حضرت سیدنا داؤد
حضرت سیدنا داؤد (تذکرہ / سوانح)
حضرت سیدنا داؤد علی نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام
حضرت داؤد علیہ السلام نے ایک سو سال عمر پائی، آپ موسیٰ علیہ السلام سے پانچ سو ننانوے(۵۹۹) سال بعد تشریف لائے۔ (اس کے دیگر اقوال بھی منقول ہیں) حضرت سلیمان علیہ السلام، حضرت داؤد علیہ السلام کے بیٹے ہیں آپ نے انسٹھ سال عمر پائی۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ہزار سات سو سال پہلے تشریف لائے۔ (التخبیر للسیوطی، حاشیہ جلالین، ص۲۷۵)
وَاذْکُرْ عَبْدَنَا دَاؤدَ ذَالْاَیْدِ اِنَّہٗ اَوَّابٌ (پ۲۳ سورۃ ص ۱۷)
اور ہمارے بندے داؤد، نعمتوں والے کو یاد کر وبے شک وہ بڑا رجوع کرنے والا ہے۔
ذا الاید: کا معنی نعمتوں والا بھی ہے اور طاقت و قوت والا بھی ہے۔ یعنی آپ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے عبادات کے ادا کرنے اور گناہوں سے بچنے کی طاقت عطا فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے جب آپ کی طاقت کی تعریف فرمائی تو اس سے وہی مراد ہوسکتی ہے، جو قابل تعریف ہو اور قابل تعریف وہی طاقت ہے جس کی وجہ سے انسان عبادات پر عمل کرسکے اور گناہوں سے بچ سکے۔ حضرت داؤد علیہ السلام اپنے تمام کاموں میں اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔
داؤد علیہ السلام کی عبادت:
آپ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے، یہ دراصل آپ علیہ السلام کا نفس کے خلاف جہاد تھا؛ کیونکہ انسان کا ’’نفس‘‘ بچے کے طرح ہوتا ہے۔ بچے کو ایک دن دودھ پلایا جائے اور دوسرے دن نہ پلایا جائے یہ بہت مشکل ہے، اسی طرح داؤد علیہ السلام نے اپنے نفس سے ایسا جہاد کیا جو عام آدمی کے لیے بہت مشکل تھا؛ کیونکہ ایک دن نفس کو خواہشات سے روکنا اور دوسرے دن خواہشات کی اجازت دینا عظیم کام تھا۔ آپ علیہ السلام نصف رات اللہ تعالیٰ کے حضور قیام فرماتے، یعنی نوافل ادا کرتے، پھر رات کا تہائی حصہ سوتے، پھر رات کا چھٹا حصہ جاگ کر عبادت میں مشغول رہتے۔
داؤد علیہ السلام اور سلیمان علیہ السلام کی نبوت کا ذکر:
وَلَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ وَسُلَیْمٰنَ عِلْمًا وَقَالَا الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلٰی کَثِیْرٍ مِّنْ عِبَادِہِ الْمُؤْمِنِیْنَ (پ۱۹ سورۃ نمل ۱۵)
اور بے شک ہم نے داؤد اور سلیمان (علیہما السلام) کو بڑا علم عطا کیا تھا، اور دونوں نے کہا؛ سب خوبیاں اللہ تعالیٰ کو جس نے ہمیں اپنے بہت سے ایمان والے بندوں پر فضیلت بخشی۔
علم سے مراد لوگوں کے درمیان قضاء (فیصلہ) کا علم، پرندوں کی بولیاں جاننے کا علم وغیرہ ’’ہمیں فضیلت دی‘‘ اس سے مراد نبوت اور جنوں شیطانوں کو آپ کے تابع بنانا ہے۔
’’علم‘‘ سے انسان کو فضیلت حاصل ہوتی ہے، انسان کو چاہیے کہ نعمتوں کے حاصل ہونے پر ان کا شکریہ ادا کرے، کسی نعمت کا اظہار بطور تکبر ناجائز ہے، بطور شکر ذکر کرنا مستحب ہے۔ سنت انبیائے کرام ہے ۔ (از روح البیان، جلالین شریف)
داؤد علیہ السلام کی بادشاہت کا ذکر:
یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیْفَةً فِی الْاَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْھَوٰی فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیْلِ اللہِ اِنَّ الَّذِیْنَ یَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللہ لَھُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ بِمَا نَسُوْا یَوْمَ الْحِسَابِ (پ۲۳ سورۃ ص۲۶)
اے داؤد (علیہ السلام) ہم نے تجھے زمین میں نائب کیا، تو لوگوں میں سچا حکم کر اور خواہش کے پیچھے نہ جانا کہ تجھے اللہ تعالیٰ کی راہ سے بہکادے گی، بے شک وہ جو اللہ تعالیٰ کی راہ سے بہکتے ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے، اس لیے کہ وہ عذاب کے دن کو بھول بیٹھے۔
’’فقد جمع لداؤد بین النبوۃ والسلطنۃ‘‘ (صاوی، حاشیہ جلالین ص۳۸۲)
حضرت داؤد علیہ السلام کو نبوت اور بادشاہت دونوں حاصل تھیں۔
’’ولا تتبع الھوی المقصود من نھیہ اعلام امتہ لانہ معصوم ولتتبعہ فیما امر بہ لانہ اذا کان ھذا الخطاب للمعصوم فغیرہ اولی‘‘ (صاوی، حاشیہ جلالین ص۳۸۲)
آپ علیہ السلام کو رب نے جو فرمایا: ’’خواہش کے پیچھے نہ جانا‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو خواہش کے پیچھے چلنے سے امت کی تعلیم کے لیے روکا گیا ہے، کہ وہ غور و فکر کریں۔ اور آپ علیہ السلام کو جو حکم دیے گئے ہیں وہ ان کی تابعداری کریں۔ جب یہ خطاب معصوم کو ہوسکتا ہے تو دوسروں کو تو یقیناً یہ حکم ہونا ہی ہے۔
روایت کیا گیا ہے کہ بنی مروان میں سے کسی خلیفہ نے حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ کہا کہ کیا تم نے سنا ہے؟ جو ہمیں خبر دی گئی ہے کہ خلیفہ پر کوئی قلم نہیں چلے گی اور اس پر کوئی معصیت نہیں لکھی جائے گی۔ آپ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے امیرالمومنین خلفاء افضل ہیں یا انبیاء علیہم السلام؟ پھر آپ رضی اللہ عنہ نے یہی آیت تلاوت کی۔ مقصد یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو تعلیم امت کے لیے خواہشات کے پیچھے چلنے سے منع کیا ہے تو خلیفہ کیا چیز ہوسکتا ہے؟ (از تفسیر کبیر)
فائدہ:
ایک انسان دنیامیں زندگی گزارنے کی جمیع ضروریات پر عمل نہیں کرسکتا، کوئی کھیتی باڑی کرتا ہے کوئی دانے پیستا ہے، کوئی روٹی پکاتا ہے، کوئی کپڑا بنتا ہے اور کوئی سلاتی کرتا ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ہر ایک اپنے اپنے کام میں مشغول ہوتا ہے۔ تمام کام مل کر تمام کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ جب سب لوگوں نے ایک ہی علاقہ ایک ہی سرزمین میں مجتمع ہوکر رہنا ہے اور مختلف کام سر انجام دینے ہیں تو ان میں اختلافات، جھگڑے ہونا بھی قدرتی امر ہے۔ اس لیے ان میں کوئی ایک ایسا شخص بھی ہونا چاہیے جسے طاقت اور دبدبہ حاصل ہو جو ان کے اختلافات دور کراسکے، ان کے جھگڑوں میں فیصلہ کراسکے، یہ وہ بادشاہ ہی ہوسکتا ہے جس کا حکم کل پر نافذ ہوتا ہے۔
