حضرت یونس علیہ السلام
حضرت یونس علیہ السلام (تذکرہ / سوانح)
حضرت یونس علیہ السلام
فَلَوْلَا کَانَتْ قَرْیَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَھَا اِیْمَانُھَآ اِلَّا قَوْمَ یُوْنُسَ لَمَّآ اٰمَنُوْا کَشَفْنَا عَنْھُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَمَتَّعْنٰہُمْ اِلٰی حِیْنٍ (پ۱۱، سورۃ یونس ۹۸)
پس کیوں ایسا نہ ہوا کہ کوئی بستی ایمان لاتی تو نفع دیتا اسے اس کا ایمان، (کسی سے ایسا نہ ہوا) سوائے قوم یونس کے، جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے دور کردیا ان سے رسوائی کا عذاب دنیوی زندگی میں اور ہم نے لطف اندوز ہونے دیا انہیں ایک مدت تک۔
حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کے لوگ نینوی علاقہ موصل میں رہتے تھے کفرو شرک بت پرستی میں مبتلا تھے اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام کو ان کے پاس بھیجا آپ نے انہیں ایمان لانے اور بت پرستی چھوڑنے کے متعلق حکم دیا لیکن قوم نے آپ کی تکذیب کی، آپ علیہ السلام نے انہیں اللہ تعالیٰ کے فیصلہ سے آگاہ کیا کہ اگر تم ایمان نہیں لاؤ گے تو ا للہ تعالیٰ کے عذاب میں مبتلا ہوجاؤ گے۔ آپ خود ان لوگوں سے ناراض ہوکر شہر سے باہر چلے گئے، جب انہوں نے حضرت یونس علیہ السلام کو نہ پایا تو بہت خوف میں مبتلا ہوگئے۔ کہا اب عذاب ضرور آئےگا۔
آپ علیہ السلام نے ان کو ایک خاص مدت تک دنیاوی مال و متاع سے نفع حاصل کرنے کی مہلت دی تھی کہ اگر تم ایمان نہیں لاؤ گے تو فلاں وقت تم عذاب میں مبتلا ہوجاؤ گے۔ مہلت کی مدت میں کئی اقوال ہیں:
وہ مدت چالیس دن تھی۔ (تفسیر کبیر)
وہ مدت تین دن تھی۔ (روح المعانی)
تفسیر کبیر کے مطابق جب پینتیس دن گزر گئے تو آسمان پر شدید سیاہ بادل چھاگئے، جن سے بہت زیادہ دھواں نکلنے لگا وہ دھواں شہر تک پہنچ گیا اور اس نے مکانوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اب وہ لوگ سمجھ گئے کہ یونس علیہ السلام نے جس عذاب کے آنے کے متعلق کہا تھا بس وہ آنے ہی والا ہے۔ وہ اتنے شدید خوف میں مبتلا ہوئے کہ ڈر کے مارے شہر کو چھوڑ کر جنگل میں چلے گئے۔
انہوں نے اپنی عورتوں اور بچوں کو جدا کردیا یہاں تک کہ تمام جانوروں اور ان کے بچوں کو بھی جدا جدا کردیا، جبکہ وہ ایک دوسرے سے جدا ہوکر ایک دوسرے کی طرف مشتاق ہونے کی وجہ سے بے قرار ہوگئے، وہ اپنی آوازیں نکالنے لگے۔ ان جانوروں کی دردناک آوازیں زبان حال سے آہ و زار ایک عجیب دردناک منظر پیش کر رہی تھیں۔ وہ سب انسان مرد عورتیں بچے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی عاجزی کا اظہار کر رہے تھے، رو رہے تھے، اور عرض کر رہے تھے کہ:
’’اللہ تعالیٰ ہم تجھ پر اور تیرے نبی یونس علیہ السلام پر ایمان لائے ہیں، ہم اپنے گناہوں کی معافی طلب کر رہے ہیں، اے مولائے کائنات ہمارے گناہ معاف کردے، ہمیں آنےو الے عذاب سے محفوظ رکھ۔‘‘
انہوں نے اگر کسی ایک دسرے پر مظالم کیے ہوئے تھے تو ان کو معاف کرایا اگر کسی کے حقوق غصب کیے ہوئے تھے تو وہ واپس کیے، توبہ کا یہ عالم تھا کہ اگر کسی کی اجازت کے بغیر انہوں نے کوئی پھر اپنے مکانوں کی بنیادوں میں لگایا ہوا تھا تو بنیادیں کھود کر وہ پتھر نکال کر واپس کیا۔ جب انہوں نے ایمان قبول کرلیا، سچے دل سے توبہ کرلی، تو اللہ تعالیٰ کو ان پر رحم آگیا اور ان سے عذاب سے دور کردیا۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر، و روح المعانی)
