حضرت ایوب علیہ السلام
حضرت ایوب علیہ السلام (تذکرہ / سوانح)
حضرت ایوب علیہ السلام
وَاَیُّوْبَ اِذْ نَادٰی رَبَّہٗ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ فَکَشَفْنَا مَا بِہ مِنْ ضُرٍّ وَّاٰتَیْنٰہُ اَھْلَہٗ وَمِثْلَھُمْ مَّعَھُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَذِکْرٰی لِلْعٰبِدِیْنَ (پ۱۷ سورۃ انبیاء ۸۳، ۸۴)
اور ایوب (علیہ السلام) (کو یاد کرو) جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ ’’مجھے تکلیف پہنچی اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے‘‘ تو ہم نے اس کی دعا سن لی، تو ہم نے دور کردی جو تکلیف اسے تھی اور ہم نے اسے گھر والے اور اتنے ہی ان کے ساتھ اور عطاء کیے اپنے پاس سے رحمت فرماکر اور بندگی والوں کے لیے نصیحت ہے۔
حضرت ایوب علیہ السلام کے باپ کا نام انوص ہے۔ آپ حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے عیص کی اولاد سے ہیں۔ آپ علیہ السلام کی والدہ حضرت لوط علیہ السلام کی اولاد سے ہے۔ آپ کی زوجہ کا نام رحمۃ ہے جو حضرت یوسف علیہ السلام کے بیٹے افرائیم کی بیٹی تھی۔
حلیہ مبارک:
حضرت ایوب علیہ السلام کے بال گھنگریالے، آنکھیں موٹی، خوبصورت، شکل و صورت بہت خوبصورت، گردن چھوٹی، سینہ چوڑا، پنڈلیاں اور کلائیاں موٹی تھیں۔ اور آپ کا قد لمبا تھا۔ (روح المعانی ج۹ حصہ دوم ص۸۰)
آپ کے اوصاف:
آپ مسکینوں پر رحم کرتے تھے، یتیموں کی کفالت فرماتے، بیوہ عورتوں کی معاونت (امداد) کرتے مہمانوں کے ساتھ عزت و تکریم اور خندہ پیشانی سے پیش آتے۔ (تفسیر کبیر)
مال و دولت کی فراوانی:
اللہ تعالیٰ نے آزمائش سے پہلے آپ کو کثیر مال و دولت دے رکھا تھا، کھیتی باڑی، باغ، غرض یہ کہ ہر قسم کے مال و دولت سے نوازا۔ ہر قسم کے جانور یعنی بھیڑ بکریاں گائے بھینس اونٹ وغیرہ کی کثرت تھی۔ پانچ سو جوڑیاں بیلوں کی ہل چلانے والی تھیں، پانچ سو غلام خدمت گزاری کے لیے۔ پھر ہر غلام کی زوجہ اور اولاد بھی بطور خدام آپ کے پاس رہتے تھے۔
آزمائش سے پہلے اولاد:
’’وکان لہ سبعۃ بنین وسبع بنات‘‘ آپ کے سات بیٹے اور سات بیٹیاں تھیں۔ (ماخوذ از روح المعانی)
فرشتوں میں آپ کی بلندی شان کا چرچا:
حضرت جبرائیل علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ سے جو قرب حاصل ہے وہ دوسرے فرشتوں کو حاصل نہیں، اللہ تعالیٰ ان سے براہ راست کلام فرماتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جب کسی کو پسند فرماتا ہے تو اس کا ذکر جبرائیل امین سے کرتا ہے، وہ میکائیل علیہ السلام سے ذکر کرتے ہیں، وہ دوسرے مقرب فرشتوں سے ذکر کرتے ہیں۔ جب ان مقرب فرشتوں میں اللہ تعالیٰ کے اس خاص بندے کے ذکر کا چرچا ہوجاتا ہے تو تمام فرشتے اس پر رحمتیں نچھاور کرتے ہیں۔ پھر آسمانوں کے تمام فرشتے رحمتیں بھیجتے ہیں۔ پھر زمینوں کے فرشتے اس بندے پر رحمتیں بھیجتے ہیں۔ حضرت ایوب علیہ السلام کا بھی اسی طرح تمام فرشتوں میں ذکر خیر کا چرچا ہوتا رہتا تھا۔ (تفسیر کبیر)
آزمائش کی گھڑیاں:
اللہ تعالیٰ کبھی اپنے مقرب بندوں کو شدید مشکلات میں مبتلا کرکے آزماتا ہے کہ وہ میرا بندہ کتنا صبر کرتا ہے، مصائب و آلام میں کوئی شکوہ تو زبان پر نہیں لاتا۔ اور کبھی اللہ تعالیٰ بہت مال و دولت عطا کرکے آزماتا ہے کہ میرا بندہ کتنا شکریہ ادا کرتا ہے؟
حضرت ایوب علیہ السلام کو پہلے آرام و صحت، مال و دولت، اولاد اور ہر طرح کی خوشیاں عطا کرکے آزمایا، اس میں بھی آپ نے عظیم کامیابی حاصل کی۔ آپ علیہ السلام نے شکریہ ادا کرکے بے مثال نمونہ پیش کیا۔ اس کے بعد آزمائش کا دوسرا دور شروع ہوا کہ زمین کے نیچے سے قدرتی آگ نے آپ کے باغات، کھیتیاں، اونٹ، بکریاں، چرواہے جلاکر راکھ کردیے۔ جب آپ کو پتہ چلا تو آپ نے کہا:
’’انھا مالہ اعارنیہ وھو او لی بہ اذا شاء نزعہ‘‘
یہ سب مال و دولت اللہ نے ہی عطا کیا تھا وہی اس کا مالک حقیقی ہے جب وہی اس کا حقدار ہےوتو اسے حق پہنچتا ہے جب چاہے لے لے مجھے اس میں کچھ کہنے کی کوئی مجال نہیں۔
آپ کی اولاد ایک مکان میں تھی وہاں زلزلہ آیا مکان گرگیا آپ کی اولاد فوت ہوگئی، مکان کی چھت اور دیواریں گرنے سے آپ کے بچوں پر کیا حال گزرا ہوگا؟ جسم چکنا چور ہوئے ہوں گے، ہڈیاں ٹوٹی ہوں گی، سر پھٹے ہوں گے، خون کے فوارے چلے ہوں گے، لیکن یہ حال سن کر بھی اللہ کے نبی نے صبر کا کمال مظاہرہ کیا، وہی الفاظ زبان پر کہ ’’سب کچھ رب تعالیٰ کا ہے جو چاہے کرے‘‘
آپ کےجسم میں شدید حرارت سے ایسا اثر ہوا، یوں محسوس ہوتا کہ آپ کے جسم میں آگ کے شعلے بھڑک اٹھے ہیں، سر سے لے کر قدم تک آبلے پڑ گئے، شدید خارش ہونے لگی، ناخنوں سے جسم کو کھجلاتے رہے، یہاں تک کہ ناخن گرگئے پھر ٹھیکریوں یا پ تھروں سے اپنے جسم کو کھجلاتے، جسم شدید زخمی ہوگیا، زخموں میں بو آنے لگی، ان میں کیڑے پڑ گئے۔ سارے جسم میں صرف آنکھیں دل اور زبان محفوظ تھے۔ ابن عساکر نے بیان کیا:
’’ان الدودۃ لتقع من جسد ایوب علیہ السلام فیعیدھا الی مکانھا ویقول کلی من رزق اللہ تعالی‘‘
حضرت ایوب علیہ السلام کے جسم سے اگر کوئی کیڑا نیچے گرجاتا تو آپ پھر اسے اپنی جگہ لوٹا دیتے اور کہتے اللہ تعالیٰ نے جو رزق تمہیں دیا ہے وہ کھاؤ۔
مشکل کا ساتھی:
آپ کی بیماری نے جب شدت اختیار کرلی تو تمام اقرباء نے آپ کو چھوڑ دیا۔ ’’بلہ‘‘ شہر سے باہر آپ کو ایک جھونپڑی بناکر دے دی گئی کہ یہ مرض کہیں دوسروں تک بھی نہ پہنچ جائے، جب وہ سارے ساتھ چھوڑ گئے تو اس وقت آپ کی زوجہ جس کا نام رحمۃ بنت افرائیم بن یوسف تھا، وہ بدستور آپ کے ساتھ رہی۔ آپ کی خدمت گزاری میں رہی، آپ علیہ السلام کی دیکھ بھال کرتی، آپ کو کھانا فراہم کرتی، آپ کی ضروریات کا ہر طرح خیال کرتی۔ سبحان اللہ! اللہ کے نبی یوسف علیہ السلام کی پوتی کتنی نیک اور صابرہ تھی۔
ایوب علیہ السلام کا بے مثال صبر:
ایک دن آپ کی خدمت گزار، وفادار، نیک شعار، با مراد، نیک زوجہ نے عرض کیا:
لو دعوت اللہ تعالی
کاش تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے، اللہ تعالیٰ تمہاری تکلیف دور فرمادیتا: یہ سن کر آپ نے فرمایا:
’’کم کانت مدۃ الرخاء فذکرت مدۃ کثیرۃ وفی روایۃ ثمانین سنۃ‘‘
عیش و عشرت راحت و سکون مال و دولت کی فراوانی میں کتنا وقت گزرا؟ آپ کی زوجہ نے عرض کیا بہت وقت گزرا ایک روایت میں ہے کہ آپ کی زوجہ نے کہا اسی (۸۰) سال گزرے ہیں۔