لہٰذا ثابت ہوا کہ مخلوق کی مصلحت کے لیے بادشاہ، سیاستدان کا ہونا ضروری ہے۔ پھر اگر بادشاہ اپنی خواہش کے مطابق احکام نافذ کرے، اپنے دنیاوی منافع حاصل کرے مخلوق کو عظیم ضرر پہنچائے، رعیت کو اپنی ذات پر قربان کردے، یعنی اپنی بادشاہت کو بچانے کے لیے رعیت کی تباہی کا لحاظ نہ کرے، رعیت کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرے تو دنیا تباہی و بربادی پر پہنچ جاتی ہے، مخلوق میں قتل و غارت کا وقوع عام ہوتا ہے، آخر کار اس بادشاہ کی تباہی کا وقت بھی آجاتا ہے اس طرح بادشاہ کے مظالم سے ملک کی بربادی کے ساتھ بادشاہ کی اپنی بربادی بھی ہوجاتی ہے۔
اگر بادشاہ شرعی احکام کے مطابق فیصلے کرے تو نظام عالم درست ہوجاتا ہے، بھلائی کے دروازے اچھے طریقے سے کھل جاتے ہیں، ان مقاصد کے پیش نظر قوم کی تعلیم و تربیت کے لیے حضرت داؤد علیہ السلام کو یہ حکم دیا۔
پہاڑ اور پرندے حضرت داؤد علیہ السلام کے تابع:
اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَہٗ یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَالْاِشْرَاقِ وَالطَّیْرَ مَحْشُوْرَةً کُلٌّ لَّہٗ اَوَّابٌ (پ۲۳ سورۃ ص۱۸، ۱۹)
بے شک ہم نے اس کے ساتھ پہاڑ کو مسخر کردیے کہ تسبیح کرتے شام کو اور سورج چمکتے اور پرندے جمع کیے ہوتے، اور سب اس کے فرمانبردار تھے۔
اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کو آپ کے ساتھ مسخر کردیا، یعنی پہاڑ آپ کے تابع تھے، آپ جہاں چلتے پہاڑ آپ کے ساتھ چلتے یا آپ جس جگہ پہاڑوں کے لے جانے کا ارادہ فرماتے پہاڑ وہاں چلے جاتے۔ آپ علیہ السلام کا یہ معجزہ اللہ تعالیٰ کی کامل حکمت و قدرت پر دلالت کرتا ہے۔ آپ علیہ السلام کی آواز بہت حسین تھی، آواز میں رعب اور دبدبہ بھی تھا۔ جب آپ خوش الحانی سے ’’زبور شریف‘‘ پڑھا کرتے تو پہاڑوں سے بھی تسبیحات کی حسین و جمیل گنگناہٹ سنائی دیتی۔
اس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے کئی کارنامے موجود ہیں، یعنی پہاڑوں کے جسم میں زندگی پیدا فرماتا ہے، پھر انہیں شعور عطا فرماتا ہے، پھر انہیں قدرت نوازتا ہے پھر انہیں بولنے کی طاقت دیتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تسبیحات پڑھتے ہیں، اس کی مثال قرآن پاک میں ایک اور بھی ہے۔
فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبَّہٗ لِلْجَبَلِ
جب اس (موسیٰ) کے رب نے اپنی تجلیات کا ظہور پہاڑ پر فرمایا۔
یعنی اللہ تعالیٰ نے پہاڑ میں عقل و فہم پیدا کیے، پھر اسے اپنے صفاتی نور کو دیکھنے کے لیے دیکھنے کی طاقت و سمجھ عطا کیے، دیکھنے پر وہ پہاڑ برداشت نہ کرسکا۔
حضرت داؤد علیہ السلام کے خوش آوازی سے زبور پڑھنے اور تسبیحات پڑھنے کے ساتھ ساتھ پرندے بھی تسبیحات پڑھتے تھے، آپ علیہ السلام کے قریب آکر کان لگاکر سنتے تھے، اتنے قریب ہوجاتے تھے کہ آپ پرندوں کو گردن سے پکڑ کر ان سے پیار کرتے۔ (تفسیر کبیر)
بلکہ بعض حضرات نے بیان کیا ہے کہ آپ علیہ السلام کی آواز میں رب نے ایسا عجیب اثر رکھا تھا کہ آپ جب زبور پڑھتے تو چلتا پانی رک جاتا، درختوں پر یہ اثر ہوتا کہ گویا وہ بھی زبان حال سے آپ کے ساتھ تسبیحات پڑھ رہے ہیں، اور ان کے پتے جھڑے شروع ہوجاتے۔ (واللہ اعلم بالصواب)
فائدہ:
علامہ رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جب یہ پتہ چلا کہ پہاڑ آپ کے ساتھ چلتے اور تسبیحات پڑھتے اور پرندے آپ کے پاس جمع ہوجاتے تھے۔
’’واجتمعاعھا الیہ ھو حشرھا فیکون علی ھذا التقدیر حاشرھا ھو اللہ‘‘
ان پرندوں کا آپ کے پاس اجتماع وہ حشر ہے ان کا ’’حاشر‘‘ یعنی جمع کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔
اس سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا بھی پتہ چلتا ہے اور یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ جس ذات نے یہاں غیر ذوی العقول کو عقل عطا کرکے اور غیر ذی روح کو روح عطا کرکے آپ کے تابع بنادیا وہ ذات قیامت میں ذی روح کی روح کیونکر نہیں لوٹا سکتا۔ (تفسیر کبیر بزیادۃ)
تنبیہ: عام طور پر اہل عرب لفظ بولتے ہیں: [شرقت الشمس] ’’سورج طلوع ہوگیا‘‘ اور [اشرقت الشمس] کا معنی لیتے ہیں ’’سورج روشن ہوگیا‘‘۔ آیت کریمہ میں لفظ ’’اشراق‘‘ استعمال ہوا ہے اس سے صلوۃ ضحیٰ پر دلیل پکڑی گئی ہے۔
حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر تشریف لائے آپ نے وضو کے لیے پانی طلب کیا اور وضو کرکے’’صلوٰۃ ضحیٰ‘‘ (چاشت کی نماز) ادا فرمائی اور ارشاد فرمائی: اے ام ہانی!
’’ھذہ صلوۃ الاشراق‘‘ یہ نماز اشراق ہے۔
حضرت طاؤس حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں، آپ نے پوچھا کہ کیا تم چاشت کی نماز کا ذکر قرآن پاک میں پاتے ہو؟ تو حاضرین نے جواب دیا، نہیں۔ تو آپ نے یہی آیت کریمہ تلاوت کی:
اِنَّا سَخَّرْنَا الْجِبَالَ مَعَہٗ یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَالْاِشْرَاقِ (پ۲۳ ص۱۸)
یعنی یہ نماز حضرت داؤد علیہ السلام ادا فرماتے ہیں، آپ علیہ السلام نے کہا کہ میرے دل میں ہمیشہ صلوٰۃ ضحیٰ کے متعلق خیال آتا رہتا تھا کہ اس کا ذکر قرآن پاک میں ہے یانہیں؟ تو میں نے اسے.....
یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَالْاِشْرَاقِ میں پالیا۔ (تفسیر کبیر)
’’ویلوح من ھٰھنا ان الاشراق والضحیٰ واحد یعنی ھو فی الحقیقۃ وقت واحد و صلوۃ واحدۃ اولھا وقت الاشراق وآخرھا الی قبیل نصف النھار ولما صلی فی بعض الاحیان فی الوقتین ظنوا ان ھھنا وقتین وصلوتین‘‘ (کمالین حاشیہ جلالین ص ۳۸۱)
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اشراق اور ضحیٰ ایک ہی ہیں یعنی ایک ہی وقت ہے اور ایک ہی نماز ہے اول وقت کو اشراق کہا جاتا ہے اورآخر کو ضحیٰ کہا گیا ہے آخر وقت زوال سے تھوڑا پہلے تک ہے، جب بعض اوقات یہ نماز اول وقت میں پڑھی گئی اور بعض اوقات آخر میں تو یہ گمان ہوا کہ دو وقت علیحدہ علیحدہ ہیں اور علیحدہ علیحدہ نمازیں ہیں۔ (حالانکہ نماز ایک ہی ہے)
اشراق یا چاشت کی رکعات:
’’اقلھا رکعتان وادنی کمالھا اربع ویزید ماشاء فھو ثمان رکعات واکثرھا اثنتا عشرۃ رکعۃ‘‘ (ماخوذ از روح المعانی)
کم از کم دو رکعتیں اور کمال کا ادنیٰ درجہ چا ررکعتیں ہے، اس سے زائد جتنی چاہے پڑھے۔ اور آٹھ رکعتیں اور اس سے بھی زائد بارہ رکعتیں ہیں۔ تمام تعداد کی صورتوں پر احادیث مبارکہ دال ہیں۔
بخاری شریف میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے:
اوصاہ بھما وان لا یدعھا
آپ نے دو رکعتیں ادا کرنے اور ان کو نہ چھوڑنے کا حکم فرمایا۔
مسلم مسند احمد ابن ماجہ میں حضرت ام ھانی سے مروی ہے۔
کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یصلی الضحیٰ اربعا ویزید ما شاء اللہ تعالٰی.
