حضرت شموئیل علیہ السلام
حضرت شموئیل علیہ السلام (تذکرہ / سوانح)
اَلَمْ تَرَ اِلَی الْمَلَاِ مِنْ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ مِنْ بَعْدِ مُوْسٰی اِذْ قَالُوْا لِنَبِیٍّ لَّھُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِکًا نُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللہ قَالَ ھَلْ عَسَیْتُمْ اِنْ کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ اَلَّا تُقَاتِلُوْا قَالُوْا وَمَالَنَآ اَلَّا نُقَاتِلَ فِیْ سَبِیْلِ اللہ وَقَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِیَارِنَا وَاَبْنَآئِنَا فَلَمَّا کُتِبَ عَلَیْھِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا اِ لَّا قَلِیْلًا مِّنْھُمْ وَاللہ عَلِیْمٌ بِالظّٰلِمِیْنَ (پ۲ سورۃ البقرۃ ۲۴۶)
اے محبوب کیا تم نے دیکھا بنی اسرائیل کے ایک گروہ کو جو موسیٰ علیہ السلام کے بعد ہوا جب اپنے ایک نبی سے بولے ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کردو کہ ہم خدا کی راہ میں لڑیں نبی نے فرمایا کیا تمہارے انداز ایسے ہیں کہ تم پر جہاد فرض کیا جائے تو پھر نہ کرو؟ بولے ہمیں کیا ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں نہ لڑیں حالانکہ ہم نکالے گئے اپنے وطن اور اپنی اولاد سے تو پھر جب ان پر جہاد فرض کیا گیا منہ پھیر گئے مگر ان میں سے تھوڑے اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے ظالموں کو۔
الملاء قوم کے بڑے سر کردہ لوگ ان کے بڑے لوگوں کو ملاء کہنے کی وجہ یہ ہے:
’’لان ھیبتھم تملأ الصدر او لأنھم یتمالئون ای یتعاونون‘‘
کہ ان کا رعب دوسرے لوگوں کے سینوں کو بھر دیتا تھا یا اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ دوسروں سے تعاون کرتے تھے۔
موسیٰ علیہ السلام کے بعد یوشع علیہ السلام آئے جو اللہ تعالیٰ کے احکامات ان میں قائم کرتے رہے اور تورایت کے مطابق عمل کرنے کی تبلیغ فرماتے رہے۔ ان کے بعد ’’کالب‘‘ اور ان کے بعد ’’حزقیل‘‘ اور ان کے بعد ’’الیاس‘‘ اور ان کے بعد ’’الیسع‘‘ علیہم السلام آئے۔ ان حضرات کے بعد بنی اسرائیل پر ان کے دشمن جالوت کی قوم عمالقہ کے لوگ غالب آگئے۔ اس وقت بنی اسرائیل بحر روم یعنی مصر اور فلسطین کے درمیان رہتے تھے۔ بنی عمالقہ نے ان کے کئی شہروں پر قبضہ کرلیا اور ان کے بڑے بڑے رئیسوں کے بیٹے چار سو چالیس کی تعداد میں قیدی بنالیے۔ اور ان پر جزیہ مقرر کردیا۔ اور ان کی تورایت بھی لے گئے۔ اس وقت ان کے کوئی نبی نہیں تھے جو ان کے معاملات کی تدبیر کرتے۔ خاندانِ نبوت کے سب لوگ وفات پاچکے تھے۔ صرف ایک عورت خاندان نبوت سے زندہ تھی جو حاملہ تھی، دعا کرتی رہتی تھی۔ ’’اشمویل‘‘ (اے اللہ سن) یعنی اے اللہ دعا قبول کرو! عبرانی زبان میں اشمو کا معنی سن ایل کا معنی اللہ۔
بچہ پیدا ہونے پر یہی نام رکھا۔ جب بچہ بڑا ہوا تو اس کی ماں نےا س کو تورات دی اور بیت المقدس کی خدمت پر مقرر کردیا۔
