حضرت عیسیٰ علیہ السلام
حضرت عیسیٰ علیہ السلام (تذکرہ / سوانح)
عیسیٰ علیہ السلام کی نانی کا نذر ماننا:
اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ رَبِّ اِنِّیْ نَذَرْتُ لَكَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّیْ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُo (پ ۳ سورت آل عمران ۳۵)
جب عمران کی بیوی نے عرض کی اے میرے رب میں تیرے لیے نذر مانتی ہوں جو میرے پیٹ میں ہے خالص تیری ہی خدمت میں رہے تو تو مجھ سے قبول کرلے بیشک تو ہی ہے سننے والا جاننے والا۔
عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا نام مریم، نانی کا نام حنہ، نانا کا نام عمران ہے، حنہ کی ایک اور بہن تھی جس کا نام ایشاع تھا یہ دونوں فاقوذ کی بیٹیاں ہیں۔ حضرت عمران اور حضرت زکریا علیہ السلام دونوں ایک ہی زمانہ میں ہوئے۔ حنہ عمران کے نکاح میں تھیں اور ایشاع زکریا علیہ السلام کی زوجیت میں تھیں۔ ایشاع حضرت یحییٰ علیہ السلام کی والدہ ہیں اس طرح عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ حضرت مریم علیہا السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام خالہ زاد ہیں۔
اعتراض:
بخاری و مسلم میں واقعہ معراج میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’فاذا انا بابنی الخالۃ عیسیٰ ابن مریم ویحییٰ ابن زکریا‘‘
پھر میری ملاقات دو خالہ زاد یعنی عیسیٰ بن مریم اور یحییٰ بن زکریا علیہا السلام سے ہوئی۔ اس حدیث سے واضح ہوا کہ یہ دونوں حضرات خود خالہ زاد تھے۔
جواب:
صاحب تقریب نے جواب دیا ہے کہ حدیث پاک میں مجاز پایا گیا ہے کثیر طور پر خالد کی بیٹی کو عزت و تکریم کے پیش نظر خالہ کہہ دیا جاتا ہے۔ (جیسے ہمارے رواج میں ماں کی خالہ اور ماموں کو بچے خالہ اور ماموں کہہ دیتے ہیں)
’’والغرض ان بینھما علیھما الصلوۃ والسلام ھذہ الجھۃ من القرابۃ وھی جھۃ الخولۃ‘‘
مقصد صرف ان دونوں انبیاء کرام کی قربت کو بیان کرنا ہے کہ ان دونوں میں باعتبار خالہ کے رشتہ پایا گیا ہے۔ (روح المعانی)
خیال رہے کہ جمہور علماء کا یہی مذہب ہے لیکن محی السنہ رحمہ اللہ اور علامہ رازی رحمہ اللہ قائل ہی اس کے ہیں کہ حضرت زکریا علیہ السلام کی زوجہ حضرت مریم سلام علیہا کی بہن تھیں۔
ابن عسا کرنے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ عمران کی زوجہ حنہ کی اولاد نہیں تھی یہ بڑھاپے کی عمر تک پہنچ چکی تھی ایک دن درخت کے سائے میں بیٹھی تھی انہوں نے ایک پرندے کو دیکھا جو اپنے بچوں کو چوگ کھلا رہا تھا تو آپ کے دل میں بھی اولاد کی خواہش پیدا ہوئی تو آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کیا اے اللہ تعالیٰ مجھے بچہ عطا فرما، آپ کی دعا کو قبول کرلیا گیا جب آپ حاملہ ہو گئیں تو آپ نے نذر مانی کہ میرے پیٹ میں جو بچہ ہے اسے میں بیت المقدس کی خدمت کے لیے وقف کردوں گی جو تیرے گھر کی خدمت گزاری کرے گا، اگرچہ آپ نے صرف اتنا ہی کہا تھا جو میرے پیٹ میں ہے، لیکن اس سے مراد مذکر تھا کیونکہ اس وقت بیت المقدس کی خدمت کے لیے مذکر بچے ہی وقف کیے جاتے تھے۔ مؤنث بچیاں وقف نہیں کی جاتی تھیں جب آپ نے اپنی نذر کا ذکر اپنے خاوند سے کیا تو انہوں نے کہا کہ اگر تمہاری بچی پیدا ہوگئی تو پھر کیا کروگی؟ تو انہوں نے پھر رب تعالیٰ کے حضور عرض کی:
’’فتقبل منی‘‘ اے اللہ تعالیٰ میری نذر قبول کر۔