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلوٰۃ ضحیٰ چار رکعت پڑھتے تھے اور زیادہ فرماتے جتنا رب تعالیٰ چاہتا۔
ابن عبد البر نے تمہید میں عکرمہ رضی اللہ عنہ سے ام ہانی رضی اللہ عنہا کی روایت کو بیان کیا۔
’’قدم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ثمان رکعات فقلت ما ھذہ الصلوۃ قال ھذہ صلوۃ الضحی‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آٹھ رکعتیں ادا کیں، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ کون سی نماز ہے؟ آپ نے فرمایا: یہ چاشت کی نماز ہے۔
ایک ضعیف روایت میں بارہ رکعت کا ذکر بھی ملتا ہے۔ (از روح المعانی)
خیال رہے کہ راقم کا مطلب صرف مسئلہ کی تحقیق تھی، جن بزرگوں کو اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا کی ہوئی ہے اور وہ اشراق کے وقت علیحدہ نوافل پڑھتے ہیں اور چاشت کے وقت علیحدہ۔ انہیں اس مستحسن فعل سے منع کرنا مقصود نہیں۔
یہ جاہلانہ طرز عمل ہے کہ: فلاں وقت دعاء نہ کرو، فرض کے بعد دعاء ثابت نہیں، سنتوں اور نوافل کے بعد دعاء ثابت نہیں، جنازہ کے بعد دعاء نہیں، جمعرات کو دعاء نہیں، چالیسواں پر دعاء تھی، نہ جانے کیوں خدا سے مانگنے میں بھی جاہلوں کو شرم آتی ہے؟ خدا سے نہ مانگنےو الے متکبر جہنم کا ایندھن ہیں اس مسئلہ پر میری کتاب ’’شمع ہدایت‘‘ کا مطالعہ کیا جائے۔
آپ کی بادشاہی کا دبدبہ اور اثر خطاب:
وَشَدَدْنَا مُلْکَہٗ وَاٰتَیْنٰہُ الْحِکْمَۃَ وَفَصْلَ الْخِطَابِ
اور ہم نے اس کو اس کی سلطنت کو مضبوط کیا اور اسے حکمت اور قول فیصل دیا۔
حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ چھتیس ہزار آدمی رات کو آپ کی حفاظت کرنے والے ہوتے صبح ہوتی تو آپ ان کو فرماتے کہ تم لوٹ جاؤ تم پر اللہ کا نبی راضی ہے، بعض روایات میں یہ ذکر ہے کہ آپ کی حفاظت کرنے والے چالیس ہزار کی تعداد میں ہوتے، (کبیر) اتنی تعداد میں لوگ اپنے شوق و محبت کی وجہ سے آپ کی حفاظت کے لیے آتے تھے، اس میں اپنی سعادت سمجھتے اور باعث برکت سمجھتے۔
علامہ آلوسی کا یہ کہنا: کہ یہ عقلاً بعید ہے؛ کیونکہ اتنے آدمیوں کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ قول مجھے درست نظر نہیں آرہا ہے، اگرچہ اللہ تعالیٰ کے نبی کو ضرورت نہیں تھی لیکن آپ کے غلاموں کو آپ کی خدمت کی ضرورت تھی۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ بنی اسرائیل کے ایک شخص نے حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس ایک شخص پر گائے کا دعویٰ کیا، اس نے انکار کیا، حضرت داؤد علیہ السلام نے مدعی سے گواہ طلب کیے اس کے پاس گواہ نہیں تھے۔ آپ علیہ السلام نے ان دونوں کو کہا: تم دونوں جاؤ میں اس معاملہ میں غو و فکر کروں گا۔ وہ دونوں آپ کی محفل سے چلے گئے۔
حضرت داؤد علیہ السلام کو نیند آگئی تھی، آپ کو خواب میں کہا گیا کہ مدعی کو قتل کردو۔ آپ علیہ السلام نے خیال کیا، یہ خواب ہے، مجھے اس معاملہ میں جلدی نہیں کرنی چاہیے، دوسری رات پھر خواب میں آپ کو یہی کہا گیا کہ اس شخص کو قتل کردو آپ نے پھر بھی اس پر عمل نہ کیا۔ تیسری رات پھر آپ کو یہ کہا گیا کہ اس شخص کو قتل کردو یا تم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے گرفت آئے گی۔ آپ علیہ السلام نے اس شخص کی طرف پیغام بھیج کر اسے بلوالیا۔ آپ نے کہا مجھے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں قتل کرادوں اس نے کہا آپ مجھے بغیر گواہوں اور بغیر کسی ثبوت کے قتل کرائیں گے؟ آپ نے فرمایا:
ہاں! قسم ہے اللہ تعالیٰ کی، میں اللہ تعالیٰ کا حکم تم پر ضرور جاری کروں گا۔
اس شخص نے کہا کہ آپ جلدی نہ کریں کیونکہ میں آپ کو اصل بات بتاتا ہوں میں اس (گائے کے ) جرم کی وجہ سے اس گرفت میں نہیں آیا، بلکہ میں نے اس شخص کے باپ کو دھوکے سے قتل کردیا تھا اور اسے ظاہر نہیں ہونے دیا تھا۔ میں اس گناہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی گرفت میں آگیا ہوں۔ حضرت داؤد علیہ السلام نے اسے قتل کرنے کا حکم دے دیا۔ اس واقعہ کے بعد بنی اسرائیل پر آپ کی بہت بڑی ہیبت اور عظیم رعب طاری ہوگیا۔ اس طرح آپ کی بادشاہت کا دبدبہ ہر شخص کے دل میں بیٹھ گیا۔ (روح المعانی)
اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکمت عطا کی۔ دوسرے مقام پر فرمای:
وَمَنْ یُّؤْتَ الْحِکْمَۃَ فَقَدْ اُوْتِیَ خَیْرًا کَثِیْرًا (پ۳ سوۃ بقرۃ ۲۶۹)
جسے حکمت عطا کی جائے اسے خیر کثیر عطا کیا جاتا ہے۔
یعنی علم اور ایسے اعمال جو دین و دنیا میں اچھے اور نیک ہوں، اور درست اعتقادات کا عطاء ہونا، یہ سب حکمت میں داخل ہیں۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر)
پُر اثر خطابِ فیصل:
اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسے ’’خطابِ فیصل‘‘ سے نوازا جس کی وجہ سے آپ لوگوں کو کامل طور پر اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچانے کی قدرت رکھتے تھے، جو بہت زیادہ اثر انداز ہوتا تھا، خیال رہے کہ جمادات یعنی پتھروں وغیرہ کو تو ادراک و شعور ہی حاصل نہیں اور انسان کے بغیر دوسرے حیوانوں کو ادراک و شعور حاصل ہے، لیکن وہ کسی چیز کو کچھ نہ کچھ سمجھ کر دوسروں کو سمجھانے کے قابل نہیں۔ اپنے دل کی بات کسی تک پہنچاسکیں، یہ ان سے نہیں ہوسکتا۔ صرف انسان ہی ہے کہ کسی چیز کا ادراک کرکے دوسرے تک بھی پہنچاسکتا ہے۔ پھر بعض انسان اس انداز سے کلام کرتے ہیں کہ اس میں مضامین خلط ملط ہوتے ہیں، دوسروں کو سمجھنے میں دقت پیش آتی ہے۔ اور بعض اپنی بات کو کامل طور پر سمجھانے کی قدرت رکھتے ہیں۔
حضرت داؤد علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے علم و عملِ صالح، اعتقادِ صالح عطاء کرکے جس طرح قوت باطنیہ کو کمال بخشا اسی طرح ’’خطاب فیصل‘‘ عطاء کرکے آپ کی قوت گویائی (بولنے کی قوت) کو کمال عطا کیا۔
لوہے کا آپ کے ہاتھ میں نرم ہوجانا:
وَ اَلَنَّا لَہُ الْحَدِیْدَ اَنِ اعْمَلْ سٰبِغٰتٍ وَّقَدِّرْ فِی السَّرْدِ (پ۲۲ سورۃ السبا ۱۰، ۱۱)
اور ہم نے اس کے لیے لوہا نرم کیا کہ وسیع زر ہیں بنا اور بنانے میں اندازے کا لحاظ رکھ۔
