حضرت حزقیل علیہ السلام
حضرت حزقیل علیہ السلام (تذکرہ / سوانح)
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ وَھُمْ اُلُوْفٌ حَذَرَ الْمَوْتِ فَقَالَ لَھُمُ اللہ مُوْتُوْا ثُمَّ اَحْیَاھُمْ اِنَّ اللہ لَذُوْفَضْلٍ عَلَی النَّاسِ وَلٰکِنَّ اَ کْثَرَ النَّاسِ لَا یَشْکُرُوْنَ
اے محبوب کیا تم نے نہ دیکھا تھا انہیں، جو اپنے گھروں سے نکلے اور وہ ہزاروں تھے موت کے ڈر سے، تو اللہ نے ان سے فرمایا: مرجاؤ! پھر انہیں زندہ فرمادیا، بے شک اللہ تعالیٰ لوگوں پر فضل کرنے والا ہے مگر اکثر لوگ ناشکرے ہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ بنی اسرائیل کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ نے اپنی قوم کو جہاد کرنے کے لیے کہا تو گھروں سے باہر نکل کر وہ کہنے لگے ہم تو اس زمین میں نہیں جائیں گے جہاں تم ہمیں لے جانا چاہتے ہو؛ کیونکہ وہاں وباء پھیلی ہوئی ہے۔ جب وباء (طاعون) وہاں سے زائل ہوجائے گی تو پھر ہم جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام پر جو ہزاروں کی تعداد میں تھے اپنے علاقہ میں ہی شہر سے باہر موت کو مسلط کردیا۔ وہ آٹھ دن تک اسی حال میں رہے، یہاں تک کہ ان کے جسم پھول گئے۔ دوسرے علاقہ کے بنی اسرائیل کو جب ان کی موت کا علم ہوا تو وہ ان کو دفن کرنے کے لیے آئے لیکن ان کی بدبو کی وجہ سے وہ انہیں دفن کرنے سے عاجز آگئے۔ اس لیے انھوں نے ان کے اردگرد ایک دیوار بنادی۔
ایک اور روایت میں اسی طرح ذکر ہے کہ حضرت حزقیل علیہ السلام نے اپنی قوم کو دعوت جہاد دی لیکن انہوں نے بزدلی کا مظاہر کیا اور جہاد میں شرکت کو ناپسند سمجھا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر موت کو مسلط کردیا جب ان میں سے کثرت سے موتیں واقع ہونے لگیں تو انہوں نے اپنے شہروں سے موت کے ڈر کی وجہ سے بھاگنا شروع کردیا جب ہزاروں کی تعداد میں شہروں سے باہر نکلے ہی تھےتو حزقیل علیہ السلام نے دعا کی:
’’اللھم الہ یعقوب والہ موسی تری معصیۃ عبادک فارھم ایۃ فی انفسھم تدلھم علی نفاذ قدرتک وانھم لا یخرجون عن قبضتک فارسل اللہ علیھم الموت‘‘
اے اللہ اے یعقوب علیہ السلام کے خدا اور اے موسی کے خدا تو اپنے بندوں کی نافرمانی دیکھ رہا ہے تو انہیں اپنی کوئی نشانی دکھا جس سے انہیں تیری قدرت کا پتہ چل جائے کہ وہ تیرے قبضہ قدرت سے نہیں نکل سکتے، تو آپ کی اس دعا کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم پر موت مسلط کردی وہ ہزاروں کی تعداد میں شہر سے نکلے ہی تھے کہ مرگئے۔
حضرت حزقیل علیہ السلام نے جب ہزاروں کی تعداد میں اپنی قوم کے افراد کو مرا ہوا دیکھا تو آپ کو پریشانی لاحق ہوئی۔ خیال ہوا کہ یہ دوبارہ زندہ ہوجائیں تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی کی کہ اے حزقیل تم ہڈیوں کو کہو اے ہڈیو تمہیں اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ تم جمع ہوجاؤ آپ کے کہنے پر وہ تمام ہڈیاں ایک دوسرے سے مل کر جسموں کے ڈھانچے مکمل ہوگئے، لیکن ابھی تک ان میں گوشت اور خون نہیں تھا پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی کی کہ اب تم یہ کہو اے جسمو! اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم اپنے گوشت کا لباس پہن لو، اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان پر گوشت چڑھا دیا، پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف وحی کی اب تم کہو اے جسمو! اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم اب اٹھ کھڑے ہو اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو پھر سے زندہ کردیا جب وہ زندہ ہوکر اٹھے تو کہہ رہے تھے:
سبحانک اللھم ربنا وبحمدک لا الہ الا انت
زندہ ہونے کے بعد بھی ان پر اثرات موت باقی رہے یہاں تک کہ جس طرح موت کے وقت ان کا رنگ زرد ہوا تھا اسی طرح زرد ہی رہا۔
وبقی فیھم شیء من ذالک النتن وبقی ذالک فی اولادھم الی ھذا الیوم
اور ان کے مرنے کی وجہ سے جو ان کے جسموں میں بدبو پیدا ہوئی تھی وہ ان کے پیدا ہونے کے بعد بھی باقی رہی بلکہ نآج تک ان کی اولاد میں بھی بو پائی جاتی ہے۔
خیال رہے کہ موت کے بعد انسان مکلف نہیں رہتا، اس پر اوامر و نواہی ختم ہوجاتے ہیں لیکن ان لوگوں کو زندہ کرنے کے بعد بھی مکلف بنایا گیا کیونکہ یا تو انہیں موت کے وقت سکرات موت اور موت کی وجہ سے لاحق ہونے والی ہولناکیاں نہیں حاصل ہوئی تھیں یا یہ چیزیں تو حاصل ہوئی تھیں لیکن اللہ تعالیٰ نے ان سے بھلادیں کیونکہ اللہ تعالیٰ جو زندہ کرنے پر قادر ہے وہ کسی چیز کو ذہنوں سے مٹانے پر بھی قادر ہے اور یا یہ وجہ ہے کہ یہ موت ان پر بطور سزا عادت کے خلاف ان پر مسلط کی گئی تھی اس لیے اس پر حکام موت جاری نہیں کیے گئے یہی وجہ ہے کہ انہیں زندہ کرنے کے بعد بھی مکلف بنایا گیا۔
’’وقد روی ان ھذا لاحیاء انما وقع فی زمان حزقیل النبی علیہ السلام ببرکۃ دعائہ‘‘
اور تحقیق روایت کیا گیا ہے کہ مردوں کو زندہ کرنے کا واقعہ اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت حزقیل علیہ السلام کے زمانے میں پیش آیا اور یہ مردوں کو زندہ کرنا اللہ تعالیٰ کے نبی کا معجزہ ہے۔
حضرت حزقیل کی کنیت ابن العجوز تھی کیونکہ آپ کی پیدائش کے وقت آپ کی والدہ کی عمر زیادہ تھی اس لیے آپ بڑھیا کے بیٹے کے نام سے مشہور ہوگئے۔ آپ کا لقب ذوالکفل ہے کیونکہ آپ نے ستر نبیوں کی کفالت کی اور ان کو شہید ہونے سے بچایا یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ ایک اللہ تعالیٰ کے نبی ذوالکفل نام کے بھی ہیں جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہے وہ علیحدہ ہیں۔ (از روح المعانی، کبیر)
فائدہ: انسان موت سے بھاگ نہیں سکتا اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
قُلْ لَنْ یَّنْفَعَکُمُ الْفِرَارُ اِنْ فَرَرْتُمْ مِنَ الْمَوْتِ اَوِ الْقَتْلِ (پ۲۱ سورت احزاب ۱۶)
فرمادیجیے ہرگز تمہیں موت سے بھاگنا نفع نہیں دے سکتا خواہ موت سے بھاگو یا قتل سے موت اپنے وقت میں آکر رہتی ہے۔
اس میں دیر یا سویر نہیں یہ ہمارے خیالات باطلہ ہیں کہ فلاں کو موت بے وقت آگئی فلاں شخص کاش سفر نہ کرتا تو یہ حادثہ پیش نہ آتا موت کے وقت انسان نے موت کے منہ میں جانا ہی ہوتا ہے۔
(تذکرۃ الانبیاء)