ہند دختر عتبہ بن ربعیہ بن عبدشمس بن مناف قرشیہ ہاشمیہ،ابوسفیان بن حرب کی بیوی اور امیرمعاویہ کی والدہ تھیں فتح مکہ کے موقع پراسلام قبول کیا،اور حضوراکرم
صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ابوسفیان سے ان کونکاح کو (حالانکہ بیوی شوہر سے ایک رات بعداسلام لائی)جائزقرار دے دیا تھا،اور یہ ایسی خاتون تھیں،جوجری،مغرور،ذی
رائے اور عقل مند تھیں،غزوۂ احد کے موقع پر وہ ذیل کے رجزیہ اشعار پڑھ رہی تھیں۔
نَحنُ نَبَاتُ طارق ہم صبح کے ستارے کی بیٹیاں ہیں
نمشٰی عَلَی النّمَارِق ہم غالیچوں پر چلتی ہیں
اِن اتقبلوانُعَانِق اگر تم دشمن کا مقابلہ کروگے تو تم سے گلے ملیں گی۔
لَو تدبرُوانَفَارِق فِرَاقُ غَیروامِق
(ترجمہ)اگرتم میدانِ جنگ سے پیٹھ پھیرو گے تو تم سے علیحدہ ہوجائیں گی یہ فراق بیگانوں کا فراق ہوگا۔
جب حمزہ شہید ہوئے تو ہندنے ان کے کان اور ناک کاٹے،ان کا پیٹ پھاڑ دیا،ان کا کلیجہ نکال کر چبایا، لیکن نگلا نہ جا سکا،جب حضورِ اکرم کو اس بات کا علم
ہوا،توفرمایا،اگروہ اسے نگل سکتی تو دوزخ کی آگ اس پر حرام ہوجاتی(کاش اس راوی کو خدانے عقل دی ہوتی)
ایک روایت میں ہے کہ جس شخص نے حمزہ کا مثلہ کیا تھا،وہ معاویہ بن مغیرہ بن ابوالعاص بن امیہ تھا، جو عبدالملک بن مروان کا نانا تھا،جسے حضورِ اکرم نے غزوۂ احد
سے واپسی پر قتل کیا تھا۔
ہند دختر عتبہ نے فتح مکہ کے موقعہ پر اسلام قبول کیا اور مافات کی تلافی کی،جب حضورِ اکرم نے بیعت کے دوران خواتین سے عہد لیا کہ نہ وہ چوری کریں گی،اور نہ
زناکا ارتکاب کریں گی،تو ہند نے کہا کہ کوئی شریف عورت بھی ایسے کام کرسکتی ہے،اور جب آپ نے اس بات کا عہد لیا،کہ تم اپنی اولاد کو قتل نہیں کروگی،تو ہند نے
کہا،کہ ہم نے انہیں پال پوس کر جوان کیا،اور آپ نے میدانہائے جنگ میں انہیں قتل کیا۔
ہند نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلّم کی خدمت میں ابوسفیان کے بارے میں شکوہ کیا کہ چونکہ وہ طبعاً کنجوس واقع ہوا ہے،وہ میرے اور بیٹوں کے کھانے پینے
میں کنجوسی سے کام لیتا ہے،فرمایا اپنی ضرورت کے مطابق اس کے مال سے تھوڑا بہت نکالا کرو۔
ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے روایت کی ،کہ ہند نے ابوسفیان سے کہا کہ میں رسولِ کریم سے بیعت کرنا چاہتی ہوں،ابوسفیان نے کہا،کل تو تو ان باتوں کی منکر
تھی،کہنے لگی،میں نے کسی شخص کو اس مسجد میں ایسے خلوص سے اللہ کا حق ادا کرتے نہیں دیکھا،اور بخدا یہ لوگ تو سب عبادت گزار ہیں،ابو سفیان نے کہا،جو کچھ تو
کرچکی ہے،وہ تو بھولی نہیں ہوگی،بہتر ہوگا کہ اپنی قوم کے کسی آدمی کو اپنے ساتھ لے جاؤ چنانچہ ہند جناب عثمان بن عفان کےپاس گئی،اور ایک روایت کے مطابق اپنے
بھائی حذیفہ کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں،ہند نے نقاب اوڑھ رکھی تھی،اس کے بعد آپ نے ان سے بیعت کی،یہ خاتون معرکۂ یرموک
میں حضورِ اکرم کے ساتھ تھیں،اور ابوسفیان کے ساتھ حکومتِ روم کے خلاف جہاد میں شرکت کی خواہش کی تھی۔
ابو سفیان سےپہلے ہند فاکہہ بن مغیرہ کے نکاح میں تھیں،اور وہ قصہ مشہور عوام ہے،اس خاتون کی وفات حضرت عمر کے عہد خلافت میں ہوئی انکی وفات اس دن ہوئی،جس دن
حضرت ابوبکر کے والد ابو قحافہ فوت ہوئے تھے،تینوں نے ان کا ذکر کیا ہے۔