حضرت صالح علیہ السلام
حضرت صالح علیہ السلام (تذکرہ / سوانح)
حضرت صالح علیہ السلام ’’قوم ثمود‘‘ کی طرف آئے، آپ علیہ السلام بھی ثمود قوم سے ہی ہیں ’’ثمود‘‘ ایک شخص کا نام تھا۔ اس کی اولاد ’’قوم ثمود کہلائی‘‘۔ ثمود کا نسب نوح علیہ السلام سے ملتا ہے۔ یعنی ثمود بن عابر بن ارم بن سام بن نوح اور حضرت صالح علیہ السلام کا نسب اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ صالح بن عبید بن ماسخ بن عبد بن جاور بن ثمود۔ (روح البیان، حاشیہ جلالین ص۱۸۴)
اور ثمود کا نسب اس طرح بھی بیان کیا گیا ہے۔ ثمود بن عبید بن عوص بن عاد بن ارم بن سام بن نوح یہی زیادہ صحیح ہے۔ (حاشیہ جلالین ص۳۱۴)
حضرت صالح علیہ السلام اور حضرت ہود علیہ السلام کے درمیان ایک سو سال کا فاصلہ ہے، یعنی صالح علیہ السلام حضرت ہود علیہ السلام کے ایک سو سال بعد تشریف لائے حضرت صالح علیہ السلام کی مر دو سو اسی (۲۸۰) سال تھی۔ (حاشیہ جلالین ص۳۱۴)
حضرت صالح علیہ السلام نے قوم کو فرمایا:
وَاِلٰی ثَمُوْدَ اَخَاھُمْ صٰلِحًا قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوااللہ مَالَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ ھُوَ اَنْشَاَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَاسْتَعْمَرَکُمْ فِیْھَا فَاسْتَغْفِرُوْہُ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ اِنَّ رَبِّیْ قَرِیْبٌ مُّجِیْبٌ (پ۱۲ سورۃ ھود ۶۱)
اور ثمود کی طرف ان کے ہم قوم صالح کو (بھیجا) کہا: اے قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سو ا تمہارا کوئی معبود نہیں اس نے تمہیں زمین سے پیدا کیا اور اس نے تمہیں بسایا تو اس سے معافی چاہو پھر اس کی طرف رجوع لاؤ بے شک میرا رب قریب ہے دعا سننے والا۔
اِذْ قَالَ لَھُمْ اَخُوْھُمْ صٰلِحٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ اِنِّیْ لَکُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ فَاتَّقُوا اللہ وَ اَطِیْعُوْنِ وَمَآ اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ مِنْ اَجْرٍ اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰی رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ (پ۱۹ سورۃ شعراء ۱۴۲، ۱۴۵)
جب کہ ان کے ہم قوم صالح نے فرمایا کیا ڈرتے نہیں بے شک میں تمہارے لیے اللہ کا امانتدار رسول ہوں تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو اور میں تم سے کچھ اس پر اجرت نہیں مانگتا میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔
انبیائے کرام کی عادات شریفہ یہ تھیں کہ جب نبوت کا دعویٰ فرماتے تو سب سے پہلے قوم کو بت پرستی کے چھوڑنے کے متعلق ارشاد فرماتے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کا حکم دیتے کہ اس کے بغیر کوئی معبود نہیں پھر اپنی رسالت کا دعویٰ کرتے تاکہ قوم ان سے معجزات کا مطالبہ کرے تو ان کو معجزات دکھائے جائیں پھر ان کے انکار اور باز نہ آنے پر اللہ کے عذاب سے ان کو ڈاتے، پھر بھی جب وہ اپنے کفر پر قائم رہتے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر عذاب آجاتا۔ (ماخوذ از کبیر)
