حضرت زکریا علی نبینا
حضرت زکریا علی نبینا (تذکرہ / سوانح)
حضرت زکریا علی نبینا علیہ السلام
حضرت مریم علیہا السلام کے کفیل حضرت زکریا علیہ السلام:
فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُوْلٍ حَسَنٍ وَّ اَنْۢبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًالا وَّ كَفَّلَهَا زَكَرِیَّا كُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْهَا زَكَرِیَّا الْمِحْرَابَلا وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًاج قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰى لَكِ هٰذَا قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ اِنَّ اللّٰهَ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍo (پ ۳ سورت آل عمران ۳۷)
تو اسے اس کے رب نے اچھی طرح قبول کیا۔ اسے اچھا پروان چڑھایا اور اسے زکریا (علیہ السلام) کی نگہبانی میں دیا جب زکریا (علیہ السلام) اس کے پاس اس کی نماز پڑھنے کی جگہ جاتے اس کے پاس نیا رزق پاتے، کہا: اے مریم یہ تیرے پاس کہاں سے آیا؟ بولیں وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے بیشک اللہ تعالیٰ جسے چاہے بے گنتی دے۔
اچھی طرح قبول کرنے کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام اور ان کے بیٹے عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے شیطان سے محفوظ رکھا اور دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ نے اپنی نذر کو پورا کرنے کے لیے انہیں ایک کپڑے میں لپیٹا اور مسجد میں ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے جو علماء اور قراء موجود تھے ان کے حوالے کردیا یہ لوگ بیت المقدس کی خدمت گزاری میں رہتے تھے۔
چونکہ مریم علیہا السلام ان کے امام کی بیٹی تھی اس لیے ہر ایک چاہتا تھا کہ اس کی کفالت کا حق مجھے ملے حضرت زکریا علیہ السلام نے کہا کہ میں حقدار ہوں کیونکہ اس کی خالہ میری زوجیت میں ہے لیکن سب نے کہا کہ نہیں قرعہ ڈالتے ہیں یہ حضرات ستائیس کی تعداد میں تھے سب نے اپنے اپنے قلم ایک کپڑے کے نیچے رکھے اور ایک نابالغ بچے کو کہا گیا کہ کپڑے کے نیچے ہاتھ ڈال کر ایک قلم نکال لو اس نے جو قلم نکالا وہ حضرت زکریا علیہ السلام کا تھا پھر سب کہنے لگے کہ ایک مرتبہ اور قرعہ ڈالتے ہیں اب سب نہراردن کی طرف چلے کہ اپنے اپنے قلم نہر میں ڈالتے ہیں جس کا قلم الٹا تیرا یعنی پانی کے آنے کی طرف اس کا رخ ہوا وہ کامیاب ہوگیا یہ قرعہ بھی حضرت زکریا علیہ السلام کے حق میں ہی نکلا کیونکہ آپ کا قلم ہی الٹا تیرا۔
پھر سب کہنے لگے کہ ایک مرتبہ اور قرعہ ڈالتے ہیں اب جس کا قلم سیدھے رخ کی طرف چلا وہ کامیاب ہوگا تیسری مرتبہ میں بھی حضرت زکریا علیہ السلام کو ہی کامیابی حاصل ہوگئی آپ کا قلم ہی پانی کے بہاؤ کے رخ کی طرف چلا قرعہ میں کامیابی پر آپ نے کفالت کی ذمہ داری سنبھال لی۔
’’ وَّ اَنْۢبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا‘‘ اور اسے اچھا پروان چڑھایا جوان ہونے تک۔
ایک دن میں آپ اتنی بڑی ہوجاتیں جتنا دوسرے بچے ایک سال میں بڑے ہوتے ہیں اسی طرح آپ کو نیکی، پاک دامنی، سیدھی راہ پر چلنے اور اطاعت میں بھی بلند و بالا مقام عطا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی اولاد سے حضرت زکریا علیہ السلام کو حضرت مریم علیہا السلام کا کفیل بنا دیا اور مریم علیہا السلام کی دیکھ بھال ہر مصلحت کےکام کی ذمہ داری ان کے سپرد کردی۔
’’ كُلَّمَا دَخَلَ عَلَیْهَا زَكَرِیَّا الْمِحْرَابَ‘‘ جب زکریا اس کے پاس نماز پڑھنے کی جگہ جاتے۔
اس وقت محراب کا اطلاق مساجد پر ہوتا تھا یہاں مراد وہ کمرہ ہے جس میں مریم علیہا السلام کو ٹھہرایا گیا تھا اس کا دروازہ دیوار کے درمیان تھا اس کمرہ میں جانے کے لیے سیڑھی کو استعمال کیا جاتا تھا خیال رہے کہ آج کل مساجد میں جو محراب بنائے جاتے ہیں ان کی ابتداء نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے نہیں ہوئی بلکہ یہ عمر بن عبد العزیز کے زمانے سے شروع ہوئی۔
’’ وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًا‘‘ اس کے پاس نیا رزق پاتے۔
حضرت زکریا علیہ السلام جب اس کے کمرے سے نکل کر آتے تو اس کے ساتھ دروازے بند کر کے تالے لگا کر آتے کوئی اور شخص وہاں داخل نہیں ہوسکتا تھا لیکن آپ جب بھی کمرے میں آتے تو دیکھے کہ مریم علیہا السلام کے پاس گرمیوں کے پھل سردیوں میں اور سردیوں کے گرمیوں میں موجود ہوتے۔
’’ قَالَ یٰمَرْیَمُ اَنّٰى لَكِ هٰذَا‘‘ کہا اے مریم یہ تیرے پاس کہاں سے آیا؟
یہ سوال حضرت زکریا علیہ السلام کا تعجب کی وجہ سے تھا خیال رہے کہ حضرت مریم علیہا السلام کے پاس بے موسم پھلوں کا آنا یہ آپ کی کرامت ہے۔
’’واستدل بالآیۃ علی جواز الکرامۃ للاولیاء لان مریم علیھا السلام لا نبوۃ لھا‘‘
اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ اولیاء کرام کی کرامات برحق ہیں کیونکہ حضرت مریم علیہا السلام کو نبوت حاصل نہیں ہوئی۔
’’ قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللّٰهِ‘‘ انہوں نے کہا وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔
حضرت زکریا علیہ السلام کے پوچھنے پر حضرت مریم علیہا السلام نے یہ جواب دیا کہ جنتی رزق ہے جو کسی انسان کے واسطہ کے بغیر مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہے حضرت مریم علیہا السلام کا یہ کلام بچپن میں ہے کہ یعنی اس عمر میں جس میں عام بچے کلام نہیں کرتے یاکہ کچھ بڑی عمر میں علماء کے مختلف اقوال ہیں۔ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ کلام بچپن میں ہے آپ نے ایک نظم میں ذکر کیا ہے کہ گیارہ شخصوں نے بچپن میں کلام کیا ہے۔
تکلم فی المھد النبی (محمد)ﷺ
(ویحییٰ وعیسیٰ والخلیل والمریم)
ومبری (جریج) ثم (شاھد یوسف)
(وطفل الذی الاخدود) یرویہ مسلم
(وطفل) علیہ مر بالامۃ التی
بقال لھا ترنی ولا تتکلم
وما شطۃ فی عھد فرعون (طفلھا)
وفی زمن الھادی (المبارک) یختم
۱۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم۔ ۲۔ یحییٰ علیہ السلام۔
۳۔ ابراہیم علیہ السلام۔ ۴۔ مریم علیہ السلام۔
۵۔ جریج سے تہمت زائل کرنے والے نے بچپن میں کلام کیا۔
۶۔ یوسف علیہ السلام سے تہمت زائل کرنے والے نے بچپن میں کلام کیا۔
۷۔ اصحاب اخدود میں ایک بچے نے ماں کو کہا کہ تم اپنے دین پر قائم رہو۔
۸۔ ایک عورت پر تہمت لگا رہے تھے تو وہ خاموش تھی ایک عورت نے اسے دیکھ کر کہا میرے بچے کو اللہ تعالیٰ ایسے نہ بنانا، تو بچے نے کہا اے اللہ تعالیٰ مجھے ایسا ہی بنانا یعنی یہ عورت بے گناہ ہے۔
۹۔ فرعون نے جب ایک عورت کو ایمان لانے پر عذاب دیا تو اس کے بچے نے دین پر قائم رہنے کی تلقین کی۔
۱۰۔ مبارک نے بچپن میں کلام کیا۔
اِنَّ اللّٰهَ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍo
بیشک اللہ تعالیٰ رزق دیتا ہے جسے چاہے بغیر حساب کے۔
حضرت مریم علیہا السلام نے کہا کہ اپنے بندوں میں اللہ تعالیٰ جسے پسند فرماتا ہے انہیں کسی انسان کے وسیلہ کے بغیر ہی رزق عطا فرماتا ہے جو اپنی وسعت کے پیش نظر بے حساب ہوتا ہے۔ (از روح المعانی و کبیر)
فائدہ:
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چند دن کھانے کے لیے کچھ میسر نہ ہوا یہاں تک کہ بھوک کے غلبہ کی وجہ سے آپ پر معاملہ شاق ہوا (مشکل درپیش آئی) تو آپ نے تمام ازواج مطہرات سے پوچھا کہ کوئی کھانے کی چیز ہے؟ تمام سے جواب ملا کہ کچھ بھی نہیں۔ پھر آپ حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے اور انہیں کہا: اے میری پیاری بیٹی آپ کے پاس کوئی کھانے کی چیز ہے؟ کیونکہ مجھے بہت بھوک لگی ہے۔ انہوں نے عرض کیا: قسم ہے اللہ تعالیٰ کی کچھ بھی نہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے لوٹے ہی تھے کہ ایک پڑوسی عورت نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں دو روٹیاں اور کچھ گوشت پیش کیا۔ آپ نے اسے برتن میں رکھ لیا اور خیال کیا کہ اپنے آپ پر اور دوسرے اپنے گھر کے افراد پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی ترجیح دینی چاہیے، حالانکہ گھر کے سب افراد ہی بھوک میں مبتلا تھے۔ آپ نے حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھیجا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا: آپ پر میں اور میری ماں قربان! اللہ تعالیٰ نے کھانا عطا فرمایا ہے جو میں نے آپ کے لیے چھپا کر رکھ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے میری پیاری بیٹی وہ کھانے کا برتن لے آؤ جب آپ نے برتن سے کپڑے وغیرہ کو ہٹایا تو وہ روٹیوں اور گوشت سے بھرا ہوا تھا۔ جب حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے دیکھا تو حیران ہوئیں۔ پھر سمجھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کھانے میں برکت نازل ہوئی تو اللہ تعالیٰ کی حمد کی اور کھانا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانا دیکھا تو آپ نے بھی اللہ تعالیٰ کی حمد کی اور پوچھا اے میری پیاری بیٹی یہ کھانا کہاں سے آیا تو آپ نے عرض کی اے میرے ابا جان!
’’ھو من عند اللہ إن اللہ یرزق من یشاء بغیر حساب‘‘
یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے بیشک اللہ تعالیٰ رزق دیتا ہے جسے چاہے بغیر حساب کے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر حمد کی اور پھر کہا
’’الحمد اللہ الذی جعلک شبیھۃ سیدۃ نساء بنی اسرائیل‘‘
سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کی جس نے تمہیں بنی اسرائیل کی ایک سردار عورت (مریم) کی طرح بنایا۔
کیونکہ انہیں بھی جب اللہ تعالیٰ نے رزق عطا فرمایا تو ان سے پوچھا گیا کہ رزق تمہارے پاس کہاں سے آیا ہے تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہے بے شک جسے چاہے رزق عطا فرماتا ہے بغیر حساب کے پھر آپ نے حضرت حسن اور حضرت حسین اور حضرت علی رضی اللہ عنہم اور دوسرے اہل بیت کو جمع کیا سب نے سیر ہو کر کھایا اور کھانا اسی طرح موجود تھا جیسے پہلے تھا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے وہ کھانا دوسرے پڑوسی گھروں میں بھی بھیجا۔ (مسند ابی یعلیٰ، روح المعانی)
حدیث پاک سے یہ فائدہ حاصل ہوا کہ نعمت کے حاصل ہونے پر ’’الحمد للہ‘‘ پڑھا جائے۔ اللہ تعالیٰ پر توکل رکھنے والے کو اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ پر اور اپنی اولاد پر والدین کو ترجیح دے۔ اپنے پڑوسیوں کو بھی کھانے وغیرہ کی اشیاء بطور ہدیہ دی جائیں۔ اس سے محبت بڑھتی۔ اس کھانے میں برکت نازل ہونا اور کھانے کا بڑھ جانا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی کرامت ہے۔
اولاد کے لیے حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا:
هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِیَّا رَبَّهٗج قَالَ رَبِّ هَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةًج اِنَّكَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِo (پ ۳ سورۃ آل عمران آیت ۳۸)
یہاں پکارا زکریا نے اپنے رب کو کہا اے میرے رب مجھے اپنے پاس سے نیک اولاد عطا فرما بیشک تو ہی ہے سننے والا۔
آپ نے جب دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے مریم علیہا السلام کو بے موسم پھل عطا فرمائے ہیں تو آپ کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ اگرچہ میری عمر بڑھاپے تک پہنچ چکی ہے اور میری زوجہ بھی بانجھ ہے لیکن اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ سے مہربانی فرمادے تو کچھ بعید نہیں تو آپ نے اولاد کی دعا کی۔
جب اللہ تعالیٰ نے لڑکوں کی جگہ لڑکی کو قبول کرلیا تو اس پر بھی خیال آیا کہ بوڑھے کو جوان اور بانجھ کو غیر بانجھ کا مقام عطا فرمادے تو یہ بھی اس کی رحمت کا ہی ایک حصہ ہوگا۔
بیت المقدس کی خدمت کے لیے بڑوں کو قبول کیا جاتا تھا جب ایک مٹھی سی بچی کو قبول کرلیا گیا تو یہ بھی اس دعا کے لیے خیال کا سبب بنا کہ رب تعالیٰ جسے چاہے قبول کر لے جب حضرت مریم علیہا السلام کو اللہ تعالیٰ نے کلام کرنے کی طاقت عطا فرمائی جب بچے نہیں بولتے تو آپ کو خیال آیا کہ بے وقت اولاد عطا کرنا بھی اس کی اسی طرح مہربانی ہوسکتی ہے۔ (روح المعانی)
خیال رہے کہ یہاں یہ مقصد نہیں کہ حضرت زکریا علیہ السلام کو رب تعالیٰ کی قدرت میں پہلے یقین نہیں تھا بلکہ
’’فلما شاھد علم انہ اذا وقع کرامۃ لولی فبان یجوز وقوع معجزۃ لنبی کان اولی فلا جرم قوی طمعہ عند مشاھد تلک الکرامات‘‘
جب آپ نے ولی کی کرامات کا مشاہدہ کیا تو دل کی توجہ اس طرف واضح طور پر ہوگئی کہ نبی کا معجزہ تو اس سے بڑھ کر ہے ان کرامات کے مشاہدہ پر اولاد کی طمع بڑھ گئی توجہ زیادہ ہوگئی عرض کرنے کا خیال آگیا۔
’’ ذُرِّیَّةً طَیِّبَةً‘‘ پاکیزہ اولاد۔
ذریۃ کا معنی نسل، یہ ایک اور جماعت اور مذکر اور مؤنث پر بولا جاتا ہے۔ آپ کی دعا ایک مذکر بچے کے لیے تھی جس کا ذکر انشاء اللہ تعالیٰ آگے آرہا ہے ذریۃ کے لفظ کا اعتبار کرتے ہوئے طیبۃ لفظ مونث لایا گیا دعا مونث کے لیے نہیں بلکہ مذکر کے لیے ہے۔
’’ اِنَّكَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِ‘‘ بے شک تو ہی دعا سننے والا ہے۔
اگرچہ ظاہری طور پر تویہی معنی ہے لیکن حقیقت میں مراد یہ ہے کہ تو ہی دعا قبول کرنے والا ہے اور کسی کو تو رسوا نہیں کرتا، جس طرح نمازی حضرات کہتے ہیں۔
’’سمع اللہ لمن حمدہ‘‘ اس کا حقیقی مطلب بھی یہ ہے۔
’’قبل حمد من حمد من المؤمنین‘‘
مومنوں میں سے جو بھی اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کی حمد قبول کرتا ہے۔ظاہری معنی یہاں بھی حمد کا سننا ہے وہ مراد نہیں۔
حضرت زکریا علیہ السلام کا مخفی دعا کرنا:
كٓهٰیٰعٓصٓo ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهٗ زَكَرِیَّاo اِذْ نَادٰى رَبَّهٗ نِدَآءً خَفِیًّاo قَالَ رَبِّ اِنِّیْ وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّیْ وَ اشْتَعَلَ الرَّاْسُ شَیْبًا وَّ لَمْ اَكُنْۢ بِدُعَآىِٕكَ رَبِّ شَقِیًّاo (پ ۱۶ سورۃ مریم آیت ۱ ۔ ۴)
یہ ذکر ہے تیرے رب تعالیٰ کی اس رحمت کا جو اس نے اپنے بندے زکریا پر کی جب اس نے اپنے رب کو آہستہ پکارا عرض کی اے میرے رب میری ہڈی کمزور ہوگئی اور سر سفید ہوگیا بڑھاپے کی وجہ سے اور اے میرے رب میں تجھے پکار کر کبھی نامراد نہ رہا۔
حضرت زکریا علیہ السلام سلیمان علیہ السلام کی اولاد سے تھے بڑھئی کا کام کرتے تھے آپ کے آباؤ اجداد جو نبی تھے وہ بیت المقدس میں وحی لکھا کرتے تھے۔ آپ کی کوئی اولاد نہ تھی اس لیے رب تعالیٰ سے دعاء کی، آپ نے دعا رات کو یعنی قبولیت کے وقت میں کی دعا مخفی طور پر کی تاکہ ریاکاری سے دور رہے اور اس میں کامل خلوص پایا جائے اور لوگ بھی یہ نہ کہیں کہ یہ بڑھاپے کی عمر میں اولاد کو مانگ رہا ہے اور یہ بھی خیال کیا تھا کہ اس دعا پر میرے موالی مطلع نہ ہوں دعا کرتے ہوئے پہلے اپنے عجز کا اظہار کیا کہ اے میرے اللہ تعالیٰ میرے ہڈی کمزور ہوگئی۔
اعلیٰ حضرت مولنا احمد نے ترجمہ ’’العظم‘‘ کا ہڈی کیا ہے اور دوسرے مترجمین نے ہڈیاں آپ کے ترجمہ پر لوگوں نے اعتراض بھی کیا ہے جس کا ذکر میں نے اپنی کتاب تسکین الجنان فی محاسن کنز الایمان میں کیا ہے حقیقت میں یہی ترجمہ معتبر ہے علامہ آلوسی فرماتے ہیں
’’واسناد ذالک الی العظم لما انہ عماد الدین ودعام الجسد فاذا اصابہ الضعف والر خاوۃ نداعی ماوراء ہ وتساقطت قوتہ‘‘
’’وھن‘‘ (ضعف و کمزوری) کی نسبت ’’العظم‘‘ کی طرف کی کیونکہ یہ صلب (ریڑھ) کی ہڈی ہی بدن کا ستون اور جسم کا ستون ہے جب اسے ضعف اور نرمی پہنچے تو تمام ہڈیوں کو ضعف پہنچتا ہے اور ان کی قوت زائل ہوجاتی ہے۔
’’وافرد علی ما قالہ العلامۃ الزمحشری وارتضاہ کثیر من المحققین لان المفرد ھو الدال علی معنی الجنسیۃ والقصد الی ان ھذا الجنس الذی ھو العمود والقوام واشد ماترکب منہ الجسد قد اصابہ الوھن‘‘ (روح المعانی)
لفظ ’’العظم‘‘ مفرد ذکر کیا ہے علامہ ز محشری اور کثیر محققین نے یہی پسند کیا ہے کہ مفرد معنی جنسیت پر دلالت کر رہا ہے مراد اس سے جنس ہے یعنی وہ جسے بدن میں ستون کی حیثیت حاصل ہوتی ہے اور وہ بدن کا قوام ہے اور اس سے بدن کو قوت حاصل ہے اس میں کمزوری آنے سے تمام بدن میں کمزوری حاصل ہوتی ہے۔
مذکورہ بحث کے بعد اعلیٰ حضرت کے ترجمہ کی فوقیت واضح ہوگئی۔
جب آپ علیہ السلام نے اپنی کمزوری پیرانہ سالی سر کے بالوں کے سفید ہونے کا ذکر کردیا تو عرض کیا میں تیرا وہ بندہ ہوں جسے تو نے عرصۂ دراز سے اپنے لطف و کرم کا خوگر بنادیا ہے، جب کبھی میں نے کوئی سوال کیا تونے رد نہ کیا، جو بھی میں نے مانگا تو نے عطا کیا، تیرے کرم نے ہمیشہ میری آرزوؤں کی لاج رکھی، تیری عنایت نے آج تک مجھے کبھی نا شادو نا مراد نہ کیا، مجھے یقین ہے کہ حسب سابق اس خوگر لطف و عنایت کی التجاء بھی شرف قبول س سرفراز ہوگی۔ (ضیاء القرآن)
بچے کی تمنا کیوں؟
وَ اِنِّیْ خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِنْ وَّرَآءِیْ وَ كَانَتِ امْرَاَتِیْ عَاقِرًا فَهَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ وَلِیًّاo یَّرِثُنِیْ وَ یَرِثُ مِنْ اٰلِ یَعْقُوْبَ وَ اجْعَلْهُ رَبِّ رَضِیًّاo (پ ۱۶ سورۃ مریم آیت ۵ ۔ ۶)
اور مجھے اپنے بعد اپنے قربت داروں کا ڈر ہے اور میری عورت بانجھ ہے تو مجھے اپنے پاس سے کوئی ایسادے دے جو میرا کام اٹھالے اور وہ میرا جانشین ہو اور اولاد یعقوب کا وارث ہو اور اے میرے رب اسے پسندیدہ کر۔
موالی جمع ہے مولی کی۔ اس کے کئی معنی ہیں: مددگار، مالک، صاحب، چچازاد، غلام، رشتہ دار۔ یہاں مراد قرابت دار رشتہ دار ہیں۔ آپ علیہ السلام نے عرض کیا: اے اللہ تعالیٰ! مجھے اپنے رشتہ داروں پر خوف ہے کہ وہ دین کے امور کو کامل طور پر سر انجام نہیں دے سکیں گے۔ دین میں فساد پھیلائیں گے۔ اس لیے تو مجھے بچہ عطا فرما جسے منصب نبوت پر فائز کردے، تاکہ وہ امور دین کی حفاظت کر سکے۔ اسے میرے علم اور نبوت کا میرا اور اولاد یعقوب میں سے انبیائے کرام علیہم السلام کا جانشین بنا۔ یہاں وراثت سے مراد مال و دولت نہیں بلکہ علم اور نبوت ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’نحن معشر الانبیاء لانورث ماترکنا صدقۃ‘‘
ہم انبیائے کرام علیہم السلام کی جماعت کا کوئی وارث نہیں بنایا جاتا ہم جو مال بھی چھوڑ کر جائیں وہ صدقہ ہوتا ہے اور آپ نے فرمایا:
’’العلماء ورثۃ الانبیاء لم یورثوا دینارا ولا درھما وانما ورثوا العلم‘‘
’’علماء‘‘ انبیائے کرام علیہم السلام کے وارث ہوتے ہیں بے شک انبیائے کرام علیہم السلام کا کوئی وارث دراہم و دنانیر کا نہیں ہوتا بلکہ ان کے علم کے وارث ہوتے ہیں۔ (ازکبیر)
حضرت زکریا علیہ السلام کو بیٹے کی بشارت:
فَنَادَتْهُ الْمَلٰٓىِٕكَةُ وَ هُوَ قَآىِٕمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِلا اَنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكَ بِیَحْیٰى مُصَدِّقًۢا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ سَیِّدًا وَّ حَصُوْرًا وَّ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَo (پ ۳ سورۃ آل عمران آیت ۳۹)
