حضرت شعیب علیہ السلام
حضرت شعیب علیہ السلام کو دو قوموں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ایک دن مدین اور دوسرے اصحاب ایکہ، آپ چونکہ مدین قبیلہ سے تھے اس لیے جب مدین کا ذکر ہوا تو فرمایا:
’’وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا‘‘ اور مدین کی برادری سے شعیب(علیہ السلام) کو بھیجا۔ (پ ۸ سورت اعارف ۸۵)
اور اصحاب ایکہ کے ذکر میں اخوھم نہیں کہا بلکہ صرف کہا:
’’اِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَیْبٌ‘‘ اور جب ان کو شعیب(علیہ السلام) نے کہا۔ (پ ۱۹ سورت شعراء ۱۷۷)
اس طرح دونوں قوموں پر عذاب بھی مختلف قسم کے تھے، جن کا ذکر ان شاء اللہ تعالیٰ بعد میں آئے گا، البتہ دونوں قوموں کے لوگ قریب قریب فاصلہ پر رہنے کی وجہ سے اور ایک دوسرے کے ساتھ روابط کی وجہ سے ایک جیسے عمل کیا کرتے تھے۔ اس لیے دونوں کو حضرت شعیب علیہ السلام نے تبلیغ ایک جیسی فرمائی۔
شعیب علیہ السلام مدین کو تبلیغ:
وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًا قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَo وَ لَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِهٖ وَ تَبْغُوْنَهَا عِوَجًاج وَ اذْكُرُوْٓا اِذْ كُنْتُمْ قَلِیْلًا فَكَثَّرَكُمْ وَ انْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَo (پ ۸ سورہ اعراف ۸۵ ۔ ۸۶)
اور مدین کی طرف ان کی برادری سے شعیب(علیہ السلام) کو بھیجا۔ کہا اے میری قوم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی تو ناپ اور تول پوری کرو اور لوگوں کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں انتظام کے بعد فساد نہ پھیلاؤ، یہ تمہارا بھلا ہے اگر ایمان لاؤ۔ اور ہر راستہ پر یوں نہ بیٹھو کہ راہ گیروں کو ڈراؤ اور اللہ تعالیٰ کی راہ سے انہیں روکو جو اس پر ایمان لائے اور اس میں کجی(ٹیڑھا پن) چاہو اور یاد کرو جب تم تھوڑے تھے اس نے تمہیں بڑھا دیا اور دیکھو فسادیوں کا کیا انجام ہوا؟
’’مدین‘‘ اصل میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ایک بیٹے کا نام ہے۔ اس کی اولاد پر بھی مدین ہی بولا جاتا رہا۔ یعنی ایک قبیلہ کا نام مدین ہوا تو پھر اسی قبیلے کے لوگوں نےت ایک شہر آباد کیا۔ اس کا نام بھی مدین رکھا۔ حضرت شعیب علیہ السلام اس قبیلے کے فرد تھے۔
آپ علیہ السلام کا نسب یوں بیان کیا گیا ہے۔
شعیب بن نویب بن مدین بن ابراھیم خلیل اللہ علیھم السلام
ان آیات کریمہ میں ذکر ہے کہ شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو تین چیزوں کا حکم دیا اور ایک یہ کہ ان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حکم دیا اور غیر اللہ کی عبادت سے منع کیا۔ تمام انبیائے کرام کی شریعتوں میں یہ قانون معتبر رہا شعیب علیہ السلام نے اسی قانون کے مطابق اپنی قوم کو کہا:
’’ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗ ‘‘
اے میری قوم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اس کے بغیر تمہارا کوئی معبود نہیں۔
دوسری بات یہ تھی کہ آپ نے اپنی نبوت کا دعویٰ کیا اور فرمایا:
’’قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ‘‘
بے شک تمہارے پاس رب کی طرف سے روشن دلیل آئی۔
یہاں ’’بینۃ‘‘ سے مراد معجزہ ہے۔ اس لیے کہ ہر مدعی نبوت کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اپنا معجزہ دکھائے۔ اگر اس کے پاس کوئی معجزہ نہ ہو تو وہ نبی نہیں ہوگا۔ بلکہ متنبی(جھوٹا نبوت کا دعویدار) ہوگا۔
اس آت کریمہ سے یہ واضح ہوا کہ آپ علیہ السلام کو معجزہ حاصل تھا جو آپکی صداقت پر دلالت کرتا تھا۔ البتہ یہ معجزہ کیا تھا؟ اس کا ذکر قرآن پاک اور حدیث پاک میں واضح طور پر نہیں، البتہ صاحب کشاف نے بیان کیا ہے کہ آپ علیہ السلام نے موسی علیہ السلام کو عصا دیا تھا۔ جس سے آپ نے جادو گروں کا مقابلہ کیا تھا اور ان کے بڑے بڑے سانپوں کو نگل لیا تھا۔ یہ آپ کا معجزہ تھا۔
اسی طرح آپ نے موسیٰ علیہ السلام کو بتایا تھا کہ ان کی بکریوں کے بچے سیاہ سفید رنگ کے ہوں گے ایسے ہی ہوا۔