اور آپ علیہ السلام نے اپنی قوم کو کہا کہ اگر تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت تمہیں حاصل ہو تو اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو اسی کی طرف رجوع کرو تو اللہ کی رحمت تمہیں حاصل ہوگی اللہ تعالیٰ کی رحمت ایمان والوں کے قریب ہے۔
آپ نے قوم کو کہا دنیا میں تم نے ہمیشہ نہیں رہنا:
اَتُتْرَکُوْنَ فِیْ مَا ھٰھُنَآ اٰمِنِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍ وَّزُرُوْعٍ وَّ نَخْلٍ طَلْعُھَا ھَضِیْمٌ وَتَنْحِتُوْنَ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا فٰرِھِیْنَ فَاتَّقُوا اللہ وَ اَطِیْعُوْنِ وَلَا تُطِیْعُوْٓا اَمْرَ الْمُسْرِفِیْنَ الَّذِیْنَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ وَلَا یُصْلِحُوْنَ (پ۱۹ سورۃ شعراء ۱۴۶، ۱۵۲)
کیا تم یہاں کی نعمتوں میں چین سے چھوڑ دیے جاؤ گے باغوں اور چشموں اور کھیتوں اور کھجوروں میں جن کا شگوفہ نرم نازک ہوتا ہے اور پہاڑوں میں گھر تراشتے ہو استادی سے تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو اور حد سے بڑھنے والوں کے کہنے پر نہ چلو وہ جو زمین میں فساد پھیلاتے ہیں اور اصلاح کا کام نہیں کرتے۔
حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم کو کہا تمہارا خیال باطل ہے کہ تم یہاں دنیا میں ہی آرام سے نعمتوں میں رہو گے، جس رب نے اپنی قدرت کاملہ سے تمہیں باغات چشمے کھیتیاں اور نرم و نازک شگوفوں والے کھجور کے درخت دے رکھے ہیں، وہ یہ لے بھی سکتا ہے۔ تمہیں دنیاوی نعمتوں پر ناز نہیں کرنا چاہیے آخر دنیا کو چھوڑ کر بھی جانا ہے، تم بڑی مہارت سے پہاڑوں کو تراش کر گھر بناتے ہو، اس وجہ سے بھی تم شائد یہی سمجھتے ہو کہ تم نے دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے، لیکن تمہاری یہ سوچ سراسر غلط ہے۔ حد سے تجاوز کرنے والے فساد پھیلانے والے، کوئی درست اچھا سیدھا بھلائی والا کام نہ کرنے والوں کی تم پیروی کر رہے ہو، تم ان کی اطاعت نہ کرو تو کامیاب ہوگے۔ ورنہ تباہی کا شکار ہوجاؤ گے۔ کامیابی صرف اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے اور میرا حکم ماننے میں ہے۔
آپ کی تبلیغ سے دو فریق بن گئے:
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَآ اِلٰی ثَمُوْدَ اَخَاھُمْ صٰلِحًا اَنِ اعْبُدُوا اللہ فَاِذَا ھُمْ فَرِیْقٰنِ یَخْتَصِمُوْنَ قَالَ یٰقَوْمِ لِمَ تَسْتَعْجِلُوْنَ بِالسَّیِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ لَوْلَا تَسْتَغْفِرُوْنَ اللہ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ (پ۱۹ سورۃ نمل ۴۴، ۴۶)
اور بے شک ہم نے ثمود کی طرف ان کے ہم قوم صالح کو بھیجا کہ اللہ کی عبادت کرو تو جبھی وہ دو گروہ ہوگئے جھگڑا کرتے صالح علیہ السلام نے فرمایا اے میری قوم کیوں برائی کی جلدی کرتے ہو بھلائی سے پہلے اللہ کی بخشش کیوں نہیں مانگتے شائد تم پر رحم ہو.....
حضرت صالح علیہ السلام کی تبلیغ پر کچھ لوگ ایمان لے آئے اور دوسرے لوگ اپنے کفر پر قائم رہے اس طرح دو گروہ بن گئے آپس میں ایک دوسرے سے بحثوں میں الجھے رہتے تھے، لیکن ایمان والوں کی طرف سے جھگڑا دین کے حق ہونے میں ہوتا، یہ جدال حق ہے۔ صالح علیہ السلام کی تبلیغ پر قوم کے انکار اور آپ کے عذاب سے ڈرانے پر قوم کا یہ کہنا:
قَالُوْا یٰصٰلِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ کُنْتَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ (پ۸ سورۃ اعراف ۷۷)
اور بولے اے صالح ہم پر لے آؤ جس کا تم وعدہ دے رہے ہو۔
اس کے جواب میں صالح علیہ السلام نے کہا اے میری قوم تم اچھائی کے بدلے برائی میں جلدی کیوں کرے ہو یعنی یہ دنیاوی نعمتیں آرام تمہیں حاصل ہے لیکن اس کے بدلے تم عذاب اور اپنی تباہی و بربادی طلب کر رہے ہو یہ کہاں کی عقل ہے تمہیں اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنی چاہیے تاکہ وہ تم پر رحم کرے۔
قوم نے آپ کو کیا جواب دیا؟
صالح علیہ السلام نے قوم کو راہ راست پر لانے کی کوشش کی لیکن قوم نے آپ کی تکذیب کی اور مختلف جواب دیے
وَلَقَدْ کَذَّبَ اَصْحَابُ الْحِجْرِ الْمُرْسَلِیْنَ
بے شک حجر والوں نے رسولوں کو جھٹلایا۔
’’حجر‘‘ ایک وادی ہے مدینہ اور شام کے درمیان جس میں ثمود کی قوم کے لوگ رہتے تھے، انہوں نے اپنے پیغمبر صالح علیہ السلام کی تکذیب کی، چونکہ ایک نبی کی تکذیب تمام انبیائے کرام کی تکذیب ہے اس لیے کہ تمام انبیائے کرام اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لانے اور اسی کی عبادت کرنے کی دعوت دیتے ہیں اور ہر نبی دوسرے تمام انبیائے کرام پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے اس لیے ایک نبی کی تکذیب سے دوسرے تمام انبیائے کرام کی تکذیب لازم آتی ہے، یہی وجہ ہے کہ رب نے فرمایا: حجر والوں نے رسولوں کی تکذیب کی، حالانکہ بظاہر ایک نبی یعنی حضرت صالح علیہ السلام کی وہ تکذیب کر رہے تھے۔
کبھی قوم نے کہا:
یٰصٰلِحُ قَدْ کُنْتَ فِیْنَا مَرْجُوًّا قَبْلَ ھٰذَآ اَتَنْھٰنَآ اَنْ نَّعْبُدَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَا وَاِنَّنَا لَفِیْ شَکٍّ مِّمَّا تَدْعُوْنَآ اِلَیْہِ مُرِیْبٍ (پ۱۲ سورۃ ھود ۶۲)
اے صالح علیہ السلام اس سے پہلے تو تم ہم میں ہونہار معلوم ہوتے تھے، کیا تم ہمیں اپنے باپ دادا کے معبودوں کی پوجا کرنے سے منع کرتے ہو؟ بے شک جس بات کی طرف تم ہمیں بلاتے ہو ہم اس پر ایک بہت بڑے دھوکہ ڈالنے شک میں ہیں۔
قوم کہنے لگی ہم نے تو تمہیں بڑا عقلمند بہت بڑا سمجھ دار سمجھا ہوا تھا ہمیں تو تم پر بڑی امیدیں تھیں کہ تم ہمارے دین کی امداد کرو گے۔ ہمارے مذہب کی تقویت کا سبب بنو گے، ہمارے طریقہ کی تائید کرو گے۔
یعنی کسی قوم میں جب بھی کوئی شخص علم و فضل میں اعلیٰ مقام حاصل کرتا ہے تو قوم اس سے اپنے مقصد کے مطابق امیدیں وابستہ کرلیتی ہے، آپ کی قوم نے بھی یہی سمجھا تھا کہ ہمارے باطل دین کی امداد کریں گے۔
اسی طرح آپ غریبوں فقیروں پر بڑے مہربان تھے، ضعیف لوگوں کی امداد کرتے تھے، مریضوں کی عیادت کرتے تھے تو قوم نے کہا کہ ہم نے تو آپ کے ان اوصاف کو دیکھ کر یہ سمجھا تھا کہ تم ہمارے احباب میں سے ہو گے، ہماری امداد کرو گے، تم نے یہ عداوت اور بغض ہمارے ساتھ کیسے شروع کرلیا؟ ہمیں تو تم پر بڑا تعجب ہے، کہ تم ہمیں اپنے باپ دادا کے معبودوں کی پوجا سے روک رہے ہو، ہمیں تو اب تم پر شک ہونے لگا کہ تم ہمیں کسی بہت بڑے دھوکہ میں مبتلا کرنا چاہتے ہو۔