آ پ کے ہاتھ میں لوہا موم اور گوندھے ہوئے آتے کی طرح نرم ہوجاتا تھا آگ میں نرم کرنے اور ہتھوڑے سے کوٹنے کی ضرورت پیش نہیں آتی تھی، آپ علیہ لسلام جیسے چاہتے اسی طرح لوہے کو ہاتھ سے ادھر ادھر پھیر کر زرہ بنالیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق آپ بہت خوبصورت اور معتدل زرہ بناتے، نہ بہت بڑی نہ بہت چھوٹی۔ اس میں کیل بھی ایک خاص مقدار کے لگاتے، بہت بڑے یا چھوے نہیں ہوتے تھے۔ تاہم بعض مفسرین کرام نے کہا آپ کو کیل لگانے کی ضرورت ہی درپیش نہیں آتی تھی۔ لوہا نرم ہوجاتا جیسے چاہتے اس کو اسی طرح پھیرلیتے۔
حضرت مقاتل سے مروی ہے کہ آپ علیہ السلام جب سے بنی اسرائیل کے بادشاہ بنے تو آپ نے یہ عمل شروع کیا کہ رات کو عام آدمی کی حیثیت سے باہر تشریف لے جاتے، جو شخص ملتا اس سے پوچھتے: داؤد بادشاہ کیسا ہے؟ ایک مرتبہ آپ کی ملاقات ایک فرشتہ سے ہوئی جو انسانی شکل میں تھا جب اپ نے اس سے سوال کیا تو اس نے کہا: آدمی تو بہت اچھا ہے صرف ایک بات اس میں نہ پائی جائے تو وہ بہت ہی کامل انسان ہے۔ آپ نے پوچھا وہ کیا بات ہے؟ اس نے کہا کہ وہ بیت المال سے رزق کھاتے ہیں۔ اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھائیں تو ان کے فضائل میں تکمیل پائی جائے۔
آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی: اے اللہ مجھے زرہ بنانے کا علم عطاء فرمادے اور مجھ پر زرہ بنانی آسان فرمادے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو زرہ بنانے کا علم عطاء فرمادیا اور لوہے کو آپ کے ہاتھ میں نرم فرمادیا۔ آپ اس کی آمدنی کا تہائی حصہ مسلمانوں کی مصلحت میں خرچ فرماتے۔ ایک زرہ ہر روز تیار فرماتے تھے، ایک ہزار، چار ہزار اور چھ ہزار درہم تک آپ کی بنائی ہوئی زرہیں فروخت ہوئیں۔ اس کی آمدنی میں سے آپ اپنی ذات پر خرچ کرتے اور اپنے اہل و اعیال کا خرچ اسی سے پورا فرماتے۔ فقراء اور مساکین کو بیھ اس مال سے دیے۔ تین سو ساٹھ زرہیں آپ نے تیار فرمائی تھیں، ان کو فروخت کرکے آپ نے اتنے دراہم حاصل کرلیے تھے کہ آپ بیت المال کے محتاج نہ رہے، بلکہ اس سےکثیر رقم غرباء کو بھی دی۔ (ماخوذ از روح المعانی)
انبیائے کرام کا مقام بہت بلند ہے:
کچھ آیات کریمہ کی تشریح میں حضرت داؤد علیہ السلام کی طرف ایسے قصے منسوب کردیے گئے ہیں جو سراسر باطل ہیں۔ میں نے جب ان آیات کریمہ کی تفسیر علامہ رازی رحمہ اللہ تعالی کی تفسیر کبیر میں دیکھی تو ارادہ ہوا کہ آپ کے عظیم دلائل کو ذکر کیا جائے۔ا س کے بعد تفسیر ضیاء القرآن کو دیکھا تو خیال ہوا کہ اہل علم اور عوام دونوں کے لیے یہ تفسیر ہی زیادہ بہتر ہے کہ اسی کو بعینہ ذکر کردیا جائے۔ اس لیے ’’ضیاء القرآن‘‘ سے ہی نقل کر رہا ہوں۔ علمائے کرام کی خدمت میں عرض ہے کہ اس مقام میں تفسیر کبیر کا ضرور مطالعہ فرمائیں۔
وَھَلْ اَتٰکَ نَبَؤُا الْخَصْمِ اِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَO اِذْ دَخَلُوْا عَلٰی دَاوٗدَ فَفَزِعَ مِنْھُمْ قَالُوْا لَا تَخَفْ خَصْمٰنِ بَغٰی بَعْضُنَا عَلٰی بَعْضٍ فَاحْکُمْ بَیْنَنَا بِالْحَقِّ وَلَا تُشْطِطْ وَاھْدِنَآ اِلٰی سَوَآءِ الصِّرَاطِO اِنَّ ھٰذَآ اَخِیْقف لَہٗ تِسْعٌ وَّتِسْعُوْنَ نَعْجَةً وَّلِیَ نَعْجَةٌ وَّاحِدَةٌ فَقَالَ اَکْفِلْنِیْھَا وَعَزَّنِیْ فِی الْخِطَابِO قَالَ لَقَدْ ظَلَمَکَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِکَ اِلٰی نِعَاجِہ وَاِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْخُلَطَآءِ لَیَبْغِیْ بَعْضُھُمْ عَلٰی بَعْضٍ اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَقَلِیْلٌ مَّا ھُمْ وَظَنَّ دَاوٗدُ اَنَّمَا فَتَنّٰہُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّہٗ وَخَرَّ رَاکِعًا وَّاَنَابَO فَغَفَرْنَا لَہٗ ذٰلِکَ وَاِنَّ لَہٗ عِنْدَنَا لَزُلْفٰی وَحُسْنَ مَاٰبٍ (پ۲۳ سورت ص ۲۱، ۲۵)
اور کیا آئی ہے آپ کے پاس اطلاع فریقین مقدمہ کی؟ جب انہوں نے دیوار پھاندی عبادت گاہ کی اور جب اچانک داخل ہوئے داؤد (علیہ السلام) پر۔ پس آپ کچھ گھبراگئے ان سے، انہوں نے کہا ڈریے نہیں، ہم تو مقدمہ کے دو فریق ہیں، زیادتی کی ہے ہم میں سے ایک نے دوسرے پر، آپ ہمارے درمیان انصاف سے فیصلہ فرمائیے اور بے انصافی نہ کیجیے! اور دکھائیے ہمیں سیدھا راستہ! (صورت نزاع یہ ہے) یہ میرا بھائی ہے اور اسکی ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف ایک دنبی ہے۔ اب یہ کہتا ہے کہ وہ بھی میرے حوالے کردو اور سختی کرتا ہے میرے ساتھ گفتگو میں۔ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا: بے شک اس نے ظلم کیا ہے تم پر یہ مطالبہ کرکے کہ تیری دنبی کو اپنی دنبیوں میں ملادے اور اکثر حصہ دار زیادتی کرتے ہیں ایک دوسرے پر سوائےان حصہ داروں کے جو ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے اور ایسے لوگ بہت تھوڑے ہیں۔ اور فوراً خیال آگیا داؤد (علیہ السلام) کو کہ ہم نے اسے آزمایا ہے۔ سو وہ معافی مانگنے لگ گئے اپنے رب سے اور گر پڑے رکوع (سجدہ) میں اور (دل و جان سے) اس کی طرف متوجہ ہوگئے۔ پس ہم نے بخش دی ان کی تقصیر اور بے شک ان کے لیے ہمارے ہاں بڑا قرب ہے۔
اس سے پہلے کہ اس قصہ کی تحقیق کی جائے جو عام طور پر یہاں بیان کیا جاتا ہے۔ میں مناسب سمجھتا ہوں کہ پہلے آیات کی تشریح کردی جائے اور آخر میں اس قصہ کے متعلق محققین علماء کی رائے، قارئین کی خدمت میں پیش کی جائے۔
جب کسی واقعہ کی طرف مخاطب کو متوجہ کرنا ہوتا ہے تو اس کا آغاز اس قسم کے استفہام سے کیا جاتا ہے تاکہ سننے والا ہمہ تن گوش ہوکر (بڑی توجہ سے) اس واقعہ کو سنے اور اس سے عبرت حاصل کرے۔
’’الاستفھام ام التنبیہ علی جلالۃ القصۃ والاصغاء الیھا والاعتبار بھا‘‘
یعنی کیا آپ کو اس واقعہ کی اطلاع دی ہے کہ جب مدعی اور مدعا علیہ دونوں فریق دیوار پھاند کر حضرت داؤد کے عبادت خانہ میں اچانک جا دھمکے۔ ’’تسور الحائط تسلق‘‘ دیوار پر رینگ کر چڑھنا، محراب سے مراد آپ کی عبادت کا حجرہ ہے، اس کا ماخذ و مادہ اشتقاق ’’حرب‘‘ ہے کیونکہ وہاں آپ علیہ السلام اپنے نفس سے برسر پیکار رہتے تھے۔ اس لیے اس کو محراب کہا گیا۔ مسجد کے محرام کو بھی اس لیے محراب کہاجات ہے کہ وہاں بھی جماعت مسلمین کا امام ہوائے نفس (نفس کی خواہشات) تضلیل ابلیس (شیطان کو بھٹکانا) اور طرح طرح کے خطرات اور مشکلات کے خلاف اپنی قوم کو جہاد کرنے کی تلقین کرتا ہے۔