یعنی مجھے بچہ ہی عطا کرتا کہ میں اسے بیت المقدس کی خدمت کے لیے وقف کرسکوں۔ (روح المعانی، کبیر)
حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ نے جو نذر مانی تھی وہ در حقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو الہام ہوا تھا اگر الہام نہ ہوتا تو شاید آپ نذر بھی نہ مانتیں۔
یہ ایسے ہی تھا جس طرح ابراہیم علیہ السلام نے خواب میں اپنے بیٹے کو ذبح کرتے ہوئے دیکھا تو یقین کرلیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے حالانکہ اس میں صراحتاً وحی نازل نہیں ہوئی تھی، اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے بھی الہام کے ذریعے ہی آپ کو صندوق میں بند کر کے دریا میں ڈال دیا تھا۔
بچی پیدا ہونے پر حسرت:
فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ اِنِّیْ وَضَعْتُهَآ اُنْثٰى وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ وَ لَیْسَ الذَّكَرُ كَالْاُنْثٰى وَ اِنِّیْ سَمَّیْتُهَا مَرْیَمَ وَ اِنِّیْٓ اُعِیْذُهَا بِكَ وَ ذُرِّیَّتَهَا مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِo (پ ۳ سورت آل عمران ۳۶)
پھر جب اس نے جنا، بولی اے میرے رب تو نے یہ لڑکی جنی ہے اور اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہے جو کچھ وہ جنی اور وہ لڑکا جو اس نے مانگا اس لڑکی سا نہیں اور میں نے اس کا نام مریم رکھا اور میں اسے اور اس کی اولاد کو تیری پناہ میں دیتی ہوں راندے ہوئے شیطان سے۔
حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ نے لڑکے کو بیت المقدس کی خدمت میں وقف کرنے کی نذر مانی تھی کیونکہ اس وقت ان کی شریعت میں لڑکوں کی ہی نذر مانی جاتی تھی لڑکیوں کی نہیں، مذکر ہی عبادت کے مقام کی ہمیشہ خدمت کرسکتے ہیں مونث کو یہ مقام حاصل نہیں کیونکہ ان کو حیض (ماہواری) کا عارضہ لاحق ہوتا ہے مذکر اپنی وقت و طاقت کی وجہ سے جو خدمت کرسکتا ہے وہ مؤنث نہیں کرسکتی کیونکہ اس میں طاقت کی کمی ہوتی ہے مذکر خدمت کے معاملات میں لوگوں سے میل جول رکھ سکتا ہے اس کے لیے عیب نہیں لیکن مونث کے لیے لوگوں سے اختلاط عیب ہے مذکر کے لیے مردوں سے ملنے جلنے میں کوئی تہمت عائد نہیں ہوتی لیکن مونث کے لیے تہمت ہے جب لڑکی پیدا ہوگئی تو خوف لاحق ہوا کہ اب میں نذر کیسے پوری کرسکوں گی عذر پیش کرتے ہوئے حسرت اور اظہار کرتے ہوئے رب تعالیٰ کے حضور عرض کیا
’’ رَبِّ اِنِّیْ وَضَعْتُهَآ اُنْثٰى‘‘ اے میرے رب میں نے بچی جنی۔
اب میں کیا کروں نذر کو کیسے پورا کروں تو رب قدوس نے کہا:
’’ وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ‘‘ اور اللہ تعالیٰ کو خوب معلوم ہےجو کچھ اس نے جنا
جو لڑکا تمہارا مطلوب تھا وہ اس لڑکی جیسا نہیں جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں عطا کی ہے یعنی تم تو صرف بیت المقدس کی خدمت کے لیے وقف ہونے کے لیے لڑکا جو طلب کر رہی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے نہیں وہ لڑکی عطا کی جسے عیسیٰ روح اللہ کی ماں ہونے کا شرف حاصل ہونا ہے عرض کیا اے اللہ تعالیٰ میں نے اس کا نام ’’مریم‘‘ رکھا۔ مریم عبرانی زبان میں عابدہ (عبادت کرنے والی) کے معنی میں استعمال ہوتا ہے یہ نام رکھ کر اللہ تعالیٰ سے درخواست کی گئی کہ اسے دین و دنیا کی آفات سے محفوظ فرما اور ساتھ ہی یہ دعا کی اے اللہ تعالیٰ اسے اور اس کی اولاد کو شیطان کے شر سے محفوظ رکھ یعنی نیک و مطیع بنا۔