آپ نے قوم کو جواب دیا:
قَالَ یٰقَوْمِ اَرَءَیْتُمْ اِنْ کُنْتُ عَلٰی بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَاٰتٰنِیْ مِنْہُ رَحْمَةً فَمَنْ یَّنْصُرُنِیْ مِنَ اللہ اِنْ عَصَیْتُہ فَمَا تَزِیْدُوْنَنِیْ غَیْرَ تَخْسِیْرٍ (پ۱۲ سورۃ ھود ۶۳)
آپ نے کہا: اے میری قوم! بھلا بتاؤ تو اگر میں اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے اپنے پاس سے رحمت بخشی تو مجھے اس سے کون بچائے گا اگر میں اس کی نافرمانی کرو؟ تو مجھے سوائے نقصان کے کچھ نہ بڑھاؤ گے۔
آپ کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے روشن دلائل عطا فرمائے ہیں اور اس نے مجھے ا پنی رحمت سے نوازا ہے اسی لیے میں بھی تم پر مہربانی کر رہا ہوں کہ تمہیں اس راہ کی ہدایت دے رہا ہوں جس میں تمہاری کامیابی ہے تم اپنی بے عقلی کی وجہ سے جس باطل راہ کی میری معاونت چاہتے ہو اس میں تو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں خسارہ ہے۔
مزید قوم نے یہ کہا:
قَالُوْا اطَّیَّرْنَا بِکَ وَبِمَنْ مَعَکَ
انہوں نے کہا ہم نے بڑا شگون لیا تم سے اور تمہارے ساتھیوں سے۔ (پ۱۹ سورۃ نمل ۴۷)
حضرت صالح علیہ السلام جب مبعوث ہوئے اور قوم نے تکذیب کی اس کے باعث بارش رک گئی قحط ہوگیا لوگ بھوکے مرنے لگے اس کو انہوں نے حضرت صالح علیہ السلام کی تشریف آوری کی طرف نسبت کیا اور آپ کی آمد کو بدشگونی سمجھا آپ نے قوم کو جواب دیا:
قَالَ طَائِرُکُمْ عِنْدَ اللہِ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُوْنَ (پ۱۹ سورۃ نمل ۴۷)
آپ نے کہا تمہاری بدشگونی اللہ کے پاس ہے بلکہ تم لوگ فتنے میں پڑے ہو۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ صالح علیہ السلام کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ یہ بدشگونی جو تمہارے پاس آئی یہ تمہارے کفر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئی ہے، تم فتنے میں مبتلا ہو، تمہارا اپنے باطل دین کو صحیح سمجھنا، بت پرستی پر قائم رہنا، یہ درحقیقت تمہارے لیے فتنہ ہے۔ (ماخوذ از خزائن العرفان)
قوم نے آپ کو جادوگر کہا:
قَالُوْا اِنَّمَا اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِیْنَ
انہوں نے کہا کہ تم پر تو جادو ہوا ہے۔
یعنی تم پر بار بار کثرت سے جادو کیا گیا ہے اسی لیے تمہاری عقل سلامت نہیں رہی تم ہمارے ساتھ بے وقوفی کی باتیں کر رہے ہو کہ ہم اپنے آباء و اجداد کا دین چھوڑ دیں۔
قوم نے آپ کو متکبر کہا:
قَالُوْٓا اَبَشَرًا مِّنَّا وَاحِدًا نَّتَّبِعُہٗ اِنَّآ اِذًا لَّفِیْ ضَلٰلٍ وَّسُعُرٍ ءَ اُلْقِیَ الذِّکْرُ عَلَیْہِ مِنْ بَیْنِنَا بَلْ ھُوَ کَذَّابٌ اَشِرٌ
انہوں نے کہا ہم اپنے میں سے ایک آدمی کی تابعداری کریں جب تو ہم ضرور گمراہ اور دیوانے ہیں، کیا ہم سب میں سے اس پر ذکر اتارا گیا؟ بلکہ یہ سخت جھوٹا، اترانے والا، (متکبر) ہے۔
قوم نے کہا ہم اتنی تعداد میں ہوکر ایک آدمی کی تابعداری کریں وہ بھی ایسا شخص ہو جو ہمارے جیسا بشر ہو، ایسا کام تو دیوانوں کا ہے، ہم تو عقل مند ہیں، کیا اسی کو نبوت عطا ہونی تھی؟ اور اس منصب کے لائق کوئی نہیں تھا؟ یہ شخص (معاذاللہ) اپنے دعویٰ نبوت میں جھوٹا ہے اور یہ دعویٰ کرکے شوخیاں مار رہا ہے، اترا رہا ہے، یہ تو بڑا متکبر ہے۔ رب تعالیٰ نے ان کو رد کرتے ہوئے فرمایا:
سَیَعْلَمُوْنَ غَدًا مَّنِ الْکَذَّابُ الْاَشِرْ
بہت جلد کل جان جائیں گے کون تھا بڑا جھوٹا، اترانے والا؟
یعنی یہ قوم جب دنیا اور آخرت میں عذاب میں مبتلا ہوگی تو پھر انہیں پتہ چلے گا کہ کون جھوٹا اور باطل راہ پر ضد و عناد کی وجہ سے قائم رہ کر کون تکبر کر رہا تھا؟
قوم نے صالح علیہا لسلام سے معجزہ طلب کیا:
مَآ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا فَاْتِ بِاٰیَةٍ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ قَالَ ھٰذِہ نَاقَةٌ لَّھَا شِرْبٌ وَّ لَکُمْ شِرْبُ یَوْمٍ مَّعْلُوْمٍ وَلَا تَمَسُّوْھَا بِسُوْٓءٍ فَیَاْخُذَکُمْ عَذَابُ یَوْمٍ عَظِیْمٍ (پ۱۹ سورۃ شعراء ۱۵۴، ۱۵۶)
تم تو ہمیں جیسے آدمی ہو تو کوئی نشان لاؤ اگر سچے ہو، آپ نے کہا یہ اونٹنی ہے ایک دن اس کے پینے کی باری ہےا ور دن معین تمہاری باری اور اسے برائی کے ساتھ نہ چھوؤ کہ تمہیں بڑے دن کا عذاب آئے گا۔
مختصر واقعہ قوم ثمود:
قوم عاد کے بعد اللہ تعالیٰ نے قوم ثمود کو آباد کیا ان کو لمبی عمریں عطا کیں، وہ پہاڑوں میں بڑی مہارت کاریگری سے تراش تراش کر گھر بناتے، رب تعالیٰ نے ان کو خوشحال بنایا، مالی وسعت عطا کی، تو انہوں نے رب تعالیٰ کی نافرمانی شروع کردی اور زمین میں فساد برپا شروع کردیا، تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف صالح علیہ السلام کو بھیجا جو ان کے قبیلہ کے اشراف یعنی سردار قبیلہ سے تھے۔ آپ علیہ السلام نے انہیں ڈرایا، انہوں نے آپ علیہ السلام سے نشانی طلب کی، تو آپ نے فرمایا:
تم کون سی نشانی طلب کرتے ہو؟ انہوں نے کہا تم ہمارے ساتھ ہماری عید کے پروگراموں کے لیے شہر سے باہر ہمارے ساتھ چلنا ہم اپنے معبودوں سے دعا کریں گے، تم اپنے معبود سے دعا کرنا جس کی دعا قبول ہوگئی دوسرے اس کی تابعداری کریں گے۔
آپ علیہ السلام ان کے ساتھ شہر سے باہر تشریف لے گئے انہوں نے اپنے بتوں سے دعا کی جو قبول نہ ہوسکی، ان کے ایک سردار جندع بن عمرو نے ایک اکیلی چٹان کی طرف اشارہ کیا، جس کا نام ’’کافیہ‘‘ تھا۔ اس نے کہا اس چٹان سے ایک اونٹنی نکالو جو حاملہ ہو اگر تم نے ایسا کردیا تو ہم تمہاری تصدیق کریں گے حضرت صالح علیہ السلام نے انہیں کہا:اگر میں ایسا کروں تو کیا تم ضرور ایمان لاؤ گے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ تو آپ علیہ السلام نے نوافل ادا کیے اور رب سے دعا کی، اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا کو شرف قبولیت بخشا۔
وہ لوگ دیکھ رہے تھے کہ پہاڑی چٹان میں بالکل وہی کیفیت پیدا ہوئی جس طرح کسی جانور پر پیدائش کے وقت ہوتی ہے، درد کی وجہ سے کراہنا، اضطراب وغیرہ۔ یہاں تک کہ ان کے سامنے وہ چٹان پھٹی اس سے حاملہ اونٹنی پیدا ہوئی، جس کے جسم پر اون تھی، پیٹ بڑا تھا، آپ کا یہ معجزہ دیکھ کر جندع بن عمرو اور اس کے ساتھ چند اور لوگوں نے ایمان قبول کرلیا، باقی لوگوں کو ایمان لانے سے ذواب بن عمرو اور احباب اور رباب بن صمعر نے منع کردیا۔ یہی دونوں شخص ان کے بتوں پر مقرر تھے یعنی بت خانہ کے ناظم تھے اور تیسرا شخص یعنی رباب بن صمعر کاہن تھا، ان لوگوں کے سامنے ہی اونٹنی نے بچہ جنا جو اسی اونٹنی جتنا تھا۔