یاد رہے کہ مسجد میں محراب کی موجودہ شکل عہد رسالت میں نہ تھی۔
’’صرح الجلال السیوطی ان لا محاریب التی فی المساجد بھیئتھا المعروفۃ الیوم لم یکن فی عھد النبی صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘ (روح المعانی)
علامہ جلال الدین سیوطی نے وضاحت فرمائی ہے کہ مساجد میں محرابوں کی آج جو مشہور و معروف شکل ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نہ تھی۔
حضرت داؤد علیہ السلام کا معمول تھا کہ آپ ایک روز حکومت کے کاروبار سرانجام دیتے، مقدمات کا فیصلہ کرتے۔ دوسرے روز اپنے گھر کے فرائض انجام دیتے۔ تیسرا دن انہوں نے صرف عبادت کے لیے مخصوص کیا ہوا تھا اور اس دن اپنی عبادت گاہ پر پاسبان مقرر کردیے تاکہ لوگ ان کی عبادت میں مخل نہ ہوں (خلل نہ ڈالیں)، اس روز کسی کی مجال نہ ہوتی کہ اندر آئے۔ایک دفعہ آپ علیہ السلام اپنے عبادت کے حجرے میں عبادت میں مصروف تھے تو ایسے وقت میں ان اجنبیوں کا دیوار پھاند کر بغیر اجازت طلب کیے ہوئے اندر گھس آنا، بڑا حیرت انگیز واقعہ تھا۔ آپ علیہ السلام کو گھبراہٹ سی لاحق ہوئی، وہ بھی اس چیز کو بھانپ گئے اور کہنے لگے ڈریے نہیں، ہم تو دو فریق ہیں اور اپنے مقدمہ کا فیصلہ کرانے کے لیے آپ کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ آپ ازراق نوازش حق و انصاف کے ساتھ ہمارا فیصلہ فرمادیجیے اور ہم میں سے کسی پر ظلم اور زیادتی نہ ہو جو فریق بھی ظلم اور عدوان کی راہ پر گامزن ہے اسے عدل و انصاف کی سیدھی راہ پر چلنے کی ہدایات فرمادیجیے۔
’’لا تشطط ای لا تجاوز‘‘ لا تشطط کا معنی ہے تجاوز نہ کرو
اب وہ اپنا تنازعہ پیش کرتے ہیں ان میں سے ایک کہنے لگا کہ یہ شخص میرا بھائی ہے اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف ایک دنبی ہے۔ یہ مجھ کو کہتا ہے کہ یہ ایک دنبی بھی مجھے دے دو میں اس کی حفاظت کروں گا اس طرح میری دنبیوں کی تعداد پوری (یعنی سو) ہوجائے گی اور تو اس دنبی کی حفاظت کے جھنجٹ سے چھوٹ جائے گا۔ یہ جب بات کرتا ہے تو چھا جاتا ہے اور سننے والا یوں محسوس کرتاہے کہ یہ سچا ہے اور میری داد رسی کرنے کے بجائے الٹا مجھے ہی مجرم قرار دے دیا جاتا ہے۔ اس کا دوسرا یہ مطلب ہے کہ یہ اس رعب سے مجھ سے بات کرتا ہے کہ میں جواب دینے کی جرات بھی نہیں کرسکتا۔
’’ای مخاطبتہ ایاہ محاجۃ بان جاء بحجاج لم اطق ردہ‘‘ (روح المعانی)
آپ نے فریقین کی بات سننے کے بعد فیصلہ دیا کہ یہ اس کی سراسر زیادتی ہے یہ اتنا حریص ہے کہ ننانوے دنبیوں سے بھی اس کی چشمِ آز (حرص والی آنکھ) سیر نہیں ہوتی بجائے اس کے کہ اپنے بھائی کے پاس صرف ایک دنبی دیکھ کر اسے رحم آئے اور دس بیس دنبیاں اپنے پاس سے دیدے تاکہ اس کی حالت سنبھل جائے اور برادرانہ تعلقات کی لاج بھی رہ جائے وہ اس کے پاس ایک دنبی بھی نہیں دیکھ سکتا ہے، اسے بھی چھین لینا چاہتا ہے۔ یہ سراسر زیادتی ہے، یہ صریح ظلم ہے۔
آپ علیہ السلام نے فرمایا: اکثر حصہ داروں کا یہی دستور ہے، بڑے حصہ والا اپنے سے کم حصہ والے اور کمزور کو اس کی قلیل پونجی سے بھی محروم کردیتا ہے، البتہ وہ حصے دار جو اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہیں اور نیک اعمال کے خوگر ہوں (عادت بنائی ہو) وہ اپنے دوسرے حصہ داروں پر جبر نہیں کرتے، ان کا حق نہیں چھینتے، بلکہ حق و انصاف اور مروت و اخلاق کے تقاضوں کو ہر قیمت پر پورا کرتے ہیں، لیکن ایسے لوگوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے۔
یہ فیصلہ سنانے کے بعد معاً (ساتھ ہی) حضرت داؤد علیہ السلام کو کوئی اپنی بات یاد آگئی اور یہ خیال کیا کہ یہ تو میری آزمائش کی جا رہی ہے۔ فوراً مغفرت طلب کرنے لگے اور سجدہ میں گر گئے۔ یہاں (فخر راکعا میں) راکع سے مراد ساجد ہےا ور رکوع، سجود کے معنوں میں اکثر استعمال ہوتا رہتا ہے۔ جیسے اس شعر میں ہے:
فخر علی وجھہ راکعا |
|
وتاب الی اللہ من کل ذنب |
(روح المعانی)
یعنی وہ سجدہ کرے ہوئے منہ کے بل گر پڑا اور بارگاہ الٰہی میں ہر گناہ سے توبہ کی۔
اس شعر میں ’’راکعا‘‘ کا معنی ’’ساجدا‘‘ سجدہ کرنے والا ہے۔
(اس شعر میں داؤد علیہ السلام) کا ذکر نہیں، شعر سے صرف یہ بات ثابت کی گئی ہے کہ رکوع کا معنی سجدہ عام طور پر آتا رہتا ہے۔)
داؤد علیہ السلام کا اصل واقعہ:
آیات کی اس تشریح کے بعد ہم اس واقعہ کی تحقیق کرتے ہیں جس کی طرف ابتداء میں اشارہ کیا گیا ہے۔ مفکر اسلام مفسر قرآن علامہ پیر محمد کرم شاہ الازہری رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ضیاء القرآن‘‘ میں آپ مختلف مقامات پر پڑھ آئے ہیں کہ بنی اسرائیل اپنے انبیائے کرام پر فحش تہمتیں لگانے میں کتنے بیباک تھے؟ ایسی چیزیں جو ایک عام شریف آدمی کی طرف منسوب کرتے ہوئے انسان ہچکچاتا ہے، وہ بے دریغ اپنے نبیوں، اپنے محسنوں اور اپنے مشاہیر (مشہور حضرات) کی طرف منسوب کردیتے تھے۔ انہی خرافات میں سے ایک یہ واقعہ ہے، جو بائیبل میں بڑی تفصیل سے نمک مرچ لگا کر لکھا گیا ہے۔ جی تو نہیں چاہتا کہ قارئین کے ذوق کو مجروح کیا جائے، لیکن عرض حال کے لیے چند سطور لکھنا ضروری سمجھتا ہوں۔
کتاب ۲ اسموئیل باب ۱۱ میں مذکور ہے: اور شام کے وقت داؤد اپنے پلنگ سے اٹھ کر بادشاہی محل کی چھت پر ٹہلنے لگا اور چھت پر سے اس نے ایک عورت کو دیکھا جو نہا رہی تھی اور وہ عورت نہایت خوبصورت تھی، تب داؤد نے لوگ بھیج کر اس عورت کا حال دریافت کیا اور کسی نے کہا کیا وہ العام کی بیٹی ’’بت سبع‘‘ نہیں جو ’’حتی یاہ‘‘ کی بیوی ہے؟ داؤد نے لوگ بھیج کر اسے بلالیا۔ وہ اس کے پاس آئی اور اس نے اس سے صحبت کی، پھر وہ اپنے گھر چلی گئی۔ اور وہ عورت حاملہ ہوگئی۔ سو اس نے داؤد کے پاس خبر بھیجی کہ میں حاملہ ہوں۔ (آیات ۲ تا ۵)
اس سے آگے چل کر وہ لکھتے ہیں کہ:
حضرت داؤد علیہ السلام نے ’’یو آب‘‘ جو فوج کا کمانڈر تھا کو لکھا کہ جب دشمن سے جنگ شروع ہو تو ’’حتی اور یاہ‘‘ کو ایسی جگہ تعینات کیا جائے کہ اس کا قتل ہوجانا یقینی ہو۔ ملاحظہ ہو:
’’صبح کو داؤد نے یوآب کے لیے ایک خط لکھا اور اسے ’’اور یاہ‘‘ کے ہاتھ بھیجا اور اس نے خط میں یہ لکھا کہ اوریاہ کو گھمسان میں سب سے آگے رکھنا اور تم اس کے پاس سے ہٹ جانا تاکہ وہ مارا جائے اور جان بحق ہو، اور یوں ہوا کہ جب ’’یوآب‘‘ نے اس شہر کا ملاحظہ کرلیا تو اس نے ’’اوریاہ‘‘ کو ایسی جگہ رکھا جہاں وہ جانتا کہ بہادر مرد ہیں۔ اور اس شہر کے لوگ نکلے اور ’’یوآب‘‘ سے لڑے اور وہاں داؤد کے خادموں میں سے تھوڑے سے لوگ کام آئے اور ’’حتی اور یاہ‘‘ بھی مرگیا۔ (کتاب ۲ سموئیل باب ۱۱ آیت ۱۴ تا ۱۷)
علمائے یہود نے اپنی مقدس کتاب میں جو الزام حضرت داؤد علیہ السلام پر لگایا اس کو پھر یوں اچھالا کہ زبان زد عام ہوگیا۔ حتی کہ بعض مفسرین نے ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے اس واقعہ کو من و عن ذکر کردیا۔
حضرت امام فخرالدین رازی رحمۃ اللہ علیہ نے اس قصہ سے متعلق خوب تحقیق کی ہے اور تحقیق کا حق ادا کردیا ہے، فرماتے ہیں:
’’یہاں ایک افسانہ بیان کیا جاتاہے، بعض لوگوں نے تو اس افسانہ کو ایسا رنگ دیا ہے کہ گناہ کبیرہ کی نسبت اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر بندے کی طرف ہوتی ہے، اور بعض نے اس واقعہ کو اس طرح ذکر کیا ہے کہ گناہ صغیرہ کا ارتکاب لازم آتا ہے۔‘‘
امام رازی فرماتے ہیں:
.....’’والذی ادین بہ واذھب الیہ ان ذالک باطل‘‘
کہ میرا عقیدہ اور میری تحقیق ہے کہ یہ واقعہ سراسر باطل اور لغو ہے۔
...... پھر بھی اس کے بطلان پر کئی دلیلیں پیش کی ہیں۔ فرماتے ہیں: اگر ایسی حرکت فاسق ترین آدمی کی طرف بھی منسوب کی جائے تو وہ بھی اس کو برداشت نہیں کرے گا، اور جس بدبخت نے ایسی فحش بات اللہ تعالیٰ کے نبی کی طرف منسوب کی ہے اگر خود اس پر ایسا الزام لگایا جائے تو وہ اپنی کمینگی اور خباثت طبع کے باوجود اس کی پُر زور تردید کرے گا اور بہتان لگانے والے پر لعنت بھیجے گا۔ ایسا گھناؤنا جرم جسے ایک ادنیٰ درجہ کا امتی اپنے لیے پسند نہیں کرتا، ایک نبی کا دامن عصمت اس سے کب آلودہ ہوسکتا ہے؟
نیز اگر قصہ کو صحیح تسلیم کرلیا جائے تو حضرت داؤد علیہ السلام پر دو سنگین جرم ثابت ہوں گے، ایک قتل بے گناہ اور دوسرا فعلِ قبیح (برا فعل)۔
قرآن میں یہ آیات اس لیے نازل کی گئیں، تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دلجوئی ہو اور حضرت داؤد علیہ السلام کے اسوۂ حسنہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے وہ کفار کی دل آزاری سے کبیدہ خاطر نہ ہوں، اگر حضرت داؤد علیہ السلام سے یہ حرکت سرزد ہوئی ہوتی تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کے ذکر سے اپنے محبوب کی دلجوئی نہ فرماتا، جو اپنی خواہش نفس کے سامنے بے بس ہے اور قتلِ بے گناہ کے ارتکاب کی جرات کرتا ہے۔
نیز سابقہ آیات میں حضرت داؤد علیہ السلام کو جن صفات عالیہ سے موصوف فرمایا گیا ہے.....
عبدنا (ہمارا بندہ) ذا الاید (عبادت و طاعت میں بڑا طاقتور) اواب (ہر وقت رجوع کرنے والا) صاحب فصل الخطاب وغیرہا۔
..... اگر آپ علیہ السلام سے ایسی رذیل حرکت سرزد ہوئی ہوتی تو آپ کو ان اوصاف جمیلہ سے موصوف کرنے کا پھر کوئی مقصد نہ رہتا۔ اور آپ کو (عندنا لزلفی) اور (حسن مآب) کی خوشخبری ہرگز نہ دی جاتی۔ اس لیے آیات کا سیاق اور سباق دونوں اس قصہ کی پرزور تردید کرتےہیں ، اور اسے سراپا لغو اور بے ہودہ قرار دیتے ہیں۔ (تفسیر کبیر)
حضرت سعید بن المسیب سے مروی ہے کہ سیدنا علی المرتضی کرم اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’من حدثکم بحدیث داؤد علی ما یرویہ القصاص جلدتہ مائۃ وتسین‘‘
ترجمہ: یعنی جو شخص حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق ایسی بات کرے جس طح قصہ گو کیا کرتے ہیں تو میں اسے ایک سو ساٹھ دُرّے (کوڑے) لگاؤں گا۔
بعض حضرات نے ان آیات کا پس منظر اس طرح بیان کیا ہے کہ اس زمانے میں یہ رواج عام تھا اور اس میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی جاتی تھی کہ اگر کسی کی منکوحہ (زوجہ) کی طرف کسی کا میلان ہوجاتا تو وہ اس سے کہتا کہ تم اپنی بیوی کو طلاق دے دو تاکہ میں اس کے ساتھ نکاح کرلوں، چنانچہ بسا اوقات وہ شخص اپنے دوست کی یہ درخواست قبول کرلیتا اور وہ شخص عدت گزارنے کے بعد اس عورت سے نکاح کر لیتا۔ لیکن نبی کی شان بڑی اونچی ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس بات پر تنبیہ فرمادی۔
(یعنی داؤد علیہ السلام نے کسی شخص کی عورت کی طرف میلان کرکے اسے طلاق دینے کے متعلق کہا تھا پھر اس سے نکاح کرلیا تھا)
امام ابوبکر جصاص رحمہ اللہ تعالیٰ نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ ابھی اس عورت کی شادی ’’اوریاہ‘‘ کے ساتھ نہیں ہوئی تھی، صرف منگنی طے پائی تھی اور حضرت داؤد علیہ السلام نے اس عورت کے گھر والوں سے اس کا رشتہ طلب کیا اور انہوں نے وہ رشتہ آپ کو دے دیا۔ لیکن یہ ساری باتیں قیاس آرائیوں کے بغیر اور کچھ نہیں۔
(اگر واقعہ اس صورت مذکورہ میں پیش کیا جائے تو آپ کی طرف گناہ صغیرہ کی نسبت لازم آئے گی، جس سے انبیائے کرام پاک ہیں۔)
ان تمام توجیہات کے بعد علامہ رازی رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ مناسب یہ ہے کہ آیات میں مذکورہ اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا جائے کہ نہ گناہ کبیرہ کی نسبت آپ کی طرف ثابت ہو نہ گناہ صغیرہ کی بلکہ آپ کی مدح و ثناء کا پہلو نکلے۔
بنی اسرائیل میں ایک گروہ آپ کا مخالف ہوگیا تھا اور انہوں نے آپ کو قتل کرنے کی تدبیریں سوچنا شروع کردی تھی، آپ ہر تیسرے دن خلوت نشین ہوکر اللہ تعالیٰ کے ذکر اور عبادت میں مشغول ہو جایا کرتے تھے، انہوں نے اس موقع کو غنیمت جانا اور دیوار پھاند کر اندر آگئے، تاکہ تنہائی میں آپ کا کام تمام کردیں اور پہرے داروں کو بھی اس کا پتہ نہ چلے۔ جب وہ آپ کے حجرے میں پہنچے تو وہاں بہت سے آدمی موجود تھے، جن کی وجہ سے وہ اپنے منصوبہ کو عملی جامہ نہ پہنا سکے۔ اور اپنے آنے کی ایک جھوٹی اور من گھڑت وجہ بیان کردی کہ:
’’ہم آپ سے ایک مقدمہ کا فیصلہ کرانے کے لیے آئے، دروازہ بند پایا، پہرہ داروں نے اندر آنے کی اجازت نہ دی اس لیے مجبوراً ہم دیوار پھاند کر اندر آگئے، آپ ان کی بدنیتی پر آگاہ ہوگئے، پہلے تو آپ کو بڑا غصہ آیا اور ان سے انتقام لینے کا ارادہ فرمایا، لیکن بعد میں عفوو درگزر سے کام لیتے ہوئے انہیں معاف کردیا۔ اور استغفار اس لیے مانگی کہ ان کے دل میں اپنی ذات کے متعلق انتقام لینے کا خیال ہی کیوں پیدا ہوا۔ علامہ رازی آخر میں فرماتے ہیں:
’’وکان قولنا اولی وھذا ما عندنا فی ھذا الباب واللہ اعلم باسرار کلہ‘‘ (تفسیر کبیر)
یعنی ہماری یہ توجیہ سب اقوال سے بہتر ہے اور اس ضمن میں ہماری یہی تحقیق ہے اللہ تعالیی اپنی کتاب کے اسرار و رموز کو بہتر جانتا ہے۔
علامہ ابو حیان اندلسی نے اپنی تفسیر البحر المحیط میں اپنی تحقیق کا خلاصہ تحریر فرمایا ہے اس کا ترجمہ بھی ہدیہ ناظرین ہے:
’’ہماری تحقیق یہ ہے کہ دیوار پھاند کر محراب میں آنے والے انسان تھے، وہ ایسے راستے سے داخل ہوئے تھے جو داخل ہونے کا راستہ نہ تھا، اور ایسے وقت آئے تھے جو آپ کی عدالت کا وقت نہ تھا، آپ علیہ السلام کو اندیشہ ہوا کہ کہیں وہ مجھے قتل نہ کردیں، (کیونکہ ایک گروہ آپ کا مخالف تھا) لیکن جب واضح ہوگیا کہ یہ دونوں تو کسی مقدمہ کا فیصلہ کرانے کے لیے آئے تھے جس طرح اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے تو حضرت داؤد علیہ السلام کو پتہ چل گیا کہ یہ سارا واقعہ (یعنی ان لوگوں کا بے وقت آدھمکنا اور غیر معروف راہ سے آنا اور آپ کا ان کے بارے میں یہ خیال کرنا کہ یہ قتل کے ارادے سے آئے ہیں اور اس و جہ سے آپ کا گھبرا جانا) آزمائش ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس سے آزمانا چاہیے اور ان کے بارے میں سوء ظن کرنا آپ کی شان نبوت سے فروتر ہے، (بہت کم ہے) اس لیے آپ مغفرت طلب کرنے لگے۔
آخر میں علامہ مذکور لکھتے ہیں:
’’ونعلم قطعا ان الانبیاء علیھم السلام معصومون من الخطایا لا یمکن وقوعھم فی شیء منھا ضرورۃ ان لو جوزنا علیھم شیئا من ذالک بطلت الشرائع ولم یوثق بشیء مما یذکرون انہ وحی من اللہ فما حکی اللہ ی کتابہ یمر علی ما ارادہ اللہ وما حکی القصاص مما فیہ نقص لمنصب الرسالۃ طرحناہ ونحن نقول کما قال الشاعر:
ونوثر حکم العقل فی کل شبھۃ |
|
اذ اثر الاخبار جلاس قصاص‘‘ |
یعنی ہمارا پختہ یقین ہے کہ انبیائے کرام گناہ اور خطاء سے معصوم ہوتے ہیں۔ ان سے ایسے امور قطعاً سرزد نہیں ہوسکتے۔ اگر ایسا ہوتا تو شرعی احکام پر اعتماد باقی نہیں رہتا اور انبیائے کرام کے فرمودات (ارشادات) سے اعتبار اٹھ جاتا، قصہ گو (قصے کہانیاں بیان کرنے والے) لوگوں نے منصب نبوت کے منافی جو کہانیاں گھڑ لی ہیں ہم ان کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا کرتے ہیں۔ ہمارا مسلک تو وہ ہے جو شاعر نے اس شعر میں بیان کیا ہے۔ کہتا ہے:
’’جس بارے میں شک و شبہ ہو وہاں ہم عقل کا فیصلہ مانتے ہیں جبکہ قصہ گوؤں کے ہمنشین حکایتوں اور کہانیوں کو ترجیح دیتےہیں‘‘۔
شیخ اکبر حضرت ابن عربی رحمہ اللہ نے یہاں خوب لکھا ہے:
’’واعظوں کو چاہیے کہ وہ اپنے وعظوں میں غلط قصے اور جھوٹی کہانیاں بیان نہ کیا کریں، حضور علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ بندہ جب جھوٹ بولتا ہے تو اس کی بدبو سے فرشتے اس سے تیس میل دور بھاگ جاتے ہیں اور اس آدمی کو بہت برا جانتے ہیں، جب واعظ یہ جانتا ہے کہ فرشتے مجلس وعظ میں حاضر ہوتے ہیں تو اس پر لازم ہے کہ وہ سچ بولنے کی پوری کوشش کرے۔
پھر فرماتے ہیں:
’’ولا یتعرض لما ذکرہ المؤرخون عن الیھود من زلات من اثنی اللہ علیھم واجتباھم ویجعل ذالک تفسیرا لکتاب اللہ‘‘ (فتوحات مکیہ جلد دوم ص۲۵۶ مطبوعہ مصر)
واعظ پر فرض ہے کہ ایسی باتوں سے کلیتاً اجتناب کرے جو مؤرخین نے بلا تحقیق یہودیوں سے نقل کی ہیں، جن میں ان مقدس ہستیوں کی لغزش کا بیان ہوتا ہے جن کی اللہ تعالیٰ نے ثناء و توصیف فرمائی ہے اور انہیں دوسرے لوگوں سے چن لیا ہے۔ اور پھر ان لغویات کے بارے میں کہے کہ: وہ قرآن مجید کی تفسیر بیان کر رہا ہے۔ (تفسیر ضیاء القرآن)
نتیجہ واضح ہوا:
مفکر اسلام مفسر قرآن حضرت پیر محمد کرم شاہ صاب قدس سرہ کی اس ایمان افروز تفسیر ...... جو تفسیر کبیر اور البحر المحیط اور فتوحات مکیہ کے حوالہ جات سے مزین ہے ..... سے واضح ہوگیا کہ حضرت داؤد علیہ السلام کی طرف منسوب ہونے والی کہانیاں کہ ’’آپ نے (معاذاللہ) ایک عورت سے برائی کا ارتکاب کیا اور پھر اس کے خاوند کو قتل کرادیا، یا آپ نے کسی کی منگنی تڑوا کر خود منگنی کرلی، یا اپنے دوست کی بیوی پر عاشق ہوکر اسے طلاق دینےپرمجبور کردیا۔ یہ تمام بیہودہ باطل افسانے ہیں۔ یہود کی من گھڑت کہانیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے نبی شان کے لائق ہرگز ہرگز ایسے واقعات نہیں ہوسکتے۔ صحیح واقعہ وہی ہے جو صاحب تفسیر کبیر نے یا البحر المحیط نے تحریر کیا ہے اور اسی کو صحیح سمجھنے کی تاکید شیخ اکبر نے فرمائی ہے۔
داؤد علیہ السلام کی خلافت اور عدل و انصاف کا حکم:
یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیْفَةً فِی الْاَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْھَوٰی فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیْلِ اللہ اِنَّ الَّذِیْنَ یَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللہ لَھُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ بِمَا نَسُوْا یَوْمَ الْحِسَابِO وَمَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَھُمَا بَاطِلًا ذٰلِکَ ظَنُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنَ النَّارِO اَمْ نَجْعَلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَالْمُفْسِدِیْنَ فِی الْاَرْضِ اَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقِیْنَ کَالْفُجَّارِO کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰتِہ وَلِیَتَذَکَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ (پ۲۳ سورت ص ۲۶، ۲۹)