قوم یونس کی توبہ کی قبولیت کا دن:
وہ دن عاشورا کا دن تھا، یعنی دس محرم الحرام اور جمعہ کا دن تھا وہ اپنے ایک بزرگ عالم کے پاس جاکر پوچھ رہے تھے کہ ہم پر عذاب آنے والا ہے ہم کیا کریں؟ اس نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ تم اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعائیں کرو۔
یا حی حین لا حی ویاحی یا محی الموتی ویاحی لا الہ الا انت اللھم ان ذنوبنا قد عظمت وجلت انت اعظم منھا واجل افعل بان ما انت اھلہ ولا تفعل بنا ما نحن اھلہ
اے اس وقت بھی زندہ رہنے والے جب کوئی زندہ نہیں رہے گا اے ہمیشہ ز ندہ رہنے والے اے مردوں کو زندہ کرنے والے اے ہمیشہ زندہ رہنے والے تیرے بغیر کوئی معبود نہیں۔ اےا للہ! بے شک ہمارے گناہ بہت بڑے ہیں حد سےبڑھ چکے ہیں تو عظیم ہے اور جلیل القدر ہے ہمارے ساتھ وہ سلوک کر جو تیری شان کے لائق ہے (کیونکہ تو رحیم و کریم ہے لہذا شان کریمی کے مطابق ہمارے ساتھ معاملہ فرما) اور ہمارے ساتھ وہ سلوک نہ فرما جس کے ہم حقدار ہیں۔
اعتراض:
’’فرعون‘‘ عذاب کو دیکھ کر ایمان لایا اور توبہ کی، لیکن اس کے ایمان لانے اور توبہ کرنے کو قبول نہیں کیا گیا اور یونس علیہ السلام کی قوم کے ایمان اور ان کی توبہ کو کیوں قبول کیا گیا؟
جواب:
’’ان فرعون انما تاب بعد ان شاھد العذاب واما قوم یونس فانھم تابوا قبل ذالک فانھم لما ظھرت لھم امارات دلت علی قرب العذاب تابوا قبل ان شاھدوا فظھر الفرق۔‘‘
فرعون نے عذاب کو دیکھ کر توبہ کی تھی کیونکہ جب وہ غرق ہونے لگا تھا تو اس نے کہا تھا ’’میں ایمان لاتا ہوں‘‘ لیکن یونس علیہ السلام کی قوم نے عذاب کا مشاہدہ کرنے سے پہلے صرف علامات عذاب کو دیکھ کر ایمان قبول کرلیا تھا اور توبہ کرلی تھی، کہ اب عذاب آنے ہی والا ہے۔ اب فرق واضح ہوگیا کہ فرعون کا ایمان عذاب کے مشاہدہ کرنے پر اور ان کاایمان عذاب کا مشاہدہ کرنے سے پہلے تھا۔
یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں:
حضرت یونس علیہ السلام جب قوم سے ناراض ہوکر چلے گئے اور قوم نے آپ کے پیچھے توبہ کرلی لیکن آپ واپس لوٹ کر نہ آئے، تو آپ اپنے سفر کے دوران دریا کو عبور کرنے کے لیے ایک کشتی پر سوار ہوئے، لیکن کشتی بھنور میں پھنس گئی۔ اس وقت کے دستور اور رواج کے مطابق یہ خیال کیا جاتا تھا کہ جب کوئی غلام اپنے مالک سے بھاگ کر جا رہا ہو اور کشتی میں سوار ہو تو وہ کشتی اس وقت تک کنارے پر نہیں پہنچتی جب تک اس غلام کو کشتی سے اتار نہ لیں۔ اب کشتی کے بھنور میں پھنسنے پر ان لوگوں نے قرعہ ڈالا جو حضرت یونس علیہ السلام کے نام نکلا۔ تین دفعہ قرعہ آپ کے نام ہی نکلا تو آپ نے فرمایا کہ میں ہی غلام ہوں جو اپنے آقا کو چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ آپ علیہ السلام نے خود ہی دریا میں چھلانگ لگالی تاکہ کشتی کے دوسرے لوگ کنارے پر پہنچ جائیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مچھلی کے دل میں القاء کیا اور حکم دیا کہ حضرت یونس علیہ السلام کو نگل لے، لیکن یہ خیال کرنا کہ تمہارا پیٹ ان کے لیے قید خانہ بنایا ہے انہیں تمہارا لقمہ نہیں بنایا، اس لیے انہیں خراش تک نہ آنے دی جائے، ان کو بال برابر بھی نقصان نہ پہنچے۔ اس طرح آپ مچھلی کے پیٹ میں آگئے، یہ آپ پر ایک امتحان تھا اور یار کار یار کو ’’عتاب ‘‘ تھا۔