تیسری بات جو آپ اپنی قوم سے کی وہ یہ تھی کہ انہیں برائیوں سے روکا۔ تمام انبیائے کرام کی یہ عادت شریفہ رہی کہ وہ اپنی قوموں کو برائیوں سے روکتے رہے۔ خصوصاً سب سے بڑی برائی سے روکنے میں زیادہ توجہ دیتے رہے اور اسی سے ابتدا کرتے آپ نے بھی اپنی قوم کو سب سے پہلے یہ کہا:
’’فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ‘‘ ناپ اور تول کو پورا کرو۔
چونکہ شعیب علیہ السلام کی قوم کے لوگ تاجر تھے وہ ناپ تول میں کمی کرتے تھے۔ اس طرح لوگوں کا مال ناجائز طریقہ سے ہڑپ کرتے تھے۔ اس برائی پر فتنہ فساد مرتب ہوتا تھا اس لیے سب سے پہلے اسی چیز کی طرف آپ نے توجہ فرمائی۔ ناپ تول کو پورا کرنے کا حکم دینے کے بعد عمومی طور پر یہ ارشاد فرمایا:
’’ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ‘‘ اور لوگوں کی چیزیں گھٹا کر نہ دو۔
یہ ارشاد تمام قسم کی برائیوں سے روکنے کو شامل ہے یعنی کسی کا مال نہ چھینو،(غصب نہ کرو) چوری نہ کرو رشوت نہ لو ڈاکہ نہ ڈالو کسی طرح بھی کسی حیلہ سے بھی لوگوں کا مال نہ بٹورو۔
اس کے بعد آپ علیہ السلام نے فرمایا:
’’وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا‘‘
اور زمین میں انتظام کے بعد فساد نہ پھیلاؤ۔
زمین میں فساد پھیلانا دین و دنیا کو برباد کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی بھیج کر جب زمین میں اصلاح پیدا کردی، ایک خاص نظام پر منتظم کردیا، تو اب برائیوں کے ارتکاب سے اس میں فساد نہ پھیلاؤ۔ اسی طرح جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں کثیر مال اور نعمتیں عطا کرکے زمین میں انتظام پیدا کردیا تو تم اس میں حرام کی آمیزش کرکے فساد کیوں پھیلاتے ہو؟ ان تمام امور کا مقصد یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے امر کی تعظیم بجا لاؤ یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اپنے نبی کی نبوت کو تسلیم کرو۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر مہربانی کرو۔ اگرچہ تم تمام مخلوق کو نفع تو نہیں پہنچا سکتے لیکن کم از کم فساد کو چھوڑ کر، کم تولنے کم ناپنے کو چھوڑ کر اور ہر قسم کے شر سے دور رہ کر اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو ایذاء(تکلیف) سے تو بچا سکتے ہو، اگر تم ایمان لاتے ہو تو تمہارے لیے اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنا ہی بہتر ہے۔
شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو کہا:
’’ وَ لَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِهٖ وَ تَبْغُوْنَهَا عِوَجًا‘‘ (پ ۹ سورت الاعراف ۸۶)
اور ہر راستہ پر یوں نہ بیٹھو کہ راہ گیروں کہ ڈراؤ، اللہ تعالیٰ کی راہ سے انہیں روکو جو اس پر ایمان لائے اور اس میں کجی چاہو۔
صراط کا ایک معنی یہاں راستہ لیا گیا ہے۔ شعیب علیہ السلام کی قوم کا یہ طریقہ تھا کہ وہ لوگ راستے پر بیٹھ جاتے اور شعیب علیہ السلام پر ایمان لانے والا جو شخص بھی وہاں سے گزرتا اسے ڈراتے دھمکاتے۔ دوسرا معنی دین کے طریقے۔ یعنی اب مطلب ہوگا کہ تم شیطان کے طریقے پر نہ چلو کیونکہ اس نے کہا تھا:
’’لَاَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘ (پ ۸ سورت اعراف ۱۶)
میں ضرور بر ضرور ان کے راستے پر بیٹھوں گا۔
یعنی جس طرح شیطان کا کام ہے کہ وہ انسان کو دینی راہ پر چلنے سے روکتا ہے تم بھی وہ طریقہ اختیار نہ کرو۔
شعیب علیہ السلام کی قوم کے لوگ آپ پر ایمان لانے والوں کو تین طریقے سے روکتے تھے۔ رب تعالیٰ نے انہیں تین طریقوں سے منع کیا، کہ ایسا نہ کرو۔ وہ کبھی ڈرا دھمکا کر لوگوں کو سیدھی راہ سے برگشتہ کرتے اور کبھی ویسے ہی ان کو باتون میں لگا کر نیکی کے کام سے روکنے کی کوشش کرتے اور کبھی دین میں اپنی حماقت کی وجہ سے اعتراض کرتے اور اس میں نقص نکالنے کی کوشش کرتے۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے ذریعے انہیں اپنی نعمت یاد دلائی اور کہا:
’’وَ اذْكُرُوْٓا اِذْ كُنْتُمْ قَلِیْلًا فَكَثَّرَكُمْ‘‘ (پ ۸ سورت الاعراف ۸۶)
اور یاد کرو جب تم تھوڑے تھے اس نے تمہیں بڑھایا۔
یعنی جب اللہ تعالیٰ کے تم پر کثیر انعامات ہیں تو تمہیں چاہیے کہ تم اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو، اس کی عبادت کرو اور اس کی نافرمانی سے دور رہو۔
