حضرت عزیرعلیہ السلام
حضرت عزیرعلیہ السلام (تذکرہ / سوانح)
حضرت عزیرعلیہ السلام
اَوْکَالَّذِیْ مَرَّ عَلٰی قَرْیَةٍ وَّھِیَ خَاوِیَةٌ عَلٰی عُرُوْشِھَا قَالَ اَنّٰی یُحْی ھٰذِہِ اللہ بَعْدَ مَوْتِھَا فَاَمَاتَہُ اللہ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَہ قَالَ کَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ یَوْمًا اَوْ بَعْضَ یَوْمٍ قَالَ بَلْ لَّبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرْ اِلٰی طَعَامِکَ وَشَرَابِکَ لَمْ یَتَسَنَّہْ وَانْظُرْ اِلٰی حِمَارِکَ وَلِنَجْعَلَکَ اٰیَةً لِّلنَّاسِ وَانْظُرْ اِلَی الْعِظَامِ کَیْفَ نُنْشِزُھَا ثُمَّ نَکْسُوْھَا لَحْمًا فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَہ قَالَ اَعْلَمُ اَنَّ اللہ عَلٰی کُلِّ شَیْ ءٍ قَدِیْرٌ (پ۳ سورت بقرہ ۲۵۹)
یا (کیا آپ نے نہیں دیکھا) مثل اس کے جو گزرا اوپر بستی کے، حالانکہ وہ گری ہوئی تھی اوپر چھتوں کے؟ آپ نے کہا کہ کیسے زندہ کرے گا اس کو اللہ تعالیٰ مرنے کے بعد؟ تو اللہ تعالیٰ نے اسے موت دی (مردہ رکھا) سو برس، پھر اٹھایا اسے، کہا: کتنا ٹھہرا؟ تو کہا ٹھہرا میں ایک دن یا کچھ حصہ دن کا۔ کہا بلکہ ٹھہرے ہو تم سو برس، پس دیکھو تم اپنے کھانے اور پینے کی طرف اب تک بو نہ لایا اور اپنے گدھے کی طرف دیکھو (جس کی ہڈیاں تک سلامت نہیں رہیں) اور تاکہ کریں ہم آپ کو نشانی واسطے لوگوں کے اور دیکھو گدھے (کی ہڈیوں) کی طرف کیسے اٹھاتے ہیں ہم ان کو؟ پھر پہناتے ہیں ہم ان کو گوشت۔ پس جب ان پر معاملہ ظاہر ہوا تو کہا میں جانتا ہوں بے شک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔
بنی اسرائیل بیت المقدس میں آباد تھے جب وہ اپنے گناہوں، نافرمانی، فسق و فجور میں حد سے تجاوز کرگئے اور اپنے نبی کے اطاعت نہ کی تو بخت نصر نے بیت المقدس پر سخت حملہ کیا او رقبضہ کرلیا۔یہ عیسی علیہ السلام سے تقریبا چھ سو سال پہلے کا واقعہ ہے۔ اس کے ساتھ چھ لاکھ علمبردار (جھنڈے اٹھانے والے) تھے اور ہر جھنڈے کے نیچے بے شمار فوج تھی۔ اس نے بیت المقدس کو ویران کر ڈالا۔ توراۃ شریف کے تمام نسخے جلادیے۔ بنی اسرائیل کے تقریباً ایک تہائی لوگوں کو قتل کردیا۔ اور ایک تہائی لوگوں کو شام کے علاقہ میں بہت ذلت سے رکھا۔ اور ایک تہائی کو قیدی بنالیا۔ یعنی بنی اسرائیل کو تین حصوں میں تقسیم کرلیا تھا۔ ان قیدیوں میں حضرت عزیر اور دانیال بھی تھے۔ جو اس وقت بچپن کی عمر میں تھے۔ (از روح البیان)
بہت عرصہ کے بعد جب کچھ لوگ قید سے آزاد ہوئے تو ان آزاد ہونے والوں میں عزیر بھی تھے۔ عزیر علیہ السلام بیت المقدس سے گزرے جو اس وقت برباد ہوچکا تھا آپ ادھر ادھر پھرے لیکن آپ کو کوئی نظر نہ آیا، البتہ باغوں میں مختلف قسم کے درخت پھلوں سے بھر ے ہوئے تھے۔ پھلوں کا کھانے والا کوئی نہ تھا۔ آپ نے کچھ انجیر اور انگور توڑ کر کھائے اور ان کا رس نکال کر پیا اور کچھ انجیر اور انگور توشہ دان میں رکھ لیےا ور کچھ رس بھی اپنے پاس رکھ لیا۔ جب آپ نے ویران آبادی کو دیکھا تو بڑے تعجب سے افسردہ حال میں کہنے لگے: رب اسے پھر زندہ کرے گا؟ اس کی کیسی عظیم قدرت ہوگی؟ سوال رب کی قدرت میں شک کے طور پر نہیں تھا بلکہ اپنے تعجب کا اظہار تھا کہ رب اس بستی والوں کو پھر کیسے زندہ کرے گا؟
اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی قدرت کاملہ پر مطلع کرنا چاہا۔ حضرت عزیر علیہ السلام نے جس گدھے پر سوار تھے اسے باندھا اور اپنے کھانے پینے کے پھل وغیرہ اور انگور کا رس جو نچوڑ کر آپ نے اپنے پاس رکھا ہوا تھا انہیں قریب ہی رکھ کر آپ سوگئے۔ سوئے ہوئے حال میں ہی آپ پر موت کو مسلط کردیا گیا۔ آپ کا گدھا بھی مرگیا یہ واقعہ تقریباً دوپہر سے پہلے کا ہے۔
جس طرح نمرود کے ناک میں مچھر گھس گیا تھا ایسے ہی بخت نصر یعنی شداد کی ناک میں بھی مچھر گھس گیا تھا جس سے وہ مرگیا اس طرح بنی اسرائیل کو آزادی مل گئی تقریباً ستر سال کے بعد فارس کے بادشاہوں میں سے ایک بادشاہ اپنی فوجیں لے کر بیت المقدس پہنچا تو اس نے بیت المقدس کو پہلے سے بھی بہتر طور پر آباد کردیا بنی اسرائیل جو بخت نصر کے مظالم کی وجہ سے ادھر ادھر بکھر گئے تھے۔ پھر بیت المقدس میں آباد ہوگئے۔ تیس سال تک یہ لوگ کافی حد تک بہتر حالت میں آگئے اور ان کی نسل میں بھی اضافہ ہوگیا۔ سو سال کے بعد اللہ تعالیٰ نے عزیر علیہ السلام کو زندہ فرمادیا۔
اتنے عرصہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی قدرت کاملہ سے لوگوں کی نگاہوں سے مخفی رکھا اور آپ کو درندے، پرندے، چرندے وغیرہ بھی اتنا عرصہ نہ دیکھ سکے۔ آپ پر وفات صبح کے وقت دوپہر سے پہلے آئی تھی اور آپ زندہ شام کے وقت ہوئے۔ یہی وجہ تھی کہ جب رب نے آپ سے پوچھا کہ کتنی دیر یہاں ٹھہرے ہو؟ تو آپ نے عرض کیا ایک دن یا اس سے بھی کچھ کم۔ یعنی آپ کا خیال تھا کہ میں آج صبح ہی یہاں لیٹا ہوں اس لیے پہلے آپ نے ایک دن کہا پھر خیال کیا کہ ابھی تو ایک دن بھی مکمل نہیں ہوا بلکہ دن کا کچھ حصہ ٹھہرا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتایا یہاں سو سال ہوچکے ہیں۔
سبحان اللہ مالک الملک کی کتنی عظیم قدرت ہے؟ ایک سو سال عزیر علیہ السلام پر موت طاری رہی جسم مکمل طور پر محفوظ رہا، کھانے پینے کی اشیاء جوں کی توں رہیں، اور آپ کے سامنے رب نے گدھے کو زندہ کرکے اپنی قدرت کا مشاہدہ کرادیا۔ گدھے کی ہڈیوں کو حکم ہوا جو آپس میں آکر مل گئیں۔ آپ کے سامنے ان ہڈیوں پر گوشت چڑھا کر گدھے کو آواز دی۔ اب تم زندہ ہوجاؤ! وہ زندہ ہوگیا۔
یہ سب کچھ آناً فاناً ہوگیا۔ اب آپ زندہ ہوکر شہر میں آئے تو دیکھا شہر تو پہلے سے زیادہ اچھے طریقہ سے آباد ہے۔ بنی اسرائیل کے نئے نئے لوگ بھی ہیں جو آپ کے بعد پیدا ہوئے تھے۔ آپ پر جب موت مسلط ہوئی تھی اس وقت آپ کی عمرچالیس برس تک تھی اور اب بھی وہی چالیس برس تھی۔ شہر سے باہر جب آپ گئے تھے آپ کے بیٹے کی عمر اٹھارہ برس تھی اب اس کی عمر ایک سو اٹھارہ برس تھی۔ بلکہ آپ کے پوتے بھی بوڑھے ہوچکے تھے۔ آپ جب اپنے مکان میں تشریف لائےتو وہاں آپ کی ملاقات ایک بڑھیا سے ہوئی جو آپ کی لونڈی تھی۔ اب اس کی عمر ایک سو بیس سال ہوچکی تھی۔ بڑھاپے کی وجہ سے ٹانگیں کمزور ہوچکی تھیں۔ چلنے سے عاجز ہوچکی تھی۔ بینائی ختم ہوچکی تھی۔