تو آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
’’انی استحیی من اللہ ان ادعوہ وما بلغت مدۃ بلائی م دۃ رخائی‘‘
مجھے اللہ تعالیٰ سے شرم آتی ہے کہ میں اس سے دعا کروں جبکہ میری آزمائش کا وقت اتنا بھی نہیں ہوا جتنا میری آسائش کا وقت تھا۔
زوجہ کی غلطی پر ناراضگی کا اظہار:
ایک مرتبہ آپ نے زوجہ کو طلب کیا تو دیر سے حاضر ہونے پر آپ ناراض ہوگئے، ممکن ہے بیماری کی وجہ سے طبیعت میں سخت مزاجی آگئی ہو، زیادہ مناسب یہ بات عملوم ہوتی ہے کہ اتنی بڑی ناراضگی کی وجہ بھی یقیناً کوئی بڑی ہوگی، جیسے مفسرین نے ایک وجہ یہ بیان کی ہے کہ شیطان آپ کی زوجہ کے پاس طبیب کی صورت میں آیا اور کہنے لگا کہ تمہارے خاوند بہت بڑی تکلیف میں مبتلا ہیں اگر تم چاہتی ہو تو میں انہیں دوا دیتا ہوں جس سے وہ ٹھیک ہوجائیں گے۔ جب وہ صحت یاب ہوجائیں تو وہ اس کے بدلے میں میرا شکریہ صرف ان الفاظ میں ادا کریں۔
’’انت شفیتنی‘‘ تو نے مجھے شفا دی ہے۔
آپ کی زوجہ نے یہ بات معمولی سمجھی اور ان کا خیال بن گیا کہ اس پر عمل کرنا تو آسان ہے۔
جب حضرت ایوب علیہ السلام کے سامنے آکر اس نے پورا ماجرا بیان کیا تو آپ علیہ السلام نے سمجھ لیا کہ شیطان میرے امتحان میں مجھے ناکام کرنا چاہتا ہے، آپ علیہ السلام اپنی زوجہ سے ناراض ہوگئے آپ نے فرمایا: اگر میں ٹھیک ہوگیا تو تمہیں سو کوڑے ماروں گا۔ ابھی تمہارے ہاتھوں سے کوئی چیز نہیں کھاؤں گا۔ (روح المعانی)
اسی وجہ سے حضرت ایوب علیہ السلام نے رب کے حضور عرض کیا:
اَنِّیْ مَسَّنِیَ الشَّیْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّعَذَابٍ (پ۲۳ سورۃ ص۴۱)
مجھے شیطان نے تکلیف اور ایذاء لگادی۔
آزمائش کا وقت ختم ہوتا ہے:
وَاَیُّوْبَ اِذْ نَادٰی رَبَّہٗ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ فَکَشَفْنَا مَا بِہ مِنْ ضُرٍّ وَّاٰتَیْنٰہُ اَھْلَہٗ وَمِثْلَھُمْ مَّعَھُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَذِکْرٰی لِلْعٰبِدِیْنَ (پ۱۷ سورۃ انبیاء ۸۳، ۸۴)
اور ایوب (علیہ السلام) کو یاد کرو جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے تکلیف پہنچی اور تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے تو ہم نے اس کی دعا سن لی تو ہم نے دور کردی جو تکلیف اسے تھی اور ہم نے اس کے گھر والے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور عطا کیے اپنے پاس رحمت عطا کرکے اور بندگی والوں کے لیے نصیحت ہے۔
’’انہ علیہ السلام الطف فی السؤال حیث ذکر نفسہ بما یوجب الرحمۃ وذکر ربہ بغایۃ الرحمۃ ولم یصرح المطلوب‘‘ (تفسیر کبیر)
حضرت ایوب علیہ السلام نے بہت ہی پیارے، لطیف انداز میں اپنی پریشان حالی، تکالیف کا تذکرہ کیا۔ رب کی بے حساب رحمت کا ذکر کیا گیا، لیکن یہ عرض نہیں کیا کہ ’’اے مولائے کائنات میری تکلیف کو دور فرما، کیسا صبر ہے؟ اور رب کے حضور التجا کرنے کا کیسا حسین انداز ہے۔؟
چشمہ شفا:
اُرْکُضْ بِرِجْلِکَ ھٰذَا مُغْتَسَلٌ بَارِدٌ وَّشَرَابٌ (پ۲۳ سورۃ ص۴۲)
رب تعالیٰ نے فرمایا: زمین پر اپنا پاؤں مارو، یہ ہے ٹھنڈا چشمہ نہانے اور پینے کو۔