اے داؤد ہم نے مقرر کیا ہے آپ کو (اپنا) نائب زمین میں پس فیصلہ کرو لوگوں کے درمیان انصاف کے ساتھ اور نہ پیروی کیا کرو ہوائے نفس کی وہ بہادے گی تمہیں راہ خدا سے بیشک جو لوگ بھٹک جاتے ہیں راہ خدا سے ان کے لیے سخت عذاب ہے اس لیے کہ انہوں نے بھلادیا تھا یوم حساب کو اور نہیں پیدا کیا ہم نے آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے بے فائدہ یہ تو کفار کا گمان ہے۔ پس بربادی ہے کفار کے لیے آگ (کے عذاب) سے، کیا ہم بنادیں گے انہیں جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے ہیں ان لوگوں کی مانند جو فساد برپا کرتے ہیں زمین میں یا ہم بنادیں گے پرہیزگاروں کو فاجروں کی طرح۔ یہ کتاب ہے جو ہم نے اتاری ہے آپ کی طرف بڑی بابرکت تاکہ تدبر کریں اس کی آیتوں میں اور تاکہ نصیحت پکڑیں عقلمند۔
حضرت داؤد علیہ السلام کو بتایا جا رہا ہے کہ تم کسی شاہی خاندان کے فرد نہیں ہو کہ تمہیں یہ حکومت اور تخت ورثہ میں ملا ہو۔ تم ایک غیر معروف چرواہے تھے، ہم نے اپنے فضل و کرم سے آپ کے لیے یہ راہ ہمورا کی اور اپنی مہربانی سے بنی اسرائیل کا تاجدار بنایا۔ اور وسیع و عریض سلطنت مرحمت فرمادی، اور مسند خلافت پر متمکن کردیا۔ اس احسان کا شکر ادا کرنے کا یہ طریقہ ہے کہ ہر فیصلہ عدل و انساف کے مطابق کرو، اور اپنی پسند و ناپسند کو کسی طرح اثر انداز نہ ہونے دو۔ اگر تم نے اپنی خواہش نفس پر انصاف کو قربان کیا تو یاد رکھنا اللہ تعالیٰ کی راہ سے بہک جاؤ گے۔ اس کی توفیق کا دامن تمہارے ہاتھ سے چھوٹ جائے گا۔
اور جو شخص راہِ حق سے بہک جاتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے سخت عذاب میں مبتلا کردیا جاتا ہے۔
علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ نے اس آیت کے ضمن میں منہیہ تحریر فرمایا ہے، جو پیش خدمت ہے:
’’ایک روز حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرات طلحہ، زبیر، کعب اور سلمان رضی اللہ عنہم سے پوچھا، ما الخلیفۃ من الملک؟ یعنی خلیفہ اور بادشاہ میں کیا فرق ہے۔ حضرات طلحہ اور زبیر نے کہا ہم نہیں جانتے۔ حضرت سلیمان نے عرض کیا:
’’الخلیفۃ الذی یعدل فی الرعیۃ ویقیم بینھم بالسویۃ ویشفق علیھم شفقۃ الرجل علی اھلہ ویقضی بکتاب اللہ‘‘
یعنی خلیفہ وہ ہے جو رعیت میں عدل کرتا ہے ان میں مال مساوی طور پر تقسیم کرتا ہے اور وہ اپنی رعایا پر یوں مہربان اور شفیق ہوتا ہے جس طرح کوئی شخص اپنے اہل و عیال پر شفیق ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کرتا ہے۔
سلیمان بن عوجا رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک روز حضرت فاروق اعطم رضی اللہ عنہ نے حاضرین سے کہا:
’’ما ادری اخلیفۃ انا ام ملک‘‘؟
مجھے معلوم نہیں کہ میں خلیفہ ہوں یا بادشاہ۔
ایک شخص کہنے لگا اے امیرالمومنین دونوں میں بڑا فرق ہے۔ آپ نے فرمایا کہ فرق کیا ہے؟
’’قال الخلیفۃ لا یأخذ الاحقا ولا یضعہ الا فی حق انت بحمد اللہ کذالک ولا ملک یعسف الناس فیاخذ من ھذا یعطی ھذا فسکت عمر‘‘
اس نے کہا ہے خلیفہ وہ ہے جو لیتا ہے تو حق و انصاف سے اور خرچ کرتا ہے تو صحیح جگہ پر اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپ ایسا ہی کیا کرتے ہیں اور بادشاہ وہ ہوتا ہے جو لوگوں پر جور و ستم کرتا ہے اس سے لیتا ہے اُس کو دیتا ہے۔یہ سن کر حضرت عمر خاموش ہوگئے۔ (حاشیہ تفسیر مظہری)
سربراہِ مملکت کے لیے اسلام نے ’’بادشاہ، سلطان، چیئرمین‘‘ وغیرہ کلمات پسند نہیں کیے کیونکہ ان میں خودسری اور انانیت کی بو آتی ہے، بلکہ ’’خلیفہ‘‘ کا لفظ تجویز کیا ہے۔ جس کا معنی خود سر اور مختار کا نہیں بلکہ نائب اور قائم مقام ہے۔ یہ لفظ ہی بتا رہا ہے کہ مملکت اسلامیہ کا سربراہ اپنے رب کا نائب ہوتا ہے اور نائب کا کام اپنے آقا کے احکام کی تعمیل کرنا ہے اور اس کے ارشادات کے مطابق اس کے دیے ہوئے اختیارات کو استعمال کرنا ہے۔
یہ وہ فرق ہے جو دنیا کے دوسروں نظاموں اور اسلام کے نظام سیاست میں بنیادی اہمیت کا مالک ہے قرآن پاک نے یہاں خلیفہ کی ذمہ داریوں کو بڑے مؤثر انداز اور پیرائے میں بیان کردیا کہ اس کا فرض اولین یہ ہے کہ وہ عدل و انصاف کے تقاضوں کو پرا کرے، فیصلہ کرتے وقت خارجی چیز، سفارش، کوئی طمع کوئی خوف، حتی کہ اپنے ذاتی مفاد کو بھی اس پر اثر انداز نہ ہونے دے۔ جو حاکم ایسا نہیں کرتا گویا اس نے روز جزاء کو فراموش کردیا۔ قیامت کے دن پر اس کا ایمان نہ رہا۔ زبان سے وہ ہزار دعوے کرے کہ وہ وقوع قیامت پر ایمان رکھتا ہے، اگر وہ فیصلہ کرتے وقت میزانِ عدل کو برابر نہیں رکھ سکتا تو اس کو یہ دعوی کرنے کا قطعا کوئی حق نہیں۔ اور جو لوگ قیامت پر یقین نہیں رکھتے اسے فراموش کردیتے ہیں ان کے لیے عذاب شدید ہے۔
’’اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَعُوْذُبِکَ اَنْ نَضِلَّ عَنْ سَبِیْلِکَ وَنَعُوْذُبِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ وَعَذَابِ الْحَشْرِ وَعَذَابِ النَّارِ‘‘
کفار اور ملحد لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی بس یہی دنیوی زندگی ہے، اس میں خوب عیش و عشرت کرلو، خوب مزے اڑاؤ، دولت کماؤ، جتنی کماسکتے ہو۔ حلال و حرام کے چکر میں نہ پڑو، یہ تو ملاؤں کی من گھڑت باتیں ہیں۔ جاہ و منصب حاصل کرنے کے لیے کسی کی حق تلفی ہوتی ہے تو ہونے دو،مکر و فریب کی ضرورت پڑے تو ہرگز نہ گھبراؤ۔ قیامت کس نے دیکھی ہے۔ ہزارہا سال سے یہ صوفی لوگ قیامت کی دھمکیاں دیتے چلے آ رہے ہیں۔ ان کی باتوں میں آکر اپنی زندگی کا لطف برباد نہ کرو۔
اللہ تعالیٰ ان کے اس مغالطے کا رد فرماے ہیں کہ اگر تمہاری باتیں درست ہوں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ زمین و آمسان کا یہ سارا نظام عبث اور بے مقصد ہے۔ ایک نیک کار مومن اور ایک مفسد کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ متقی اور پرہیزگار اور فاسق و فاجر سب یکساں ہیں۔ سن لو! اس کائنات کے خالق ہم ہیں اور ہم نے کوئی چیز بھی عبث اور بے مقصد پیدا نہیں کی۔ ہم علیم بھی ہیں حکیم بھی، ہمارا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں۔ قیامت آئے گی اور ضرور آئے گی۔ اس روز متقی اور پرہیزگار ہمارے انعامات سے مالا مال ہوں گے اور فاسق و فاجر ذلیل ہوں گے۔ حق کا بول بالا ہوگا اور ہر قسم کی غلط فہمیاں دور ہوجائیں گی۔ (ضیاء القرآن)
حضرت داؤد علیہ السلام کے ’’جالوت‘‘ کو قتل کرنے کا واقعہ حضرت ’’طالوت‘‘ کے واقعہ میں ان شاء اللہ تعالیٰ ذکر کیا جائے گا۔