فرشتوں نے اسے آواز دی اور وہ اپنی نماز کی جگہ کھڑا نماز پڑھ رہا تھا بے شک اللہ تعالیٰ آپ کو مژدہ دیتا ہے یحییٰ علیہ السلام کا جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک کلمہ کی تصدیق کرے گا سردار اور ہمیشہ کے لیے عورتوں سے بچنے والا اور نبی ہمارے خالص بندوں میں سے۔
ملائکہ سے مراد جبرائیل علیہ السلام ہیں یعنی یہ خوشخبری دینے والے جبرائیل علیہ السلام ہیں ذکر جمع کا صیغہ ہے مراد مفرد ہے جیسا کہ
اَلَّذِیْنَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ اِیْمَانًاo (پ ۴ سورہ آل عمران آیت ۱۷۳)
وہ جن سے لوگوں نے کہا کہ لوگوں نے تمہارے لیے جتھا جوڑا ہے تو ان سے ڈرو تو ان کا یمان اور زائد ہوا۔
..... میں پہلے الناس سے مراد نعیم بن مسعود اشجعی اور دوسرے لوگوں سے مراد ابوسفیان ہے۔ یعنی ذکر الناس کیا گیا ہے جس کا معنی ’’لوگوں‘‘ ہے۔ لیکن مراد دونوں جگہ ایک ایک شخص ہے (یہاں واقعہ بیان کرنا مقصود نہیں) آپ کو بشارت دینے کے لیے جب جبرائیل علیہ السلام آئے تو آپ اپنی نماز پڑھنے کی جگہ نماز پڑھ رہے تھے۔
’’فی المحراب ای فی المسجد اوفی موقف الامام منہ اوفی غرفۃ مریم‘‘
محراب سے مراد مسجد یا امام مسجد کے کھڑے ہونے کی جگہ (آج کل کے محراب کی طرح اس وقت محراب نہ ہوتے تھے) یا حضرت مریم علیہا السلام کے رہنے والا اونچا کمرہ۔ (اعلیٰ حضرت کا ترجمہ کنز الایمان ان سب کو شامل ہے)
آپ کو جس بیٹے کی بشارت دی گئی اس کے چند اوصاف بھی ذکر کیے گئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کلمہ کی تصدیق کرنے والا ہوگا۔ یہاں کلمہ سے مراد عیسیٰ علیہ السلام ہیں حضرت یحییٰ علیہ السلام عیسیٰ علیہ السلام سے چھ ماہ بڑے ہیں۔ سب سے پہلے آپ ہی اسے تسلیم کرنے والے اور اس کی تصدیق کرنے والے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کلمۃ اللہ اور روح اللہ ہیں۔ ایک مرتبہ حضرت مریم علیہا السلام نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کی والدہ سے ملاقات کی جوان کی خالہ ہیں تو انہوں نے کہا کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں حاملہ ہوں تو مریم علیہا السلام نے کہا:
’’وانا ایضا حبلی‘‘ اور میں بھی حاملہ ہوں۔
تو حضرت زکریا علیہ السلام کی زوجہ نے کہا:
’’فانی وجدت مافی بطنی یسجد لما فی بطنک‘‘
جو تمہارے پیٹ میں بچہ ہے میں نے اسی اپنے پیٹ والے بچے کو سجدہ کرتے ہوئے پایا۔
یعنی میرا بچہ تمہارے بچے کو سجدہ کرتا ہے یہ واقعہ خواب کا ہے یا کشف کا اس پر دلالت کر رہا ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام نے سب سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تصدیق کی۔
’’وسیدا‘‘ آپ کو اللہ تعالیٰ نے سردار بنایا سید کے مختلف معانی ہیں حلیم یعنی برد بار مومنین کا سردار دینی امور میں رئیس یعنی علم حلم عبادت تقوی میں اسے سرداری حاصل ہو اللہ تعالیٰ کے ہاں مکرم فقیہ عالم جس شخص پر غضب غالب نہ آسکے لوگ جس کی طرف اپنی حاجات اور مصائب و آلام میں رجوع کریں اور وہ ان کی حاجات کو پورے کرے حسن اخلاق کا مالک، شریف، اللہ تعالیٰ کی قضا پر رضا مندی کا اظہار کرنے والا، متوکل، عظیم الہمت، وہ کسی پر حسد نہ کرے، ہر بھلائی کےکام میں اپنے ہم زمان لوگوں پر فوقیت رکھنے والا۔
’’وحصورا‘‘ اور آپ کو اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ عورتوں سے بچنے والا ایک وصف عطا فرمایا حصور کا معنی ہے کہ اپنے نفس کو زیادہ سے زیادہ روکنے والا یعنی زاہد اور تقوی کی وجہ سے آپ کو عورتوں کی طرف رغبت ہی نہیں ہوتی تھی اس شریعت میں اللہ تعالیٰ کی طرف زیادہ راغب رہنا اور نکاح نہ کرنا افضل تھا ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت میں نکاح کرنا سنت ہے ونبیا: اور آپ کو اللہ تعالیٰ نے نبی بنایا خیال رہے کہ آپ کو رب تعالیٰ نے سیادت عطا فرمائی اس میں دوچیزوں کی طرف اشارہ ہے کہ یہ کہ آپ کو مخلوق کی بہتری مصلحت اور تعلیم دین کی قدرت عطا فرمائی اور دوسری مخلوق کو ادب سکھانے امر بالمعروف نہی عن المنکر کی طاقت عطا فرمائی اور آپ کو حصور بنایا یعنی آپ کو کامل زہد و تقوی عطا فرمایا سیادت اور زہد اور تقوی کے اجتماع کے بعد نبوت عطا فرمائی ان دونوں چیزوں کے بعد اعلی مقام نبوت کا ہی ہے۔
حضرت یحییٰ علیہ السلام کا نام اللہ تعالیٰ نے خود رکھا:
یٰزَكَرِیَّآ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمِ نِ اسْمُهٗ یَحْیٰى لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّاo (پ ۱۶ سورۃ مریم آیت ۷)
اے زکریا ہم تجھے خوشی سناتے ہیں کہ ایک لڑکے کی جس کا نام یحییٰ ہے اس کے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی نہ کیا۔
ہر بچے کا نام اس کے والدین رکھتے ہیں اور وہ بھی پیدائش کے بعد حضرت یحییٰ علیہ السلام کی پیدائش سے پہلے آپ کا نام رب تعالیٰ نے رکھا اور وہ بھی ایسا نام کہ آپ سے پہلے یہ نام کسی شخص کا بھی نہیں تھا۔
خیال رہے کہ ’’سمیا‘‘ کا ایک معنی نظیر مثل بھی ہے یعنی ہم نے آپ سے پہلے کوئی شخص آپ کی مثل نہیں بنایا آپ کی عظیم تر زہدو تقوی حاصل ہوا۔ (از کبیر)
آپ کا نام یحییٰ علیہ السلام کیوں رکھا:
حقیقت تو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے اور بعض اوقات اسماء یا القاب میں ماخذ اشفاق کا کوئی خاص اعتبار نہیں کیا جاتا، لیکن مفسرین کرام نے بعض و جوہ بیان کی ہیں اصل معنی زندہ کرنا ہے اسی مناسبت سے نام میں وجوہ مذکور ہیں:
۱۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ذریعے ان کی والدہ کے بانجھ پن کو زندگی عطا فرمائی۔
۲۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے بے شک اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل کو ایمان و طاعت عطا کر کے زندہ فرمایا اللہ تعالیٰ نے مطیع کو زندہ کہا ہے اور عاصی (نافرمان) کو مردہ رب تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے۔
’’اَوَ مَنْ كَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰهُ‘‘ اور کیا مردہ تھا تو ہم نے اسے زندہ کیا۔
یعنی کافر کو ایمان عطا کیا عاصی کو مطیع بنایا۔
۳۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے نافرمانی اور نافرمانی کے ارادہ سے دور رکھ کر طاعت کی زندگی سے سرفراز کیا کیونکہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے گناہوں عصیان کے ارادہ سے بھی دور رکھا۔
۴۔ آپ کو شہادت کی زندگی عطا فرمائی کیونکہ شہداء اللہ تعالیٰ کے ہاں زندہ ہوتے ہیں رب تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے۔
’’ بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ‘‘ بلکہ وہ اپنے رب کے ہاں زندہ ہیں۔
۵۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام نے سب سے پہلے عیسیٰ علیہ السلام کو کلمۃ اللہ اور روح اللہ تسلیم کیا تو اس ایمان کی وجہ سے آپ کے دل کو زندگی حاصل ہوئی۔
۶۔ دین کو آپ کے ذریعے زندہ رکھا کیونکہ حضرت زکریا علیہ السلام نے دین کے قیام کے لیے ہی تو آپ کے لیے دعا کی تھی۔ (از کبیر)
حضرت زکریا علیہ السلام کو بیٹے کی بشارت پر تعجب ہوا:
قَالَ رَبِّ اَنّٰى یَكُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّ قَدْ بَلَغَنِیَ الْكِبَرُ وَ امْرَاَتِیْ عَاقِرٌ قَالَ كَذٰلِكَ اللّٰهُ یَفْعَلُ مَا یَشَآءُo قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِّیْٓ اٰیَةً قَالَ اٰیَتُكَ اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَةَ اَیَّامٍ اِلَّا رَمْزًا وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ كَثِیْرًا وَّ سَبِّحْ بِالْعَشِیِّ وَ الْاِبْكَارِo (پ ۳ سورۃ آل عمران آیت ۴۰ ۔ ۴۱)
عرض کی اے میرے رب میرا لڑکا کہاں سے ہوگا؟ مجھے تو پہنچ گیا بڑھاپا اور میری عورت بانجھ ہے۔ فرمایا: اللہ تعالیٰ یونہی کرتا ہے جو چاہے۔ عرض کی اے میرے رب میرے لیے کوئی نشانی کردے۔ فرمایا: تیری نشانی یہ ہے کہ تین دن تو لوگوں سے بات نہ کرے مگر اشارہ سے اور اپنے رب کو بہت یاد کر صبح شام اس کی پاکیزگی بیان کر۔
آپ کو جب بشارت دی گئی اس وقت آپ کی عمر ایک سو بیس سال اور آپ کی زوجہ کی عمر نوے سال تھی، یہی قول زیادہ معتبر ہے اگرچہ اور اقوال بھی ہیں۔ آپ نے بیٹے کے لیے دعاء بھی کی تھی اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کا مشاہدہ کر چکے تھے نبی کو رب تعالیٰ کی قدرت میں کبھی کو شک نہیں ہوسکتا پھر اس سوال کا کیا مطلب ہوسکتا ہے اے میرے رب میرا لڑکا کہاں سے ہوگا؟ اس سوال کا جواب علامہ آلوسی ان الفاظ میں دیتے ہیں:
’’ذالک علی سبیل الاستعظام لقدرۃ اللہ تعالیٰ والتعجب الذی یحصل للانسان عند ظھور ایۃ عظیمۃ‘‘
آپ کا یہ سوال اللہ تعالیٰ کی قدرت کو عظیم سمجھتے ہوئے اور اس پر بطور تعجب تھا یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ جب اسے کوئی بڑی نشانی حاصل ہو تو وہ تعجب کرتے ہوئے کہتا ہے ایسا بھی ہوجائے گا؟ انسانی سوچ سے بلند چیز کا حصول یقیناً متعجب کرتا ہے۔
رب تعالیٰ نے جواب دیا:
’’کذالک اللہ یفعل مایشآء‘‘ یونہی اللہ تعالیٰ جو چاہے کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی قدرت سے عجیب افعال کا وقوع پذیر ہونا اور عادت کے خلاف عجیب عجیب کام ہوئے بعید نہیں بڑھاپے کے حال میں اولاد عطا کرنا بھی اس کی قدرت سے باہر نہیں۔
دوسرے مقام پر اسی سوال کا جواب ان الفاظ سے دیا:
قَالَ كَذٰلِكَج قَالَ رَبُّكَ هُوَ عَلَیَّ هَیِّنٌ وَّ قَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ قَبْلُ وَ لَمْ تَكُ شَیْئًاo (پ ۱۶ سورہ مریم آیت ۹)
فرمایا ایسا ہی ہے تیرے رب نے فرمایا وہ مجھے آسان ہے اور میں نے تو اس سے پہلے تجھے اس وقت بنایا جب تو کچھ نہ تھا۔
رب تعالیٰ جب کسی کام کا ارادہ فرماتا ہے تو کن کہتا ہے تو وہ کام ہوجاتا ہے بلکہ صرف ارادہ کرنا بھی کسی کام کے معرض وجود میں آنے کے لیے کافی ہے جو رب تعالیٰ تمہیں عدم سے وجود میں لایا وہ تمہیں اولاد بھی عطا فرمادے گا اس میں تعجب کرنے حیران ہونے کی ضرورت نہیں اور یہ سوچنے کی ضرورت بھی نہیں کہ تمہیں اولاد بڑھاپے کے حال میں ہی عطا کرے گا یا تمہیں جوان کر کے اولاد عطا کرے گا اس کی قدرت سے کوئی بعید نہیں کہ تمہیں تمہارے اپنے حال پر رکھتے ہوئے صاحب اولاد کردے کیونکہ وہ تمہیں نیستی سے ہستی میں لایا اور جہاں تمہاری ذات موجود ہوئی وہاں تمہیں صفات بھی عطا ہوئیں۔ (ازکبیر)
نشانی طلب کرنے کی وجہ:
آپ نے عرض کیا اے اللہ تعالیٰ مجھے کوئی ایسی علامات بتا کہ جن سے مجھے نطفہ کے قرار پکڑنے سے ہی پتہ چل جائے تاکہ میں تیری اس نعمت کے شکر بجا لانے میں تاخیر نہ کروں اور مجھے جلدی ہی سرور بھی حاصل ہوجائے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم تین دن تک کلام نہ کرسکو گے سوائے اشارہ کے البتہ اللہ تعالیٰ کا ذکر اور تسبیحات نماز پڑھ سکو گے یعنی زبان صحیح ہوگی قدرتی طور پر لوگوں سے کلام کی طاقت نہ ہوگی اسی لیے رب تعالیٰ نے فرمایا:
اٰیَتُكَ اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَ لَیَالٍ سَوِیًّاo (پ ۱۶ سورہ مریم آیت ۱) (آیت ۱۰)
تیری نشانی یہ ہے کہ تو تین دن لوگوں سے کلام نہ کرے بھلا چنگا ہوکر۔
’’خص ذالک بالتکلم مع الناس وھذا یدل بطریق المفھوم انہ کان قادر علی التکلم مع غیر الناس‘‘
لوگوں کے ساتھ کلام نہ کرسکنے کا ذکر کر کے واضح کردیا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کے ذکر کرنے کی طاقت رہے گی۔
’’ایتک ان لا تکلم الناس فی ھذہ المدۃ مع کونک سویا لم یحدث بک مرض‘‘
تم بالکل صحیح ہوگے زبان میں کوئی نقص، بیماری نہ ہوگی، چنگے بھلے ہونے کے باوجود قدرتی طور پر لوگوں سے کلام نہیں کرسکو گے، بس یہی تمہارے لیے نشانی ہے۔ تم سمجھ لینا اب نطفہ قرار پا چکا ہے۔ (ازکبیر)
فَخَرَجَ عَلٰى قَوْمِهٖ مِنَ الْمِحْرَابِ فَاَوْحٰٓى اِلَیْهِمْ اَنْ سَبِّحُوْا بُكْرَةً وَّ عَشِیًّاo (پ ۱۶، ع ۴ سورت مریم)
تو اپنی قوم پر مسجد سے باہر آیا تو انہیں اشارہ سے کہا کہ صبح شام تسبیح کرتے رہو۔
جب آپ کو لوگوں سے کلام کرنے کی طاقت نہ رہی آپ نے انہیں اشارہ سے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی صبح و شام تسبیح کرتے رہو اس کیفیت سے آپ کو پتہ چلا گیا کہ آپ کی بیوی حاملہ ہوچکی ہے۔
یحییٰ علیہ السلام کا منصب نبوت پر فائز ہونا:
یٰیَحْیٰى خُذِ الْكِتٰبَ بِقُوَّةٍ وَ اٰتَیْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِیًّاo (پ ۱۶ سورہ مریم آیت ۱۲)
اے یحییٰ کتاب مضبوط تھام اور ہم نےا سے پچپن میں ہی نبوت دی۔
اللہ تعالیٰ نے فرشتہ کے ذریعے آپ کو یہ حکم دیا یہاں جس کتاب کا حکم دیا جا رہا ہے اس سے مراد تورات ہے کیونکہ علیحدہ کوئی مستقل کتاب نہیں عطا کی گئی حکم دیا گیا کہ تورات پر لوگوں کو عمل کرائیں۔ ابو نعیم ابن مردویہ اور دیلمی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت بیان کی ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے سات سال کی عمر میں عقل و فہم وافر مقدار میں عطا فرمائے اور عبادت گزار بنایا ایک اور مرفوع روایت میں ذکر ہے کہ بچپن میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کو لڑکوں نے کہا ہمارے ساتھ کھیلنے کی لیے چلو تو آپ نے فرمایا:
’’اللعب خلقنا اذھبوا نصلی‘‘ کیا ہمیں کھیلنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے چلو ہم نماز پڑھیں۔
’’وَ اٰتَیْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِیًّا‘‘ یہاں الحکم سے کیا مراد ہے اس میں مختلف اقوال ہیں: حکمت، عقل، معرفت آداب، خدمت، فراست، صادقہ۔
’’وقبل النبوۃ علیہ کثیر‘‘ بعض نے کہا اس سے مراد نبوت ہے یہی اکثر اہل علم کا قول ہے۔
یحییٰ علیہ السلام پر رب تعالیٰ کے انعامات:
وَّ حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ زَكٰوةًؕ وَ كَانَ تَقِیًّاo وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَیْهِ وَ لَمْ یَكُنْ جَبَّارًا عَصِیًّاo وَ سَلٰمٌ عَلَیْهِ یَوْمَ وُلِدَ وَ یَوْمَ یَمُوْتُ وَ یَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّاo (پ ۱۶ سورہ مریم ۱۳ ۔ ۱۵)
نیز عطا فرمائی دل کی نرمی اپنی جانب سے اور نفس کی پاکیزگی اور وہ بڑے پرہیزگار تھے اور خدمت گزار تھے اپنے والدین کے اور وہ جابر اور سرکش نہ تھے اور سلامتی ہو ان پر جس روز وہ پیدا ہوئے اور جس روز وہ انتقال کریں گے اور جس روز انہیں اٹھایا جائے گا زندہ کر کے۔
یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کو بندوں پر مہربان بنایا اور انہیں اچھا بدلہ دینے والا بنایا جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق رب تعالیٰ نے فرمایا:
’’فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْ‘‘ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے آپ ان کے لیے نرم دل ہوئے۔
اور آپ کو نفس کی پاکیزگی عطا فرمائی لیکن دینی احکام میں آپ نرمی نہیں فرماتے جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا:
’’ وَّ لَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ‘‘ اور تمہیں ان (زانی و زانیہ) پر ترس نہ آئے اللہ تعالیٰ کے دین میں۔
یہ معنی بھی ممکن ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام کو لوگوں پر مہربان بنایا اور گناہوں سے دور رکھا۔ نہ انہوں نے کوئی گناہ کیا اور نہ ہی کسی گناہ کا ارادہ کیا اور یہ معنی بھی ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بچپن میں نبوت عطا فرمائی یہ اللہ تعالیٰ کی آپ پر رحمت تھی اور مزید آپ کو نفس کی پاکیزگی عطا کر کے مشرف بنایا۔
’’وبرا بو الدیہ‘‘ اور وہ خدمت گزار تھے اپنے والدین کے۔
’’لا عبادۃ بعد تعظیم اللہ تعالیٰ مثل تعظیم الوالدین‘‘
اور اللہ تعالیٰ کی تعظیم کے بعد والدین کی تعظیم جیسی کوئی اور عبادت نہیں۔
اسی لیے رب تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاo (پ ۱۵ سورہ بنی اسرائیل ۲۳)
آپ کے رب نے حکم دیا ہے کہا اس کے بغیر کسی اور کی عبادت نہ کرو اور والدین سے احسان کرو۔
’’ وَ لَمْ یَكُنْ جَبَّارًا عَصِیًّا‘‘ اور وہ جابر اور سرکش نہ تھے۔
یعنی آپ میں تواضع اور نرم دلی پائی جاتی تھی اور یہی سب سے اعلیٰ وصف ہے۔
رب تعالیٰ نے حضور کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَo (پ ۴ سورہ آل عمران ۱۵۹)
اگر آپ تندو مزاج اور سخت دل ہوتے تو وہ ضرور تمہارے گردے سے پریشان ہو جاتے۔
سب سے اعلی عبادت یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو پہچانے کہ میں گھٹیا ہوں اور ذات باری کو پہچانے کہ وہ عظیم ذات ہے۔
’’ومن عرف نفسہ بالذل و عرف ربہ بالکمال کیف یلیق بہ الترفع والتجبر‘‘
جس شخص نے اپنے آپ کو حقیر سمجھا اور رب کو عظیم اور باکمال سمجھا وہ کبھی تکبر نہیں کرسکتا۔
اللہ تعالیٰ نے یحییٰ علیہ السلام کو پیدائش کے دن شیطان سے محفوظ رکھ کر سلامتی عطا فرمائی اور موت کے دن قبر کے عذاب سے بچا کر آپ کو سلامتی سے سرفراز کیا جائے گا سفیان بن عینیہ فرماتے ہیں کہ مخلوق تین اوقات میں نہایت وحشت میں ہوتی ہے یعنی بہت ہی گھبراہٹ میں مبتلا ہوتی ہے پیدائش کے دن جب شکم مادر سے خروج ہوتا ہے تو انسان کو بہت پریشانی لاحق ہوتی ہے کہ پتہ نہیں اب میرے لیے نیا مقام کیسا ہوگا پھر جب وہ فوت ہوتا ہے تو ایسی قوم کا مشاہدہ کرتا ہے جو اس سے پہلے اس نے کبھی نہیں دیکھی ہوتی یہ حالت بھی اس کے لیے ہیبت ناک ہوتی ہے پھر جب اسے قیامت کو اٹھایا جائے گا تو وہ اپنے آپ کو عظیم محشر میں پائے گا تو اس سے بھی وہ نہایت خوفزدہ ہوگا لیکن حضرت یحییٰ علیہ السلام کو ان تینوں مواقع میں سلامتی کا مژدہ سنادیا گیا کہ تمہیں ان مقامات میں کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوگی۔
فائدہ:
اللہ تعالیٰ نے حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت کا تذکر فرمایا آپ کے اوصاف ذکر فرمائے آپ پر سلام بھیجا بفضلہ تعالیٰ امت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم بھی آپ کے میلاد کو اسی طرح بیان کرتی ہے جو قرآن کے مطابق ہے سبحان اللہ تعالیٰ میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ کیسے ثابت ہے؟ اور رب تعالیٰ کا ارشاد گرامی:
وَ لَلْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰىo (پ ۳۰ سورہ الضحیٰ ۴)
(اور بیشک ہر آنے والی گھڑی کے لیے پہلی سے بہتر ہے۔ .....)
کس آب و تاب سے جگمگا رہا ہے کہ جو لوگ پہلے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لفظ سے الرجک تھے اب وہ بھی ذکر ولادت کانفرنسیں کرنے لگے۔ ’’سیرت سیرت‘‘ کی رٹ لگانے والے شائد ترمذی شریف میں باب میلاد النبی کو نہیں دیکھ سکے تھے؟ پھر مزید لطف کی بات یہ ہے کہ جنہوں نے .....