چونکہ صالح علیہ السلام نے رب کے حکم سے بیان کردیا تھا کہ ایک دن پانی پینے کی باری اونٹنی کی ہوگی اور ایک دن تمہاری اور تمہارے جانوروں اور باقی جنگلی جانوروں اور پرندوں وغیرہ کی۔
اونٹنی اپنے بچے کے ساتھ جنگل میں چرتی تھی اپنی باری کے دن اونٹنی اور اس کا بچہ سارا پانی پی جاتے تھے یعنی کنوئیں مجیں منہ رکھتی اور اٹھاتی اس وقت جب پانی ختم ہوجاتا وہ دودھ اتنا زیادہ دیتی تھی کہ وہ لوگ پیتے اور اپنے برتن بھر لیتے وہ اونٹنی گرمیوں میں وادیوں کے ظاہری حصہ میں چرتی تھی تو اونٹنی کو دیکھ کر ان کے جانور وادیوں کے نشیبی اندرونی حصہ میں بھاگ کر چلے جاتے، سردیوں میں وہ اونٹنی نشیبی حصہ میں چرتی تو ان کے جانور بھاگ کر وادیوں کے بالائی حصہ میں آجاتے، انہیں اس صورتحال سے بہت مشکل درپیش آ رہی تھی انہوں نے اس اونٹنی کو اپنی راہ سے ہٹانے کا فیصلہ کرلیا کہ اسے مار دیا جائے تاکہ ہمیں اس سے نجات حاصل ہوجائے۔ (از حاشیہ جلالین ص۱۳۶)
اونٹنی کی کوچیں کاٹ دیں:
فَکَذَّبُوْہُ فَعَقَرُوْھَا (پ۳۰ سورۃ الشمس ۱۴)
تو انہوں نے آپ کی تکذیب کی پھر اونٹنی کی کوچیں کاٹ دیں۔
صالح علیہ السلام نے انہیں پہلے ہی بتایا تھا کہ اس اونٹنی کو برائی میں مس نہ کرنا ورنہ تم عذاب میں مبتلا ہوجاؤ گے لیکن وہ باز نہ آئے جب اونٹنی کی کوچیں کاٹ دیں تو آپ نے انہیں کہا کہ اب عذاب قریب آچکا ہے:
فَعَقَرُوْھَا فَقَالَ تَمَتَّعُوْا فِیْ دَارِکُمْ ثَلٰثَةَ اَیَّامٍ ذٰلِکَ وَعْدٌ غَیْرُ مَکْذُوْبٍ (پارہ: ۱۲، ھود: ۶۵ٌ)
تو انہوں نے اس کی کوچیں کاٹیں تو صالح علیہ السلام نے کہا اپنے گھروں میں تین دن اور برت لو (نفع حاصل کرلو) یہ وعدہ ہے کہ جھوٹا نہ ہوگا۔
عذاب سے پہلے تین دن:
جب حضرت صالح علیہ السلام نے انہیں ڈرایا کہ اب صرف تین دن تمہیں اپنے گھروں میں رہنا اور نفع حاصل کرنا ہے، پھر تم عذاب میں مبتلا ہوجاؤ گے۔ تو قوم نے کہا کہ وہ تین دن ہم پر کیسے گزریں گے؟ آپ نے کہا پہلے دن تمہارے چہرے زرد رنگ کے ہوجائیں گے، دوسرے دن ان کا رنگ سرخ ہوجائے گا اور تیسرے دن سیاہ ہوجائیں گے۔ چوتھے دن تم پر عذاب آجائے گا۔
اگرچہ چہرے سیاہ ہوجانے پر انہیں عذاب کا یقین آچکا تھا لیکن جب تک علامات پر یقین نہیں آ رہا تھا اس وقت تک انہیں ایمان اور توبہ کی توفیق نصیب نہ ہوسکی اور جب انہیں یقین ہا اب توبہ کرے بھی تو اس کا کوئی نفع نہ ہوتا کیونکہ ناامیدی کی حالت میں توبہ اور ایمان قبول نہیں ہوتے۔ (تفسیر کبیر ج۱۸ ص۲۰)
سب کی رضا مندی سے ایک شخص نے کوچیں کاٹیں:
اِذِ انْبَعَثَ اَشْقٰھَا جب اس کا سب سے بدبخت کھڑا ہوا۔
وہ بدبخت کون تھا؟
’’ھو قدار بن سالف کان اشقر ازرق قصیرا‘‘
وہ شخص قدار بن سالف تھا جس کا رنگ سرخی زردی مائل تھا آنکھیں اس کی نیلی تھیں، قد اس کا چھوٹا تھا۔ (مدارک التنزیل ص۳۴۳)
اگرچہ اونٹنی کی کوچیں اس ایک شخص نے کاٹیں لیکن سب کے مشورہ اور سب کی رضا مندی سے اس نے یہ کام کیا اس لیے قرآن پاک میں جمع کا صیغہ ذکر کیا گیا ہے کہ سب نے اس کی کوچیں کاٹیں یہی وجہ تھی کہ سب ہی عذاب کے مستحق ہوئے اگر صرف ایک کا فعل ہوتا دوسرے اسے روکتے اس پر خوش نہ ہوتے تو ان پر عذاب نہ آتا۔