چند قرآنی الفاظ مبارکہ کی ضروری تشریح:
حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ میں جانے کی وجہ سے ’’ذوالنون‘‘ اور ’’صاحب الحوت‘‘ کہا گیا ہے۔ کیونکہ نون اور حوت دونوں کا معنی مچھلی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَذَ النُّوْنِ اِذْ ذَھَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَیْہِ (پ۱۷، سورۃ انبیاء ۸۷)
اور ذوالنون (کو یاد کرو) جب چلاغصہ میں بھرا تو گمان کیا کہ ہم اس پر تنگی نہ کریں گے۔
یہ ترجمہ اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان رحمہ اللہ تعالیٰ کا ہے۔ اور صحیح بھی یہی ہے جبکہ کئی اور تراجم میں (اَنْ لَنْ نَقْدِرَ عَلَیْہِ ) کا ترجمہ ’’ہم ان پر قابو نہ پاسکیں گے‘‘۔’’ہم اس پر گرفت نہ کریں گے‘‘۔ ’’ہم نہ پکڑ سکیں گے‘‘ اس قسم کے ترجمے غلط اور باطل ہیں۔ میں نے اپنی کتاب ’’تسکین الجنان‘‘ میں کئی تراجم ذکر کیے ہیں۔
علامہ رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جو لوگ انبیائے کرام کو گنہگار ٹھہراتے ہیں کہ ان سے ضرور گناہ سرزد ہوتے ہیں، وہ اس آیت سے اپنی دلیل پیش کرتے ہیں کہ یونس علیہ ا لسلام نے گمان کیا کہ رب مجھے نہیں پکڑ سکے گا۔ یہ کہنا گناہ ہے۔ لہٰذا نبی گناہگار ہوسکتے ہیں۔
علامہ رازی رحمۃ اللہ علیہ ان لوگوں کا رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اگر یہ معنی کیا جائے کہ آپ نے رب کے متعلق یہ گمان کیا کہ ’’رب عاجز ہے مجھے پکڑ نہیں سکے گا‘‘ تو یہ کفر ہے۔ ایسی نسبت تو ایک مومن کی طرف نہیں کرسکتے، تو انبیائے کرام کی طرف کیسے کرسکتے ہیں؟ اس لیے اس بات کی توجیہ ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ اس کا معنی ہو ’’لن نضیق علیہ‘‘ آپ نے گمان کیا کہ ہم ان پر تنگی نہیں کریں گے۔ اس لیے کہ قرآن پاک میں اور مقامات پر بھی اس معنی میں اس لفظ کا استعمال ہے۔
اَللہُ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَاءُ وَیَقْدِرُ
اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہے رزق کشادہ کرتا ہے اور تنگ کرتا ہے (وَمَنْ قدر علیہ) اور جس پر وہ رزق تنگ کردے۔
وَاَمَّا اِذَا مَاابْتَلَاہُ فَقَدَرَ عَلَیْہِ رِزْقُہٗ
لیکن وہ جب انسان کو آزمائش میں مبتلا کرتا ہے اس پر اس کا رزق تنگ کردیتا ہے۔
ایک دن حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو انہوں نے کہا:گزشتہ رات قرآن پاک کی موجوں میں مستغرق رہا، لیکن مجے اس سے خلاصی نہ مل سکی، ہوسکتا ہے آپ میری راہنمائی کردیں، آپ نے پوچھا وہ کیا ہے؟ تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا:
’’یظن نبی اللہ ان لن یقدر اللہ علیہ‘‘
کیا اللہ تعالیٰ کا نبی بھی یہ گمان کرسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے نہیں پکڑ سکے گا۔؟
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا:
’’ھذا من القدر لا من القدرۃ‘‘
یہ لفظ ’’قدر‘‘ سے لیا ہوا ہے۔ ’’قدرۃ‘‘ سے نہیں۔ یعنی اس کا معنی ’’تنگی نہ کرنا‘‘ ہے۔ ’’قدرت نہ رکھنا‘‘ نہیں۔
علامہ رازی کی اس تحقیق کے بعد واضح ہوا کہ حضرت یونس علیہ السلام کو شہر چھوڑ کر ہجرت کرجانے کا حکم اللہ تعالیٰ نے نہیں دیا تھا۔ آپ علیہ السلام اپنے اجتہاد سے تشریف لے گئے تھے۔