وَ مَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَo (پ ۱۷ سورۃ الانبیاء ۱۰۷)
میں آپ کی رحمت کو صرف اس جہان کے لیے خاص کردیا تھا وہ بھی ’’رحمۃ للعالمین کانفرنس‘‘ کر کے آپ کو سب جہانوں کے لیے رحمت ماننے لگے۔ ماشاء اللہ اہل سنت و جماعت کے عقیدہ کے مطابق ان لوگوں کا کام کرنا اس بات پر قوی دلیل ہے کہ مسلک اہل سنت ہی حق ہے۔
حضرت یحییٰ علیہ السلام کی شہادت:
جب حضرت یحییٰ علیہ السلام کو نبوت منصب پر فائز کیا گیا تو انہیں کتاب پر پوری تندہی سے عمل کرنے کی تلقین کی گئی۔ آپ کی زندگی بتاتی ہے آپ نے اس حکم خدا وندی کی تعمیل کا حق ادا کردیا ملک کے گوشہ گوشہ میں جاکر دور افتادہ صحراؤں اور دشوار گزار پہاڑوں میں جا جا کر لوگوں کو پیغام حق سنایا اور انہیں گناہوں سے تائب ہونے کی ترغیب دی۔ بے شمار لوگ آپ کی تبلیغ کی برکت سے راہ حق پر آگئے، فسق و فجور کی زندگی کو ترک کر کے انہوں نے زہدو تقوی کو اپنا شعار بنایا۔ قوم کے ہر طبقہ کو آپ نے ان کی کوتاہیوں اور خامیوں پر متنبہ کیا۔
علمائے بنی اسرائیل جو دنیا کی محبت میں اس قدر وارفتہ ہوگئے تھے کہ احکام الٰہی کی تحریف میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے تھے انہیں بڑی سختی سے جھنجھوڑا اور بڑے درشت لہجہ میں انہیں فرمایا:
اسے سانپ کے بچو! تم کو کس نے جتا دیا ہے کہ آنے والے غضب سے بھاگو، پس توبہ کے موافق حل لاؤ اور اپنے دلوں میں یہ کہنے کا خیال نہ کرو کہ ابراھام ہمارا باپ ہے کیونکہ میں تم سے کہتاہوں کہ خدا ان پتھروں سے ابراھام کے لیے اولاد پیدا کرسکتا ہے اور اب درختوں کی جڑ پر کلہاڑا رکھا ہوا ہے پس جو درخت اچھا پھل نہیں لاتا وہ کاٹا اور آگ میں ڈالا جاتا ہے۔ (متی باب ۳ آیت ۷، ۱۰)
آپ کی دعوت کا حلقہ صرف عوام تک محدود نہ تھا بلکہ شاہی دربار بھی آپ کے نعرہ حق سے لرزہ براندام تھا بادشاہ وقت ہیرو دیس نے اپنے بھائی فلپ کی منکوحہ بیوی ہیرودیاس کو اپنے گھر میں ڈال رکھا تھا آپ نے اس کو برملا جا کر کہا اپنے بھائی کی بیوی کو رکھنا تجھ کو روا (جائز) نہیں۔
انجیل مرقس کی چند آیات ملاحظہ فرمائیں:
’’پس ہیردیاس اس سے دشمنی رکھتی تھی اور چاہتی تھی کہ اسے قتل کرائے مگر نہ ہوسکا کیونکہ ہیرو دیس یوحنا کو راست باز اور مقدس آدمی جان کر اس سے ڈرتا اور اسے بچائے رکھتا تھا اور اس کی باتیں سن کر بہت حیران ہوجاتا تھا مگر سنتا خوشی سے تھا اور ایک موقع کے دن جب ہیرو دیس نے اپنی سالگرہ میں اپنے امیروں اور فوجی سرداروں اور گلیل کے رئیسوں کی ضیافت کی اور اسی ہیرو دیاس کی بیٹی اندر آئی اور ناچ کر ہیرودیس اور اس کے مہمانوں کو خوش کیا تو بادشاہ نے اس لڑکی سے کہا جو چاہے مجھ سے مانگ میں تجھے دوں گا اور اس سے قسم کھائی جو تو مجھ سے مانگے گی اپنی آدھی سلطنت تک تجھے دوں گا اور اس نے باہر جا کر اپنی ماں سے کہا کہ میں کیا مانگوں اس نے کہا یوحنا بتپسمہ دینے والے کا سر۔ وہ فی الفور بادشاہ کے پاس جلدی سے اندر آئی اور اس سے عرض کی میں چاہتی ہوں کہ تو یوحنا بتپسمہ دینے والے کا سر ایک تھال میں ابھی مجھے منگوادے بادشاہ بہت غمگین ہوا اور اپنی قسموں اور مہمانوں کے سبب سے انکار نہ کرنا چاہا پس بادشاہ نے فی الفور ایک سپاہی کو حکم دے کر بھیجا کہ اس کا سر لائے اس نے جاکر قید خانہ میں اس کا سر کاٹا اور ایک تھال میں لاکر لڑکی کو دیا اور لڑکی نے اپنی ماں کودیا ‘‘۔ (مرقس باب ۶ آیت ۱۹ ۔ ۲۸)
اس طرح حضرت یحییٰ علیہ السلام نے اپنا سر کٹا کر اپنے رب تعالیٰ کے اس فرمان:
یٰیَحْیٰى خُذِ الْكِتٰبَ بِقُوَّةٍo (پ ۱۶ سورہ مریم آیت ۱۲) (ازضیاء القرآن ج ۳ ص ۷۵ پ ۱۶)
حضرت زکریا علیہ السلام کو بھی شہید کر دیا گیا:
جب حضرت یحیی علیہ السلام کو شہید کر دیا گیا تو حضرت زکریا علیہ السلام نے بادشاہ کے ظلم و ستم سے بچنے کے لیے شہر سے باہر جانے کا رخ کیا۔ بادشاہ نے اسی فاحشہ عورت کے کہنے پر آپ کو پکڑنے کے لیے بھی اپنے سپاہیوں کو بھیجا آپ نے اپنی جان بچانے کے لیے درخت کے تنے میں چھپالیا جو اندر سے خالی تھا۔
’’فوجد فی جوف شجرۃ ففلقوا الشجرۃ معہ فلقتین طولا بمنشار‘‘
آپ کو درخت کے اندر سے خالی تنے میں جب پایا گیا تو ان لوگوں نے درخت کو اوپر سے نیچے آرے سے کاٹ دیا۔
یعنی اس طرح آپ کے جسم کے دو ٹکڑے کر کے آپ کو شہید کردیا گیا۔ خیال رہے کہ جان کی حفاظت کا وعدہ صرف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے رب تعالیٰ نے فرمایا:
’’ وَ اللّٰهُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ‘‘ اور اللہ تعالیٰ آپ کو لوگوں سے بچائے رکھے گا۔
اور دوسرے رسولوں سے جو نصرت کا وعدہ فرمایا اس سے مراد یہ ہے کہ تم اتنے بڑے لوگوں کی مخالفت کے باجود میرے احکامات ان تک پہنچا سکو گے تمہارے دلائل کا وہ کوئی جواب نہیں دے سکیں گے اور تمہارے بدلے میں ان کے کئی آدمیوں کو قتل کرادوں گا جب دوسرے انبیائے کرام علیہم السلام کو لوگوں سے بچائے رکھنے کا وعدہ نہ فرمایا تو ان دو آیتوں میں کوئی تعارض نہیں۔
’’وَ یَقْتُلُوْنَ النَّبِیّٖنَ بِغَیْرِ الْحَقِّ‘‘ وہ (بنی اسرائیل) انبیائے کرام علیہم السلام کو ناحق قتل کرتے۔ (پ ۱ سورۃ بقرۃ ۶۱)
یعنی وہ خود بھی سمجھتے کہ ہم ظلم کر رہے ہیں ہمیں قتل کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا۔
’’اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا‘‘ بیشک ہم اپنے رسولوں کی امداد کرتے ہیں۔
یعنی دلائل و حجت اور ظاہری غلبہ میں۔ (از روح المعانی ج اول ص ۲۷۷)
حضرت مریم علیہا السلام کی فضیلت:
وَ اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓىِٕكَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰىكِ وَ طَهَّرَكِ وَ اصْطَفٰىكِ عَلٰى نِسَآءِ الْعٰلَمِیْنَo یٰمَرْیَمُ اقْنُتِیْ لِرَبِّكِ وَ اسْجُدِیْ وَ ارْكَعِیْ مَعَ الرّٰكِعِیْنَo (پ ۲ سورۃ آل عمران ۴۲ ۔ ۴۳)
اور جب فرشتوں نے کہا اے مریم بیشک اللہ تعالیٰ تجھے چن لیا اور خوب ستھرا کیا اور آج سارے جہاں کو عورتوں سے تجھے پسند کیا اے مریم! اپنے رب کے حضور ادب سے کھڑی ہو اور اس کے لیے سجدہ کر اور رکوع والوں کے ساتھ رکوع کر۔
آیت کریمہ میں ملائکہ کا ذکر ہے لیکن مراد صرف جبرائیل علیہ السلام ہیں کیونکہ سورۃ مریم میں آپ سے کلام کرنا جبرائیل علیہ السلام کا ہی ثابت ہے۔
’’وھذا وان کان عدولا عن الظاھر الا انہ یجب المصیر الیہ‘‘
یہ جمع کے صیغہ سے مفرد والا معنی لینا اگرچہ ظاہر سے عدول ہے مگر اس معنی کی طرف پھیرنا ضروری ہے۔ (کبیر)
حضرت مریم علیہا السلام کے تین وصف بیان کیے گئے ہیں اصطفا، چن لینا۔ التطہیر، پاک ستھرا کرنا اور الا صطفاء علی نساء العالمین، جہاں کی عورتوں پر پسند کرنا۔ پہلی صفت کا مطلب یہ ہے کہ آپ سے پہلے کسی مونث کو بیت المقدس کی خدمت کے لیے اجازت نہیں دی گئی تھی۔ صرف آپ کو ہی اس مقصد کے لیے چن لیا گیا تھا۔ آپ کی والدہ نے آپ کو دودھ نہیں پلایا تھا بلکہ پیدا ہوتے ہی بیت المقدس میں حضرت زکریا علیہ السلام کے سپرد کردیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مریم علیہا السلام کو جنت کے کھانے عطا کر کے خصوصیت عطا کی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی عبادت کے لیے چن لیا اور اسی وجہ سے آپ پر مختلف قسم کی مہربانیاں کیں اور ہدایت سے نوازا اور آپ کی حفاظت کا ذمہ خود اٹھایا۔ آپ کی معیشت کا معاملہ بغیر ظاہری اسباب کے اپنے قبضہ قدرت میں لیا آپ کو ہمیشہ رزق اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل رہا، کسب معیشت کی ضرورت نہ رہی فرشتے کا کلام آپ کو اللہ تعالیٰ نے براہ راست سننے کی توفیق عطا فرمائی جو کسی دوسری عورت کو میسر نہ ہوئی۔
دوسری صفت یعنی آپ کو پاک ستھرا بنایا اس کی بھی چند وجوہ ہیں کفر و معصیت سے آپ کو پاک رکھا اور آپ کو مردوں کے چھونے سے پاک رکھا اور آپ کو حیض سے پاک رکھا کیونکہ بیان کیا جاتا ہے آپ کو حیض نہیں آتا تھا اور آپ کو برے افعال اور بری عادات سے پاک رکھا اور آپ کو یہودیوں کی تہمت جھوٹ اور ان کی چہ میگوئیوں سے بری فرمایا۔ (کبیر)
’’والا ولی الحمل علی العموم ای طھرک من الاقذار الحسیۃ والمعنویۃ والقلبیۃ والقالبیۃ‘‘
بہتر یہ ہے کہ معنی عام ہی مراد لیا جائے یعنی آپ کو حسی اور معنوی اور جسمانی تمام عیوب سے پاک بنایا۔ (روح المعانی)
تیسری صفت آج سارے جہان کی عورتوں پر تجھے پسند کیا، اس مسئلہ میں اہل علم کے مختلف اقوال ہیں کہ حضرت مریم علیہا السلام جہان کی تمام عورتوں کی سردارہیں یا کہ آپ کو حضرت خدیجہ، حضرت عائشہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہن پر فضیلت حاصل نہیں۔
اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے لفظ آج بڑھا کر اپنا مختار قول بیان کردیا کہ حضرت مریم علیہا السلام کو اپنے زمانہ میں تمام عورتوں پر افضلیت حاصل تھی ہر زمانہ میں ہر عورت پر فضیلت حاصل نہیں یہی قول اسی آیت کے تحت محشئی جلالین کا بھی ہے وہ فرماتے ہیں کہ آپ کو بغیر باپ کے عیسیٰ علیہ السلام کا عطا ہونا اگرچہ آپ کی خصوصیت ہے لیکن اس سے یہ لاذم نہیں آتا کہ اس فضیلت کی وجہ سے ان کو مطلقا فضیلت حضرت عائشہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما پر حاصل ہوجائے اگرچہ یہ فضیلت مختصہ ان دونوں کو حاصل نہیں۔
’’لکن فضائلھما کثیرۃ واردۃ فی الاحادیث لا یوجد منھا شیء فی مریم علیھا السلام ففاطمۃ و عائشۃ افضل نساء العالمین من الاولین والاخرین کما ھو مذھب المحققین من العلماء‘‘ (حاشیہ جلالین ص ۵۱)
لیکن ان دونوں کے فضائل کثیر ہیں جو احادیث میں مذکور ہیں وہ فضائل حضرت مریم علیہا السلام کو حاصل نہیں اس لیے فاطمہ اور عائشہ رضی اللہ عنہما کو تمام جہان کی ابتدائے آفرینش سے لے کر قیامت آنے والی تمام عورتوں پر فضیلت حاصل ہے یہی محققین علمائے کرام کا مذہب ہے۔
حضرت مریم علیہا السلام کو نماز ادا کرنے کا حکم دیا تاکہ آپ کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو اور مراتب کی بلندی حاصل ہو سجدہ کا حکم رکوع سے پہلے دیا اس لیے کہ واؤ ترتیب کے لیے نہیں آتی یعنی ذکر کرنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ سجدہ ادا بھی پہلے کیا جائے البتہ پہلے ذکر کرنے کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ نماز کے تمام ارکان میں سے سجدہ افضل ہے اس کی فضیلت کے پیش نظر ذکر پہلے کردیا گیا ہو رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرنے کا حکم دے کر یہ کہا گیا ہے کہ نماز جماعت سے ادا کرو اور اس مسئلہ کی طرف بھی ارشاد کردیا گیا ہے کہ جس شخص نے امام کے ساتھ رکوع میں نماز کو پالیا اسے وہ رکعت مل گئی۔
اعتراض: حضرت مریم علیہا السلام کو جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا حکم کیسے دیا گیا حالانکہ وہ ایک جوان لڑکی تھیں؟
جواب: یہ بھی ممکن ہے کہ آپ اپنے حجرہ میں نماز جماعت سے ادا کرتی ہوں، یہ بھی ممکن ہے کہ آپ باپردہ ہوکر مردوں کی صف سے علیحدہ کھڑے ہوکر نماز ادا کرتی ہوں۔ اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بیت المقدس کے تمام خدام آپ کے اقرباء ہوں یہی وجہ تھی کہ آپ کی کفالت کا ہر شخص تقاضا کر رہا تھا یہ بھی احتمال ہے کہ نماز کے وقت اور عورتیں بھی ضرور ہوتی ہوں تو آپ ان کے ساتھ کھڑے ہوکر نماز ادا کرتی ہوں۔ (ازروح المعانی)
حضرت مریم علیہا السلام کے پاس جبرائیل علیہ السلام کا آنا:
وَ اذْكُرْ فِی الْكِتٰبِ مَرْیَمَم اِذِ انْتَبَذَتْ مِنْ اَهْلِهَا مَكَانًا شَرْقِیًّاo فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِهِمْ حِجَابًا فَاَرْسَلْنَاۤ اِلَیْهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِیًّاo (پ ۱۶ سورہ مریم ۱۶ ۔ ۱۷)
بیان کیجیے کتاب میں مریم علیہا السلام (کاحال) جب وہ الگ ہوگئی اپنے گھر والوں سے ایک مکان میں جو مشرق کی جانب تھا پس بنالیا اس نے لوگوں کی طرف سے ایک پردہ، پھر ہم نے بھیجا اس کی طرف اپنے جبرائیل کو پس وہ ظاہر ہوا اس کے سامنے ایک تندرست انسان کی صورت میں۔
حضرت مریم علیہا السلام نے تمام سے علیحدہ ہوکر بیت المقدس کی شرقی جانب کو اختیار کیا۔
’’لتتخلی ھناک للعبادۃ‘‘ تاکہ عبادت کے لیے آپ کو خلوت حاصل ہوسکے۔
اسی وجہ سے آپ نے علیحدہ پردہ کو بھی اختیار کیا کہ کوئی آپ کی عبادت میں خلل انداز نہ ہوسکے مشرقی جانب کو اختیار کرنا ہوسکتا ہے صرف اتفاق ایسا ہوا ہو کوئی خاص ارادہ نہ ہو۔
’’وکونہ شرقیا کان اتفاقیا‘‘
اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے دل میں القاء کیا ہو کہ مشرقی جانب کو اختیار کرو کیونکہ:
’’وقد علم سبحانہ انہ حان ظھور النور العیسوی منھا فناسب ان یکون ظھور النور المعنوی فی جبھۃ ظھور النور الحسی‘‘
اللہ تعالیٰ نے اپنے علم ازلی ابدی کی وجہ سے مناسب یہی سمجھا کہ یہ نور عیسوی کے ظہور کا وقت ہے اس لیے مناسب یہی ہے کہ نور معنوی کا ظہور نور حسی کے ظہور کے بالکل سامنے ہو۔
جن حضرات کا قول یہ ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام حیض سے پاک تھیں یعنی ان کو حیض نہیں آتا تھا ان کے نزدیک آیت کریمہ کا مقصد یہی ہے جو بیان کیا جا چکا ہے۔ کچھ حضرات کا قول یہ ہے کہ آپ کو حیض آتا تھا آپ مسجد کی خدمت کے لیے وقف تھیں مسجد میں ہی رہتی تھیں لیکن حیض کے دنوں میں اپنی خالہ کے گھر (جو حضرت زکریا علیہ السلام کی زوجہ تھیں) آجاتی تھیں۔ اور جب حیض سے پاک ہوجاتیں تو مسجد میں لوٹ آتی تھیں۔ آپ کو حیض کے بعد غسل خانہ میں جاتے ہوئے ایک شخص نظر آیا جو بڑا وجیہ تھا چمکدار خوبصورت اس کا رنگ تھا اور اس کے گھنگریالے بال تھے یہ جبرائیل علیہ السلام تھے۔ رب تعالیٰ نے فرمایا:
’’فَاَرْسَلْنَآ اِلَیْهَا رُوْحَنَا‘‘
ہم نے اس کی طرف روح الامین (یعنی جبرائیل علیہ السلام) کو بھیجا۔
چونکہ جبرائیل علیہ السلام انبیائے کرام علیہم السلام کے پاس وحی لاتے رہے جو دین کے احیاء کا سبب بنتی رہی اس لیے آپ کو بھی روح کہہ دیا گیا چونکہ آپ بھی بذریعہ وحی احیائے دین کا ذریعہ بنے۔ جبرائیل علیہ السلام آپ کے پاس کامل انسانی شکل میں تھے۔
’’لم یفقد من حسان نعوت الآدمیۃ شیئا‘‘
یعنی انسانی اوصاف سے کوئی بھی آپ میں کمی نظر نہیں آتی تھی بلکہ کامل انسان نظر آتے تھے خیال رہے کہ جبرائیل علیہ السلام کامل بشر نظر آنے کے باوجود بھی نور تھے جبرائیل علیہ السلام حقیقت میں نور اور ظاہر میں بشر تھےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حقیقت میں نور اور ظاہر میں بشر ہوں تو اس میں کون سی مشکل درپیش ہے بات صرف ایمان کی ہے۔ (روح المعانی)
حضرت مریم علیہا السلام کا خوف:
قَالَتْ اِنِّیْٓ اَعُوْذُ بِالرَّحْمٰنِ مِنْكَ اِنْ كُنْتَ تَقِیًّاo (آیت ۱۸ سورہ مریم پارہ ۱۶)
بولی میں تجھ سے رحمٰن کی پناہ مانگتی ہوں اگر تجھے ڈر ہے۔
ایک اجنبی انسان کو دیکھ کر آپ پر خوف طاری ہوگیا کہ معلوم نہیں یہ انسان میرے پاس کہاں سے کس ارادہ سے آگیا؟ فوراً کہا خدا کی پناہ اگر تو متقی شخص ہے رب کا تجھے کوئی خوف ہے تو دور ہوجا میرے پردہ میں خلل اندا نہ بن۔
جبرائیل علیہ السلام کا تسلی دینا:
قَالَ اِنَّمَآ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّكِ لِاَهَبَ لَكِ غُلٰمًا زَكِیًّاo (پ ۱۶ سورت مریم) (آیت ۱۹)
بولا میں تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں کہ میں تجھے ایک ستھرا بیٹا دوں
’’لیزول عنھا ذالک الخوف‘‘
(جبرائیل علیہ السلام کا یہ کہنا کہ میں تمہارے رب کا بھیجا ہوں اس کا مطلب یہ تھا) کہ حضرت مریم علیہا السلام کا خوف زائل ہوجائے۔
یعنی مجھے اللہ تعالیٰ نے تمہارے امور کا مالک بناکر اور تمہاری مصلحت کا ناظر بناکر بھیجا ہے جو تم نے مجھ پر شرکا وہم کیا ہے وہ مجھ سے کبھی توقع نہیں کی جاسکتی۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب حضرت مریم علیہا السلام نے رب کی پناہ طلب کی تو جبرائیل علیہ السلام نے مسکرا کر کہا میں تمہاری قمیص میں پھونک مار کر تمہیں پاکیزہ اور ستھرا بیٹا دینے کے لیے آیا ہوں یعنی ایسا بیٹا عطا کرنے کے لیے جو گناہوں کی آلودگی سے پاک و صاف ہوگا اس کے نیک اعمال میں روز بروز اضافہ ہوتا رہے گا اور مقام نبوت پر فائز ہوگا۔ (از روح المعانی و کبیر)
