حضرت یسع علیہ السلام
آپ کو اللہ تعالیٰ نے نبوت عطاء فرمائی اور اس کے ساتھ ہی آپ کو بادشاہت بھی عطا فرمائی، آپ دن کو روزہ رکھا کرتےتھے اور رات کو اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے ہوکر نوافل ادا کرتے تھے۔ آپ کو کسی بات پر غصہ نہیں آتا تھا، خصوصاً آپ اپنی امت کے معاملات میں بڑی متانت سے فیصلہ فرماتے، کسی قسم کی جلد بازی اور غصہ سے فیصلہ نہیں فرماتے تھے۔
آپ علیہ السلام کی وفات کا وقت جب قریب آیا تو بنی اسرائیل کے کچھ بڑے آدمی مل کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ آپ بادشاہت میں اپنا جانشین کسی کو مقرر کردیں تاکہ ہم اپنے معاملات میں اس کی طرف رجوع کریں، تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: ملک کی باگ دوڑ میں اس کے حوالے کروں گا جو مجھے تین باتوں کی ضمانت دے۔ کسی شخص نے بھی اس ذمہ داری کو قبول کرنے کی ضمانت دینے کے متعلق آپ سے کوئی بات نہ کی۔ سوائے ایک نوجوان کے اس نے کہا میں ضمانت دیتا ہوں، آپ نے اسے کہا بیٹھ جا۔ مقصد یہ تھا کہ کوئی اور شخص بات کرے لیکن پھر آپ کہنے پر وہی نوجوان ہی کھڑا ہوا اس نے ذمہ داری قبول کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
آپ علیہ السلام نے کہا ٹھیک ہے۔ تین چیزوں کی ذمہ داری قبول کرو۔
ایک یہ کہ تمام رات عبادت میں گزارنی ہے، سونا نہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہر روز دن کو روزہ رکھنا ہے۔
تیسری چیز یہ ہے کہ غصہ کی حالت میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا۔
جب اس نوجوان نے تین چیزوں کی ذمہ داری قبول کرلی تو آپ نے بادشاہی کا نظام اس کے سپرد کردیا۔ خیال رہے نبوت میں خلیفہ نہیں بنایا جاسکتا، اللہ تعالیٰ جسے چاہے نبی بنادے۔
اَللہُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ (پ۸ سورت انعام ۱۲۴)
اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ اس نے منصب رسالت کسے عطا کرنا ہے۔ (ماخوذ از روح المعانی ج۹ حصہ دوم ص۸۲)
(تذکرۃ الانبیاء)