’’کثرت‘‘ کے تین مقصد ہوسکتے ہیں:
’’کثر عدد کم بعد القلۃ‘‘
تم تعداد میں تھوڑے تھے اور اللہ نے تمہیں بڑھادیا۔ یعنی اب تم تعداد میں بہت زیادہ ہو یہ اس کا تم پر احسان عظیم ہے۔
’’وکثر کم بالغنی بعد الفقر‘‘
تم غریب تھے تمہارے پاس مال و دولت نہیں تھی اللہ تعالیٰ نے تمہارے مال و دولت کو بڑھا دیا، حق تو یہ تھا کہ تم اس کے اس کے عظیم احسان کا شکر ادا کرتے اور حلال طریقے سے مال حاصل کرتے لیکن تم نے تو حرام طریقے سے مال بٹورنا شروع کر رکھا ہے۔
’’وکثر کم بالقدرۃ بعد الضعف‘‘
تم کمزور تھے اس نے تمہیں طاقت ور بنادیا۔ جن کی طاقت کم نہ ہو وہ خواہ کتنی ہی تعداد میں کیوں نہ ہوں وہ قلیل ہی نظر آتے ہیں۔ ان کو کسی قسم کا رعب اور دبدبہ حاصل نہیں ہوتا، لیکن جنہیں اللہ تعالیٰ طاقت دے دے وہ کثیر تعداد والوں پر بھاری ہونے کی وجہ کثیر ہوتے ہیں۔
پھر آپ نے اپنی قوم کو عبرت حاصل کرنے کا سبق دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’وَ انْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ‘‘ دیکھو! فسادیوں کا کیا انجام ہوا؟
یعنی تم سے پہلے جو سرکش اور ظالم اللہ تعالیٰ کے نافرمان ہوئے انہیں سوائے ذلت و رسوائی اور عذاب الٰہی کے کچھ حاصل نہیں ہو اگر تم بھی اس حال پر رہے تو تمہارا بھی یہی انجام ہوگا۔
حلال مال میں ہی بھلائی ہے:
حضرت شعیب علیہ السلام نے جب اپنی قوم کو لوگوں کو چیزیں گھٹا کر دینے اور زمین میں فساد پھیلانے سے منع کیا تو ساتھ ہی رزق حلال پر اکتفاء کرنے کی ترغیب بھی دی۔ ارشاد فرمایا:
’’بَقِیَّتُ اللّٰهِ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ وَ مَآ اَنَا عَلَیْكُمْ بِحَفِیْظٍ‘‘ (پ ۱۲ سورت ھود ۸۶)
اللہ کا دیا جو بچ رہے وہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تمہیں یقین ہو۔ اور میں کوئی تم پر نگہبان نہیں۔
آپ کے ارشاد کا یہ مقصد تھا کہ اگر تم نے ناپ تول میں کمی نہ کی، لوگوں کو ان کے حقوق پورے کر کے دئیے اور کسی کے مال میں کمی نہ کی، تو جو مال تمہارے پاس بچ رہے گا اس میں اللہ تعالیٰ خیر و برکت عطا فرمائے گا، اور رزق کا دروازہ کھول دے گا، اور رب کی اطاعت میں جو عظیم ثواب حاصل ہونا ہے، وہ دنیا کے مال سے قدر و منزلت کے لحاظ پر عظیم درجہ رکھے گا۔
یہ بات سمجھ اسے ہی آسکتی ہے جسے ایمان اور یقین حاصل ہو، کہ موت بھی آنی ہے اور اس جہاں کے بغیر ایک اور جہاں بھی ہے، جہاں حساب و کتاب ہونا ہے۔ اور ثواب و عذاب بھی حاصل ہونا ہے۔ یقین کامل ہو تو پھر ہی انسان برائیوں سے اجتناب کرسکتا ہے۔
اور آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ میرا کام صرف تمہیں بھلائی کی نصیحت کرنا ہے میں تمہیں برائیوں کے ارتکاب سے منع کرنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ نیز اگر تم نے برے اعمال نہ چھوڑے اور ان کی نحوست سے تمہاری نعمتوں کا زوال ہوگیا اور مال و دولت برباد ہوگیا تو میں تمہیں نہیں بچا سکوں گا۔
قوم کا بطور طنز جواب:
قَالُوْا یٰشُعَیْبُ اَصَلٰوتُكَ تَاْمُرُكَ اَنْ نَّتْرُكَ مَا یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَآ اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِیْٓ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰٓؤُا اِنَّكَ لَاَنْتَ الْحَلِیْمُ الرَّشِیْدُo (پ ۱۲ سورت ھود ۸۷)
بولے اے شعیب کیا تمہاری نماز تمہیں یہ حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے باپ دادا کے خداؤں کو چھوڑ دیں؟ یا اپنے مال میں جو چاہیں کریں۔ ہاں جی تم بڑے عقلمند نیک چلن ہو۔