فائدہ:
حقیقت میں فرزند عطا فرمانے والا اللہ تعالیٰ ہے لیکن جبرائیل علیہ السلام کیونکہ اس عطا کا سبب اور ذریعہ ہے اس لیے بطور مجاز فرزند دینے کی نسبت اپنی طرف کردی اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے اگر کسی نعمت کے ملنے کو اس کے ذریعہ اور واسطہ کی طرف منسوب کیا جائے بشرطیکہ یہ یقین ہو کہ منعم حقیقی اللہ تعالیٰ ہے تو ایسی نسبت درست ہے اس سے انسان مشرک نہیں ہوجاتا جس طرح آج کل بعض متشدد خیال کرتے ہیں۔ (از ضیاء القرآن)
حضرت مریم علیہا السلام کی حیرت اور بڑھ گئی:
قَالَتْ اَنّٰى یَكُوْنُ لِیْ غُلٰمٌ وَّ لَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌ وَّ لَمْ اَكُ بَغِیًّاo (سورہ مریم آیت ۲۰)
بولی میرا لڑکا کیسے ہوگا مجھے تو کسی آدمی نے ہاتھ نہیں لگایا اور نہ ہی میں بدکار ہوں
’’وکانھا علیھا السلام من فرط تعجبھا وغایۃ استبعادھا لم تلتفت الی الوصف فی قول الملک علیہ السلام لاھب لک غلاما زکیا‘‘ (ازروح المعانی)
آپ کو یہ سن کر اتنا زیادہ تعجب ہوا اور آپ نے اسے عقل سے بعید سمجھتے ہوئے یہ کہا میرا بیٹا کیسے ہوگا؟آپ کو حیرانگی کی وجہ سے اس کی طرف توجہ ہی نہیں رہی کہ مجھے ایک فرشتہ کہہ رہا ہے کہ میں تمہیں ایک ستھرا بیٹا دینے کے لیے آیا ہوں۔
آپ نے یہی سمجھا کہ بیٹا تو عام عادت کے مطابق ہی پیدا ہوسکتا ہے یا تو جائز نکاح سے یا بدکاری سے نیز آپ عبادت میں مستغرق ہونے کی وجہ سے اس طرف توجہ ہی نہ کرسکیں کہ رب کی قدرت سے تو کچھ بعید نہیں۔
حضرت جبرائیل علیہ السلام کا جواب:
قَالَ كَذٰلِكِج قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَیَّ هَیِّنٌج وَ لِنَجْعَلَهٗٓ اٰیَةً لِّلنَّاسِ وَ رَحْمَةً مِّنَّاج وَ كَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّاo (آیت ۲۱ سورہ مریم)
کہا یونہی ہے تیرے رب نے فرمایا ہے کہ یہ مجھے آسان اور اس لیے کہ ہم اسے لوگوں کے واسطے نشانی کریں اور اپنی طرف سے ایک رحمت اور اس کام کا فیصلہ کیا جاچکا ہے۔
بغیر باپ کے بیٹے کو پیدا کرنے میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کو دخل ہوگا اس کی قدرت کے سامنے کوئی مشکل نہیں اور اس کو لوگوں کے لیے نشانی بنایا جا رہا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی کامل قدرت کو سمجھیں اور یہ لوگوں کی راہنمائی کے لیے رب کی عظیم رحمت ہے اور رب کے علم ازلی کے مطابق اسے لوح محفوظ پر لکھا جا چکا ہے اس فیصلہ میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوسکتی۔ (از روح المعانی)
سورۃ آل عمران میں اسی سوال کا جواب یہ دیا:
قَالَ كَذٰلِكِ اللّٰهُ یَخْلُقُ مَا یَشَآءُ اِذَا قَضٰٓى اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُo (آیت ۴۷ سورہ آل عمران پارہ ۳)
فرمایا: بات یونہی ہے (جیسے تم کہتی ہو لیکن) اللہ تعالیٰ پیدا فرماتا ہے جو چاہتا جب فیصلہ فرماتا ہے کسی کام (کے کرنے) کا تو بس اتنا ہی کہتا ہے اسے کہ ہوجا تو فوراً ہو جاتا ہے۔
فائدہ:
ایک چیز یہاں قابلِ غور ہے حضرت زکریا علیہ السلام کی حیرانی کے موقع پر فرمایا:
’’یفعل اللہ ما یشاء‘‘ (اللہ تعالیٰ جو چاہے کرتاک ہے) اور حضرت مریم علیہا السلام کے تعجب کو دور کرنے کے لیے فرمایا اللہ یخلق مایشاء (اللہ تعالیٰ پیدا فرماتا ہے جو چاہتا ہے) جواب میں یہ تفاوت (فرق) کیوں؟ اس تفاوت کی وجہ سمجھنے کے لیے فعل اور خلق کا معنوی فرق ملحوض رکھنا از بس ضروری ہے۔
’’لفظ الفعل یستعمل کثیرا فیما یجری علی قانون الاسباب المعروفۃ ولفظ الخلق یستعمل فی الابداع والایجاد‘‘ (المنار)
یعنی ایسے واقعات جو اپنے اسباب کے پائے جانے سے وقوع پذیر ہوتے ہیں انہیں عام طور پر لفظ فعل سے تعبیر کیا جاتا ہے جو واقعات ظاہری اسباب کے بغیر رونما ہوتے ہیں ان کی تعبیر عام طور پر لفظ خلق سے کی جاتی ہے۔
حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت چونکہ ماں باپ کی وجہ سے تھی اور یہی ولادت کا سبب عادی (عادت کے مطابق) ہے اس لیے وہاں فرمایا: یفعل اللہ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت صرف ماں سے ہوئی اور والد جو سبب عادی ہے مفقود تھا (یعنی نہیں تھا) اس لیے لفظ خلق سے بیان کیا۔ (’’یخلق مایشاء‘‘ کہا)۔ (ضیاء القرآن)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام شکمِ مادر میں:
فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهٖ مَكَانًا قَصِیًّاo (آیت ۲۲ سورہ مریم)
پس وہ حاملہ ہوگئیں اس (بچہ) سے پھر وہ چلی گئیں اسے (شکم میں) لیے کسی دور جگہ۔
حضرت مریم علیہا السلام بنی اسرائیل میں نیک زاہدہ مشہور تھیں اور سب کو یہ علم تھا کہ آپ کی والدہ نے نذر مانی جو قبول کرلی گئی آپ کی تربیت میں انبیاء کرام صلحاء حریص تھے وہ کفالت حضرت زکریا علیہ السلام کو حاصل ہوئی آپ کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق آتا رہا ان واقعات کی شہرت کے پیش نظر آپ کو بہت پریشانی لاحق ہوئی کہ میں رب کی اس قدرت سے لوگوں کو کیسے مطمئن کروں گی لوگ میری بات کیسے مانیں گے اسی وجہ سے آپ نے بیت المقدس کے حجرہ کو چھوڑ کر علیحدہ دور و دراز جگہ کو اختیار کیا تاکہ وقتی طور پر کوئی مطلع نہ ہوسکے۔ (ازکبیر)
در دِزہ کے وقت پریشانی میں اضافہ:
فَاَجَآءَهَا الْمَخَاضُ اِلٰى جِذْعِ النَّخْلَةِج قَالَتْ یٰلَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ هٰذَا وَ كُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّاo (آیت ۲۳ پارہ ۱۶ سورہ مریم)
پس لے آیا انہیں دردزہ (پیدائش کے وقت کا درد) ایک کھجور کے تنے کے پاس (بصد حسرت و یاس) کہنے لگیں کاش میں مرگئی ہوتی اس سے پہلے اور بالکل فراموش کردی گئی ہوتی۔
’’اجاء‘‘ منقول ہے جاء سے لیکن صرف لے آیا پہنچانا معنی مقصود نہیں ہوتا اس کے لیے لفظ بلغنیہ یا ابلغتہ استعمال ہوتے ہیں جب کسی کو کہیں جانے کے لیے مجبور کردیا جائے اس وقت لفظ اجاء استعمال ہوتا ہے یعنی آپ کو دردزہ کی تکلیف کی وجہ سے جو حسرت حاصل تھی اس نے ایک کھجور کے درخت کے پاس کے لیے مجبور کردیا تھا اور یحتمل للتستر بہا من یخشی منہ القالۃ اذاراھا اس وجہ سے بھی آپ نے کھجور کے درخت کا رخ کیا تاکہ باتیں کرنے والوں سے پردہ پوشی رہے زیادہ یہی فکر دامن گیر تھا۔
تفسیر کشاف میں ذکر کیا گیا ہے کہ کھجور کا درخت صرف تنا تھا اوپر سے کاٹا ہوا خشک تھا اور پھل بھی نہیں دیتا تھا البتہ درخت اتنا مشہور تھا کہ صرف جذع النخلۃ کہنے سے یہی مراد ہوتا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام کو حضرت مریم علیہا السلام کے پاس بھیج کر ان کے گریبان میں پھونکنے کا حکم دیا حضرت مریم علیہا السلام کو بتایا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بیٹا عطا کرنا ہے تمہیں اور تمہارے بیٹے کو جہان والوں کے لیے نشانی بنانا ہے وجعلنا ھا وابنھا ایۃ للعلمین لیکن پھر بھی آپ کہہ رہی ہیں یالیتنی مت قبل ھذا کاش میں اس پہلے مرچکی ہوتی آخر اتنی بے قراری کی کیا وجہ تھی؟ وجہ واضح ہے کہ یہ احساس تیز تر ہوگیا کہ اب تک لوگوں کی نظروں سے چھپی رہی اور اب بچہ پیدا ہوگا تو اسے کہاں چھپاؤں گی اور لوگوں کو کیا منہ دکھاؤں گی شدت بے چارگی اور درماندگی میں یہ الفاظ زبان پر آگئے رب پر کوئی شکوہ نہیں تھا بلکہ لوگوں کی طعنہ زنی کی فکر تھی اور زیادہ تر ناسمجھ لوگوں کو سمجھانے کی فکر تھی نیز رب سے خوف کی حالت میں اس طرح کے الفاظ صالحین سے ادا ہوتے رہے ہیں، جیسا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک پرندے کو درخت پر بیٹھے ہوئے دیکھا تو آپ نے فرمایا اے پرندے تو کتنا ہی خوش بخت ہے کہ درخت پر بیٹھ کر اس کا پھل کھا رہا ہے۔
وددت انی ثمرۃ ینقرھا الطائر کاش میں بھی کوئی پھل ہوتا کہ مجھے پرندے کھاجاتے آپ کا یہ کلام خوف الٰہی کی وجہ سے تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے گھاس کا ایک تنکا ہاتھ میں لیا اور فرمایا:
لیتنی ھذہ التبنۃ یالیتنی لم اک شیئا کاش میں بھی گھاس کا ایک تنکا ہی ہوتا کاش میں کچھ بھی نہ ہوتا۔
آپ کا یہ ارشاد بھی اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے ہی تھا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یوم جمل میں فرمایا:
یالیتنی مت قبل ھذا عشر سنین کاش میں آج سے دس سال قبل مرچکا ہوتا۔
آپ کا یہ کہنا ظاہری فتنہ سے پریشانی کی وجہ سے تھا۔
حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
لیت بلا لالم تلدہ امہ کاش بلال کو اس کی ماں نے جنا ہی نہ ہوتا۔ آپ نے اس کلام سے اپنے کمال عجز کا اظہار کیا ہے۔ (از کبیر و ضیاء القرآن)
علامہ آلوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جبرائیل علیہ السلام نے آپ کے پاس اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچادیا تھا پھربھی آپ اس قسم کے الفاظ اپنی زبان پر لارہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ:
استحیاء من الناس و خوفا من لائمتھم لوگوں سے شرم کے مارے اور ان کی ملامت کرنے کے خوف کے پیش نظر آپ کی یہ بے قراری تھی اور دوسری وجہ یہ تھی:
’’حذر امن وقوع الناس فی المعصیۃ بما یتکلمون فیھا‘‘
کہ آپ کو یہ خوف دامن گیر تھا کہ بچے کی پیدائش پر لوگ میرے متعلق جھوٹا کلام کرنے اور مجھ پر بہتان لگانے کی وجہ سے گناہگار ہوں گے۔
سبحان اللہ تعالیٰ کتنا عظیم تقوی ہے کہ فکر بھی لاحق ہے تو ان لوگوں کی جن سے خدشہ ہے کہ وہ تہمت لگائیں گے اور اس فعل کی وجہ سے گناہگار ہوجائیں گے شیخ سعدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
شنیدم کہ مردان راہِ خدا
دلِ دشمنان رانکر دند تنگ
میں نے سنا ہے کہ راہ خدا کے مرد (نیک لوگ) دشمنوں کے دل بھی تنگ نہیں کیا کرتے۔
اس قسم کی صورت میں موت کی تمنا جائز ہے البتہ مرض، فاقہ، دشمن کے مظالم، دنیا کے مصائب و آلام سے تنگ آکر موت کی تمنا منع ہے۔ مسلم شریف میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’لا یتمنین احدکم الموت لضرر نزل فان کان لابد متمنیا فلیقل اللھم احینی ماکانت الحیاۃ خیر الی وتوفنی اذا کانت الوفاۃ خیر الی‘‘
کوئی شخص موت کی تمنا تکالیف کی وجہ سے نہ کرے اگر کوئی موت کی تمنا ضرور کرنا ہی چاہتا ہے تو یہ کہے اے اللہ تعالیٰ مجھے زندہ رکھ اگر میرے لیے میری زندگی بہتر ہے اور مجھے موت عطا کر اگر میرے لیے میرا مرنا بہتر ہے۔
خیال رہے کہ اگر کسی شخص نے حضرت مریم علیہا السلام کے متعلق یہ گمان کیا کہ انہوں نے دردِزہ یا اور دنیاوی تکالیف کے پیش نظر موت کی تمنا کی تھی۔
’’فقد اساء الظن‘‘
تو اس نے برا گمان کیا۔ (از روح المعانی)
کھانے پینے کا انتظام اور مزید تسلی:
فَنَادٰىهَا مِنْ تَحْتِهَآ اَلَّا تَحْزَنِیْ قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِیًّاo وَ هُزِّیْٓ اِلَیْكِ بِجِذْعِ النَّخْلَةِ تُسٰقِطْ عَلَیْكِ رُطَبًا جَنِیًّاo فَكُلِیْ وَ اشْرَبِیْ وَ قَرِّیْ عَیْنًاج فَاِمَّا تَرَیِنَّ مِنَ الْبَشَرِ اَحَدًا فَقُوْلِیْٓ اِنِّیْ نَذَرْتُ لِلرَّحْمٰنِ صَوْمًا فَلَنْ اُكَلِّمَ الْیَوْمَ اِنْسِیًّاo (پ ۱۶ ع ۵) (ع ۲)
تو اسے اس کے نیچے سے پکارا کہ غم نہ کھا، بیشک تیرے رب نے تیرے نیچے ایک نہر بہا دی ہے اور کھجور کی جڑ پکڑ کر اپنی طرف ہلا، اتجھ پر تازی پکی کھجوریں گریں گی، تو کھا اور پی اور آنکھ ٹھنڈی رکھ پھر اگر تو کسی آدمی کو دیکھے تو کہہ دینا میں نے آج رحمن کا روزہ مانا ہے تو آج ہرگز کسی آدمی سے بات نہ کروں گی۔
آپ کو وادی کے نشیب سے آواز آئی تم غم نہ کرو ہم نے تمہاری جگہ سے نشیبی جگہ کی طرف ایک نہر بہادی جو تمہارے حکم کے ماتحت ہوگی (جبرائیل علیہ السلام نے پاؤں کی ٹھوکر ماری تو یہ نہر جاری ہوئی یا عیسیٰ علیہ السلام نے پیدا ہونے کے بعد ایڑی رگڑی تو اس سے جاری ہوئی)، کھجور کا خشک تنا جس کا سر کٹا ہوا ہے۔ موسم بھی سردیوں کا ہے۔ وہ ان حالات میں اگرچہ پھل نہیں دیتا لیکن تم اسے اپنی طرف بلاؤ تو وہ تمہیں پکی ہوئی تازہ کھجوریں دے گا کھاؤ اور پیو یعنی کھجوریں کھاؤ جو پیدائش کے وقت زچہ اور بچہ دونوں کے لیے بہت مفید غذا ہے اور جاری شدہ چشمہ سے پانی پیو، اسی سے اندازہ لگالو کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح تمہارے کھانے اور پینے کا انتظام فرما دیا ہے اسی طرح وہ خطرات جو تمہارے ذہن میں آرہے ہیں وہ بھی زائل کردے گا۔ تمہارے نفس کو اطمینان حاصل ہوگا، آنکھوں کو ٹھنڈک حاصل ہوگی، اس لیے حکم دیا نفس کو مطمئن رکھو اور آنکھوں کو ٹھنڈا رکھو۔
’’فان العین اذارات مایسر النفس سکنت الیہ‘‘
بیشک آنکھ جب اس چیز کو دیکھتی ہے جس سے نفس کو خوشی حاصل ہوتی ہو تو اس سے آنکھ کو بھی سکون ملتا ہے۔
ابن زید سے ایک روایت یہ بھی ملتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے پیدا ہوتے ہی والدہ کو تسلی دیتے ہوئے کہا:
’’لا تحزنی‘‘ غم نہ کھا۔ آپ نے کہا کیسے غم نہ کھاؤں جب تم میرے ساتھ ہوگے۔ میرا خاوند کوئی ہے نہیں اور میں کسی کی لونڈی بھی نہیں لوگوں کے سامنے کیا عذر پیش کروں گی؟ کاش میں اس سے پہلے ہی مر جاتی۔ تو عیسیٰ علیہ السلام نے کہا:
’’وانما امرت علیھا السلام بذالک علی ماقالہ غیر واحد لکر اھۃ مجادلۃ السفھاء والاکتفاء بکلام عیسیٰ علیہ السلام فانہ نص قاطع فی قطع الطعن‘‘
آپ کو یہ حکم دیا گیا اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کئی اہل علم حضرات نے بیان کیا ہے کہ بے وقوفوں سے آپ کو کلام کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے بلکہ عیسیٰ علیہ السلام خود ہی کلام کر کے ان طعنوں کا جواب دیں آپ کا کلام کرنا اور انہیں جواب دینا طعنوں کے ختم کرنے میں نص قطعی کا درجہ اسے حاصل ہوگا۔ (ازروح المعانی)
واپسی پر لوگوں کی طعنہ زنی:
فَاَتَتْ بِهٖ قَوْمَهَا تَحْمِلُهٗ قَالُوْا یٰمَرْیَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَیْـًٔا فَرِیًّاo یٰٓاُخْتَ هٰرُوْنَ مَا كَانَ اَبُوْكِ امْرَاَ سَوْءٍ وَّ مَا كَانَتْ اُمُّكِ بَغِیًّاo (پ ۱۶ آیت ۲۷ سورہ مریم)
تو اسے میں گود میں لیے اپنی قوم کے پاس آئیں انہوں نے کہا اے مریم علیہا السلام بیشک تو نے بہت ہی برا کام کیا ہے اے ہارون کی بہن تیرا باپ برا آدمی نہ تھا اور نہ تیری ماں بدکار تھی۔
آپ جب چلنے پھرنے کے قابل ہوگئیں تو اپنے فرزند دلبند کو گود میں اٹھاکر اپنے گھر لوٹیں، جب کنبہ والوں نے دیکھا کہ کنواری مریم بچہ اٹھائے آرہی ہے تو ان پر سکتے کا عالم طاری ہوگیا ہوگا (روح المعانی میں ہے ’’فتباکوا‘‘ انہوں نے رونا شروع کردیا) اور فرط خجالت (بہت زیادہ شرمندگی) سے وہ صرف اتنا ہی کہہ سکے ہوں گے۔ یامریم ..... الخ۔
وھب بن منبہ رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ جب آپ بچے کو اپنی قوم کے پاس لے آئیں تو بنی اسرائیل میں یہ بات مشہور ہوگئی، ملامت کرنے کےلیے مرد و زن (مرد اور عورتیں) دوڑے آئے، ایک عورت نے تھپڑ مانے کے لیے ہاتھ اٹھایا تو وہ سوکھ گیا۔ ایک مرد نے کہا ’’یہ تو زناکارہ ہے‘‘ تو وہ گونگا ہوگیا۔ یہ دیکھ کر کسی کو مارنے یا برا بھلا کہنے کی ہمت نہ ہوئی اور بڑے نرم انداز میں اتنا ہی کہہ سکے:
’’قد جئت شیئا فریا‘‘ خود سوچئے! اگر کسی شادی شدہ عورت کے ہاں بچہ پیدا ہوتو کیا اس کی آؤ بھگت یوں کی جاتی ہے؟ لفظ فریا کی تحقیق کرتے ہوئے صاحب تاج العروس لکھتے ہیں:
’’الفری کغنی الامر المختلق المصنوع اوالعظیم نقلھا الجوھری اوالعجیب نقلہ الراغب‘‘
یعنی فری جو غنی کا ہم وزن ہے جوہری نے اس کے دو معنی ذکر کیے ہیں:
’’المختلق المصنوع‘‘ گھڑا ہوا بناوٹی اور العظیم بہت بڑا
امام راغب رحمہ اللہ نے اس کا معنی عجیب، حیران کن کیا ہے۔
لیکن علامہ ابن حبان اندلسی رحمہ اللہ نے اس کا معنی .....
