کو اپنی طرف پورا لےلے اور باقی رکھے اس کو ہمیشہ اور اس کو متقیوں کا امام بنائے۔
آپ فرماتے تھے کہ جو تحریر کہ شیخ نور الدین عبدالرحمٰن نے لکھی تھی۔وہ خراسان کے لوٹنے کے وقت بغداد میں رہ گئی۔ایک مدت مدید کے بعد جبکہ خراسان سے مصر کی طرف جان کو اتفاق ہوا اور شیخ دنیا سے رحلت فرما گئےتھے۔میں ان کے خلوت خانہ میں گیا تو وہاں پر اپنی اجازت پائی ۔جس میں کچھ فرق نہ تھا،مگر بعض حرف کا بوجود یہ کہ وہ خلوت محفوظ نہ تھی۔اس کا دروازہ کھلا رہتا تھا ۔میں نہیں جانتا کہ وہ اصل مسودہ تھاکہ جس پر سے مجھے اجازت نامہ کھ دیا تھا یا خود شیخ نے ولایت کے نور سےجان لیا تھاکہ میرا اجازت نامہ گم ہوگیا ہے۔می ںوہاں لوٹ کر آؤں گااور اس کو دوبارہ میرے لیے لکھا تھااور چھوڑ گئے تھے۔بہرحان اس کا خلوت میں مدت مدید تک رہنا۔جیسا کہ مذکور ہوا،محض کرامت تھا۔آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ جب میں مصر سے آتا تھااور بغددمیں پہنچا۔وہ پڑکا کے شیخ نورالدین نے مجھ کو دیا تھااور بڑے بڑے اور مشائخ کے سر پر رہ چکا تھا۔میرے ہمراہ تھا۔پیر تاج گیلانی سے ملنے کا اتفاق ہوا،اس نے وہ طاقیہ مجھ سے مانگا۔جیسا کہ درویشی اور فقر کا مقتضا ہے۔میں نے ان کو دے دیا۔میں نے رات کو خواب میں دیکھاکہ وہ طاقیہ مجھ سے استغاثہ کرتا ہےاور ان بزرگوں کو کہ جن کے سر پر وہ رہتا تھا۔گنتا ہے اور کہتا ہے کہ میں فلاں فلاں کے سر پر رہا ہوں۔اب تم نے مجھے گدھے کے سر پر رکھ دیا،جو کہ شراب میں مبتلا رہتا ہے۔جب صبح ہوئی تو میں ایک دوست کے ساتھ اس کی تلاش مین باہر نکلاسنا کہ وہ شراب خانہ میں ہےاور شراب کے پینے می ںمشغول ہے۔میں وہاں گیا۔لوگوں نے کہا کہ فلاں گھر میں ہے۔تب ہم اس گھر میں آئے تو وہ مست پڑا تھا اور طاقیہ اس کے سر پرتھا۔میرے ساتھ نے کہا کہ تم باہر جاؤ کہ میں طاقیہ کو لاتا ہوں۔اس نے طاقیہ اس کے سر پر سے اٹھا لیا۔دروازہ کو بند کردیا اوراس کو میرے پاس لے آیا۔کہتے ہیں کہ آخر عمر میں اس کو ایک حالت طاری ہوئی کہ تین رات دن بالکل اپنے ہوش سے غائب تھا۔جب اس بےہوشی سے ہوش میں لائے تو قریباًایک سال تک اس پر خاموشی غائب تھی۔وہ بات بہت کم کرتا تھا۔ایک دن آپ نے درویش احمد ثمر قندی سے پوچھا کہ تم نے کہیں ایسا جذبہ بھی دیکھا کہ جذبات پے درہے ہوں اور ہرگز منقطع نہ ہوں۔درویش احمد نے جواب میں کہا کہ یہ مطلب میں نے کہیں نہیں دیکھا۔درویش احمد ثمر قندی آپ کے کارکردہ مریدوں اور خلفاء میں سے تھا۔
صوفیوں کے باتوں کو اس نے دیکھا ہواتھااور منبر پر چڑھ کر ان باتوں کو بیان کیا کرتا تھااور فصوص الحکم کے درس و مطالعہ میں مشغول رہتا تھا۔میں نے اس کا خط لکھا ہوا دیکھا۔جو آخر فصوص میں لکھا تھا کہ بعد اس کے کہ آنحضرت ﷺ نے مجھ کو فصوص الحکم کے درس کا اشارہ کیا۔میں نے درویش آباد کی خلوت میں دیکھا کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو دیکھا اور پوچھا،یا رسول اللہ۔ماتقول فی فرعون قال صلی اللہ علیہ وسلم قل کما کتب ثم قلت یا رسول اللہ ما تقول فی الوجود قال صلی اللہ علیہ وسلم ماتراہ لقول الوجود فی القدیم وفی الحادث حادث ثم قال صلی اللہ علیہ وسلم انت الہ مالوہ انت الہ بظھور الصفات الھیۃ فیک و مظھر بتک للا لوھیۃ وانت مالوہ لحصرک وتعینک وخلیقتک وھو علی ما اقول شھید۔یعنی یا رسول اللہ آپ ؑ فرعون کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟فرمایا،حضرت محمدﷺنے کہو، جیسا کہ شیخ نے لکھا۔(شیخ نے فرعون کے بارے میں کہا ہے،ازمات طاہر مطہرا اور اس واقعہ میں آنحضرت ﷺ نے اس کی تصدیق کی واللہ اعلم۔اس سے اس قدر تو ثابت ہوتا ہے کہ گوعقیدہ جمہور ہی مسلم ہو۔مگر کم از کم شیخ ابن العربی کی نسبت بدگمانی اور بدزبانی نہ چاہئے۔کیونکہ واقعات بزرگان دین سے حسن ظن چاہئے)پھر میں نے کہا ۔یا رسول آپؑ وجود کے بارے میں کیا فرماتے ہیں؟فرمایا،حضرت محمدﷺ نے وہی ہے۔جو تم دیکھتے ہو کہ شیخ کہتا ہے،وجود قدیم میں قدیم ہےاور حادث میں حادث۔پھر فرمایا،حضرت محمدﷺنے تو معبود ہے اور تو ہی عابد ہے۔تم خدائی صفہوت کے ظہور کی وجہ سے تھےکہ تجھ میں ہیں اور الوہیت کی مظہریت کی وجہ سے الٰہ اور معبود ہےاور مالوہ یعنی عابد اس لیے ہےکہ تو معین اور مخلوق ہے۔(مالوہ دراصل الٰہ ہی کے معنی میں آتا ہے،مگر یہاں مقابلہ کے لحاظ سے عابد لینا چاہئے۔)خدا اس بات پر جو میں کہتا ہوں،گواہ ہے۔شیخ زین الدین ؒ اتوار کی شب شوال کے مہینے میں ۸۳۸ھ میں فوت ہوئے۔اول تو ان کو قریہ مالین میں دفن کیا گیا۔پھر وہاں سے موضع درویش میں لے گئے اور درویش آباد میں عیدگاہ ہرات میں اور اب ان کی مزار متبرک پر بڑی عالیشان عمارت بنادی گئی ہےاور ایسی آباد اور مجمع ہوگئی ہے کہ وہاں پر جمعہ پڑھتے ہیں۔واللہ اعلم۔
(نفحاتُ الاُنس)