شعیب علیہ السلام نے قوم کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لانے اور اس کے بغیر کسی کی عبادت نہ کرنے کا حکم دیا تو قوم نے کہا کہ ہم تو اپنے باپ دادا کے طریقے کو نہیں چھوڑ سکتے، وہ کئی معبودوں کی عبادت کرتے تھے ہم بھی یہی کریں گے۔ اور آپ علیہ السلام نے قوم کو کم تولنے اور کم ناپنے سے منع کیا اور کہا کہ لوگوں کو چیزیں گھٹا کر نہ دو تو وہ کہنے لگے کہ ہم تو مال جمع کرنا چاہتے ہیں، مال جمع کرنے کے مختلف ہتھکنڈے ہیں ہم جس طرح جمع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اس کے خلاف کوئی قدم اٹھانے کے لیے تیار نہیں۔ طنزاً انہوں نے کہا تم (معاذ اللہ) بڑے نمازی، ایمان دار اور دیندار بنے بیٹھے ہو! یہ تمہاری نمازیں تمہیں کہتی ہیں کہ تم ہمیں اپنے باپ دادا کے دین سے پھیر دو اور ہمیں مال نہ جمع کرنے دو، ہاں جی تم بڑے عقلمند اور نیک چلن سمجھتے ہو اپنے آپ کو، (معاذ اللہ) ہم تو تمہیں بے وقوف سمجھتے ہیں ہم تمہاری باتوں میں کیسے آئیں؟
آپ نے کہا میں جو کہتا ہوں وہی کرتا ہوں:
قَالَ یٰقَوْمِ اَرَءَیْتُمْ اِنْ كُنْتُ عَلٰى بَیِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَ رَزَقَنِیْ مِنْهُ رِزْقًا حَسَنًا وَ مَآ اُرِیْدُ اَنْ اُخَالِفَكُمْ اِلٰى مَآ اَنْهٰىكُمْ عَنْهُ اِنْ اُرِیْدُ اِلَّا الْاِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ وَ مَا تَوْفِیْقِیْٓ اِلَّا بِاللّٰهِ عَلَیْهِ تَوَكَّلْتُ وَ اِلَیْهِ اُنِیْبُ o (پ ۱۲ سورت ھود ۸۸)
کہا: اے میری قوم بھلا بتاؤ! اگر میں اپنے رب کی طرف سے روشن دلیل پر ہوں اور اس نے مجھے اپنے پاس سے اچھی روزی دی اور میں نہیں چاہتا ہوں کہ جس بات سے تمہیں منع کرتا ہوں آپ اس کے خلاف کرنے لگوں، میں تو جہاں تک بنے سنوارنا ہی چاہتا ہوں اور میری توفیق اللہ تعالیٰ کی ہی طرف سے ہے میں نے اسی کی طرف بھروسہ کیا اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔
آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے علم ہدایت دین اور نبوت عطا کی ہے اور مجھے رزق حلال بہت زیادہ عطا کیا ہے، (یاد رہے حضرت شعیب علیہ السلام بہت مالدار تھے) جب اللہ تعالیٰ نے مجھے سعادات روحانیہ یعنی نبوت و معجزات اور سعادات جسمانیہ یعنی مال و رزق حلال عطا کیا ہے تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں اتنے عظیم انعامات کے ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی وحی اور اس کے اوامر و نواہی میں خیانت کروں؟ خیال رہے کہ
’’ اِنَّكَ لَاَنْتَ الْحَلِیْمُ الرَّشِیْدُ‘‘ کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ انہوں نے آپ کے حوصلہ اور عقلمندی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ تم تو حوصلہ مند اور عقلمند ہو پھر بھی ہمیں اپنے آباء اجداد کے دین سے کیوں روکتے ہو؟ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ جب تم میری عقلمندی کے معترف ہو تو سمجھ لو کہ میں تمہیں بہتر راہ پر چلانا چاہتا ہوں اور خود بھی اس پر قائم ہوں۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ میں تمہیں تو برے اعمال سے منع کروں اور خود ان پر عمل کروں۔ مجھے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ حاصل ہے اورمجھے اسی کی طرف رجوع کرنا ہے۔
نبی کی مخالفت عذاب کا سبب:
وَ یٰقَوْمِ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِیْٓ اَنْ یُّصِیْبَكُمْ مِّثْلُ مَآ اَصَابَ قَوْمَ نُوْحٍ اَوْ قَوْمَ هُوْدٍ اَوْ قَوْمَ صٰلِحٍ وَ مَا قَوْمُ لُوْطٍ مِّنْكُمْ بِبَعِیْدٍo وَ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْهِ اِنَّ رَبِّیْ رَحِیْمٌ وَّدُوْدٌ o (پ ۱۲ سورت ھود ۸۹ ۔ ۹۰)
اور میری قوم ہر گز نہ اکسائے تمہیں میری عداوت (اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر) مبادا پہنچے تمہیں بھی ایسا عذاب جو پہنچا تھا قوم نوح یا قوم ھود یا قوم صالح کو اور قوم لوط تو تم سے کچھ دور نہیں اور مغفرت طلب کرو اپنے رب سے پھر (دل و جان سے) رجوع کرو اس کی طرف بے شک میرا رب بڑا مہربان (اور) پیار کرنے والا ہے۔
’’لا یجرمنکم شقاقی ان یصیبکم ای لا یکسبنکم شقاقی اصابۃ العذاب‘‘
یعنی آپ نے اپنی قوم کو فرمایا: اے میری قوم میری مخالفت اور عداوت کی وجہ سے تم اللہ تعالیٰ کے عذاب کو حاصل نہ کرو، اگر تم اسی طرح میری عداوت پر قائم رہے تو تم بھی ایسے تباہ برباد ہوجاؤ گے جیسے نوح، ہود اور لوط علیہم السلام کی قومیں تباہ و برباد ہوگئیں، انکا کوئی نام و نشان نہیں رہا۔ اور لوط علیہ السلام کی تباہ شدہ بستیاں تمہارے علاقہ سے کوئی دور نہیں اور ان کا زمانہ بھی تمہارے زمانے سے کوئی دور نہیں۔ تمہیں چاہیے کہ تم اپنے تمام جرائم کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرو اس سے مغفرت طلب کرو۔ اللہ تعالیٰ بہت کریم ہے رحیم ہے وہ کبھی اپنی طرف جھکنے والوں کو اپنی رحمت سے محروم نہیں کرتا۔ تمہیں چاہیے کہ تم اس کی رحمت سے کبھی مایوس نہ ہو۔