آپ کو حکم ہوا کہ آپ اپنا پاؤں زمین پر مارو تو اس سے چشمہ جاری ہوگا، اس سے پانی پیو اور نہاؤ تمہیں شفا حاصل ہوگی۔ آپ کو نہانے سے ظاہری جسم کی تمام بیماریوں سے شفا حاصل ہوگئی اور پانی پینے سے اندرونی تمام بیماریوں سے شفا مل گئی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جنتی لباس عطا فرمایا، آپ علیہ السلام لباس زیب تن کرکے ایک طرف ہوکر بیٹھ گئے، آپ کی زوجہ آئیں تو اس نے آپ کو نہ پہچانا، وہ آپ ہی سے پوچھنے لگی۔ اے اللہ کے بندے یہاں ایک بیمار شخص تھا وہ کہاں گیا؟ پریشان ہوکر پوچھا کہیں بھیڑیے تو نہیں لے گئے۔ بار بار پریشانی سے جب پوچھ رہی تھیں تو آپ علیہ السلام نے کہا: اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے میں ہی ایوب ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے شفا عطا کردی ہے۔
مال و اولاد واپس مل گئے:
’’وفی البحر الجمھور علی انہ تعالی احیالہ من مات من اھلہ وعافی المرضی وجمع علیہ من تشتت منھم‘‘
جمہور حضرات کا یہ قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی تمام فوت شدہ کو زندہ کردیا اور مریضوں کو عافیت دے دی اور تمام بکھرے ہوؤں کو جمع کردیا۔
ایک قول یہ بھی ہے کہ آپ کو دوبارہ شباب (جوانی) عطاء فرمائی اور پھر پہلی اولاد کی طرح اور اولاد عطاء فرمادی۔ اسی طرح آپ کو کثیر مال و دولت عطا فرمایا۔
ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ آپ پر اللہ تالیٰ نے سونے کی مکڑیوں کی بارش کی، آپ علیہ السلام پکڑ پکڑ کر ایک کپڑے میں ڈالے رہے، یہاں تک کہ آپ نے ایک چادر بچھا کر اس میں جمع کرنا شروع کیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی کی کہ ’’اے ایوب تم سیر نہیں ہوتے؟‘‘ آپ نے عرض کیا اے مولائے کائنات تیرے فضل سے کون سیر ہوسکتا ہے؟ آپ علیہ السلام نے اٹھارہ سال بیماری اور تکلیف میں گزارے تھے پھر رونقیں بحال ہوگئیں۔
آپ کی زوجہ کی مشکل رب نے آسان کردی:
چونکہ آپ نے شرعی عذر اور اللہ تعالیٰ کی رضا مندی کی خاطر زوجہ سے ناراض ہوکر قسم اٹھادی تھی کہ میں درست ہوکر تمہیں ایک سو کوڑے ماروں گا۔ اب تندرست ہونے پر قسم کو پورا کرنا لازم تھا اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے اللہ تعالیٰ کے نبی کی زوجہ کو کوڑوں سے بچالیا، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نبی نے بھی اسی کی رضا کے لیے قسم اٹھائی تھی، لیکن ان کی زوجہ نے بھی رب کی رضا کی خاطر ہی اپنے خاوند کی اس وقت خدمت کی، جب سب لوگ چھوڑ چکے تھے۔ اس طرح رب نے دونوں کی ادا کو پسند کیا، نہ نبی کو منع کیا اور نہ ان کی زوجہ کو کوڑے لگانے دیے۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَخُذْ بِیَدِکَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِّہ وَلَا تَحْنَثْ اِنَّا وَجَدْنٰہُ صَابِرًا نِعْمَ الْعَبْدُ اِنَّہٗ اَوَّابٌ (پ۲۳، سورۃ ص ۴۴)
فرمایا کہ اپنے ہاتھ میں ایک جھاڑو لے کر اسے مار دے اور قسم نہ توڑ بے شک ہم نے اسے صابر پایا کیا اچھا بندہ ہے بے شک وہ بہت رجوع لانے والا ہے۔
آپ کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ آپ سوتیلیوں (تنکوں)والا ایک جھاڑو لیں اپنی زوجہ کو ماردیں۔ اس طرح آپ کی قسم پوری ہوجائے گا۔