اللہ تعالیٰ نے اسے نبوت عطا فرمائی۔ جب وہ نبی بن کر اپنی قوم میں آئے تو قوم نے کہا کہ اگر تم اپنے دعویٰ میں سچے ہو تو ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کردو جس کی زیر قیادت ہم قوم عمالقہ سے جہاد کریں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے نبی نے کہا تم وعدہ کو پورا نہیں کرسکو ے۔ انہوں نے کہا کہ ہم ضرور جہاد کریں گے۔ ہمیں اپنے گھروں سے نکالا گیا ہے۔ ہماری اولاد کو قیدی بنایا گیا ہے۔ اولاد سے مراد ان کے آباء کی اولاد تھی۔ یا وہ بڑی عمروں کے تھے اور ان کی اپنی ہی اولاد ہو۔ (واللہ اعلم)
لیکن جیسے اللہ تعالیٰ کے نبی نے فرمایا تھا ایسے ہی ہوا کہ وہ سب لوگ اپنے وعدے سے پھر گئے تھے۔ صرف تین سو تیرہ تھے جو ثابت قدم رہے تھے۔
خیال رہے کہ اس واقعہ میں جس نبی کا ذکر ہے ان کے نام میں اختلاف اگرچہ ہے لیکن علامہ رازی نے فرمایا:
’’کان اسم ذالک النبی اشمویل من بنی ھارون واسمہ بالعبریۃ اسمعیل وھو قول الا کثرین‘‘
اللہ تعالیٰ کے اس نبی کا نام ’’اشمویل‘‘ تھا۔ عبرانی زبان میں ’’اسماعیل‘‘ کہا جاتا ہے یہ حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ یہی اکثر اہل علم کا قول ہے۔
بادشاہ کے لیے طالوت کا انتخاب:
وَقَالَ لَھُمْ نَبِیُّھُمْ اِنَّ اللہ قَدْ بَعَثَ لَکُمْ طَالُوْتَ مَلِکًا قَالُوْٓا اَنّٰی یَکُوْنُ لَہُ الْمُلْکُ عَلَیْنَا وَ نَحْنُ اَحَقُّ بِالْمُلْکِ مِنْہُ وَلَمْ یُؤْتَ سَعَةً مِّنَ الْمَالِ قَالَ اِنَّ اللہ اصْطَفٰہُ عَلَیْکُمْ وَزَادَہ بَسْطَةً فِی الْعِلْمِ وَالْجِسْمِ وَاللہ یُؤْتِیْ مُلْکَہ مَنْ یَّشَآءُ وَاللہ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ (پ۲ سورۃ بقرۃ ۲۴۷)
اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ نے طالوت کو تمہارا بادشاہ بناکر بھیجا ہے، بولے اسے ہم پر بادشاہی کیونکر ہوگی اور ہم اس سے زیادہ سلطنت کے مستحق ہیں اور اسے مال میں بھی وسعت نہیں دی گئی۔ فرمایا: اسے اللہ تعالیٰ نے تم پر چن لیا اور اسے علم اور جسم میں کشادگی زیادہ دی اور اللہ تعالیٰ اپنا ملک جسے چاہے دے اور اللہ تعالیٰ وسعت والا حکمت والا ہے۔
پہلے انہوں نے خود ہی اللہ تعالیٰ کے نبی سے سوال کیا کہ ہمیں کوئی بادشاہ عطا کریں۔ جب انھیں بتایا گیا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے طالوت کو بادشاہ منتخب کیا ہے، اب اس کا انکار کرنے لگے کہ یہ کیسے ہمارا بادشاہ ہوسکتا ہے؟ ان کا اسے بعید سمجھنا دو وجہ سے تھا۔ ایک یہ کہ بنی اسرائیل میں نبوت لادی بن یعقوب کی اولاد میں آ رہی تھی اسی خاندان سے موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام تھے اور بادشاہت یہودا کی اولاد میں آ رہی تھی اس خاندان سے داؤد اور سلیمان علیہ السلام تھے۔ چونکہ طالوت ان دونوں قبیلوں میں سے ایک سے بھی نہیں تھے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ طالوت ایک غریب شخص تھے۔ رنگ ساز تھے یا ماشکی تھے لہٰذا انہوں نے کہا:
ولم یؤت سعۃ من المال
اسے تو مال کی وسعت بھی نہیں دی گئی۔