قوم کے جوابات:
شعیب علیہ السلام نے قوم کو راہ حق کی تبلیغ فرمائی انہیں عذاب سے بچنے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت حاصل کرنے کی ترغیب دی لیکن قوم نے آپ کو دھمکیاں دینی شروع کردیں۔
قَالُوْا یٰشُعَیْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِیْرًا مِّمَّا تَقُوْلُ وَ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْنَا ضَعِیْفًا وَ لَوْ لَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنٰكَ وَ مَآ اَنْتَ عَلَیْنَا بِعَزِیْزٍo (پ ۱۲ سورت ھود ۹۱)
انہوں نے کہا: کہ اے شعیب! ہماری سمجھ میں نہیں آتیں تمہاری بہت سی باتیں اور بیشک ہم تمہیں اپنے میں بہت کمزور دیکھتے ہیں اور اگر تمہارا اکنبہ نہ ہوتا تو ہم نے تمہیں پتھراؤ کردیا ہوتا اور ہماری نگاہ میں تمہاری کچھ عزت نہیں۔
حضرت شعیب علیہ السلام ان کے ساتھ ان کی زبان میں کلام فرما رہے تھے لیکن وہ پھر بھی کہنے لگے کہ ہمیں تمہاری باتیں سمجھ نہیں آتیں کیونکہ وہ آپ کی باتوں سے بہت زیادہ نفرت کرنے کی وجہ سے توجہ ہی نہیں دیتے تھے، گویا کہ ان کے کانوں پر پردے چھائے ہوئے تھے۔ اور جو سن لیتے وہ بھی آپ کی باتوں کو حقیر سمجھ کر ٹھکرا دیتے تھے۔ گویا کہ ان کا سننا اور نہ سننا برابر ہوتا اور آپ نے انہیں توحید، نبوت اور قیامت پر ایمان لانے اور ظلم لوٹ کھسوٹ کے چھوڑنے پر جن دلائل سے قائل کرنے کی کوشش کی انہوں نے کہا ہمارےنزدیک ان دلائل کی کوئی حیثیت نہیں، ہمیں گویا یہ دلائل سنائی ہی نہیں دیتے۔
قوم نے آپ کو کہا کہ تم ہمارے ہی قبیلہ سے ہو۔ تمہارا خاندان ہمارے نزدیک عزت اور احترام والا ہے۔ اگرچہ تمہاری عزت ہمارے نزدیک کچھ نہیں اور نہ ہی کوئی تم اتنے بہادر ہو۔ ہم صرف تمہیں تمہارے خاندان کی وجہ سے چھوڑ رہے ہیں ورنہ ہم تم پر پتھراؤ کر کے تمہیں ہلاک کر ڈالتے۔
قوم کی حماقت پر تعجب:
قَالَ یٰقَوْمِ اَرَهْطِیْٓ اَعَزُّ عَلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ اتَّخَذْتُمُوْهُ وَرَآءَكُمْ ظِهْرِیًّا اِنَّ رَبِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌo (پ ۱۲ سورت ھود ۹۲)
آپ علیہ السلام نے کہا: اے میری قوم! کیا تم پر میرے کنبہ کا دباؤ اللہ سے زیادہ اور اسے تم نے اپنی پیٹھ کے پیچھے ڈال رکھا ہے۔ بےشک جو تم کرتے ہو وہ میرے نزدیک رب کے احاط (قدرت) میں ہے۔
آپ علیہ السلام نے اپنی قوم کی حماقت پر تعجب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم میرے خاندان کی عزت کرتے ہو ان کی وجہ سے مجھے ہلاک نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ کے احکام کو پس پشت ڈال رہے ہو، اس کی تابعداری نہیں کرتے، حالانکہ حق یہ تھا کہ تم نے گر میری حفاظت کرنی ہی تھی تو مجھے اللہ تعالیٰ کا نبی سمجھ کر میری حفاظت کرتے، اس سے تمہیں رب کی خوشنودی حاصل ہوتی۔ مجھے دھکمیاں دینے والو! یہ بھی خیال کرو کہ میرا رب تمہارے تمام اعمال سے باخبر ہے۔ تم کبھی اس کے احاطہ قدرت سے بچ نہیں سکتے۔
متکبر سرداروں نے کہا:
قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لَنُخْرِجَنَّكَ یٰشُعَیْبُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَكَ مِنْ قَرْیَتِنَآ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَاo (پ ۹ سورت اعراف ۸۸)
آپ کے قوم کے متکبر سردار بولے: اے شعیب قسم ہے کہ تمہیں اور تمہارے ساتھ والےمسلمانوں کو اپنی بستی سے نکال دیں گے، یا تم ہمارے دین میں آجاؤ۔
آپ کی قوم کے رئیس و سردار لوگ جو بہت بڑے متکبر تھے۔ آپ علیہ السلام کو دھمکیاں دینے لگے کہ تم ہمارے دین میں آجاؤ اور تمہارے ساتھ جو مسلمان ہیں وہ بھی ہمارے دین میں آجائیں۔ اگر تم نے ہمارے دین کو قبول نہ کیا تو ہم تمہیں اپنی بستی سےنکال دیں گے۔