ایک سو سال گزرجانے کی وجہ سے مکانات کے نقشے بدل چکے تھے۔ نئی نئی تعمیرات کی وجہ سے آپ کو اپنے مکان کا صحیح تعین نہیں تھا، یعنی یہ یقین نہیں تھا کہ یہ ہمارا ہی مکان ہے۔ اندازے سے گئے تھے۔ جب آپ نے بڑھیا سے پوچھا کہ عزیر کا یہی مکان ہے؟ تو وہ روزے لگی اور کہنے لگی اتنے عرصہ بعد عزیر کا نام لینے والا کون ہے؟ وہ تو ایک سو سال سے گم ہوچکا ہے۔ آپ نے فرمایا میں ہی عزیر ہوں اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک سو سال مردہ رکھ کر زندہ فرمادیا ہے۔ اس بڑھیا نے کہا کہ اگر تم سچ کہہ رہے ہو تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ مجھے نظر عطا کرے کہ میں تمہیں دیکھ کر پہچان سکوں اور اس لیے بھی کہ اللہ تعالیٰ عزیر کی دعا قبول فرماتا تھا۔ آپ کی دعا کے قبول ہونے کی وجہ سے بھی یقین آجائے گا کہ تم ہی عزیر ہو۔
آپ نے دعا فرمائی تو اسے نظر مل گئی اور اس کی ٹانگیں بھی ٹھیک ہوگئیں۔ وہ چلنے کے قابل ہوگئی اب اس نے آپ کو پہچان لیا آپ کے ساتھ آپ کے بیٹے اور دوسرے اہل خانہ کے پاس لائی کہ عزیر آگئے ہیں سب لوگ سن کر تعجب کر رہے تھے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ عزیر سو سال بعد آگئے ہوں؟ اس بڑھیا نے بتایا کہ تم مجھے نہیں دیکھ رہے کہ مجھے ان کی دعا سے اللہ تعالیٰ نے نظرعطا کی۔ چلنے پھرنے کے قابل بنادیا۔
آپ کے بیٹے نے کہا کہ میرے باپ کے دونوں کندھوں کے درمیان سیاہ بال چاند کی شکل میں تھے جب آپ کے کندھوں کو دیکھا گیا تو اسی طرح بال موجود تھے۔
بخت نصر نے تورایت کے تمام نسخے جلادیے تھے تورایت کسی کو یاد نہ تھی بلکہ پہلی کتب صرف انبیائے کرام کو ہی یاد ہوا کرتی تھیں لوگوں نے کہا کہ اگر تم عزیر ہو تو تورایت سناؤ؟ آپ نے انہیں تمام تورایت لفظ بلفظ لکھوادی، کسی ایک حرف کا بھی فرق نہ آنے دیا۔ اس وقت ایک شخص بولا کہ میں نے دادا سے سنا تھا کہ بخت نصر کے مظالم کی وجہ سے میرے دادا نے تورایت کا ایک نسخہ دفن کردیا تھا۔ حضرت عزیر نے اس نسخے کے دفن کی جگہ کی نشاندہی بھی فرمائی۔ جب وہ نسخہ نکالا گیا تو اس کا مقابلہ اس نسخہ سے کیا گیا جو آپ نے تحریر کرایا تو کسی ایک لفظ کا بھی فرق نہیں پایا گیا۔ لوگوں نے آپ کا یہ معجزہ دیکھ کر آپ کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا کہنا شروع کردیا۔
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَقَالَتِ الْیَھُوْدُ عُزَیْرُ نِ ابْنُ اللہِ
یہودیوں نے کہا عزیر اللہ تعالیٰ کا بیٹا ہے۔
(ماخوذ از روح المعانی، ابوسعود، روح البیان، جمل، خازن، خزائن العرفان)
(تذکرۃ الانبیاء)