العظیم الشنیع بتایا ہے کہ یعنی بہت قبیح فعل ہے۔ (بحر)
علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’انہ یستعمل فی العظیم من الامر شرا اوخیرا قولا اوفعلا‘‘ (روح المعانی)
ہر بڑے کام کے لیے خواہ وہ برا ہو یا اچھا قول ہو یا فعل یہ لفظ (فری) استعمال ہوتا ہے۔
کیونکہ یہ وضاحت مذکورہ بالا سب معانی پر حاوی ہے اور موقع کے بھی مناسب ہے حضرت مریم علیہا السلام کے ایک بھائی کا نام ہارون تھا، اس لیے قوم نے آپ کو ’’یا اخت ھارون‘‘ (اے ہارون کی بہن) کہہ کر پکارا۔ صحیح حدیث سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ جب نجران گئے تو وہاں کے عیسائیوں نے ان سے پوچھا کہ قرآن میں حضرت مریم علیہا السلام کو اخت ھارون کہا گیا ہے حالانکہ ہارون مریم علیہا السلام سے صدہا سال پہلے گزرے ہیں وہ کوئی جواب نہ دے سکے جب واپس آئے تو بارگاہ رسالت میں اس واقعہ کو بیان کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’انھم کانوا یسمون بانبیائھم والصالحین قبلھم‘‘
کہ بنی اسرائیل کا دستور تھا کہ وہ اپنے بچوں کے نام انبیائے کرام علیہم السلام کے اور پہلے بزرگوں کے نام پر رکھا کرتے تھے اس سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام کے ایک بھائی تھے جن کا نام حسب دستور حصول برکت کے لیے حضرت ہارون علیہ السلام کے نام پر رکھا گیا تھا۔
جن الفاظ سے لوگ مریم علیہا السلام کو عار دلا رہے ہیں وہ یہ نہیں کہ تمہارا باپ تو بڑا صحیح العقیدہ تھا، تمہاری ماں تو اپنے نظریات میں بڑی پختہ تھی، تم نے یہ بے دین اور بداعتقاد لونڈا کیسے جنا؟ بلکہ یہ کہہ رہے ہیں کہ تیرا باپ ’’امرء سوء‘‘ (مرد بدکار) نہ تھا اور تیری ماں ’’بغیا‘‘ (بد کارہ) نہ تھی۔ کیا کسی شادی شدہ عورت کو یوں عار دلائی جاتی تھی؟ (از ضیاء القرآن)
حضرت مریم علیہا السلام نے ارشاہ بچے کی طرف کردیا:
فَاَشَارَتْ اِلَیْهِ قَالُوْا كَیْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِی الْمَهْدِ صَبِیًّاo (پارہ سولہ آیت ۲۹ سورہ مریم)
اس پر مریم نے بچے کی طرف اشارہ کیا وہ بولے ہم کیسے بات کریں اس سے جو پالنے میں بچہ ہے۔
حضرت مریم علیہا السلام کو رب تعالیٰ کا حکم تھا کہ آپ نے کسی سے کلام نہیں کرنا بلکہ اشارہ سے بتانا ہے کہ میں نے رب تعالیٰ کے لیے روزہ کی نذر مانی ہوئی ہے، کسی سے بولنا نہیں، اسی ارشاد کے مطابق آپ نے عیسیٰ علیہ السلام کی طرف اشارہ کردیا کہ اسی سے کلام کر کے پوچھ لو۔
بعض روایات میں ہے کہ آپ نے جب بچے کی طرف اشارہ کیا کہ اس سے کلام کرو تو وہ ایک دوسرے کو کہنے لگے کہ یہ تو ہمارے ساتھ مزاح کر رہی ہے، اس سے ہماری توہین کر رہی ہے، ہمیں گھٹیا سمجھ رہی ہے، یہ تو اس کا جرم (معاذ اللہ) زنا کے جرم سے بڑا برا ہے۔
المہد کے مختلف معانی بیان کیے گئے ہیں۔ ماں کی گود، گہوارہ، چار پائی، وہ جگہ جہاں بچہ قرار پکڑے ہوئے ہے۔
اعلی حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی رحمہ اللہ کا ترجمہ ان تمام کو شامل ہے (وہ بچہ جو پالے میں ہیں)۔
ان لوگوں نے بطور انکار اور تعجب کے کہا ہم اس سے کیسے کلام کریں؟ جو ابھی ماں کی گود میں گہوارہ میں ہے۔
علمی نکتہ:
بظاہر آیت کریمہ میں اعتراض یہ وارد ہوتا ہے کہ ’’کان‘‘ زمانہ ماضی پر دلالت کرتا ہے جس کا معنی یہ ہوگا کہ ہم اس سے کیسے کلام کریں جو گہوارہ میں ہوتا تھا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں، ہر ایک بچہ پہلے ماں کی گود یا گہوارہ میں ہوتا ہے جب وہ بڑا ہوجاتا ہے اس سے کلام کیا جاتا ہے،
اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں مراد زمانہ ماضی مبہم ہے خواہ قریب ہو یا بعید، یہاں سے مراد قریب لیا گیا ہے یعنی ابھی چند لمحے پہلے جسے ہم تمہاری گود میں دیکھ رہے ہیں اس سے کیسے کلام کریں؟ ہم نے آج تک ایسے بچوں سے کبھی کلام نہیں کیا اور نہ ہی ایسی عمر کے بچوں میں جواب دینے کی طاقت ہوتی ہے۔ اے مریم بچے کی طرف تمہارا اشارہ کرنا سرا سر مزاح ہی نظر آتا ہے۔
اور جواب یہ دیا گیا ہے کہ ماضی سے حال کی حکایت بیان کی جارہی ہے۔ ’’من ‘‘ موصوفہ ہے اب معنی یہ ہوگا ہم کیسے کلام کریں ان بچوں سے جو ماں کی گود یا گہوارہ میں ہونے کے وصف سے متصف ہیں؟ ہم نے آج تک ایسے بچوں سے کلام نہیں کیا۔ تو اس سے کیسے کلام کریں ماضی سے حال کی طرف عدول میں تصور لانا اور استمرار مقصود ہے۔
اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ’’کان‘‘ زائد ہو صرف تاکید کے لیے آیا ہو، زمانے پر اس کی کوئی دلالت نہ ہو اور جیسا حال ہو، اب معنی یہ ہوگا کہ ہم اس سے کیسے کلام کریں جو ابھی پالے میں ہے، حال ہونے اس کے کہ وہ بچہ ہے۔
اور یہ صورت بھی ممکن ہے کہ ’’من‘‘ شرطیہ ہو اور معنی یہ ہو:
’’من کان فی المھد فکیف نکلمہ‘‘ جو پالے میں ہے اس سے ہم کیسے کلام کریں۔
یہ ایسے ہی ہے جیسے کہا جاتا ہے:
’’کیف اعظ من لا یعمل بموعظتی‘‘
میں اسے کیسے نصیحت کروں جس نے میری نصیحت پر عمل نہیں کرنا۔
اس صورت میں ماضی بمعنی مستقبل کے ہے لہذا کوئی اعتراض نہیں وارد ہوگا۔ (از روح المعانی)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بچپن میں کلام کرنا:
قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰهِ اٰتٰىنِیَ الْكِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّاo وَّ جَعَلَنِیْ مُبٰرَكًا اَیْنَ مَا كُنْتُص وَ اَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَیًّاo وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَتِیْ وَ لَمْ یَجْعَلْنِیْ جَبَّارًا شَقِیًّاo وَ السَّلٰمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ وَ یَوْمَ اَمُوْتُ وَ یَوْمَ اُبْعَثُ حَیًّاo (پارہ ۱۶ سورہ مریم آیت ۳۰ ۔ ۳۳)
بچہ نے فرمایا میں اللہ تعالیٰ کا بندہ اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے غیب کی خبریں بتانے والا نبی کیا اور اس نے مجھے مبارک کیا میں کہیں ہوں اور مجھے نماز و زکوٰۃ کی تاکید فرمائی۔ جب تک زندہ رہوں اور اپنی ماں سے اچھا سلوک کرنے والا۔ اور مجھے زبردست بدبخت نہ کیا۔ اور وہی سلامتی مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن میں مروں اور جس دن زندہ اٹھایا جاؤں۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام دودھ پی رہے تھے، جب آپ نے بنی اسرائیل کا کلام سنا کہ وہ کہہ رہے ہیں ہم بچے سے کیسے کلام کریں؟ تو آپ نے دودھ پینا چھوڑ دیا ان کی طرف متوجہ ہوئے بائیں ہاتھ پر سہارا لگا کر اپنی شہادت کی انگلی سے اشارہ کرکے کلام کرنا شروع کردیا سب سے پہلا اعلان یہ فرمایا:
’’انی عبد اللہ‘‘ میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں۔
چونکہ سالکین کا مقام ہی یہ ہے کہ وہ سب سے پہلے اپنی عبودیت کا اظہار کرتے ہیں اور اس کلام میں ان لوگوں کا رد بھی پایا گیا ہے جنہوں نے آپ کو رب کہنا تھا۔ (روح المعانی)
سبحان اللہ نبی کا کتنا عظیم مقام ہے؟ کہ اللہ تعالیٰ نے بچپن میں ہی یہ علم عطا فرما دیا کہ تمہیں لوگ خدا مانیں گے۔ آپ نے اپنی عبودیت کا اعتراف کرکے واضح طور پر فرمادیا کہ میں اللہ تعالیٰ کا بندہ ہوں مجھے کوئی معبود ماننے کی حماقت نہ کرے۔
’’اتانی الکتاب وجعلنی نبیا‘‘ اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے نبی بنایا۔
آپ کے اس ارشاد کا مطلب یہ تھا:
’’انہ سیبعثنی من بعد ولما تکلم بذالک سکت وعاد الی حال الصغر ولما بلغ ثلاثین سنۃ بعثہ اللہ نبیا‘‘ (از کبیر)
کہ بے شک اللہ تعالیٰ مجھے مبعوث فرمائے گا یعنی اعلان نبوت کا حکم دے گا آپ نے جب یہ کلام مکمل کیا تو اس کے بعد خاموش ہوگئے اور عام بچوں کے حال کی طرف لوٹ کر آگئے پھر جب آپ کی عمر تیس سال کی ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کونبی بنا کر مبعوث فرمایا۔
ابن ابی حاتم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی:
’’درس الانجیل والحکمۃ فی بطن امہ‘‘
آپ کو اللہ تعالیٰ نے ماں کے پیٹ میں ہی انجیل پڑھادی اور نبوت عطا فرمادی۔
650
اصل تطبیق کی وجہ یہ ہے کہ آپ کو نبوت یا کتاب عطاء تو اسی وقت فرمادیں جب آپ ماں کے پیٹ میں تھے، البتہ لوگوں کو تبلیغ کرنے اور اعلان نبوت کا حکم بعد میں دیا گیا، تمام انبیاء کرام کی صورت حال یہی ہے۔
’’وجعلنی مبارکا این ماکنت‘‘ (آیت ۳۱ سورہ مریم پارہ سولہ)
مجھے برکت والا بنایا ہے میں جہاں کہیں بھی ہوں۔
یعنی مجھے اللہ تعالیٰ نے دین پر قرار پکڑنے والا بنایا اور مجھے معلم الناس بنایا ہے کہ میں لوگوں کو دین کی تعلیم دوں ان کو راہ حق کی طرف بلاؤں، یعنی جب وہ اپنی خواہشات نفسانیہ کی وجہ سے بھٹک جائیں تو میں انہیں سیدھی راہ دکھاؤں۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام عیسیٰ علیہ السلام کو ایک کاتب کے پاس لے گئیں اور کہا کہ اس بچے کو لکھنا سکھانا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس کو مارنا نہیں، معلم نے آپ کو کہا کہ لکھو آپ نے کہا میں کیا لکھوں تو اس نے کہا ابجد(ا ب ت وغیرہ) لکھو۔ عیسیٰ علیہ السلام نے سر اٹھایا اور فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ ابجد کیا ہیں؟ معلم نے اپنا کوڑا آپ کو مارنے کے لیے اٹھایا تو آپ نے فرمایا: اے مؤدب(ادب سکھانے والے) مجھے ماریں نہیں اگر آپ کو علم نہیں تو مجھ سے پوچھیں میں آپ کو بتاتا ہوں کہ
الف۔ آلاء اللہ(اللہ کی نعمتیں) سے لیا ہوا ہے اور
ب۔ بھاء اللہ(اللہ کی خوبصورتی) سے اور
ج۔ جمال اللہ(اللہ کا جمال) سے اور
د۔ اداء الحق الی اللہ(اللہ تعالیٰ کے حقوق اس کے سپرد کرنا) سے ماخوذ ہے۔
اور برکت والا بنانے کا مقصد یہ بھی ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بلند مرتبہ عطا فرمایا تمام احوال میں مجھے غالب بنایا جب تک میں دنیا میں رہوں گا مجھے اللہ تعالیٰ دلائل میں غیروں پر غالب رکھے گا اور جب دنیا سے جانے کا میرا وقت آجائے گا تو مجھے زندہ ہی آسمانوں پر اٹھا لیا جائے گا اور میری برکت کے اثرات کا لوگوں کو فائدہ ہوگا کہ میری دعا سے مردے زندہ ہوجائیں گے، مادر زاد اندھے بینا(نظر والے) ہوجائیں گے اور برص کے مرض والے صحت یاب ہوجائیں گے۔
وَ اَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَیًّاo (آیت ۳۱ پارہ سولہ سورۃ مریم)
مجھے نماز اور زکوۃ کی تاکید کی جب میں زندہ رہوں۔
یعنی رب تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں بالغ ہونے بعد نماز ادا کروں اور لوگوں کو زکوۃ ادا کرنے کی نصیحت کروں۔ (از کبیر)
تنبیہ:
’’لا زکواۃ علی الانبیاء علیھم السلام لان اللہ نز ھھم عن الدنیا فما فی ایدیھم اللہ تعالیٰ ولذا لا یورثون‘‘ (روح المعانی)
انبیائے کرام علیہم السلام پر زکوۃ لازم نہیں ہوتی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا کے مال سے پاک رکھا ہوتا ہے(اگر ان کہ پاس کوئی مال آبھی جائے تو وہ تمام اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کردیتے ہیں وہ ایک سال جمع کرکے رکھتے ہی نہیں کہ ان پر زکوۃ لازم آئے) اسی وجہ سے ان کے مال کو بطور وراثت تقسیم نہیں کیا جاتا کیونکہ ان کے ہاتھ میں مال در حقیقت اللہ تعالیٰ کا مال ہوتا ہے وہ اس کے مالک ہی نہیں ہوتے۔ (کبیر)
’’وبرا بوالدتی‘‘ اور مجھے ماں سے اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا۔
اس کلام سے اشارہ تھا کہ میری ماں پاک دامن ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے معصوم رسول کو اس کی فرمانبرداری کا حکم دیا اگر معاذ اللہ اس میں کوئی عیب ہوتا تو معصوم رسول کو اس کی تعظیم کا بھی حکم نہ دیا جاتا۔ (از کبیر)
’’ولم یجعلنی جبارا شقیا‘‘ مجھے زبردست بد بخت نہیں بنایا۔
یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھے متکبر نہیں بنایا بلکہ خضوع کرنے والا اور اپنی ماں کے سامنے عاجزی کا اظہار کرنے والا بنایا ہے اگر میں متکبر ہوتا تو نافرمان اور بد بخت ہوتا ایک روایت میں آتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا:
’’قلبی لین وانا صغیر فی نفسی‘‘
میرا دل نرم ہے اور میں اپنے خیال میں اپنے آپ کو چھوٹا سمجھتا ہوں۔
یعنی عجز کا اظہار کرتا ہوں بعض علماء نے فرمایا:
’’لا تجد العاق الا جبارا شقیا‘‘ ماں باپ کا نافرمان متکبر اور بد بخت ہی ہوتا ہے۔
ان حضرات نے اپنے اس قول پر یہی آیت کریمہ بطور دلیل پیش کی:
’’ولا تجد سینی الملکۃ الا مختالا فخورا‘‘
بد خلق کو تم ضرور اترانے والا، بڑائی مارنے والا پاؤ گے۔
اور ایسے لوگوں سے اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا۔
اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَاo (آیت ۳۶ سورۃ النساء پارہ ۵)
بے شک اللہ تعالیٰ اترانےوالے بڑائی مارنے والے(متکبرین) کو پسند نہیں کرتا۔ (از کبیر)
وَ السَّلٰمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ وَ یَوْمَ اَمُوْتُ وَ یَوْمَ اُبْعَثُ حَیًّاo (۳۳ سورہ مریم پارہ سولہ)
اور وہی سلامتی مجھ پر جس دن میں پیدا ہوا اور جس دن میں مروں اور جس دن زندہ اٹھایا جاؤں۔
اعلی حضرت کا ترجمہ اس قول کے مطابق ہے:
’’لام التعریف فی السلام منصرف الی ما تقدم فی قصۃ یحیٰ علیہ السلام‘‘
یعنی الف لام عہد خارجی ہے اور مراد یہ ہے کہ جس پر سلامتی کا یحیٰ علیہ السلام کے لیے رب تعالیٰ نے خود تین مقاموں کے لیے ذکر فرمایا ہے وہی سلامتی مجھ پر بھی ان تین وقتوں میں ہے۔
صاحب کشاف کا قول یہ ہے کہ یہ الف لام تعریف کا عوض ہے حضرت مریم علیہا السلام پر لگائی گئی تہمت کا اور ن پر کیے گئے لعن و طعن کا یعنی اب مطلب یہ ہوگا کہ تم نے تو میری والدہ پر لعن و طعن کیا اور ان پر تہمت لگائی لیکن اس کے بدلے رب تعالیٰ نے مجھے اس عظیم انعام سے نوازا ہے کہ مجھے پیدائش موت اور زندہ اٹھائے جانے کے وقت سلامتی عطا فرمادی۔ علامہ رازی فرماتے ہیں:
’’وتحقیقہ ان اللام للا ستغراق‘‘ تحقیق یہ ہے ک لام استغراق کے لیے ہے۔
اب مطلب یہ ہے کہ ان تین وقتوں میں مجھ پر ہر قسم کی سلامتی ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے مجھے اور میرے طفیل میرے متبعین کو ہر قسم کی سلامتی عطا فرمادی ہے میرے دشمنوں کے لیے سوائے لعنت کے کچھ بھی نہیں۔ موسی علیہ السلام نے کہا:
’’ وَ السَّلٰمُ عَلٰى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدٰىo سلامتی ہو اس پر جس نے تابعداری کی۔
اسی سے ضمنایہ خود ہی سمجھ میں آگیا کہ
لَیْنَاۤ اَنَّ الْعَذَابَ عَلٰى مَنْ كَذَّبَ وَ تَوَلّٰىo (پ ۱۶ سورت طہٰ ۴۸)
یعنی جنہوں نے تکذیب کی اور راہ حق سے پھر گئے ان پر عذاب ہے۔
انبیاء کرام اس طرح تعریضاً(اشارہ سے کافروں کو عذاب کے متعلق بتانا) کلام فرماتے رہے کیونکہ کسی کو سمجھانے اور سوچنے کا موقع فراہم کرنے کے لیے بہتر صورت ہے سلام سے مراد امن حاصل ہونا نعمتوں میں سلامتی اور آفات کا زائل ہونا، دینوی اور اخروی خطرات سے محفوظ ہونا۔
خیال رہے یہاں دو احتمال ہیں ایک یہ کہ عیسیٰ علیہ السلام نے قوم کو بتایا کہ رب تعالیٰ نے مجھے ان تین اوقات میں سلامتی عطا فرمادی ہے اور اوردوسرا احتمال یہ ہے کہ آپ نے دعا کی ہو کہ اے اللہ جس طرح تو نے یحییٰ علیہ السلام کے متعلق خود بتایا گیا ہے کہ میں انہیں سلامتی عطا فرمائی ہے ایسے مجھے عطا فرمادی آپ کی دعاء کو قبول کرکے اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان تین اوقات میں سلامتی عطا فرمادی۔
’’ولا بدفی الانبیاء من ان یکونوا مستجابی الدعوۃ‘‘
انبیاء کرام کا مستجاب الدعوات(دعاؤں کا قبول ہونا) ضروری ہے۔
عیسیٰ علیہ السلام کے القاب:
کلمۃ اللہ، مسیح، وحیہ، مقرب، صالح، مہد وکہولیت میں متکلم۔
اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓىِٕكَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ اسْمُهُ الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْهًا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَo وَ یُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَ كَهْلًا وَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَo (پ ۳ سورت آل عمران ۴۵، ۴۶)
اور یاد کرو جب فرشتوں نے مریم علیہا السلام سے کہا اے مریم! اللہ تعالیٰ تجھے بشارت دیتا ہےاپنے پاس سے ایک کلمہ کی جس کا نام مسیح عیسیٰ مریم علیہا السلام کا بیٹا وجیہہ ہوگا دنیا اور آخرت میں قرب والا اور لوگوں سے باتیں کرے گا پالنے اور پکی عمر میں اور خاصوں میں ہوگا۔
آپ کو ’’کلمہ‘‘ کیوں کہا گیا؟
اس کی کئی وجوہ ہیں:
۱۔ آپ کی پیدائش بغیر باپ کے واسطہ کے اللہ تعالیٰ کے کلمہ ’’کن‘‘ سے ہوئی آپ کی تخلیق میں جب باپ کا واسطہ نہیں۔ بیج(نطفہ) کا استعمال نہیں بلکہ فقط اللہ تعالیٰ کے کلمہ کن سے کوئی تو اس وجہ سے آپ کو کلمہ کن کہا گیا یعنی کلمۃ اللہ سے پیدا شدہ جیسے مخلوق کو خلق مقدور کو قدرت کہہ دیا جاتا ہے۔
۲۔ آپ نے بچپن میں یعنی شیر خوارگی کی حالت میں کلام فرمایا اس لیے آپ کو کلمہ کہہ دیا گیا۔
۳۔ کلمہ معانی اور حقائق کا فائدہ دیتا ہے اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام حقائق اور اسرار الہیہ کی راہنمائی فرمائے رہے لہذا آپ کو کلمہ کہہ دیا گیا۔
۴۔ آپ کی بشارت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے پہلے انبیاء کرام کی کتابوں میں آچکی تھی جب آپ تشریف لائے تو کہا گیا کہ یہ وہی کلمہ ہے جو پہلے ذکر کیا گیا ہے اس لحاظ سے آپ کا نام کلمہ رکھ دیا گیا۔
۵۔ جس طرح انسان کانام کبھی فضل اللہ اور کبھی لطف اللہ رکھ لیا جاتا ہے اسی طرح آپ کا ایک نام کلمۃ اللہ رکھا گیا۔ خیال رہے کہ کلمہ سے مراد اس مقام پر کلام ہے اللہ تعالیٰ کا کلام قدیم ہے آپ کوئی بعینہ اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے کلام سے پیدا ہونے کی وجہ سے کلمۃ اللہ ہوئے ہیں۔ یہ تاویل کرنی ضروری ہے ورنہ اس کا معنی درست نہیں ہوسکتا۔ (کبیر پ ۳ زیر آیت ان اللہ یبشرک بیحییٰ )
تنبیہ:
تمام مخلوق کی تخلیق اور ہر نطفہ کا قرار اللہ تعالیٰ کے کلمہ کن سے ہی ہوتا ہے لیکن ان میں عام مشہور اور متعارف سبب ہی ہوتا ہے کہ اس کی تخلیق باپ کے واسطہ اور نطفہ کے قرار پکڑنے سے ہوئی لیکن عیسیٰ علیہ السلام میں اس طرح کی کوئی وجہ موجود نہ تھی باپ کا کوی واسطہ نہیں نطفہ آپ کی پیدائش کا ذریعہ نہیں اس لیے آپ کی طرف اللہ تعالیٰ کے کلمہ کن کی نسبت زیادہ کامل اور مکمل ہے۔ (کبیر پ ۳ زیر آیت ان اللہ یبشرک بکلمۃ)
فائدہ:
عادل بادشاہ کے متعلق کہا جاتا ہے:
’’ظل اللہ فی ارضہ‘‘ اللہ تعالیٰ کا سایہ اس کی زمین میں۔
اسی طرح کبھی کہا جاتا ہے: ’’انہ نور اللہ‘‘ بیشک وہ اللہ تعالیٰ کا نور ہے۔
جب بادشاہ پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے تو وہ مخلوق پر عدل و انصاف کے فیصلے کرتا ہے اس کے عدل کا سایہ زمین پر پھیلتا ہے تو اسے ۔ ۔ ۔ ۔