خیال یہ کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ اس پر تنگی نہیں فرمائے گا نہ کوئی باز پرس کرے گا۔
وَاِنَّ یُوْنُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِذْ اَبَقَ اِلَی الْفُلْکِ الْمَشْحُوْنِ
اور بے شک یونس پیغمبروں سے ہے جبکہ بھری کشتی کی طرف نکل گیا۔
یہاں بھی کئی مترجمین نے ترجمہ کیا ہے ’’وہ بھاگ گیا‘‘ یہ ترجمہ نبی کی شان کے لائق نہیں بھاگنے کا مقصد ہی نہیں تھا، صرف قوم پر ناراضگی کی وجہ سے آپ چلے گئے اور خیال یہ تھا کہ اب ان پر عذاب آنے کا وقت تو آہی چکا ہے لہٰذا یہاں رہنے کی اب ضرورت نہیں۔ رب تعالیٰ کی طرف سے آزمائش میں صرف اس لیے ڈالا گیا تھا کہ آپ کو رب تعالیٰ کے حکم تک ٹھہرنا چاہیے تھا۔
وَاَرْسَلْنَاہُ اِلٰی مِائَةِاَلْفٍ اَوْ یَزِیْدُوْنَ فَاٰمَنُوْا فَمَتَّعْنٰھُمْ اِلٰی حِیْنٍ
اور ہم نے اسے لاکھ آدمیوں بلکہ زیادہ کی طرف بھیجا تو وہ ایمان لے آئے تو ہم نے انہیں ایک وقت تک برتنے دیا۔
اصل وجہ یار کی طرف سے یار کو عتاب کی صرف یہی تھی کہ اے میرے پیارے تمہیں تو لاکھ آدمیوں سے زائد کی طرف بھیجا گیا تھا، ابھی تو عذاب کے آنےمیں کچھ وقت باقی تھا، تمہیں وہاں رہنا چاہیے تھا، ہوسکتا تھا کہ وہ ایمان لے آئیں جیسا کہ ہوا بھی یہی کہ وہ ایمان لے آئے۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر)
دعا نہ کرتے تو قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں رہتے:
فَسَاھَمَ فَکَانَ مِنَ الْمُدْحَضِیْنَ فَالْتَقَمَہُ الْحُوْتُ وَھُوَ مُلِیْمٌ فَلَوْلَآ اَنَّہٗ کَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِیْنَ لَلَبِثَ فِیْ بَطْنِہٓ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ (پ۲۳ سورۃ صافات ۱۴۱، ۱۴۴)
تو قرعہ ڈالا تو دھکیلے ہوؤں میں ہوا، پھر اسے مچھلی نے نگل لیا، اور وہ اپنے آپ کو ملامت کرتا تھا تو اگر وہ اس تسبیح کرنے والا نہ ہوتا تو ضرور اس کے پیٹ میں رہتا جس دن تک لوگ اٹھائے جائیں گے۔
حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں جانے سے پہلے بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت سے کرتے تھے اور مچھلی کے پیٹ میں بھی اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے رہے تو رب تعالیٰ نے آپ پر رحم فرمایا:
بعض بزرگوں نے کہا ہے:
’’اذکروا اللہ فی الرخا یذکرکم فی الشدۃ‘‘
تم اللہ تعالیٰ کو آسانی میں یاد کرو تاکہ وہ تم پر مصائب و شدائد میں مہربانی فرمائے۔ (ماخوذ از تفسیر کبیر)
یہ ایک حدیث شریف کا ہی معنی ہے اگرچہ الفاظ حدیث شریف کے نہیں۔ حضرت یونس علیہ السلام کو بھی آسائش میں اللہ تعالیٰ کا یاد کرنا کثیر نمازیں ادا کرنا اور مچھلی کے پیٹ میں بھی رب تعالیٰ کو یاد کرنا ہی کام آیا۔
مچھلی کے پیٹ میں آپ کی دعا:
فَنَادٰی فِی الظُّلُمٰتِ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ (پ۱۷ سورۃ انبیاء ۸۷)
تو اندھیروں میں پکارا کوئی معبود نہیں سوا تیرے پاکی ہے تجھ کو بے شک مجھ سے بے جا ہوا۔
ظلمات جمع ذکر کیا، کئی تاریکیاں۔ اس لیے کہ آپ دریا کی تاریکی، رات کی تاریکی اور مچھلی کے پیٹ کی تاریکی میں تھے۔ ان اندھیروں میں آپ نے رب تعالیٰ کے حضور التجاء کی اے اللہ میں جو تیرے حکم کے انتظار سے پہلے آگیا، یہ مجھ سے بے جا ہوا تو ان کلمات سے آپ کی دعا کو قبول کرلیا گیا۔