یہ اللہ تعالیٰ کی شانِ کریمی ہے کہ اس نے خود اپنے فضل و کرم سے حضرت ایوب علیہ السلام کو یہ اجازت دی، ورنہ کوئی اور انسان ایسی قسم اٹھائے تو اس کی قسم اس طرح جھاڑو مارنے سے پوری نہیں ہوگی بلکہ اس کے لیے یہ لازم ہوگا کہ وہ قسم کو توڑ دے اور کفارہ ادا کرے۔
خیال رہے کسی شرعی کام میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے رعایت ملے تو یہ ان کی مہربانی ہے، وہ مالک ہیں، چاہیں تو معاف کردیں اور چاہیں تو اس میں آسانی کی راہ پیدا کردیں، لیکن انسان خود کوئی ایسا حلہ کرے کہ اس کی وجہ سے حکم شرعی اس سے ٹل جائے، یہ ناجائز ہے۔ انسان کسی ایسے حیلے کو اختیار کرے کہ زکوٰۃ ادا نہ کرنی پڑے یا روزے گرمیوں میں نہ رکھنے پڑیں، بلکہ سردیوں میں قضا کریں گے۔ اس طرح کے ہتھکنڈے بغیر عذر شرعی کے باطل ہوں گے۔
علامہ آلوسی فرماتے ہیں:
عندی ان کل حیلۃ او جبت ابطال حکمۃ شرعیۃ لا تقبل کحیلۃ سقوط الزکوۃ (روح المعانی)
میرے نزدیک ہر حیلہ جس میں شرعی احکام کی حکمت کا باطل ہونا لازم آئے وہ قبول نہیں کیا جائے گا، جس طرح کوئی حیلہ کرے کہ مجھ پر زکوٰۃ لازم نہ آئے وغیرہ۔ (مکمل واقعہ ماخوذ از تفسیر کبیر و روح المعانی پ۱۷، پ۲۳)
اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو آسائش میں اس کی نعمتوں کا شکر کرنے اور آزمائشوں میں صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے، رزق حلال عطا فرمائے اور نیک وفادار زوجہ عطا فرمائے۔
آمین ثم آمین
تنبیہ:
حضرت علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ نے ابن عربی رحمہ اللہ تعالیٰ کا قول نقل کیا ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام کے جسم مبارک میں کیڑے پڑنے کا واقعہ سند کا محتاج ہے۔ یعنی سند صحیح سے ثابت نہیں ہے لیکن خیال رہے کہ اسے علامہ آلوسی رحمہ اللہ تعالیٰ نے صحٰح سند کے ساتھ ثابت کیا ہے۔ آپ رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’واخرج احمد فی الزھد عن الحسن انہ قال ما کان بقی من ایوب علیہ السلام الا عینا وقلبہ ولسانہ فکانت الدواب تختلف فی جسدہ واخرج ابونعیم وابن عساکر عنہ ان الدودۃ لتقع من جسم ایوب علیہ السلام فیعیدھا الی مکانھا ویقول: [کلی من رزق اللہ]‘‘ (روح المعانی ج۹ جز۲ ص۸۰)
احمد ابونعیم اور ابن عساکر نے بیان کیا ہے کہ حضرت حسن بصری سے روایت ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام کے جسم مبارک میں ماسوائے آنکھوں، دل اور زبان کے کوئی جگہ نہیں تھی جہاں کیڑے نہ پڑے ہوں جب کوئی کیڑا نیچے گرجاتا تو آپ اسے اٹھاکر پھر اپنی جگہ رکھ دیتے اور فرماتے اللہ تعالیٰ کے رزق سے کھا جو اس نے تجھے دیا ہے۔
معتزلہ نے بھی کیڑے پڑنے والی روایت پر اعتراض کیا ہے۔ البتہ امام رازی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اسے ابتلاءً جائز قرار دیا ہے؛ کیونکہ انبیائے کرام پر آزمائش زیادہ ہوتی ہے۔ کیڑے پڑنے کا ذکر تفسیر بیضاوی، تفسیر بغوی، تفسیر مظہری اور تفسیر کبیر وغیرہ معتبر کتب تفاسیر میں کیا گیا ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
(تذکرۃ الانبیاء)