نبی دھمکیوں سے نہیں ڈرتے:
قَالَ اَوَ لَوْ كُنَّا كٰرِهِیْنَo قَدِ افْتَرَیْنَا عَلَى اللّٰهِ كَذِبًا اِنْ عُدْنَا فِیْ مِلَّتِكُمْ بَعْدَ اِذْ نَجّٰىنَا اللّٰهُ مِنْهَاo (پ۹ سورت اعراف ۸۸، ۸۹)
کہا: کیا اگرچہ ہم بے زار ہیں ضرور ہم اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھیں گے اگر تمہارے دین میں آجائیں بعد اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس سے بچایا ہے۔
آپ علیہ السلام نے اپنی قوم کی دھمکیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دو ٹوک الفاظ میں جواب دیا کہ کیا ہم اس دین میں آجائیں جس سے ہم بیزار ہیں، جو ہمیں ناپسند ہے، یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔ اللہ تعالیٰ کا عظیم احسان ہے ہم پر جس نے ہمیں تمہارے باطل دین سے محفوظ رکھا ہوا ہے۔ اگر تمہارے کہنے پر ہم اس دین میں آجائیں تو یہ اللہ تعالیٰ پر افتراء (جھوٹ باندھنا) لازم آئے گا۔ کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کا نبی اور اس پر ایمان لانے والے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھ سکتے ہیں؟ یہ تصور کرنا بھی ناممکن ہے یہ خیال بھی محال ہے۔
فیصلہ کن بات:
وَ یٰقَوْمِ اعْمَلُوْا عَلٰى مَكَانَتِكُمْ اِنِّیْ عَامِلٌ سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ مَنْ یَّاْتِیْهِ عَذَابٌ یُّخْزِیْهِ وَ مَنْ هُوَ كَاذِبٌ وَ ارْتَقِبُوْٓا اِنِّیْ مَعَكُمْ رَقِیْبٌo (پ۱۲ سورت ھود ۹۳)
اور اے قوم تم اپنی جگہ اپنے کام کیے جاؤ میں اپنا کام کرتا ہوں، جلد ہی تمہیں پتہ چل جائے گا کس پر آتا ہے وہ عذاب کہ اسے رسوا کرے گا اور کون جھوٹا ہے؟ اور انتظار کرو میں بھی تمہارے ساتھ انتظار میں ہوں۔
یعنی آپ نے اپنی قوم کو کہا کہ تم اپنی طاقت کے مطابق جو چاہو کرلو مجھے اگر تکلیف پہنچاسکتے ہو توپہنچالو، لیکن یہ بھی خیال کرلو میں بھی کوئی بے سہارا نہیں، میرا بھی کوئی ہے۔ مجھے بھی اس نے بڑے قدرتوں سے نوازا ہے۔ بس اب تم اپنا کام کرو میں اپنا کام کرتا ہوں۔ قوم نے کہا پھر کیا ہوگا؟ آپ نے فرمایاکچھ دیر تو نہیں، تمہیں عنقریب ہی پتہ چل جائے گا کہ رسوا کرنے والا عذاب کس پر آتا ہے؟ اور جھوٹا کون ہے؟ وہ قومیں جنہوں نے انبیائے کرام کی تکذیب کی اللہ تعالیٰ کے احکام تسلیم نہیں کیے ان کے لیے رب نے یہی فیصلہ فرمایا کہ ان کو تباہ و برباد کردیا جائے اب تمہارے لیے بھی فیصلہ کی گھڑی آنا ہی چاہتی ہے تم بھی انتظار کرو اور میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرتا ہوں، سب کچھ واضح ہوجائے گا۔
اللہ تعالیٰ کے عذاب کا آنا اور مدین کی تباہی:
وَ لَمَّا جَآءَ اَمْرُنَا نَجَّیْنَا شُعَیْبًا وَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ مِّنَّا وَ اَخَذَتِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الصَّیْحَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دِیَارِهِمْ جٰثِمِیْنَo كَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْهَا اَلَا بُعْدًا لِّمَدْیَنَ كَمَا بَعِدَتْ ثَمُوْدُo (پ۱۲ سورت ھود ۹۶) (پ ۱۲ سورت ھود ۹۵ ۔ ۹۶)
اور جب ہمارا حکم آیا ہم نے شعیب علیہ السلاما ور اس کے ساتھ کے مسلمانوں کو اپنی رحمت فرماکر بچالیا اور ظالموں کو گرجدار آواز نے آلیا تو صبح اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل پڑے رہ گئے، گویا کبھی وہاں بسے ہی نہ تھے۔ اور دور ہوں مدین جیسے دور ہوئے ثمود۔
رب تعالیٰ نے فرمایا: جب ہمارے عذاب کا امر آگیا تو ہم نے اپنے ایک فرشتے کو بھیجا جس کی آواز سے سب مرگئے۔
’’وھی صیحۃ جبریل علیہ السلام یعنی ان جبریل علیہ السلام لما صاح بھم تلک الصیحۃ زھق روح کل واحد منھم بحیث یقع فی مکانہ میتا‘‘ (از تفسیر کبیر)
وہ آواز جبریل علیہ السلام کی تھی جب آپ نے زوردار گرجدار آواز سے انہیں کہا ’’موتوا‘‘ مرجاؤ تو ہر ایک کی روح نکل گئی اور اپنے اپنے گھروں میں سب اوندھے گرے ہوئے پائے گئے۔ اس طرح ان کو تباہ وبرباد کردیا گیا جیسے کہ وہاں یہ لوگ کبھی بستے ہی نہیں تھے۔