فائدہ: حدیث شریف میں ہے جو کوئی مصیبت زدہ بارگاہ الٰہی میں ان کلمات سے دعا کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول فرماتا ہے۔ (خزائن العرفان)
مچھلی کے پیٹ سے باہر آنا:
فَاسْتَجَبْنَا لَہ وَ نَجَّیْنٰہُ مِنَ الْغَمِّ وَکَذٰلِکَ نُنْجِی الْمُؤْمِنِیْنَ (پ۱۷ سورۃ انبیاء ۸۸)
تو ہم نے اس کی پکار سن لی، اور اسے غم سے نجات دی، اور ایسی ہی نجات دیں گے مسلمانوں کو۔
یعنی یونس علیہ السلام نے جب اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا اور اظہار عجز کیا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے غم سے نجات عطا فرمائی، اسی طرح اگر مسلمانوں میں سے کسی نے بھی اپنی پریشانیوں کی فریاد رب سے طلب کی، سچے دل سے تائب ہوئے تو اللہ تعالیٰ ان کی فریاد کو بھی قبول کرے گا۔
مچھلی کے پیٹ سے باہر آکر:
فَنَبَذْنٰہُ بِالْعَرَآءِ وَھُوَ سَقِیْمٌ وَاَنْبَتْنَا عَلَیْہِ شَجَرَةً مِّنْ یَّقْطِیْنٍ (پ۲۳ سورۃ صافات ۱۴۵، ۱۴۶)
ہم نے اسے میدان میں ڈال دیا اور وہ بیمار تھا اور ہم نے اس پر کدو کا پیڑ لگایا۔
’’کل شجرۃ لا ساق لھا فھو یقطین‘‘
ہر بیل جس میں تنا ہو اسے یقطین کہا جاتا ہے، لیکن یہاں مراد ’’کدو‘‘ ہے۔
علامہ آلوسی نے تحریر فرمایا:
’’وھو الدباء المعروف وکان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یحبہ‘‘
کہ یہاں مراد دباء ہے اور وہ مشہور و معروف ہے کہ وہ ’’کدو‘‘ ہے جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پسند فرماتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت یونس علیہ السلام پر اس کو اس لیے لگایا کہ آپ پر سایہ کرے اور آپ کو ٹھنڈک پہنچائے اور آپ کو اس کے پتے مس کریں اور اس کے بڑے پتے آپ پر رہیں تاکہ آپ پر مکھیاں نہ بیٹھیں، کیونکہ بیان کیا جاتا ہے کہ کدو کے پتوں پر مکھیاں نہیں بیٹھتیں۔
حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ سے باہر آتے وقت نومولود بچے یا چوزے وغیرہ کی طرح تھے یعنی آپ کا چمڑا بہت نرم و نازک تھا، اس پر کوئی بال وغیرہ نہیں تھے۔ آپ کے لیے مکھیاں باعث تکلیف ہوسکتی تھیں اور سخت چیز کا مس کرنا اور سورج کی گرمی آپ کے لیے تکلیف کا باعث بن سکتی تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی مہربانی سے آپ کو اس کے سایہ سے آرام پہنچایا اور کدو کے پتے اترے ہوئے چمڑے کے لیے بھی مفید ہوتے ہیں اس لیے بھی کد وکاگایا کہ اس کے پتے آپ کے چمڑے کے لیے فائدہ مند ہوسکیں۔
خیال رہے کہ ’’شجرۃ‘‘ اسے کہتے ہیں جس میں تنا ہو اگرچہ کدو کی بیل ہوتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے درخت کی طرح بڑا تنا ور بنادیا تھا، اللہ تعالیٰ نے ایک بکری کو آپ پر مقرر کردیا تھا جو آپ کو دودھ پلاتی تھی، اس طرح پھر آپ کو توانائی جسم کی پختہ جلد اور بال عطا کردیے گئے۔ (روح المعانی)
مچھلی کے پیٹ میں رہنے کی مدت تین دن، سات دن، بیس دن اور ایک ماہ، مختلف اقوال میں بیان کی گئی ہے، لیکن علامہ رازی علامہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
’’لا ادری بای دلیل عینوا ھذہ المقادیر‘‘
مجھے معلوم نہیں کہ کس دلیل سے یہ مدت مقرر ہوئی اس پر کوئی دلیل نہیں۔
(تذکرۃ الانبیاء)