حضرت صالح علیہ السلام کو شہید کرنے کا منصوبہ:
وَکَانَ فِی الْمَدِیْنَةِ تِسْعَةُ رَھْطٍ یُّفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ وَلَا یُصْلِحُوْنَ، قَالُوْا تَقَاسَمُوْا بِاللہ لَنُبَیِّتَنَّہ وَاَھْلَہ ثُمَّ لَنَقُوْلَنَّ لِوَلِیِّہ مَاشَھِدْنَا مَھْلِکَ اَھْلِہ وَاِنَّا لَصٰدِقُوْنَ وَمَکَرُوْا مَکْرًا وَّمَکَرْنَا مَکْرًا وَّھُمْ لَایَشْعُرُوْنَ (پ۱۹، سورۃ نمل ۴۸، ۵۰)
اور اس شہر میں نو شخص تھے جو فتنہ و فساد برپا کرتے تھے اس علاقہ میں اور اصلاح کی کوئی کوشش نہ کرتے انہوں نے کہا آؤ اللہ کی قسم کھاکر یہ عہد کرلیں کہ شب خون مار کر صالح علیہ السلام اور اس کے اہل خانہ کو ہلاک کردیں گے پھر کہہ دیں گے اس کے وارث سے کہ ہم تو (سرے سے) موجود ہی نہ تھے جب انہیں ہلاک کیا گیا اور (یقین کرو) ہم بالکل سچ کہہ رہے ہیں اور انہوں نے جب خفیہ سازش کی، اور ہم نے بھی خفیہ تدبیر کی وہ (ہماری تدبیر کو) سمجھ ہی نہ سکے۔
علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
انہوں نے یہ سازش اونٹنی کی کوچیں کاٹنے کے بعد کی تھی جب حضرت صالح علیہ السلام نے انہیں بتایا کہ تمہیں تین دن کی مہلت ہے اس کے بعد تم پر عذاب آئے گا جو تمہیں برباد کرکے رکھ دے گا، بجائے اس کے کہ وہ اس آخری سازش سے چونکے ہوتے اور اپنے گناہوں پر نادم ہوکر گڑا گڑاکر معافی مانگتے انہوں نے الٹا حضرت صالح علیہ السلام کو قتل کرنے کی سازش شروع کردی، انہوں نے کہا ہم پر عذاب آئےگا تو دیکھا جائے گا۔ اس کے آنے سے پہلے ہم صالح (علیہ السلام) اور اس کے مریدوں کا خاتمہ تو کردیں۔
جس رات انہوں نے حضرت صالح علیہ السلام کے مکان پر شبخون مارنے کا پروگرام بنایا تھا، اس رات اللہ تعالیٰ نے فرشتون کو اپنے رسول کی حفاظت کے لیے بھیج دیا۔ جب یہ ا پنی بے نیام تلواریں لہراتے ہوئے آپ پر حملہ کرنے کے لیے لپکے تو فرشتوں نے ان پر پتھراؤ شروع کردیا، انہیں پھر تو نظر آتے تھے لیکن مارنے والے دکھائی نہیں دیتے تھے، چنانچہ ان سب کو اس طرح ہلاک کردیا گیا اور یہ مہلت کی آخری رات تھی، چنانچہ قوم کے باقی افراد بھی تباہ و برباد کردیے گئے۔ ان شاء اللہ قریب ہی ذکر آ رہا ہے۔
رب تعالیٰ نے فرمایا: ’’تسعۃ رھط‘‘ رھط کا معنی ہے تین سے لے کر دس تک یا سات سے لے کر دس تک کا گروہ۔ اس قبیلہ کے نو سردار تھے، ان کے لڑکے حضرت صالح علیہ السلام کے مخالفت میں ہمیشہ سر گرم رہا کرتے تھے، ہر رئیس زادہ کے ساتھ اس کے مددگاروں کی بھی ایک ٹولی ہوا کرتی تھی۔ اس لیے انہیں ’’تسعۃ رھط‘‘ سے تعبیر کیا گیا، یعنی نو قبیلے (اگرچہ نو شخص تھے)۔
جب انہوں نے یہ دیکھا کہ ہماری ایذاء رسانیوں کے باوجود حضرت صالح علیہ السلام اور ان کے ساتھی باز نہیں آئے تو انہوں نے ایک جگہ بیٹھ کر سازش کی کہ رات کو بے خبری میں صالح علیہ السلام اور اس کے ساتھیوں پر حملہ کرکے انہیں تہ تیغ کردو، اگر ان کے کسی وارث نے ہم سے دریافت کیا تو ہم انہیں یقین دلادیں گے کہ ہمارا ان کے قتل کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں، اور نہ ہی ہمیں اس کے قتل کا کوئی علم ہے۔ تو وہ خاموش ہوجائیں گے۔