قوم مدین کو ایسا ہی عذاب دیا گیا جیسے قوم ثمود کو عذاب دیا گیا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے دو امتوں کو ایک جیسا عذاب نہیں دیا سوائے شعیب علیہ السلام اور حضرت صالح علیہ السلام کی قوم کے۔ ان دونوں قوموں کو زوردار آواز سے ہلاک کیا گیا۔ صالح علیہ السلام کی قوم کے پاس وہ آواز نیچے سے آئی اور شعیب علیہ السلام کی قوم کے پاس وہ آواز اوپر سے آئی۔ (واقعہ حضرت شعیب علیہ السلام از ابتداء تا ایں جا از تفسیر کبیر)
شعیب علیہ السلام اور اصحاب ایکہ:
كَذَّبَ اَصْحٰبُ لْـَٔیْكَةِ الْمُرْسَلِیْنَo اِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَیْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَo اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌo فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِo وَ مَآ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍج اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَo اَوْفُوا الْكَیْلَ وَ لَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُخْسِرِیْنَo وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِo وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَo وَ اتَّقُوا الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الْجِبِلَّةَ الْاَوَّلِیْنَo قَالُوْۤا اِنَّمَآ اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِیْنَo وَ مَآ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا وَ اِنْ نَّظُنُّكَ لَمِنَ الْكٰذِبِیْنَo فَاَسْقِطْ عَلَیْنَا كِسَفًا مِّنَ السَّمَآءِ اِنْ كُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَo قَالَ رَبِّیْٓ اَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُوْنَo فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَهُمْ عَذَابُ یَوْمِ الظُّلَّةِ اِنَّهٗ كَانَ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍo اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً وَ مَا كَانَ اَكْثَرُهُمْ مُّؤْمِنِیْنَo وَ اِنَّ رَبَّكَ لَهُوَ الْعَزِیْزُ الرَّحِیْمُo (پ۱۹ سورت شعراء ۱۷۶، ۱۹۱)
جھٹلایا اہل ایکہ نے بھی رسولوں کو جب فرمایا انہیں شعیب (علیہ السلام) نے: کیا تم (قہر الٰہی سے) نہیں ڈرتے؟ بے شک میں تمہارے لیے رسول امین ہوں۔ پس ڈرو اللہ تعالیٰ سے اورمیری پیروی کرو۔ اور میں نہیں طلب کرتا تم اس پر کوئی اجر میرا اجر تو اس کے ذمہ ہے جوجہانوں کو پالنے والا ہے۔ پورا کیا کروناپ اور نہ ہوجاؤ کم ناپنے والوں سے۔ اور وزن کیا کرو صحیح ترازو سے۔ اور نہ کم دیا کرو لوگوں کو ان کی چیزیں اور نہ پھرا کرو زمین میں فساد برپا کرتے ہوئے۔ اور ڈرو اس سے جس نے پیدا فرمایا تمہیں اور (تم سے) پہلی مخلوق کو۔ انہوں نے (جھلا کر) کہا: تم ان لوگوں میں سے ہو جن پر جادو کردیا گیا ہے۔ اور نہیں ہو تم مگر ایک بشر ہماری مانند۔ اور ہم تو تمہارے متعلق یہ خیال کر رہے ہیں کہ تم جھوٹوں میں سے ہو۔ (ہم تمہاری بات نہیں مانتے) لو اب گرادو ہم پر آسمان کا کوئی ٹکڑا، اگر تم راست بازوں میں سے ہو۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا: میرا رب خوب جانتا ہے جو تم کر رہے ہو۔ سو انہوں نے جھٹلایا شعیب علیہا لسلام کو تو پکڑ لیا ان کو چھتری والے دن کے عذاب نے۔ بے شک یہ بڑے دن کا عذاب تھا بے شک اس میں بھی (عبرت کی) نشانی ہے اور نہیں تھے ان میں سے اکثر لوگ ایمان لانے والے اور یقیناً آپ کا رب ہی سب پر غالب ہمیشہ رحم فرمانے والا ہے۔
بعض حضرات نے یہ خیال فرمایا کہ اہل مدین ا ور اصحاب ایکہ ایک ہی قوم کے دو نام ہیں، لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ دونوں علیحدہ علیحدہ قومیں تھیں جو الگ الگ علاقوں میں آباد تھیں، لیکن چونکہ ان کے علاقے بالکل نزدیک تھے اور دونوں قومیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل سے تھیں اس لیے دونوں کی ہدایت کے لیے ایک نبی حضرت شعیب علیہ السلام کو مقرر فرمایا گیا۔