’’ظل اللہ فی ارضہ‘‘ کہہ دیا جاتا ہے اسی طرح جب اس کے احسانات کا نور جگمگاتا ہے تو اسے….. ’’نور اللہ‘‘ کہہ دیا جاتا ہے۔ اسی طرح جب عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی کثیر بیانات کی وجہ سے اللہ تعالی کے کلام کو ظاہر فرمایا اور لوگوں کے شبہات کو زائل کیا رب تعالیٰ کے کلام میں لوگوں کی تحریفات کو زائل کیا تو اس مناسبت کی وجہ سے بھی آپ کو کلمۃ اللہ کہا گیا۔ (از کبیر زیر آیت ان اللہ یبشرک بکلمۃ)
آپ کو ’’مسیح‘‘ کیوں کہا گیا؟
اس میں چند وجوہ ہیں۔ خیال رہے کہ مسیح فعیل کا وزن ہے فعیل کبھی بمعنی فاعل کے استعمال ہوتا ہے اور کبھی بمعنی مفعول کے۔ اگر بمعنی فاعل کے ہو تو آپ کو مسیح کہنے کی یہ وجوہ ہیں:
۱۔ جب کوئی شخص آفت زدہ ہوتا یعنی کسی بھی مرض میں مبتلا ہوتا تو آپ اس پر ہاتھ پھیرتے تھے تو اس کو شفا حاصل ہوجاتی۔
۲۔ مسح الارض لفظ استعمال ہوتا ہے جس کا معنی ہوتا ہے زمین کو قطع کرنا یعنی سفر کرنا اور سیر کرنا آپ بھی چونکہ ایک جگہ پر ساکن نہیں رہتے تھے بلکہ چلتے پھرتے رہتے تھے اس لیے آپ کو مسیح کہا گیا۔
۳۔ آپ اللہ تعالیٰ کی رضاء کے لیے یتیموں کے سر پر ہاتھ پھیرتے اس لیے آپ مسیح ہوئے۔
اور اگر فعیل بمعنی مفعول کے استعمال ہو تو آپ کو مسیح کہنے کی یہ وجوہ ہوں گی:
۱۔ آپ سے گناہوں اور گناہوں کے بوجھ، آلودگی کو مٹادیا گیا تھا یعنی آپ کو رب تعالیٰ نے گناہوں سے دور رکھا ہوا تھا۔
۲۔ آپ کے قدموں سے نشیب کو مٹایا ہوا تھا یعنی آپ کے قدم بالکل سیدھے تھے عام آدمیوں کی طرح نہیں تھے کہ قدموں کے تلووں کا کچھ حصہ زمین پر نہیں لگتا کیونکہ اس میں نشیب ہوتا ہے۔
۳۔ آپ کو زیتون کا مبارک تیل اللہ تعالیٰ کی طرف سے لگادیا گیا تھا جو تمام انبیاء کرام کو لگایا جاتا تھا جس سے فرشتوں کو پتہ چل جاتا تھا کہ اس ہستی کو نبی بنایا جائے گا۔
۴۔ جبرائیل علیہ السلام نے آپ کو اپنے پروں سے مس کیا تھا تاکہ آپ شیطان کے مس سے محفوظ رہیں۔
۵۔ آپ جب والدہ کے پیٹ سے باہر تشریف لائے تو آپ کو تیل لگا ہوا تھا عام بچوں کی طرح آپ کے بالوں کو تیل لگانے کی ضرورت درپیش نہیں آئی۔ (از کبیر)
تنبیہ:
’’دجال کو‘‘ بھی مسیح کہا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ممسوح العین(ایک آنکھ اس کی ضائع ہوچکی ہوگی) ہوگا اور دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ زمین کو قطع کرے گا مختلف علاقوں میں پھرے گا اسی مقام پر روح المعانی میں مذکور ہے کہ امام نخعی نے یہ بیان کیا ہے کہ یہ لفظ اللہ تعالی کے نبی عیسیٰ علیہ السلام کا جب لقب ہوگا تو اس وقت مَسِیْح ’’میم کے فتحہ اور سین کی تخفیف سے‘‘ پڑھا جائے گا اور جب اللہ تعالیٰ کے دشمن دجال کا لقب ہوگا تو مِسِّیْح ’’میم کے کسرہ اور سین کی شد‘‘ سے پڑھا جائے گا۔
فائدہ:
مسیح آپ کا لقب ہے اور عیسیٰ نام ہے اور ابن مریم آپ کی کنیت ہے آپ کا لقب ایسا ہے جو آپ کی شرافت اور مراتب کی بلندی پر دلالت کر رہا ہے جس طرح صدیق لقب ہے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا اور فاروق لقب ہے عمر رضی اللہ عنہ کا۔ ان کے القاب بھی ان کی شرافت اور بلندی مراتب پر دال ہیں اللہ تعالی نے آپ کے لقب کو پہلے ذکر کیا تاکہ ابتدائی طور پر ہی آپ کی شان کا ہر شخص کو پتہ چل جائے۔
خیال رہے کہ بشارت بھی حضرت مریم علیہا السلام کو دی جارہی ہے اور پھر ابن مریم بھی کہا جارہا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی تمام انبیائے کرام کو ان کے آباء کے ناموں کی طرف منسوب کیا آپ کو ماں کی طرف منسوب کرکے حضرت مریم علیہا السلام کو بشارت کے وقت ہی بتادیا گیا کہ تمہارا بیٹا بغیر باپ کے پیدا ہوگا۔ (از کبیر)
آپ کو وجیہ کہا گیا:
وجیہ کا معنی صاحب مرتبہ، صاحب شرافت اور صاحب قدر و منزلت ہے۔
’’وجہ الرجل یوجہ و جاھۃ فھو وجیہ‘‘
یہ اس وقت کہا جاتا ہے جب کسی شخص کا مرتبہ لوگوں یا باشاہ کے نزدیک زیادہ بلند و بالا ہو۔ اور بعض اہل لغت نے بیان کیا ہے الوجیہ کا معنی کریم ہے کیونکہ انسان کے تمام اعضاء سے اشرف اس کا چہرہ ہے اس لیے الوجہ کا معنی بطور استعارہ کرم اور کمال لیا جاتا ہے۔ آپ دنیا میں وجیہ تھے کیونکہ آپ مستجاب الدعوات تھے آپ کی دعاء سے اللہ تعالیٰ نے مردوں کو زندہ کیا مادرزاد اندھوں کو نظر عطا فرمائی برص والے مریضوں کو برص سے نجات دی۔
اور دنیا میں آپ کے وجیہ ہونے کی اور وجہ یہ بھی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان تمام عیوب سے بری رکھا جو یہود آپ پر لگاتے تھے یعنی آپ کا حقیقت میں عیوب سے بری ہونا ہی وجیہ ہونے کا سبب تھا اگرچہ آپ پر یہود عیب لگاتے رہے لیکن آپ کی شان میں کوئی فرق نہ آسکا، جیسا کہ حضرت موسی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے وجیہ بنایا اگرچہ آپ پر بھی یہود عیب لگاتے رہے آخرت میں بھی آپ وجیہ ہونگے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی امت کے مومنین کو حق راہ پر چلنے والوں کا شفیع بنایا آپ کی شفاعت کو دوسرے تمام اکابر انبیائے کرام علیہم السلام کی شفاعت کی طرح قبول کیا جائے گا۔ (از کبیر)
اور وجہ یہ بھی ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم کے ذریعے زیادہ ثواب اور بلند مرتبہ عطا فرمائے گا۔
آپ مقربین سے ہیں:
اللہ تعالی نے جب فرشتوں کی عظیم مدح کرتے ہوئے انہیں اپنے مقربین کہا تو آپ کو بھی یہی صفت عطا فرمائی کیونکہ آپ بھی بلند مراتب اور رفیع درجات رکھتے ہیں اور فرشتوں کے ساتھ ہی زندہ رہیں گے نیز آخرت میں جس شخص کو وجیہ بنایا گیا اس نے مقرب تو ہونا ہی ہے کیونکہ اسے جنت کے اعلی مراتب عطا ہوں گے۔ (از کبیر)
مہد اور کہولیت میں آپ کو متکلم بنایا:
مہد سے مراد پنگھوڑا یا ماں کی گود توہم یہاں مراد یہ ہے:
’’فانہ یکلم الناس فی الحالۃ التی یحتاج الصبی فیھا الی المھد‘‘
کہ آپ اس حالت میں کلام کرنے والے ہوں گے جب بچہ پنگھوڑے کا محتاج ہوتا ہے۔ (ازکبیر)
خواہ وہ پنگھوڑے میں ہو یا ماں کی گود میں، آپ نے بچپن میں ایک مرتبہ کلام فرمایا جس سے اپنی والدہ کی برائت کی اور اپنے اوصاف بیان کیے پھر آپ نے خاموش اختیار کی پھر عام بچوں کی طرح بولنے کے وقت بولنا شروع کیا یہ قول حضرت ابن عباس کا ہے اور یہی معتبر بھی ہے البتہ ایک قول یہ بھی ہے کہ آپ نے جب سے کلام شروع فرمایا اسی وقت سے آپ نے اعلان نبوت بھی فرمادیا اور پھر آپ مسلسل تبلیغ فرماتے رہے۔ (واللہ اعلم با الصواب) (روح المعانی)
کہولیت یعنی بڑی عمر میں بھی آپ کلام فرمائیں گے بظاہر یہ سمجھ آتا ہے کہ بڑی عمر میں تو ہر شخص کلام کرتا ہے اس میں آپ کی فضیلت کیسے؟ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اس میں ان لوگوں کا رد پایا گیا ہے جو عیسیٰ علیہ السلام کے خدا ہونے کے قائل ہیں کہ جو شخص پہلے چھوٹا ہو پھر بڑا ہو اس میں تغیر آتا رہے وہ الٰہ نہیں بن سکتا۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ آپ کا بچپن میں کلام کرنا والدہ کی پاک دامنی بیان کرنے کے لیے بھی معجزہ ہے اور بڑی عمر میں وحی اور نبوت کے ذریعے کلام کرنا بھی معجزہ ہے۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ ان دونوں حالتوں کا ذکر ایک ساتھ ہے کہ آپ بچپن میں اس طرح فرمائیں گے جس طرح بڑی عمر میں یعنی بچپن کا کلام بڑی عمر کے کلام سے مختلف نہیں ہوگا۔
خیال رہے کہ کہولیت سے مراد بڑھاپا نہیں بلکہ
’’ان الکھل فی اصل اللغۃ عبارۃ عن الکامل التام‘‘
اصل میں کہولیت کی عمر وہ ہوتی ہے جس میں انسان کا جسم کامل ہو۔
یہ تیس سال سے لے کر چالیس سال تک کی عمر ہے۔ ایک قول کے مطابق حضرت کو تینتس سال کی عمر میں زندہ آسمانوں پر اٹھالیا گیا اور پھر آپ دنیا میں تشریف لاکر لوگوں سے کلام فرمائیں گے اور دجال کو قتل کریں گے اس عمر میں آپ کا آسمانوں سے اتر کر کلام کرنا آپ کا اعجاز ہے۔
آپ کا صالحین سے ہونا:
اللہ تعالی نے آپ کی عظیم صفات کا ذکر فرمانے کے بعد ارشاد فرمایا:
’’ومن الصالحین‘‘ آپ صالحین سے ہوں گے۔ کیونکہ
’’لا رتبۃ اعظم من کون المرء صالحا لانہ لا یکون کذالک الا ویکون فی جمیع الافعال والتروک مواظبا علی النھج الا صلح والطریق الاکمل‘‘
اس سے بڑھ کر کوئی اور مرتبہ نہیں کہ انسان صالح ہو اس لیے کہ صالح ہو ہی وہ سکتا ہے جس کے تمام افعال خواہ ان کا تعلق عمل سے ہو یا چھوڑنے سے ہمیشہ بہتر طریقہ پر ہوں اور کامل طریقہ پر ہوں۔
اس سے معلوم ہوا کہ صالح ہونے کا تعلق تمام مقامات سے ہے خواہ ان کا تعلق دین سے ہو یا دنیا سے اسی طرح ایسے افعال جو دل سے متعلق ہوں یا ظاہری اعضا سے تمام میں صالحیت ہوگی۔ (از کبیر)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا لقب ’’روح‘‘:
اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ وَ كَلِمَتُهٗ اَلْقٰىهَآ اِلٰى مَرْیَمَ وَ رُوْحٌ مِّنْهُ o (۱۷۱ سورۃ النساء پارہ ۶)
مسیح عیسیٰ مریم علیہا السلام کا بیٹا، اللہ تعالیٰ کا رسول ہی ہے اور اس کا ایک کلمہ کہ مریم علیہا السلام کی طرف بھیجا اور اس کی طرف سے ایک روح۔
آپ علیہ السلام کو روح کہنے کی چند وجوہ ہیں:
۱۔ عام لوگوں کی عادت جاری ہے کہ جس کسی طہارت اور نظافت کے اعلی درجہ کی تعریف کرنی ہو تو اسے روح کہہ دیتے ہیں جب عیسیٰ علیہ السلام کی تخلیق باپ کے نطفہ سے نہیں ہوئی بلکہ نفخ جبرائیل علیہ السلام سے ہوئی تو یقیناً آپ کی صفت روح سے بیان کی گئی۔
۲۔ آپ مخلوق کے دین کے زندہ رہنے کا سبب بنے جس کی وجہ سے کسی کا دین زندہ رہے اسے روح کہہ لیا جاتا ہے جیسے قرآن پاک کو روح کہا گیا:
وَ كَذٰلِكَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَاo (آیت ۵۲ سورت الزحرف)
اور یونہی ہم نے تمہیں وحی بھیجی ایک جانفزا چیز(قرآن) اپنے حکم سے۔
۳۔ روح بمعنی رحمت کے بھی استعمال ہوتا ہے جیسے
وَ اَیَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُ
یہاں روح سے مراد رحمت ہے حضور کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’انما انا رحمۃ مھداۃ‘‘ میں رحمت اور ہدایت بن کر آیا۔
چونکہ عیسیٰ علیہ السلام بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مخلوق کیلیے رحمت بناکر بھیجے گئے آپ ان کو دین و دنیا میں نیکی کے راستے کی ہدایت کرتے تو اسی وجہ سے آپ کو روح کہا گیا۔
۴۔ روح کلام عرب میں نفخ(پھونک) کے معنی میں بھی استعمال ہے روح اور ریح معنی میں قریب قریب ہیں لہذا آپ کو روح اس لیے کہا گیا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کے اذن سے نفخ جبریل سے پیدا ہوئے۔
۵۔ روح پر تنوین تعظیم کی ہے اب یہ معنی ہے کہ:
’’روح من الا رواح الشریفۃ القدسیۃ العالیۃ‘‘
شریف، قدسی، بلند مراتب رکھنے والی روحوں میں سے آپ کی روح بھی ہے۔
یعنی آپ کی روح عظیم روح ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہے۔ اسی لیے آپ کو ’’روح‘‘ کہہ دیا گیا۔ (از کبیر)
’’روح قدس‘‘ سے آپ کی امداد کی گئی:
’’وَاَیَّدْنَاہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ‘‘ اور پاک روح سے اس کی مدد کی۔ (آیت ۸۷ البقرہ)
اس پاک روح سے مراد کیا ہے اس میں مختلف اقوال ہیں لیکن ان تمام وجوہ سے آپ کو امداد دی گئی رئیس المحققین والمدققین استاذی المکرّم حضرت مولانا ابو الحسنات محمد اشرف سیالوی مدظلہ فرماتے ہیں:
کہ کسی آیت کریمہ کی تفسیر میں مفسرین کرام کے مختلف اقوال ہوں یا کسی حدیث پاک کی شرح میں محدثین کرام کے مختلف اقوال ہوں اور ان میں کوئی تعارض نہ ہو تو سب کو جمع کر لیا جائے۔ اس قانون و ضابطہ کے مطابق آپ کو مختلف طریقوں سے امداد دی گئی:
۱۔ ’’روح قدس‘‘ سے مراد حضرت جبرائیل علیہ السلام ہیں یعنی جبرائیل علیہ السلام آپ کی امداد فرماتے رہے۔ جبرائیل علیہ السلام کو جو اللہ تعالیٰ کے ہاں شرافت اور بلندی مرتبہ حاصل ہے اس کی وجہ سے روح قدس کہا گیا اور جس طرح بدن کو روح کے ذریعہ زندگی حاصل ہوتی ہے ایسے ہی جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے انبیائے کرام علیہم السلام احیاء دین کا فریضہ سر انجام دیتے رہے اگرچہ تمام فرشتوں کو روحانیت حاصل ہے لیکن جبرائیل علیہ السلام کو تمام سے زیادہ اور کامل روحانیت حاصل ہے اسی وجہ سے آپ کو ’’روح قدس‘‘ کا لقب عطا کیا گیا۔
۲۔ ’’روح قدس‘‘ سے مراد انجیل بھی ہوسکتی ہے جیسے قرآن پاک کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا‘‘
اسی طرح انجیل کو بھی روح کہہ دیا گیا کیونکہ آسمانی کتب کے ذریعے ہی انبیائے کرام علیہم السلام تک احکام خداوندی پہنچے اور انبیاء کرام نے وہی احکام اپنی امتوں کو پہنچا کر ان کے دنیاوی امور کو بھی درست فرمایا اور ان کے دین کو بھی زندہ کیا۔
۳۔ ’’روح قدس‘‘ سے مراد اسم اعظم ہے یعنی اللہ تعالیٰ نے اسم اعظم آپ کو عطا کرکے آپ کی امداد فرمائی اسی اسم اعظم کے ذریعے آپ مردوں کو زندہ فرماتے۔
۴۔ ’’روح‘‘ سے مراد وہ روح ہے جو اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو عطاء فرمائی۔ ’’قدس‘‘ سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات ہے۔ یعنی آپ میں مالک الملک نے اپنی طرف سے روح بواسطہ جبرائیل علیہ السلام پھونک کر آپ اپنا مقرب بنایا اور روح اللہ کا لقب عطاء فرمایا۔ (از کبیر)
اگرچہ تمام معانی بیک وقت لینے درست ہیں تاہم زیادہ حضرات نے روح قدس سر مراد جبرئیل علیہ السلام ہی لیے ہیں کہ آپ کی تائید حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ہمیشہ حاصل رہی کیونکہ آپ جہاں جاتے جبرائیل علیہ السلام ان کے ساتھ ہی چلتے اور جمیع احوال میں آپ کا ساتھ دیتے رہے اور آسمانوں میں بھی آپ کے ساتھ گئے۔ (از کبیر)
آپ کو کتاب و حکمت عطا کی گئیں:
کتاب سے مراد کتابت یعنی آپ کو لکھنے کا علم کیا گیا:
’’اعطی اللہ عیسیٰ علیہ السلام تسعۃ اجزاء من الخط واعطی سائر الناس جزاء واحدا‘‘ (روح المعانی جلد ۲ حصہ دوئم ۱۶۶)
آپ کو اللہ تعالی نے خط کے نو حصے عطا فرمائے اور باقی تمام لوگوں کو ایک حصہ عطا کیا گیا۔
’’حکمت‘‘ سے مراد فقہ، حلال و حرام کا علم، تمام امور دین کا علم، تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی سنتوں کا علم اور تمام علوم عقلیہ آپ کو عطا کیے گئے۔ (روح المعانی ج ۲ حصہ دوم ص ۱۶۶)
عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات:
وَ رَسُوْلًا اِلٰى بَنِیْٓ اِسْرَآءِیْلَ اَنِّیْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ اَنِّیْٓ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْـَٔةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰهِ وَ اُبْرِئُ الْاَكْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِ وَ اُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَ مَا تَدَّخِرُوْنَ فِیْ بُیُوْتِكُمْ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَo (آیت ۴۹ سورۃ آل عمران)
میں تمہارے پاس ایک نشانی لایا ہوں تمہارے رب کی طرف سے کہ میں تمہارے لیے مٹی سے پرندے کی طرح مورت بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ فوراً زندہ ہوجاتی ہے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اور میں شفا دیتا ہوں مادرزاد اندھے اور سفید داغ والے کو اور میں مردے زندہ کرتا ہوں اللہ تعالی کے حکم سے اور تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے اور جو اپنے گھروں میں جمع کر رکھتے ہو بے شک ان باتوں میں تمہارے لیے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو۔
پرندے بنانا:
آپ کو یہ معجزہ عطا کرکے اللہ تعالیٰ نے آپ کی پیدائش پر دلیل قائم فرمادی یعنی عیسیٰ علیہ السلام نے گویا اپنی قوم کو بتایا اے میری قوم پیدائش میں شک کرتے ہو یہ در حقیقت رب تعالیٰ کی قدرت میں شک ہے رب تعالیٰ نے مجھے بھی یہ معجزہ عطا فرمایا ہے کہ میں بغیر ماں باپ کے مٹی سے پرندے کی مورتی بنا کر اس میں اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ حقیقی طور پر پرندہ بن جاتا ہے۔ بنی اسرائیل نے آپ سے بھی اسی طرح سرکشی کے طور پر چمگادڑ بنانے کا مطالبہ کیا جس طرح وہ اپنی عادت کے مطابق پہلے انبیائے کرام علیہم السلام سے معجزات کا سوال کرتے چلے آرہے تھے۔ جب آپ نے ان کے مطالبہ کے مطابق معجزہ دکھادیا تو وہ کہنے لگے یہ تو جادوگر ہے۔
انہوں نے آپ سے چمگاڈر بنانے کا مطالبہ ہی کیوں کیا تھا؟ اس لیے کہ یہ ایسا پرندہ ہے جس میں پرندوں حیوانوں اور انسانوں والے اوصاف پائے جاتے ہیں۔ اسے بنانے میں انہیں بظاہر مشکل نظر آئی کہ اسے بنانا تو بہت بڑی قدرت کا تقاضا ہے۔ چمگاڈر کے دانت اور داڑھیں ہوتی ہیں۔ اسے حیض آتا ہے اور یہ بچے جنتی ہے۔ انڈے نہیں دیتی۔ بغیر پروں کے یعنی گوشت کے بازؤں سے اڑتی ہے۔ اس کے کان ہوتے ہیں اس کے پستان ہوتے ہیں۔ اس کے تھنوں سے دودھ آتا ہے یہ انسانوں کی طرح ہنستی ہے۔ دن کی روشنی اور رات کی تاریکی میں نہیں دیکھ سکتی۔ اسے صرف دو وقتوں میں نظر آتا ہے ایک سورج کے غروب ہونے کے بعد جب تک روشنی رہے اور دوسرا صبح کے بعد زیادہ روشنی ہونے سے پہلے پہلے۔
مشہور یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے چمگاڈر کے بغیر کوئی اور پرندہ نہیں بنایا۔ حضرت وہب رضی اللہ عنہ کا قول یہ ہے کہ آپ نے جس چمگاڈر کو بنایا وہ لوگوں کے سامنے اڑی اور جب نظروں سے غائب ہوگئی تو گر کر مرگئی تاکہ اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور بندے کے بنانے میں فرق رہے۔ البتہ بعض دوسرے اہل علم نے کہا کہ آپ نے کئی قسم کے پرندے بنائے تھے۔ واللہ اعلم بالصواب (روح المعانی)
آپ کے پرندے بنانے میں ایک قول یہ بھی ہے کہ آپ ایک مرتبہ لڑکوں کے ساتھ مکتب میں تھے آپ نے گوندھی ہوئی مٹی لی اور آپ نے لڑکوں کو کہا کیا میں تمہیں اس سے پرندہ بنادوں؟ انہوں نے کہا: کیا تم بناسکتے ہو؟ آپ نے کہاں ہاں، میں اپنے رب تعالیٰ کے حکم سے ایسا کرسکتا ہوں پھر آپ نے ایک پرندہ کی مورت بناکر اس میں پھونک ماری تو وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے پرندہ بن گیا اور آپ کے ہاتھ سے سے نکل کراڑ گیا بچوں نے یہ واقعہ اپنے استاذ کے سامنے بیان کیا اور یہ دوسرے لوگوں میں بھی مشہور ہوگیا تاہم پہلا قول ہی زیادہ مشہور ہے۔ (روح المعانی)
مادرزاد اندھے اور برص والے کو شفا دینا:
’’الا کمہ ھوالذی ولد اعمی‘‘ جو پیدائشی طور پر اندھا ہو اسے اکمہ کہتے ہیں۔
اسی طرح جس کی آنکھوں کا نشان نہ ہو اسے بھی اکمہ کہتے ہیں۔ آپ علیہ السلام ایسے اندھوں کے لیے دعا فرماتے تو اللہ تعالیٰ ان کو نظر عطا فرمادیتا۔ اسی طرح آپ برص کے مرض والے کے لیے دعا فرماتے اسے بھی اللہ شفاء عطا فرماتا۔ ان دو مرضوں سے شفا دینے کا خصوصی طور پر معجزہ آپ کو عطا فرمایا گیا تھا کیونکہ اس وقت کے بڑے بڑے طبیب جو کثیر تعداد میں تھے ان دو مرضوں کا علاج کرنے سے عاجز آچکے تھے۔ ان کی پیچیدہ امراض قرار دیا گیا تھا۔