..... وہ ہمارا بادشاہ کیسے ہوسکتا ہے؟ اللہ تعالیٰ کے نبی نے جواب دیا کہ طالوت بادشاہت کا مستحق اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مختص کردیا ہے اور تم سے زیادہ اسے پسند کرکے چن لیا ہے۔ اور ملک اللہ تعالیٰ کا ہے جسے چاہے عطا کردے۔ اور اس کے انتخاب میں اعتراض کرنا، صاحب عقل کا کام نہیں۔
اور ظاہر چیز جسے تم بھی سمجھ سکتے ہو وہ یہ ہے کہ بادشاہ کیے لیے علم اور جسمانی طاقت زیادہ ہونی چاہیے یہ دونوں چیزیں طالوت کو تم سے زیادہ حاصل ہیں اسی وجہ سے وہ بادشاہت کا مستحق ہوا۔
علم اور طاقت بادشاہت کے اسباب کیوں؟
علم اور طاقت حقیقی کمالات ہیں۔ مال اور مرتبہ ظاہری کمالات ہیں۔ یہ واضح ہے کہ حقیقی کمالات کو برتری حاصل ہے۔ اسی طرح علم اور قدرت انسان کی ذات سے متعلق ہوتے ہیں، لیکن مال اور مرتبہ آنی جانی چیزیں ہیں، کبھی حاصل ہوگئیں اور کبھی زائل ہوگئیں، ان کا انسان کی ذات سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ یہ صفات عارضہ ہیں۔ علم اور قدرت انسان سے زائل ہونے والی چیزیں نہیں اور مال و مرت بہ زائل ہونے والی چیزیں ہیں۔ تو یقیناً علم اور قدرت کو برتری حاصل ہے۔
اور سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بادشاہ کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہ نظام مملکت چلانے اور جنگوں کے طریقہ کار کا علم رکھتا ہو۔ جنگی تدابیر کو جانتا ہو کہ کسی طرح کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے اور اسے یہ قدرت حاصل ہو کہ دشمنوں کے شر سے قوم کو بچاسکے اور شہری حدود کی حفاظت کرسکے۔ انہی تمام وجوہ کے پیش نظر بادشاہت کا استحقاق علم و قدرت پر ہے، مال اور مرتبہ پر نہیں۔
عورت اور بادشاہت:
جب یہ واضح ہوچکا ہے کہ حاکم صاحب علم اور بہادر ہونا چاہیے، تو اس سے خود بخود یہ بات سمجھ آجاتی ہے کہ کم عقل قوم کو حاکم بنانا بے وقوفی نادانی حماقت ہے۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر، روح المعانی)
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الاضحیٰ یا عیدالفطر کو عیدگاہ کی طرف تشریف لے جا رہے تھے، راستے میں عورتوں کے پاس سے گزر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اے عورتوں کی جماعت! صدقہ زیادہ کیا کرو۔ میں بہت سی عورتوں کو جہنمی دیکھ رہا ہوں، عورتوں نے عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لعنت زیادہ کرتی ہو اور اپنے خاوندوں کی ناشکری کرتی ہو۔
پھر آپ نے فرمایا:
’’ما رأیت من ناقصات عقل و دین اذھب لب الرجل الھازم من احدا کن‘‘
میں نے تم عورتوں سے بڑھ کر کسی اور کو ایسا نہیں دیکھا کہ عقل اور دین میں کم ہو لیکن بڑے بڑے عقلمندوں کی عقلوں کو ضائع کردے۔