ہوسکتا ہے کہ حضرت صالح علیہ السلام کے وارث کمزور اور غرباء لوگ ہوں تو انہوں نے یہ خیال کیا ہو کہ انہیں کیا مجال ہوگی کہ ہم سے وہ زیادہ تکرار کریں؟ اس طرح وہ خاموش ہوجائیں گے۔ قتل کرنے کا منصوبہ بنانے والے خود تباہ برباد ہوگئے۔ سبحان اللہ مولائے کائنات تیری قدرت کے کارنامے عجیب ہیں۔ (ماخوذ از ضیاء القرآن)
قوم ثمود کے کفار پر عذاب الٰہی:
پس انہوں نے اونٹنی کی کوچیں کاٹ دیں اور اپنے رب کے حکم سے سرکشی کی اور بولے اے صالح (علیہ السلام) ہم پر لے آؤ جس کا تم وعدہ دے رہے ہو اگر تم رسول ہو تو انہیں زلزلہ نے آلیا تو صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے
فَاَخَذَتْھُمُ الرَّجْفَۃُ ای الزلزلۃ الشدیدۃ من الارض والصیحۃ من السماء (جلالین ص۱۳۶)
قوم ثمود پر زمین کا عذاب شدید زلزلہ تھا اور آسمانوں کا عذاب سخت بجلی کی کڑک یا جبرائیل کی شدید ہولناک آواز تھی جس کی وجہ سے انہیں تباہ و برباد کردیا گیا
خیال رہے قرآن پاک میں قوم ثمود کے عذاب کے لیے تین لفظ استعمال ہوئے ہیں:
فَاَخَذَتْھُمُ الرَّجْفَۃُ (پ۸ سورۃ اعراف ۷۸)
تو انہیں زلزلہ نے آلیا
وَاَخَذَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا الصَّیْحَۃ (پ۱۲ سورۃ ھود ۶۷)
اور ظالموں کو چنگھاڑ نے آلیا۔
ان دونوں کا مطلب تو وہی ہے جو بیان کیا جاچکا ہے کہ زمین میں زلزلہ اور آسمانوں سے گرجدار آواز تھی۔ ان کے عذاب کے لیے تیسرا لفظ یہ استعمال ہوا:
وَاَمَّا ثَمُوْدُ فَاُھْلِکُوْا بِالطَّاغِیَۃِ (پ۲۹ سورۃ الحاقۃ ۵)
اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی نے اس کا تر جمہ کیا: ’’ثمود تو ہلاک ہوگئے حد سے گزری ہوئی چنگھاڑ سے‘‘ اس سے پتہ چلا کہ الصیحۃ اور الطاغیۃ سے مراد ایک ہی ہے۔
تاہم بعض مفسرین نے یہ معنی بھی کیا ہے کہ ’’طاغیہ‘‘ سے مراد ان کے جرائم و فسادات کا حد سے گزرنا ہے۔ مطلب یہ ہوگا کہ وہ اپنے حد سے بڑھنے والے جرائم کی وجہ سے ہلاک کیے گئے اس معنی کے لحاظ سے ’’طاغیہ‘‘ عذاب نہیں بلکہ عذاب کا سبب ہے۔
صالح علیہ السلام اور آپ کے ساتھ ایمان لانے والوں کو نجات:
فَلَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا نَجَّیْنَا صٰلِحًا وَّالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَمِنْ خِزْیِ یَوْمِئِذٍ اِنَّ رَبَّکَ ھُوَالْقَوِیُّ الْعَزِیْزُ
پھر جب ہمارا حکم آیا (یعنی عذاب آیا) ہم نے صالح علیہ السلام اور اس کے ساتھ کے مسلمانوں کو اپنی رحمت فرماکر بچالیا اور اس دن کی رسوائی سے، بے شک تمہارا رب قوی عزت والا ہے۔
یہ رب تعالیٰ کی عظیم قدرت ہے کہ ایک ہی ملک میں ایک ہی علاقہ میں کفار کو زلزلہ ہولناک کڑک سے تباہ و برباد کردیا لیکن ا پنے نبی اور ان کے ساتھ ایمان لانے والوں کو ذرا تکلیف نہ ہونے دی کفار کو ذلیل و خوار کردیا ان کو رسوا ہونا پڑا لیکن ایمان والوں کو اس ہولناک تباہی اور اس کی رسوائی سے بچالیا۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ اس واقعہ سے عبرت پکڑیں اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتے رہیں اور رب تعالیٰ کی عظیم قدرت پر کامل ایمان رکھیں۔
(تذکرۃ الانبیاء)