آپ علیہ السلام کے زمانے میں علم طب کا زور تھا بڑے بڑے طبیب موجود تھے آپ کو ایسا معجزہ عطا فرمایا گیا کہ جس سے تمام طبیب عاجز آچکے تھے جیسے موسی علیہ السلام کے زمانے میں جادوگری کا زور تھا تو آپ کو ایسے معجزات عطا کیے گئے خصوصاً عصا سے اژدھا جس کے سامنے بڑے بڑے جادوگر عاجز آگئے تھے حضرت وہب رضی اللہ سے مروی ہے کہ آپ سے پچاس ہزار آدمیوں نے علاج کرایا جو آپ کے پاس آنے کی طاقت رکھتے تھے وہ خود حاضر ہوئے اور جو آپ کے پاس آنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے ان کے پاس عیسیٰ علیہ السلام خود تشریف لے جاتے ان سے ایمان لانے کی شرط رکھتے پھر آپ ان کا علاج اللہ تعالیٰ سے دعا کرکے فرماتے۔ آپ اندھوں مجنونوں چلنے پھرنے سے عاجز اور ہر قسم کے مریضوں کے لیے یہ دعا فرماتے:
’’اَللّٰھُمَّ اَنْتَ اِلٰہُ مَنْ فِی السَّمَاءِ وَاِلٰہُ مَنْ فِی الْاَرْضِ لاَ اِلٰہَ فِیْھِمَا غَیْرُکَ وَاَنْتَ جَبَّارُ مَنْ فِی السَّمَاءِ وَجَبَّارُ مَنْ فِی الْاَرْضِ لاَ جَبَّارَ فِیْھَا غَیْرُکَ وَاَنْتَ مَلِکُ مَنْ فِی السَّمَاءِ وَمَلِکُ مَنْ فِی الْاَرْضِ لاَ مَلِکَ فیْھِمَا غَیْرُکَ قُدْرَتُکَ فِی الْاَرْضِ کَقُدْ رَتِکَ فِی السَّمَاءِ وَسُلْطَانُکَ فِی الْاَرْضِ کَسُلْطَانِکَ فِی السَّمَاءِ اَسْاَلُکَ بِاِسْمِکَ الْکَرِیْمِ وَ وَجْھِکَ الْمُنِیْرِ وَمُلْکِکَ الْقَدِیْمِ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ‘‘ ’’از روح المعانی‘‘
فائدہ:
حضرت وہب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ دعا کسی مصیبت زدہ پریشان حال اور جنون کے مرض والے پر پڑھی جائے اور لکھ کر اسے پلائی جائے تو انشاء فائدہ ہوگا۔ (از روح المعانی)
مردوں کو زندہ کرنا:
آپ اللہ تعالیٰ کے حکم سے مردوں کو زندہ فرماتے تھے اللہ سے دعا فرماتے اور یاحی یاقیوم پڑھتے مردہ زندہ ہوجاتا۔ محی السنہ رحمہ اللہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت بیان کی کہ آپ نے چار شخصوں کو زندہ کیا:
۱۔ عازر ۲۔ بڑھیا کا بیٹا ۳۔ عاشر کی بیٹی
۴۔ سام بن نوح۔
آپ کا دوست عازر جب فوت ہوگیا تو اس کی بہن نے آپ کی طرف پیغام بھیجا کہ آپ کا بھائی عازر فوت ہوگیا۔ عازر کے گھر اور آپ جہاں تشریف فرما تھے اس کے درمیان تین دنوں کی مسافت تھی آپ اور آپ کے کچھ ساتھی جب وہاں تشریف لائے تو اس کی بہن کو کہا مجھے اس کی قبر پر لے جاؤ۔ آپ نے قبر پر آکر اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے اسے زندہ کردیا۔ وہ اسی طرح کچھ زمانہ زندہ رہا یہاں تک کہ زندہ ہونے کے بعد اس کی اولاد بھی ہوئی۔
اس طرح بڑھیا کا بیٹا فوت ہوگیا اسے چار پائی پر اٹھا کر لے جارہے تھے۔ عیسیٰ علیہ السلام کے قریب سے جنازہ کا گزر ہوا تو آپ نے اس کی لیے دعا فرمائی تو وہ زندہ ہوکر چار پائی پر بیٹھ گیا اور نیچے اتر آیا۔ اس نے کفن اتار کر کپڑے پہن لیے اور چار پائی کو خود کندھوں پر اٹھالیا اور اپنے گھر واپس آگیا۔ وہ بھی کچھ زمانہ زندہ رہا اور اس کی اولاد بھی بعد میں ہوئی۔
ایک شخص جو لوگوں سے عشر وصول کرتا تھا یعنی بادشاہ کی طرف سے اسے عشر وصول کرنے پر مقرر کیا ہوا تھا اس کی بیٹی فوت ہوگئی دوسرے دن عیسیٰ علیہ السلام نے اس کے لیے دعا کی وہ زندہ ہوگئی۔ وہ بھی اس کے بعد کچھ وقت تک زندہ رہی اس کی بھی اس کے بعد اولاد ہوئی۔
نوح علیہ السلام کے بیٹے سام کو فوت ہوئے کئی صدیاں بیت چکی تھیں عیسیٰ علیہ السلام اس کی قبر پر آئے اس کے لیے دعا کی اسے بھی اللہ تعالیٰ نے زندہ کردیا جب وہ قبر سے نکلا تو قیامت کے خوف سے اس کا سر نصف سفید ہوچکا تھا حالانکہ اس زمانے میں لوگوں کے بال سفید نہیں ہوا کرتے تھے، سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بال سفید ہوئے۔ اس نے قبر سے نکلتے ہوئے پوچھا کیا قیامت آگئی۔ عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا نہیں قیامت تو ابھی نہیں آئی البتہ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کرکے تمہیں زندہ کیا ہے آپ علیہ السلام نے فرمایا اب تم پھر مرجاؤ اس نے کہا ٹھیک ہے لیکن یہ شرط ہے کہ مجھے سکرات موت سے محفوظ رکھا جائے۔ آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اللہ تعالیٰ نے اسے سکرات موت کے بغیر ہی دوبارہ موت عطا فرمادی۔
سام بن نوح کو زندہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ جب قوم نے کہا کہ تم نے جو مردے ابھی زندہ کیے ہیں ان کی موت کے بعد جلدی ہی تم نے ان کو زندہ کیا ہے ہوسکتا ہے وہ حقیقت میں مرے ہی نہ ہوں بلکہ ان کو سکتہ کا مرض لاحق ہو تو اس کے کہنے پر آپ نے سام بن نوح کو زندہ کیا آپ کے اور اس کے درمیان چار ہزار سال کا فاصلہ تھا جب وہ زندہ ہوا تو اس نے کہا اے لوگو تم ان پر ایمان لے آؤ یہ اللہ تعالیٰ کے نبی ہیں کچھ لوگوں نے تو ایمان قبول کرلیا تھا لیکن کچھ بدبختوں نے یہ عظیم معجزہ دیکھنے کے بعد بھی یہ کہا کہ جادو ہے وہ ایمان لانے سے محروم رہے۔ (از روح المعانی)
بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ اس وقت کے بادشاہ نے اپنے بیٹے کے زندہ کرنے کی درخواست کی تھی تاکہ وہ زندہ ہوکر میرا خلیفہ بن سکے تو آپ کی دعا سے وہ بھی زندہ ہوگیا تھا اور آپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اور اس سے دعا کرکے کئی جانوروں کو بھی زندہ کیا تھا۔
عیسیٰ علیہ السلام کو علومِ غیبیہ عطا کیے گئے:
وَ اُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَ مَا تَدَّخِرُوْنَ فِیْ بُیُوْتِكُمْo (۴۹ پارہ ۳ آل عمران)
اور میں تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں جمع کر رکھتے ہو۔
علامہ رازی نے اس مسئلہ کا عنوان ذکر کیا:
’’واما الوع الخامس من امعجزات اخبارہ عن العیوب‘‘
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کی پانچویں قسم غیبی خبریں دینا۔
آپ نے بچپن میں ہی غیبی خبریں دینی شروع کردی تھیں جب آپ کے ساتھ بچے کھیلتے تو آپ انہیں ان کے والدین کے افعال کی خبریں دیتے اور یہ بتاتے تمہاری ماں نے تمہارے لیے کیا چیز چھپا کررکھی ہوئی ہے؟ بچے گھر آکر وہ چیز مانگتے، نہ ملنے پر روتے۔ جب لوگوں کو پتہ چلا کہ عیسیٰ علیہ السلام ہمارے بچوں کو یہ بتاتے ہیں تو انہوں نے بچوں کو کہا تم اس جادوگر کے ساتھ نہ کھیلا کرو۔ انہوں نے اپنے بچوں کو اپنے اپنے گھروں میں روک لیا، باہر نکل کر عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کھیلنے پر پابندی عائد کردی۔ آپ خود ہی بچوں کو بلانے ان کے گھروں میں آگئے۔ ان کے والدین نے کہا کہ وہ گھر نہیں ہیں آپ نے کہا وہ تو گھر ہی میں ہیں اگر وہ گھر نہیں ہیں تو کون گھروں میں ہیں؟ انہوں نے کہا خنزیر ہیں۔ عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اچھا خنزیر ہی ہوں گے۔ آپ کے کہنے پر دو خنزیر ہی ہوگئے۔
اس طرح مائدہ کے اترنے پر آپ نے قوم کو کہا کہ ذخیرہ بنا کر نہیں رکھنا، اتنا ہی لینا ہے جو اس وقت تم کھا سکو، لیکن قوم نے ذخیرہ بنانا اور دوسرے وقت کے لیے جمع کرنا شروع کردیا تو آپ نے فرمایا کہ مجھے معلوم ہے جو تم کھاتے اور جو جمع کرتے ہو آپ نے ہر ایک کو واضح طور پر بتایا تم نے کتنا کھایا ہے اور کتنا جمع کیا ہے۔ (از کبیر)
تنبیہ:
انبیائے کرام علیہم السلام کے معجزات آلات کے تابع نہیں ہوتے، عادات کے خلاف کام کرتے ہیں۔ لیکن ان میں فقط تائید ربانی حاصل ہوتی ہے۔ آج کل سائنسی ترقی نے بہت سے طریقے ایجاد کیے ہیں اگرچہ وہ عام عادات کے خلاف ہیں۔ لیکن وہ آلات کے محتاج ہیں اس لیے انہیں معجزات و کرامات نہیں کہا جاسکتا۔ مثلاً دور سے کلام سننا اور کرنا اگرچہ عام عادت کے خلاف ہے، لیکن فون کا واسطہ ہے اسی طرح دور سے کسی کی تصویر ٹیلی ویژن کے ذریعے دیکھنا بھی ایسے ہی ہے۔ لیکن انبیائے کرام علیہم السلام کے معجزات میں کوئی آلہ استعمال نہیں ہوا۔ نجومی بعض اوقات غیبی خبریں دیتے ہیں لیکن
’لا یمکنھم ذالک الا عن سوال یتقدم‘‘
وہ اس وقت تک کوئی خبر نہیں دے سکتے جب تک وہ پہلے اس واقعہ کے متعلق سوال نہ کرلیں۔
’’ثم یتعینون عند ذالک بآلۃ ویتو صلون بھا الی معرفۃ احوال الکواکب‘‘
پھر وہ اپنے(حساب وغیرہ) آلات کی امداد طلب کرتے ہیں ان آلات کے ذریعے ستاروں کے احوال کو حاصل کرتے ہیں۔
اور تب جاکر آنے والے واقعہ کی خبر دے سکتے ہیں لیکن پھر بھی صحیح خبر ان سے بہت کم ہی واقع ہوتی ہے اور غلط زیادہ ہوتی ہے۔
’’ثم یعترفون بانھم یغلطون کثیرا‘‘
پھر وہ خود بھی اعتراف کرتے ہیں کہ ہم سے زیادہ طور پر غلطیاں ہی واقع ہوتی ہیں، ہماری خبریں یقینی طور پر صحیح نہیں ہوتی۔
’’فاما الاخبار عن الغیب من غیر استعانۃ بآلۃ ولا تقدم مسالۃ لا یکون الا بالوحی من اللہ تعالیٰ‘‘
لیکن غیبی خبروں میں آلات سے کوئی امداد طلب نہیں کی جاتی اور نہ ہی پہلے اس واقعہ کے متعلق سوال کیا جاتا ہے یہ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کے ذریعے حاص ہوتی ہیں۔ (از کبیر)
علامہ رازی رحمہ اللہ کی اس تحقیق کے بعد بھی کوئی یہ کہتا پھرے کہ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کے زریعے حاصل ہوجائے اسے علم غیب نہیں کہا جاتا تو وہ نادان اپنی عقل کا علاج کرے یا پھر اپنی مردہ عقل کا ماتم کرتا پھرے انبیاء کرام علیہم السلام کی شان کو رب تعالیٰ نے بلند کردیا کسی کے کم کرنے سے کم نہیں ہوسکتی۔ علامہ آلوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ومن ھنا یعلم ان علم الجفر و علم الفلک ونحو ھما لما کانت مقرونۃ باصول وضوابط لا یقال عنھا علم غیب ابدا از علم الغیب شرطہ ان یکون مجردا عن المواد والو سائط الکونیۃ‘‘ (روح المعانی)
یہاں سے معلوم ہوگیا کہ علم جفر اور علم فلکیات یا اس قسم کے اور علوم چونکہ اصول و ضوابط پر مشتمل ہیں لہذی انہیں علم غیب نہیں کہا جاسکتا علم غیب کے لیے یہ شرط ہے کہ وہ مادہ اور تکوینی واسطوں سے خالی ہو۔
اس سے بھی واضح ہوا کہ وحی کے ذریعے حاصل ہونے والے علم کو غیبی کہنے سے انکار کرنا جہالت ہے۔
حواریین کا ایمان لانا:
وَ اِذْ اَوْحَیْتُ اِلَى الْحَوَارِیّٖنَ اَنْ اٰمِنُوْا بِیْ وَ بِرَسُوْلِیْج قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَ اشْهَدْ بِاَنَّنَا مُسْلِمُوْنَo (پ ۷ سورۃ المائدہ ۱۱۱)
اور جب میں نے حواریوں کے دل میں ڈالا کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ بولے ہم ایمان لائے اور گواہ رہ کہ ہم مسلمان ہیں۔
اس آیت کریمہ میں ’’اوحیت‘‘ کا معنی القاء دل میں ڈالنا اور الہام ہی کرنا ہے کیونکہ وحی انبیاء کرام کی طرف ہی فقط آتی ہے غیر نبی کی طرف وحی کا معنی القاء والہام ہی ہوتا ہے جیسے
’’وَاَوْ حَیْنَا اِلٰی اُمِّ مُوْسٰی‘‘ ہم نے موسی کی والدہ کے دل میں القاء کیا۔ اور
’’وَاَوْ حٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ‘‘ (آیت ۶۷ النحل پارہ ۱۴۵)
اور آپ کے رب نے شہد کی مکھی کے دل میں القاء کیا۔
اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو جو انعامات عطا فرمائے ان میں سے یہ بھی ہے کہ حواریین نے آپ کے ارشادات کو تسلیم کیا اور ایمان لائے۔
’’لان صبرورۃ الانسان مقبول القول عند الناس محبوبا فی قلو بھم من اعظم نعم اللہ علی الانسان‘‘
اس لیے کہ انسان کا قول جب دوسرے لوگوں کے نزدیک مقبول ہوجائے اور وہ ان کے دلوں میں محبوب ہوجائے تو یہ اس انسان پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے عظیم نعمت ہے۔
خیال رہے کہ ایمان دل کی صفت ہے یعنی تصدیق قلبی اور اسلام ظاہری اطاعت کا نام ہے گویا کہ رب تعالیٰ نے انہیں دو چیزوں کا حکم دیا:
’’امنوا بقلوبھم وانقادوا بظو اھرھم‘‘ (از کبیر)
دلوں سے ایمان لاؤ اور ظاہری طور پر بھی اطاعت کرو۔
’’قالوا آمنا طبق ما امرنا بہ واشھد جاننا مسلمون مخلصون فی ایماننا ومنقادون لما امرنا بہ‘‘ (از روح المعانی)
حواریوں نے کہا جس طرح ہمیں حکم دیا گیا ہے ہم اسی کے مطابق ایمان لائے اور تو خود ہی گواہ رہ کہ ہم مسلمان ہیں یعنی اپنے ایمان میں مخلص ہیں اور ظاہری طور پر بھی تیرے مطیع ہیں جیسے تونے ہمارے دلوں میں حکم القاء کیا ہے اسے تسلیم کرتے ہیں۔
حواریین کون تھے؟
حواریون جمع ہے حواری کی، عام طور پر کہا جاتا ہے:
’’فلان حواری فلان‘‘
فلاں شخص فلاں کے مددگاروں اور دوستوں میں سے خاص ہے۔
خیال رہے کہ بظاہر وہم ہوتا ہے حواری جمع ہے کراسی کی طرح لیکن ایسا نہیں
’’بل ھو مفرد منصرف کما صرح بہ المحققون‘‘
بلکلہ وہ مفرو منصرف ہے جیسا کہ محققین نے وضاحت کی ہے۔
حواری سفید ہونے کے معنی میں بھی استعمال ہے، گھروں میں باپردہ رہنے والی، سورج کی گرمی سے بچنے والی عورتوں کو بھی ’’حواریات‘‘ کہا جاتا ہے اسی وجہ سے دھوبی کو بھی حواری کہا جاتا ہے کہ کپڑوں کو سفید کرتا ہے۔
عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں کو حواریین کہنے کی وجہ میں مختلف اقوال ہیں۔
وہ سفید کپڑے پہنتے تھے اس لیے انہیں حواریین کہا گیا ہے۔ یا وہ دھوبی تھے لوگوں کے کپڑے سفید کرتے تھے اس لیے حواریین کہا گیا۔ یا ان کے دل صاف اور اخلاق پاکیزہ تھے اس لیے ان کا یہ نام ہوا۔
وہ لوگ کیا کام کرتے تھے اس میں بھی مختلف اقوال ہیں۔ ایک یہ کہ وہ مچھلی کا شکار کرتے تھے ان میں یعقوب، شمعون اور یوحنا نامی آدمی تھے عیسیٰ علیہ السلام ان کے قریب سے گزرے تو انہیں کہا تم مچھلی کا شکار کرتے ہو۔
’’فان اتبعتمونی صرتم بحیث تصیدون الناس بالحیاۃ الابدیۃ‘‘
اگر تم میری تابعداری کرو تو تم ہمیشہ لوگوں کا شکار کرو گے یعنی مجھ پر ایمان لاؤ تو تمہیں حیات جاودانی حاصل ہوگی۔
لوگ خود بخود تمہاری تابعداری کریں گے تمہارے احکام پر چلیں گے گویا وہ تمہارے شکار ہوں گے۔ انہوں نے آپ سے پوچھا تم کون ہو؟ آپ نے فرمایا عیسیٰ ابن مریم اللہ تعالیٰ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں ان لوگوں نے آپ سے معجزہ طلب کیا آپ نے شمعون کو پانی میں جال ڈالنے کے لیے کہا جب اس نے جال ڈالا تو اتنی اتنی مچھلیاں نکلیں کہ دو کشتیاں بھر گئیں۔ حالانکہ اس سے پہلے وہ رات بھر اپنی کوشش کرچکا تھا کئی مرتبہ جال ڈالنے پر کوئی مچھلی نہیں نکلی تھی۔ آپ علیہ السلام کے اس معجزہ کو دیکھ کر وہ لوگ ایمان لے آئے۔ اس وقت وہاں جتنے لوگ تھے بارہ یا انتیس سب ہی ایمان لے آئے۔
یہ جب بھوکے ہوتے تو کہتے اے روح اللہ ہم بھوکے ہیں تو عیسیٰ علیہ السلام پنا ہاتھ زمین پر مارتے ہر ایک کو دو دو روٹیاں نکال دیتے جب وہ پیاسے ہوتے تو پیاس کی شکایت کرتے تو آپ زمین پر اپنا ہاتھ مار کر ہر ایک کو پانی نکال دیتے تو وہ پانی پی لیتے۔ وہ کہنے لگے ہم سے افضل کون ہوگا جب ہم طعام طلب کرتے ہیں تو آپ طعام کھلادیتے ہیں اور جب ہم پانی طلب کرتے ہیں تو آپ ہمیں پانی پلادیتے ہیں تحقیق ہم پر ایمان لاچکے ہیں۔ عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا:
’’افضل منکم من یعمل بیدہ و یا کل من کسبہ‘‘
آپ کے اس ارشاد کے بعد انہوں نے محنت و مزدوری شروع کردی وہ لوگوں کے کپڑے دھوتے تھے اور اس کی حاصل شدہ مزدوری کو ہی اپنا خرچ بناتے۔
حواریین کے متعلق ایک قول یہ بھی ہے کہ ایک بادشاہ نے ایک مرتبہ لوگوں کی دعوت کی، طعام تیار ہوگیا تقسیم کے وقت ایک پیالے پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام مقرر ہوئے آپ نے تقسیم کرنا شروع کیا ایک ہی پیالہ سب لوگوں سے ختم نہ ہوسکا بادشاہ نے جب آپ کے معجزہ کودیکھا تو اس نے اپنی بادشاہت چھوڑدی آپ کی تابعداری اختیار کرلی۔ بادشاہ کے کچھ لوگ بھی اس کے ساتھ عیسیٰ علیہ السلام کے تابع ہوگئے ان ہی لوگوں کو حواریین کہا جاتا ہے۔
ایک اور قول یہ ہے کہ آپ کی والدہ نے آپ کو ایک کپڑے رنگنے والے شخص کے پاس چھوڑا کہ یہ بھی کپڑے رنگنا سیکھ جائیں وہ آپ کو جب اپنے کی کوئی بات بتانا چاہتا تو وہ آپ پہلے ہی جانتے ہوتے ایک دن وہ شخص کسی کام کے لیے جانے لگا تو آپ کو کہا کہ یہ کپڑے ہیں ہر ایک پر میں نے نشان لگادیا ہے اسی کے مطابق تم کپڑے رنگ دینا وہ چلا گیا تو آپ نے تمام رنگ ایک برتن میں دال کر پکا دیئے اور اسی ایک برتن میں تمام کپڑے بھی ڈال دیئے اور کپڑوں سے مخاطب ہوکر کہا:
’’کونوا باذن اللہ کما ارید‘‘
تم اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایسے ہی ہوجاؤ جیسے چاہتا ہوں۔
جب وہ شخص واپس آیا تو اس نے پوچھا کیا تم نے کپڑے رنگ دیئے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ ہاں میں نے سب رنگ اور سب کپڑے ایک برتن میں ڈال دیئے ہیں، رنگے جاچکے ہیں آپ نکال لیں۔ اس نے جب یہ سنا تو کہنے لگا تم نے کپڑے برباد کردیئے ہیں آپ نے فرمایا اٹھ کر دیکھو تو شائد صحیح رنگے ہوں۔ اس نے جب کپڑے نکالنا شروع کیے تو وہ اسی طرح رنگے ہوئے تھے جیسے اس نے نشان لگائے تھے۔ کوئی سرخ کوئی زرد اور کوئی سبز رنگ تھا یہ ماجرا دیکھ کر وہاں سب حاضرین متعجب ہوئے اور سب نے ایمان قبول کرلیا ان لوگوں کو ہی حواریین کہا جاتا ہے۔
ان تمام اقوال کے متعلق حضرت قفا رحمہ اللہ کی رائے یہ ہے کہ ان اقوال میں کوئی اختلاف نہیں بلکہ ان میں سے بعض بادشاہ اور اس کے قریبی تھے اور کچھ شکاری تھے کچھ کپڑے رنگنے والے اور کچھ دھونی تھے ان تمام کو حواریین کہا گیا کیونکہ وہ تمام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مددگار تھے اور ان کے ساتھ محبت کرنے والے اور ان کی اطاعت میں مخلص تھے۔
علامہ آلوسی نے فرمایا کہ یہاں مجازی معنی لینا زیادہ مناسب ہے کہ آپ کے جتنے لوگ بھی معاون اور خلوص سے آپ کے ساتھ محبت کرنے والے تھے وہ تمام حواریین تھے۔ (روح المعانی ج ۲ ص ۱۷۶)
حواریین کا آسمانی طعام طلب کرنا:
اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ هَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّكَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآىِٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِ قَالَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَo قَالُوْا نُرِیْدُ اَنْ نَّاْكُلَ مِنْهَا وَ تَطْمَىِٕنَّ قُلُوْبُنَا وَ نَعْلَمَ اَنْ قَدْ صَدَقْتَنَا وَ نَكُوْنَ عَلَیْهَا مِنَ الشّٰهِدِیْنَo (آیت ۱۱۲ المائدہ)
جب حوایوں نے کہا اے عیسیٰ بن مریم کیا آپ کا رب ایسا کرے گا کہ ہم پر آسمان سے ایک خوان اتارے؟ کہا: اللہ تعالیٰ سے ڈرور اگر ایمان رکھتے ہو، بولے ہم چاہتے ہیں کہ اس میں سے کھائیں اور ہمارے دلوں کو اطمینان حاصل ہو اور ہم آنکھوں سے دیکھ لیں کہ آپ نے ہم سے سچ فرمایا اور ہم اس پر گواہ ہو جائیں۔
اعلی حضرت بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے ’’ھل یستطیع ربک‘‘ (آیت ۱۱۲ المائدہ)
کا ترجمہ کیا….. ’’کیا آپ کا رب ایسا کرے گا؟‘‘ کیونکہ یہ سوال کرنے والے حواریین تھے جو آپ پر ایمان لاچکے تھے۔
’’ھم اول من آمن بعیسیٰ علیہ السلام‘‘
حواریین وہ لوگ ہیں جو سب سے پہلے عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے۔
قرآن پاک میں ان کے ایمان کا ذکر ان الفاظ مبارکہ سے کیا گیا ہے:
قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ اشْهَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَo (آیت ۵ سورۃ آل عمران)
حواریوں نے کہا ہم اللہ تعالیٰ کے دین کے مددگار ہیں ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور عیسیٰ علیہ السلام ہمارے ایمان لانے پر آپ گواہ رہیں۔
حواریین چونکہ مسلمان تھے انہوں نے رب تعالیٰ کی قدرت میں کوئی شک نہیں کیا اسی وجہ سے جلالین میں اس کا معنی بیان کیا گیا ہے۔