عورتوں نے پوچھا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے دین اور ہماری عقلوں میں کیا کمی ہے؟ آپ نے فرمایا: کیا ایک عورت کی شہادت مرد کی شہادت کے نصف برابر نہیں؟ عورتوں نے عرض کی ہاں! یارسول اللہ ایسے ہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ عقل کی کمی ہے، پھر آپ نے فرمایا: کیا ایسا نہیں کہ تم حیض کے دنوں میں نماز اور روزہ ادا نہیں کرسکتی؟ عورتوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ایسا ہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تمہارے دین کا نقصان ہے۔ (بخاری و مسلم، مشکوٰۃ المصابیح باب الایمان ص۱۳)
سبحان اللہ جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بے عقل کہہ دیں وہ حکومت کے منصب پر فائز ہوکر بھی بیوقوف ہی رہے گی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر ملی کہ اہل فارس نے بنت کسریٰ کو اپنی ملکہ بنالیا ہے تو آپ نے فرمایا:
’’لن یفلح قوم ولو امرھم امراۃ‘‘
وہ قوم ہرگز کامیاب نہیں ہوگی جنہوں نے عورت کو اپنا حاکم بنالیا۔ (مشکوٰۃ کتاب الامارۃ ص۳۲۱، بخاری)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تمہارے امراء تم سے نیک ہوں اور تمہارے اغنیاء سخی ہوں اور تمہارے معاملات مشاورت سے طے ہوں تو تمہارے لیے زمین کا اوپر کا حصہ نیچے سے بہتر ہے (زندہ رہنا بہتر ہے) اور اگر تمہارے امراء (حکام) شریر ہوں اور تمہارے غنی کنجوس ہوں۔
.....’’وامورکم الی نساءکم فبطن الارض خیر لکم من ظھرھا‘‘
..... اور تمہارے معاملات عورتوں کے ہاتھ میں ہوں تو تمہارے لیے زمین کا اندرونی حصہ ظاہر سے بہتر ہے۔ (مرجانا بہتر ہے)۔ یعنی مرجانا زندہ رہنے سے بہتر ہے۔ (ترمذی، مشکوٰۃ باب تغیرالناس ص۴۵۹)
طالوت کی بادشاہت پر تابوت کا بطور نشانی آنا:
وَقَالَ لَھُمْ نَبِیُّھُمْ اِنَّ اٰیَةَ مُلْکِہٓ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ التَّابُوْتُ فِیْہِ سَکِیْنَةٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَبَقِیَّةٌ مِّمَّا تَرَکَ اٰلُ مُوْسٰی وَاٰلُ ھٰرُوْنَ تَحْمِلُہُ الْمَلٰٓئِکَةُ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَةً لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ (پ۲ سورت بقرہ ۲۴۸)
اور کہا انہیں ان کے نبی نے کہ اس کی بادشاہی کی یہ نشانی ہے کہ آئے گا تمہارے پاس ایک صندوق اس میں تسلی (کا سامان) ہوگا تمہارے رب کی طرف سے اور (اس میں) بچی ہوئی چیزیں ہوں گی جنہیں چھوڑ گئی ہے اولاد موسیٰ اور اولاد ہارون علیہا السلام، اٹھالائیں گے اس صندوق کو فرشتے، بے شک اس میں بڑی نشانی ہے تمہارے لیے اگر تم ایمان دار ہو۔
جب اللہ تعالیٰ کے نبی نے اپنی قوم کو بتایا کہ حکومت کے لیے تمہارا قائم کردہ معیار درست نہیں بلکہ اسکا صحیح معیار تو علم و شجاعت ہے اور دونوں باتوں میں وہ تم سب سے ممتاز ہے۔
..... بائیبل میں ہے کہ یہ تیس سالہ نوجوان اپنے حسن و جمال میں بے نظیر تھا، اس کی قامت کی بلندی کی یہ حالت تھی کہ دوسرے لوگ مشکل سے اس کے کندھوں تک پہنچ سکتے تھے، اور یہ بن یامین کی نسل سے تھا۔ اللہ تعالیٰ کے نبی نے انہیں بتایا کہ طالوت کا انتخاب انسانی انتخاب نہیں بلکہ رب العزت نے خود اسے تمہاری قیادت کے لیے منتخب فرمایا ہے تمہیں اس کی عطاء و بخشش پر معترض نہیں ہونا چاہیے.....