نیز یہ دونوں قومیں دو بین الاقوامی شاہراہوں کے قرب و جوار میں آبادتھیں اور تجارت پیشہ تھیں تاجروں میں جو اخلاقی خرابیاں عام طور پر پائی جاتی ہیں وہ ان میں بطور قدر مشترک موجود تھیں۔ توحید کے عقیدہ سے دونوں برگشتہ ہوچکی تھیں اور شرک کی لعنت میں گرفتار تھیں۔ اس لیے حضرت شعیب علیہ السلام کے مواعظ ایک ہی طرح کے تھے۔
’’الا یک الشجر الکثیر الملتف الواحدۃ ایکۃ فھی الغیضۃ‘‘
وہ جگہ جہاں گھنے اور گنجان درختوں کا ذخیرہ ہو اسے عربی میں ’’ایکہ‘‘ کہتے ہیں۔ عملوم ہوتا ہے کہ یہ قوم جس علاقے میں آباد تھی وہاں درختوں کے گھنے اور گنجان جھنڈ پائے جاتے تھے اس لیے انہیں اصحاب الایکہ کہا گیا اور یہ کسی خاص بستی کا نام نہ تھا، لیکن جنہوں نے لیکہ پڑھا ہے ان کا خیال ہے کہ لیکہ ایک بستی کا نام ہے۔
علامہ جوہری کی یہ رائے ہے کہ ایکہ اور لیکہ دونوں ایک ہی بستی کے نام ہیں، جس طرح مکہ اور بکہ۔ (تفسیر قرطبی)
مدین کی طرح اصحاب ایکہ کی بھی ساری معاشی خوشحالی کا انحصار ان بے ایمانیوں اور دھوکہ بازیوں پر تھا، وہ اتنے بھلے مانس کب تھے کہ حضرت شعیب علیہ السلام کی نصیحت سن کر ان سے باز آجاتے، شعیب علیہ السلام تو ان کو یہ کہہ رہے تھے:
’’واتقو الذی خلقکم والجبلۃ الاولین‘‘ الجبلۃ قال مجاھد ھی الخلیقۃ
یعنی اس رب سے ڈرو جس نے تمہیں بھی پیدا کیا اور تم سے پہلے (بقول علامہ مجاہد) جو مخلوق گزر چکی ہے اس کا بھی وہی خالق ہے۔
حق تو یہ تھا کہ وہ لوگ اپنی اصلاح کی طرف توجہ کرتے لیکن انہوں نے اس کی طرف توجہ کرنا مناسب نہ سمجھا یہاں تک کہ اپنی غلطی کو غلطی ماننے سے بھی انکار کردیا۔ بلکہ الٹا حضرت شعیب علیہ السلام پر الزام لگادیا کہ تم پر کسی نے جادو کردیا ہے جبھی تو تم ہمیں ایسے مشورے دے رہے ہو، جن پر ہم اگر عمل کریں تو یہ تجارت کی گہما گہمی یا دولت و ثروت کی فراوانی سب کی سب یکدم ختم ہوجائے۔ کوئی ذی شعور آدمی اپنی قوم کو ایسا مشورہ نہیں دے سکتا جو اس کی اقتصادی تباہی کا سبب بنے، اے شعیب! یقیناً تمہارا دماغ کام نہیں کر رہا، پہلے اپنا علاج کراؤ پھر آکر ہمیں نصیحت کرنا، اور تم ہم سے کوئی بڑے بھی تو نہیں ہو، ہمارے جیسے ہی ایک بشر ہو۔ ہمیں تو تمہاری باتوں پر کوئی یقین نہیں آرہا، بلکہ ہم تو تمہیں جھوٹوں میں سے سمجھتے ہیں۔
آپ علیہ السلام نے قوم کی طرح طرح کی بیہودگیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے تبلیغ کا فریضہ جاری رکھا۔ ان کو دھوکہ بازیوں سے باز آنے کے متعلق اصرار کرتے رہے، وہ راہِ راست پر آنے کے بجائے سیخ پا ہوکر اور شرم و حیا کی چادر کو اتار کر کہنے لگے کہ: ’’لو ہم تمہاری بات نہیں مانتے اب جو آسمان تم ہم پر گرانا چاہتے ہو گرادو‘‘۔
ان کا خیال یہ تھا کہ عذاب تو آئے گا نہیں، اس طرح شعیب علیہ السلام کا جھوٹا ہونا ثابت ہوجائے گا۔ سبحان اللہ نبی کا صبر اور کمال کتنا عظیم ہے۔ وہ لوگ آپ کو جھوٹا کہہ رہے ہیں، جادو کے اثرات سے آفت زدہ کہہ رہے ہیں، بلکہ خود مطالبہ کر رہے ہیں تم نے جوکرنا ہے کرلو۔ آسمان گرانا ہے گرا لو۔ ہم تو تمہاری باتوں کو ماننے کے لیے تیار نہیں آپ پھر بھی یہ کہہ رہے ہیں:
رَبِّیْٓ اَعْلَمُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ
تمہارے کرتوتوں کو میرا رب بہتر جانتا ہے۔
یعنی آپ نے ان حالات کے باوجود معاملہ رب کے سپرد کردیا، ان کی ہلاکت کی دعا نہ کی اور یہ نہیں عرض کیا: اے اللہ اب تو ان پر عذاب بھیج ہی دے، بلکہ کمال صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد کردیا۔
جب انہوں نے بار بار شعیب علیہ السلام کی تکذیب کی، تو اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل کردیا سات دن تک اللہ تعالیٰ نے ان سے ہوا کو روک لیا اور ریت کو مسلط کردیا، ان کے دم گھٹنے لگے۔ نہ انہیں کوئی سایہ نفع پہنچا سکتا اور نہ ہی پانی۔ وہ پریشان ہوکر جنگل کی طرف نکلے اور ان پر ایک بادل نے آکر سایہ کردیا۔ جس سے انہوں نے خوب ٹھنڈک محسوس ہوئی اور باد نسیم کے خوشگوار مزے لوٹنے لگے۔ اس طرح سب اس بادل کے سایہ میں جمع ہوگئے۔ تو یکا یک ان پر آگ کی بارش برسنے لگی جس سے سب جل کر راکھ ہوگئے ایسے تباہ و برباد ہوئے کہ ان کا نام و نشان بھی مٹ گیا۔ رب تعالیٰ نے ان کی بستی کو صفحہ ہستی سے ایسے مٹایا کہ گویا یہاں کوئی بستی تھی ہی نہیں۔
(تذکرۃ الانبیاء)