بنی اسرائیل بھلا کب آسانی سے اپنی ضد سے باز آنے والے تھے فوراً مطالبہ کیا کہ آپ دلیل پیش کیجیے! کہ طالوت کا انتخاب واقعی اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔ اس وقت ان کے نبی نے فرمایا کہ اس کی حکومت کی نشانی یہ ہے کہ وہ صندوق جس میں تمہاری تسکین و طمانیت کا سامان ہے اور جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام کے تبرکات تھے اور جو عمالقہ تم سے چھین کر لے گئے تھے وہ تمہیں فرشتے واپس کردیں گے۔ اگر تم میں ایمان ہے تو اس سے بڑھ کر تمہیں کسی مزید نشانی کی ضرورت نہیں رہے گی۔
جب فرشتے اس صندوق کو اٹھائے ہوئے یا اس بیل گاڑی کو ہانکے ہوئے جس پر تابوت رکھا تھا بنی اسرائیل کے پاس لے آئے تو اب انہیں طالوت کے بادشاہ بننے کے متعلق اطمینا ن ہوگیا۔ نیز انہیں ڈھارس بندھ گئی کہ اب وہ یقیناً فتحیاب ہوں گے؛ کیونکہ انبیائے کرام کے تبرکات والا صندوق جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا عصا اور پار چات اور حضرت ہارون علیہ السلام کا عمامہ (پگڑی) تھا انہیں واپس مل گیا۔
فائدہ: اس آیت سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ وہ اشیاء جن کا تعلق اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں سے ہوتا ہے ان کی برکت سے دعائیں قبول ہوتی ہیں اور دشمنوں پر غلبہ نصیب ہوتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ناخن اور بال مبارک تبرک کے طور پر پاس رکھتے تھے۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے سر پر ایک کپڑے کی ٹوپی تھی جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بال مبارک رکھا ہوا تھا۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس معرکہ میں یہ ٹوپی سر پر رکھ کر جاتا ہوں اللہ تعالیٰ اس بال کی برکت سے مجھے کامیاب و کامران کرتا ہے۔ (تفسیر ضیاء القرآن)
قوم کی آزمائش:
فَلَمَّا فَصَلَ طَالُوْتُ بِالْجُنُوْدِ قَالَ اِنَّ اللہ مُبْتَلِیْکُمْ بِنَھَرٍ فَمَنْ شَرِبَ مِنْہُ فَلَیْسَ مِنِّی وَمَنْ لَّمْ یَطْعَمْہُ فَاِنَّہ مِنِّیٓ اِلَّا مَنِ اغْتَرَفَ غُرْفَةً بِیَدِہج فَشَرِبُوْا مِنْہُ اِلَّا قَلِیْلًا مِّنْھُمْ فَلَمَّا جَاوَزَہ ھُوَ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہ قَالُوْا لَاطَاقَةَ لَنَا الْیَوْمَ بِجَالُوْتَ وَجُنُوْدِہ قَالَ الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّھُمْ مُّلٰقُوااللہِ کَمْ مِّنْ فِئَةٍ قَلِیْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً کَثِیْرَةً بِاِذْنِ اللہ وَاللہ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ (پ۲ سورت بقرہ ۲۵۹)
پھر جب طالوت لشکروں کو لے کر شہر سے جدا ہوا، بے شک ا للہ تعالیٰ تمہیں ایک نہر سے آزمانے والا ہے تو جو اس کا پانی پیے وہ میرا نہیں اور جو اس کا پانی نہ پیے وہ میرا ہے مگر وہ جو ایک چلو ہاتھ سے لے لے۔ تو سب نے اس سے پیا مگر تھوڑوں نے اور پھر جب طالوت اور اس کے ساتھ کے مسلمان نہر کے پار گئے بولے ہم میں آج طاقت نہیں جالوت اور اس کے لشکروں (کے ساتھ جنگ) کی، بولے وہ جنہیں اللہ تعالیٰ سے ملنے کا یقین تھا کہ بارہا کم جماعت غالب آئی ہے زیادہ گروہ پر اللہ تعالیٰ کے حکم سے اور اللہ تعالیٰ صابروں کے ساتھ ہے۔
جب طالوت کی حاکمیت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نشانی آگئی تو بنی اسرائیل کو یقین ہوگیا وہ ان کی زیر قیادت میدان جنگ میں نکلنے کے لیے تیار ہوگئے۔ طالوت نے اعلان کیا جو لوگ اپنے مکانوں وغیرہ کی تعمیر میں مشغول ہوں ابھی تک تعمیر سے فارغ نہ ہوئے ہوں وہ میرے ساتھ نہ نکلیں اور تاجر جو تجارت میں مشغول ہوں وہ بھی میرے ساتھ نہ نکلیں اور جنہوں نے نئی نئی شادیاں کی ہوں اور ابھی جماع نہ کرچکے ہوں وہ بھی میرے ساتھ نہ چلیں۔ میرے ساتھ چلنے والے صرف نوجوان، پھرتیلے اور تمام دنیاوی حاجات سے فارغ ہونے چاہییں۔ مقصد یہ تھا کہ میدان جنگ میں جاکر کسی کو بھی گھر کی یاد نہ آئے کہ میں نے فلاں کام کرنا تھا جو مکمل نہیں ہوا تھا۔
حضرت طالوت جب بہت بڑا لشکر لے کر شہری حدود سے باہر ہوئے تو اللہ تعالیٰ کے نبی اشمویل علیہ السلام نے یا حضرت طالوت نے لشکر کو بتایا کہ اللہ تعالیٰ ایک نہر سے تمہارا امتحان لینے والا ہے۔ جس نے اس سے پانی پی لیا وہ میرے دین پر نہیں اور جس نے اس کا پانی نہ پیا وہ میرا مطیع ہوگا اور میرے دین پر قائم ہوگا، ہاں صرف چلو بھر پانی اس سے لینے کی اجازت ہوگی۔
یہ آزمائش ان کے لیے بہت سخت تھی؛ کیونکہ ان پر پیاس کی شدت کا غلبہ تھا۔ پانی کو دیکھ کر صبر کرنا ان کے لیے بہت دشوار تھا۔ تمام لشکر والوں نے اس سے پانی پی لیا، صرف تین سو تیرہ تھے جو اس امتحان میں کامیاب ہوئے تھے۔ انہوں نے صرف ایک چلو پانی پی لیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس چلو بھر پانی میں اتنی برکت رکھ دی تھی کہ انہیں بھی کافی ہوا اور وہی چلو ان کے خادموں اور ان کی سواریوں کو بھی کافی ہوگیا۔
’’وھذہ کان معجزۃ لنبی ذالک الزمان کما انہ تعالٰی کان یروی الخلق العظیم من الماء القلیل فی زمان محمد علیہ الصلوۃ والسلام‘‘۔
یہ اس وقت کے نبی کا معجزہ تھا جس طرح اللہ تعالیٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھوڑے پانی سے بہت بڑی مخلوق کو سیراب کرتا رہا یہ کئی مرتبہ ہوا۔
جو لوگ آزمائش میں ناکام ہوگئے اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی کے احکام کے نافرمان ہوگئے، وہ بزدل ہوگئے اور کہنے لگے: ہم تو آج جالوت اور اس کے لشکر سے جنگ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ اس سے یہ واضح ہوا کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے احکام کو نہ تسلیم کرنے کی وجہ سے انسان کافروں سے جنگ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔
یہی وجہ ہے کہ آج تمام اسلامی ممالک کفار سے ڈر کر زندگی گزار رہے ہیں۔ جو لوگ اس امتحان میں کامیاب ہوگئے تھے انہیں اللہ تعالیٰ نے یہ برکت عطا کی کہ انہوں نے اپنے آپ کو جہاد کے لیے تیار کرلیا اور انہیں یہ یقین ہوگیا کہ موت تو ایک دن آنی ہی ہے تو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں جان دے کر جاودانی زندگی کیوں نہ حاصل کی جائے؟ جب کہ ایک دن رب سے ملاقات بھی کرنی ہے تو کامیابی کی ملاقات ہو اس سے ثواب ملے اور اس کی رضاء حاصل ہو۔ وہ ملاقات کیا جس میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور عذاب حاصل ہو؟ انہیں یقین کا وہ اعلیٰ درجہ حاصل ہوگیا کہ کہنے لگے کہ کتنی تھوڑی جماعتیں بڑی جماعتوں پر غالب آجاتی ہیں۔ بے شک زیادہ لوگ ہم سے پھر چکے ہیں ہم تھوڑے رہ گئے ہیں لیکن جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں امداد حاصل ہوگی تو ہم ضرور کامیاب ہوجائیں گے۔
قوم کو آزمانے کی وجہ:
قومی بنی اسرائیل کا یہ طریقہ تھا کہ وہ اپنے نبی کی مخالفت ہی کرتے تھے۔ اس لیے انہیں آزمایا گیا کہ صدیق اور زندیق، مطیع اور عاصی میں فرق ہوجائے۔ جو اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے والے ہیں ان کو ساتھ لیا جائے، مخالفین کو ساتھ نہ لیا جائے۔ اس لیے کہ دشمن کے مقابلے میں جانے سے پہلے ہی پیچھے ہٹ جانا دوسرے مسلمانوں کے لیے زیادہ پریشانی کا سبب نہیں تھا، لیکن دشمن کے مقابلہ میں جاکر اگر وہ بھاگ آتے توبہت بڑی پریشانی کا سبب ہوتا۔ اور بھاگنے والوں کو بھی زیادہ ذلت ہوتی۔ (ماخوذ از کبیر)
داؤد علیہ السلام کا جالوت کو قتل کرنا:
وَقَتَلَ دَاودُ جَالُوْتَ وَآتٰہُ اللہُ الْمُلْکَ وَالْحِکْمَۃَ وَعَلَّمَہٗ مِمَّا یَشآءُ (پ۲ سورۃ بقرۃ ۲۵۱)
اور قتل کیا داؤد نے جالوت کو اور اللہ تعالیٰ نے اسے سلطنت اور حکمت عطا فرمائی اور اسے جو چاہا سکھایا۔
حضرت داؤد علیہ السلام بکریاں چراتے تھے آپ گلاخن (پتھر پھینکنے کا آلہ) کے ذریعے بھیڑیوں اور شیروں کو پتھر مارتے تھے۔ آپ کے سات بھائی طالوت کے ساتھ میدان جنگ میں تھے۔ جب ان کو خبر پہنچنے میں کچھ دیر ہوگئی کہ کس حال میں ہیں تو آپ کو آپ کے باپ ’’ایشا‘‘ نے بھیجا کہ جاؤ اور بھائیوں کی خبر لاؤ، آپ علیہ السلام آئے تو دیکھا کہ بھائی جنگ کرنے کے لیے ایک صف میں کھڑے ہیں۔ اور جالوت بنی اسرائیل کو کہہ رہا ہے کہ کہ اگر تم حق پر ہو تو میرے مقابلہ کے لیے کوئی نکلے۔
داؤد علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کو کہا کہ تم اس غیر ختنہ شدہ (کافر) کو قتل کیوں نہیں کرتے؟ لیکن اس کی بہادری کے پیش نظر کوئی اس کے مقابل جانے کے لیے تیار نہیں تھا۔ آپ علیہ السلام جب دوسری صف میں گئے تو دیکھا طالوت لوگوں کو جالوت کے قتل کرنے پر ابھار رہے ہیں۔ آپ علیہ السلام نے کہا جو اسے قتل کرے اس سے تم کیا سلوک کرو گے؟ طالوت نے کہا اسے اپنی بیٹی نکاح میں دوں گا اور آدھی بادشاہی دوں گا۔
حضرت داؤد علیہ السلام کو راستے میں چلتے ہوئے تین پتھروں نے آواز دے کر کہا تھا کہ ہمیں اٹھالو، جالوت کا قتل ہم میں ہے۔ آپ نے وہ پتھر اٹھالیے تھے۔ ایک پتھر جالوت کے سینے پر مارا وہ قتل ہوگیا آپ نے کئی اور لوگوں کو بھی قتل کیا اس طرح جالوت اور اس کے لشکر کو شکست ہوگئی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کو بادشاہی اور نبوت عطا کردی۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر)
(تذکرۃ الانبیاء)