’’ھل یستطیع ای یفعل ربک‘‘ کیا تمہارا رب کرے گا۔
تفسیر صاوی میں اسی کی وضاحت ان الفاظ سے کی گئی:
’’ای یفعل ای فاطلق اللازم وھو الاستطاعۃ واراد الملذوم وھو الفعل ودفع بذالک مایقال ان الحواریین مومنون فکیف یشکون فی قدرۃ اللہ تعالیٰ‘‘
یعنی ’’ھل یستطیع‘‘ کی تفسیر ’’یفعل‘‘ سے مفسر نے اس لیے کی ہے کہ ذکر استطاعت کا ہے جو لازم ہے اور مراد ملزوم ہے اور وہ فعل ہے کیونکہ جہاں کام کرنا ہوگا وہاں استطاعت لازم ہوگی یہ مجاز اس لیے مراد ہے کہ ایک سوال کو مندفع کرنا مقصود ہے وہ سوال یہ ہے کہ حواریین تو ایمان والے تھے انہوں نے رب تعالیٰ کی قدرت میں کیسے شک کیا ہے تو اس کا جواب دے دیا گیا ہے کہ یہاں یہ سوال ہی نہیں کہ کیا تمہارا رب ایسا کرسکے گا بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا تمہارا رب ایسا کرے گا۔
فائدہ:
ابو شامہ رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ ابو طالب کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے کیونکہ وہ مریض تھے انہوں نے کہا اے میرے بھائی کے بیٹے تم اپنے رب تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ مجھے عافیت دے دے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی:
’’الھم اشف عمی‘‘ اے اللہ تعالیٰ میرے چچا کو شفا عطا فرما۔
’’فقام کانما نشط من عقال‘‘
ان کو اسی وقت آرام آیا وہ جلدی سے اس طرح اٹھے جس طرح کسی اونٹ کی رسی کھول کو آزاد کریں تو وہ خوشی سے، پھرتی سے اٹھتا ہے۔
ابو طالب نے کہا اے میرے بھتیجے تم جس کی عبادت کرتے ہو ’’یطیعک‘‘ وہ تمہاری بات مانتا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’یاعم وانت لو اطعتہ لکان یطیعک‘‘
اے میرے چچا اگر تم اس کی اطاعت کرو تو وہ تمہاری حاجات کو بھی پوری کرے گا۔
ابو طالب نے ’’یطیعک‘‘ لفظ استعمال کیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کے جواب میں حسین انداز میں مشاکلت کے طور پر وہی لفظ ’’یطیعک‘‘ استعمال کیا ہے۔ جس کا ظاہری معنی ہے وہ تمہاری اطاعت کرے گا حالانکہ یہ مراد نہیں بلکہ اس کا معنی ہے:
’’یجیبک لمقصودک‘‘ وہ تمہارے مقاصد کو پورا فرمائے گا۔ (روح المعانی)
’’مائدہ‘‘ ہر چیز جسے بچھایا جائے اور پھیلایا جائے لیکن یہاں مراد دستر خوان ہے اسی طرح مائدہ اسے بھی کہتے ہیں جو چیز بلند ہو اور کھانا کھانے کے لیے اسے تیار کیا جائے۔(جیسے آج کل ڈائنگ ٹیبل پر کھانا کھایا جاتا ہے)
’’والا کل علیہ بدعۃ لکنہ جائز ان خلا عن قصد التکبر‘‘
اس پر کھانا اگرچہ بدعت ہے لیکن تکبر کی نیت نہ ہو تو جائز ہے۔
اس میں ان لوگوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو ہر بدعت کو گمراہی بھی کہتے ہیں اور پھر ہزارہا بدعات کے مرتکب بھی ہورہے ہیں۔
’’وتطلق المائدۃ علی نفسی الطعام ایضا‘‘
مائدہ کا اطلاق طعام پر بھی کیا جاتا ہے۔
عام محققین نے ایسا ہی بیان کیا ہے یعنی انہوں نے آسمان سے طعام اترنے کا مطالبہ کیا عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: تم اس قسم کے سوال کرنے سے اللہ تعالیٰ سے ڈرو زیادہ نشانیاں اور معجزات کا مطالبہ نہ کرو۔
حضرت فارسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آپ نے کہا کہ تقوی رکھو اللہ تعالی خود ہی تمہاری امیدوں کو پورا کرتا رہے گا۔ رب تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
وَ مَنْ یَّتَّقِ اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًاo وَّ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُo (آیت ۲ ۔ ۳ پارہ ۲۸)
اور جو اللہ تعالیٰ سے ڈرے اللہ تعالیٰ اس کے لیے نجات کی راہ نکال دے گا اور اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں سے اس کا گمان نہ ہو۔
اور آ پ نے فرمایا اگر تمہیں اللہ تعالیٰ کی کامل قدرت پر ایمان ہے اور میری نبوت کے صحیح ہونے پر یقین ہے اور تمہیں اپنے ایمان میں کمال اور خلوص ہے اور اگر تم اپنے دعوی ایمان اور خلوص میں سچے ہو تو اس قسم کے سوال کرنے کا تمہارا کیا مقصد ہے۔ (ازروح المعانی)
قوم نے جواب دیا کہ ہم آسمانوں سے کھانا اترنے کا سوال کرکے ایک معجزہ کی طلب نہیں کررہے بلکہ ہمارا یہ سوال درحقیقت کئی چیزوں کی طلب پر مشتمل ہے۔
۱۔ ہم چاہتے ہیں کہ آسمانوں سے ہمارے لیے کھانا اترے کیونکہ ہم بھوک میں مبتلا ہیں ہمارے پاس اور کوئی کھانے کی چیز نہیں ہے۔
۲۔ ہمیں اللہ تعالیٰ کی قدرت پر یقین ہوجائے لیکن جب ہم اس کا مشاہدہ کریں گے کہ یہ کھانا آسمانوں سے نازل ہوا ہے تو ہمارا یقین اور بڑھ جائے گا اور اطمینان میں قوت حاصل ہوگی۔
۳۔ ہم آپ کے کئی معجزات کو دیکھ کر آپ کی صداقت پر یقین کرچکے ہیں جب یہ معجزہ بھی دیکھ لیں گے تو آپ کی صداقت و نبوت پر ہمارا یقین اور زیادہ ہوگا آپ کی معرفت اور زیادہ حاصل ہوگی آپ کے متعلق اور اطمینان ہوگا۔
۴۔ اس سے پہلے آپ نے اگرچہ کئی معجزات دکھائے ہیں لیکن وہ تمام زمین سے تعلق رکھنے والے تھے اب ہم وہ معجزہ دیکھنا چاہتے ہیں جس کا تعلق آسمانوں سے ہے یہ عظیم اور عجیب معجزہ ہوگا جب ہم اس کا مشاہدہ کرلیں گے تو ہم اس پر گواہ بن جائیں گے بنی اسرئیل کے جو لوگ نہیں حاضر انہیں بھی بتائیں گے۔
۵۔ ہم یہ کھانا بطور تبرک کھائیں گے کہ یہ نبی کے معجزہ سے حاصل ہے۔
۶۔ اور ہم یہ کھانا بطور محبت کھائیں گے کہ ہمیں یہ اپنے نبی کے ذریعے حاصل ہے۔
(ازروح المعانی)
عیسیٰ علیہ السلام کی مائدہ کے لیے دعا:
قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَآ اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآىِٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِ تَكُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَوَّلِنَا وَ اٰخِرِنَا وَ اٰیَةً مِّنْكَ وَ ارْزُقْنَا وَ اَنْتَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَo (پ ۷ سورت مائدہ آیت ۱۱۴)
عیسیٰ بن مریم نے عرض کی اے اللہ تعالیٰ، اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے ایک خوان اتار کہ وہ ہمارے لیے عید ہو ہمارے اگلے پچھلوں کی اور تیری طرف سے نشانی ہو اور ہمیں رزق دے اور تو سب سے بہتر روزی دینے والا ہے۔
جب عیسیٰ علیہ السلام نے دیکھا کہ ان لوگوں کا معجزہ کی طلب پر اصرار ہے اور غرض بھی ان کی صحیح ہے تو آپ نے دعا کرنے کا مصمم ارادہ کرلیا آپ نے بکری کے بالوں کا بنا ہوا سیاہ موٹا لباس پہنا، وضو کیا غسل کیا، نوافل ادا کیے، قبلہ کی طرف متوجہ ہوکر کھڑے ہوئے، نہایت خشوع و خضوع سے آنکھوں کو بند کرکے سر کو جھکایا، آنسو بہاتے ہوئے رب تعالیٰ کے حضور التجا کی: اے اللہ تعالیٰ ہم پر آسمانوں سے دسترخوان نازل فرما جو ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لیے عید بنے۔ (ازروح المعانی)
’’نتخذ الیوم الذی تنزل فیہ المائدۃ عیدا نعظمہ نحن ومن یاتی بعدنا‘‘
یعنی جس دن آسمانوں سے خوان اترے گا ہم اسے اپنے لیے عید کا دن سمجھیں گے، ہم بھی اس دن کی عظمت کریں گے اور ہمارے بعد آنیوالے بھی اس کی عظمت کریں گے۔
فائدہ:
اس سے معلوم ہوا کہ جس روز اللہ تعالی کی خاص رحمت نازل ہو اس دن کو عید بنانا اور خوشیاں منانا عبادتیں عبادتیں کرنا، شکر الہی بجالانا، طریقہ صالحین ہے اور کچھ شک نہیں کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری اللہ تعالیٰ کی عظیم ترین اور بزرگ ترین رحمت ہے اس لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت مبارکہ کے دن عید منانا اور میلاد شریف کے موضوع پر نعمتیں پڑھ کر، تقاریر کرکے، تلاوت قرآن پاک کرکے شکر الہی بجالانا اور اظہار فرح و سرور کرنا مستحسن و محمود اور اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں کا طریقہ ہے۔ میں نے اپنی کتاب ’’شمع ہدایت‘‘ میں اس موضوع پر کافی بحث کی ہے یہاں اس کا ایک ورق بطور خلاصہ ذکر کر رہا ہوں:
’’سمی بہ لان اللہ فیہ عوائد الاحسان ولعودہ بالسرور غالبا اور تفاؤلا ولا یستعمل فی کل یوم فیہ مسرۃ ولذ اقیل:
عید و عید وعید صرن مجتمعۃ |
|
وجہ الحبیب و یوم العید و الجمعۃ |
(درمختار باب العیدین)
عید کو عید اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کے احسانات لوٹ کر آتے ہیں اور ان کے آنے سے سرور بھی غالبا لوٹ آتا ہے یا نیک شگونی کی وجہ سے عید کہا جاتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کرے خوشی لوٹ آئے ہر مسرت کے موقع پر لفظ عید استعمال کیا جاسکتا ہے اسی وجہ سے شاعر نے کہا:
آج تو تین عیدیں جمع ہوگئیں۔ حبیب کے چہرے کا دیدار اور عید کا روز اور جمعہ کا دن۔
معلوم ہوا کہ ہر مسرت کے دن کو عید کہنا فقہائے کرام کے نزدیک جائز ہے۔ جب ہر مسرت کے دن کو عید کہا جاتا ہے۔ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعات کے دن سے بڑھ کر مسرت کا دن اور کونسا ہوسکتا ہے؟
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آپ نے.....
’’اَلْیَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِیْنَكُمْ‘‘ الخ (آیت ۳ سورۃ المائدہ)
آیت کریمہ تلاوت کی تو آپ کے پاس ایک یہودی تھا اس نے کہا اگر یہ آیت کریمہ ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید بناتے تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
’’فانھا نزلت فی یوم عیدین فی یوم عیدین فی یوم جمعۃ ویوم عرفۃ‘‘ (مشکوۃ باب الجمعہ)
کہ بیشک یہ آیت کریمہ اس دن نازل ہوئی جس دن دو عیدیں تھیں ایک جمہ کا دن اور ایک نویں ذوالحجہ کا دن۔
وہ دونوں ہمارے لیے عید کے دن ہیں یعنی ہم ہر ذوالحج کی نو تاریخ کو عید مانتے ہیں اور یہ آیت کریمہ بھی حجۃ الوداع کے موقع پر اسی دن نازل ہوئی اور جمعہ کا دن بھی ہمارے لیے عید کا دن ہوتا ہے اس طرح یہ آیت کریمہ جب نازل ہوئی اس دن دو عیدیں تھیں واضح ہوا کہ جمعہ کا دن عرفہ کا دن اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمتوں کے نازل ہونے کی وجہ سے جب عید بن گئے تو یقیناً جس دن سراپا رحمت، جان رحمت حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے وہ دن سب عیدوں کے دونوں سے بڑا ہے، البتہ محبت و ایمان کے بغیر اسے سمجھنا دشوار ہے۔
ارشاد باری اللہ تعالیٰ بجواب عیسیٰ علیہ السلام:
قَالَ اللّٰهُ اِنِّیْ مُنَزِّلُهَا عَلَیْكُمْ فَمَنْ یَّكْفُرْ بَعْدُ مِنْكُمْ فَاِنِّیْٓ اُعَذِّبُهٗ عَذَابًا لَّآ اُعَذِّبُهٗٓ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِیْنَo (پ ۷ ع۵ آیت ۱۴۲ مائدہ)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں اسے تم پر اتارتا ہوں، پھر اس کے بعد جو تم میں سے کفر کرے گا تو بے شک میں اسے وہ عذاب دوں گا کہ سارے جہان میں کسی پر نہ کروں گا۔ آپ کی دعا سے سرخ رنگ کا مائدہ دو بادلوں کے درمیان اترا جسے سب لوگ دیکھ رہے تھے یہاں تک کہ وہ ان کے پاس آگیا اس خوان کے آنے کو رب تعالیٰ نے چونکہ اس سے مشروط کردیا تھا کہ نازل تو میں کر رہا ہوں لیکن اس کے بعد جو تم میں سے کفر کرے گا نافرمانی کرے گا اسے ایسا عذاب دوں گا جو جہان میں سے کسی اور کو نہیں دوں گا۔
اس شرط کی وجہ سے عیسیٰ علیہ السلام خوان کو اترتے ہوئے دیکھ کر رونے لگے اور دعا کرنے لگے:
’’اَللّٰھُمَّ اجْجَلْنِیْ مِنَ الشَّاکِرِیْنَ اَللّٰھُمَّ اجْعَلْھَا رَحْمَۃً وَّلاَ تَجْعَلْھَا مُثْلَۃً وَعُقُوْبَۃً‘‘
اے اللہ تعالیٰ مجھے شکر گزاروں میں رکھ اے اللہ تعالیٰ اس خوان کو ہمارے لیے رحمت بنا اور اسے ہمارے لیے تباہی اور عذاب نہ بنا۔
پھر آپ نے وضو فرمایا نوافل ادا کیے روتے ہوئے دعا کرتے ہوئے اس سے رومال کو ہٹایا جس سے وہ ڈھانپا ہوا تھا اور کہا:
’’بسم اللہ خیر الرازقین‘‘
اس خوان میں آپ نے دیکھا کہ بھنی ہوئی مچھلی ہے اس مچھلی میں کانٹے اور چھلکے نہیں اس کے سر پر نمک، دم پر سرکہ اور اس کے ارد گرد مختلف قسم کی سبزیاں ہیں۔ اس پر ہر قسم کی سبزیاں تھیں سوائے ایک ساگ کراث(گندنا کا ساگ) کے۔ اور اس خوان میں پانچ روٹیاں تھیں ایک پر زیتون اور دوسری پر شہد اور تیسری پر تھی اور چوتھی پر پنیر اور پانچویں پر بھنا ہوا گوشت۔
شمعون نے پوچھا اے روح اللہ علیہ السلام کیا یہ دنیا کا کھان ہے یا کہ آخرت کا۔ تو آپ نے فرمایا کہ ان دونوں سے نہیں بلکہ اللہ تعالی اپنی قدرت کا ملہ سے اسے اب ہی معرض وجود میں لایا ہے تمہاے سوال کے مطابق رب تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے۔ اب تم کھاؤ اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو اگر تم نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا تو وہ تمہاری اور امداد فرمائے گا اور اپنا فضل اور زیادہ فرمائے گا وہ لوگ کہنے لگے اے روح اللہ علیہ السلام اس معجزہ میں آپ کوئی اور معجزہ بھی دکھادیں۔ آپ نے فرمایا:
’’یا سمکۃ احیی باذن اللہ‘‘ اے مچھلی! اللہ تعالیٰ کے حکم سے زندہ ہوجا۔
وہ مچھلی تڑپی اور زندہ ہوگئی آپ نے پھر فرمایا تو اپنے پہلے حال کی طرف لوٹ جا وہ پھر اسی طرح بھنی ہوئی مچھلی بن گئی۔
ان لوگوں نے اس سے سیر ہوکر کھایا عیسیٰ علیہ السلام نے انہیں کہا اس میں خیانت نہ کریں اور اسے دوسرے دن کے لیے ذخیر نہ کریں لیکن انہوں نے خیانت کی اور ذخیرہ بنالیا تو وہ اللہ تعالیٰ کی شدید گرفت میں آگئے دنیا میں انہیں شدید عذاب یہ دیا گیا کہ انہیں خنزیر بنادیا گیا۔ تین سو تیس آدمی اس عذاب میں مبتلا ہوئے۔ رات انہوں نے ٹھیک ٹھاک اپنے اہل و عیال میں گزاری، لیکن صبح خنزیر بنادیئے گئے عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھ کر روتے تھے۔ آپ جب ان کے نام لے کر انہیں بلاتے تو وہ سر ہلاتے لیکن انہیں کلام کرنے کی طاقت نہ ہوتی، اسی حال میں وہ تین دن زندہ رہے پھر مرگئے۔ یہ تو ان کو دنیاوی عذاب دیا گیا اخروی عذاب بھی انہیں شدید ہوگا۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’ان اشد الناس عذابا یعم القیامۃ من کفر من اصحاب المائدۃ والمنافقون وال فرعون‘‘
بیشک قیامت کے دن سخت عذاب مائدہ میں خیانت کرنے والوں اور منافقین اور فرعون اور اس کی قوم کو ہوگا۔ (روح المعانی)
یہودیوں کی سازش:
’’ومکروا ومکر اللہ واللہ خیر الماکرین‘‘ (آیت ۵۳ آل عمران)
اور کافروں نے مکر کیا اور اللہ تعالی نے ان کے ہلاک کرنے کی خفیہ تدبیر بتائی اور اللہ تعالی سب سے بہتر خفیہ تدبیر کرنے والا ہے۔
عیسیٰ علیہ السلام کو ہلاک کرنے کی سازش کافروں نے کیوں کی اس کی چند وجوہ ہیں:
۱۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو رسول بناکر بھیجا آپ نے ان کو اللہ تعالیٰ کے دین کی دعوت دی وہ سرکش اور نافرمان ہوگئے تو آپ نے ان سے مخفی رہنے کا فیصلہ فرمایا تاکہ وہ کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں۔ آپ کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا جیسا کہ نبی کریم کا مکہ مکرمہ میں حال تھا کہ آپ کفار کے خوف سے ابتداء میں بھی مخفی طور پر نمازیں ادا فرماتے رہے۔ عیسیٰ علیہ السلام اپنی والدہ کے ساتھ کہیں تشریف لے گئے تاکہ ان لوگوں سے کچھ دیر کے لیے کنارہ کش ہوجائیں تو آپ نے ایک بستی میں ایک شخص کے پاس قیام کیا اس نے بہت اچھی طرح مہمان نوازی کی۔ اس شہر کا بادشاہ بڑا ظالم تھا ایک دن وہ وہ شخص جو آپ کا مہمان نواز تھا، غمگین تھا آپ نے اس سے پوچھا تم اتنے پریشان غمگین کیوں ہو؟ اس نے کہا اس شہر کا بادشاہ بڑا ظالم ہے اور اس کی عادت ہے کہ وہ ہم میں سے ہر شخص پر باری باری دعوت کو لازم کردیتا ہے کہ اس کی اور اس کے لشکر کی دعوت کرے۔ انہیں کھانا کھلائے اور شراب پلائے۔ آج میری باری ہے اور میری پاس اتنا مال نہیں کہ میں اس کی دعوت کا انتظام کرسکوں۔
جب حضرت مریم علیہا السلام نے سنا تو آپ نے عیسیٰ علیہ السلام کو کہا اے اللہ تعالیٰ کے نبی اس کے لیے دعا کرو تاکہ اس کی مشکل حل ہوجائے۔ آپ علیہ السلام نے کہا اے میری امی اگر میں نے اس کے لیے دعا کردی تو اس میں فتنہ برپا ہوجائے گا، لیکن حضرت مریم علیہا السلام نے کہا کہ اس شخص نے ہماری بہت عزت کی احسان و اکرام کیا اس پر بھی احسان ہونا چاہیے۔
والدہ کے ارشاد و اصرار پر آپ نے اسے کہا کہ جب بادشاہ اور اس کا لشکر کے آنے کا وقت قریب ہو جائے تو ہنڈیا اور مٹکے پانی سے بھرلینا اور مجھے مطلع کرنا جب اس شخص نے آپ کے ارشاد پر عمل کرلیا تو آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی جتنی ہنڈیا پانی سے بھری تھیں سب میں پکا ہوا گوشت ہوگیا اور سب پانی سے بھرے ہوئے مٹکے شراب سے بھر گئے۔
جب وہ بادشاہ اور اس کے لشکری آئے تو انہوں نے کھانا کھایا اور شراب پی تو بادشاہ نے اس شراب کو عام شرابوں سے مختلف لذت والا پاکر سوال کیا کہ شراب تم کہاں سے لائے؟ پہلے تو اس شخص نے کافی ٹال مٹول سے کام لیا لیکن بادشاہ کے زیادہ مجبور کرنے پر اس نے بتادیا۔ بادشاہ کا ایک بیٹا چند دن پہلے مرگیا تھا اس نے خیال کیا کہ جس شخص کی دعا سے اللہ تعالیٰ پانی کو شراب بنادیتا ہے اس کی دعا سے اللہ تعالیٰ میرے بیٹے کو بھی زندہ کردے گا، اس نے عیسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ دعا کریں تاکہ اللہ تعالی میرے بیٹے کو زندہ کردے۔
عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ ایسا نہیں کرتے کیونکہ اگر وہ زندہ ہوگیا تو اس پر فتنہ برپا ہوجائے گا اس بادشاہ نے کہا جب مجھے میرا بیٹا نظر آجائے گا تو مجھے کسی چیز کی پرواہ نہیں ہوگی اور جب تم میرے بیٹے کو زندہ کردو گے تو میں تمہیں ہر قسم کی آزادی دے دوں گا تم جو چاہو وہی کرو۔ تم سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی۔ عیسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو اس کا لڑکا زندہ ہوگیا جب اس کی بادشاہی کے لوگوں کو پتہ چلا کہ اس کا لڑکا زندہ ہوگیا تو وہ فوراً اپنے اپنے ہتھیار لے کر آگئے اور انہوں نے اسے قتل کردیا۔ عیسیٰ علیہ السلام کی جب زیاہ شہرت ہونے لگی تو یہود نے حسد کرنا شروع کردیا آپ کے نسب میں طعنہ زنی شروع کردی اور آپ کو قتل کنے کی سازشیں کرنے لگے۔
۲۔ عیسیٰ علیہ السلام کی تشریف آوری کی بشارت تو رات میں رب تعالیٰ نے دے دی تھی اس لیے یہود کو معلوم تھا کہ انہوں نے تو رات کے کئی احکام منسوخ کردینے ہیں اس لیے پہلے انہوں نے آپ کے نسب پر طعنہ زنی شروع کی پھر آپ کے قتل کے منصوبے بنانے لگے یعنی آپ نے جب دین حق کی دعوت دینی شروع کی تو یہود کا غیظ و غضب بڑھ گیا اور آپ کو ایذا پہنچانی اور وحشت پھیلانی شروع کی اور آپ کو قتل کرنے کی کوشش کی۔ (از کبیر)
تنبیہ:
’’ومکراللہ‘‘ کا کئی لوگوں نے ترجمہ کیا ’’اللہ تعالیٰ نے مکر کیا‘‘ جو اردو زبان میں ’’فریب‘‘ اور ’’دھوکہ دینے‘‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اس لیے انہوں نے یہ ترجمہ کرکے لوگوں کو شکوک و شبہات میں مبتلا کردیا ہے کہ اللہ تعالی بھی معاذ اللہ مکار ہے۔ لیکن اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی رحمہ اللہ اور دیگر علمائے اہل سنت نے ترجمہ کیا ہے ’’اللہ تعالی نے خفیہ تدبیر کی‘‘ یہی معنی رب تعالیٰ کی شان کے لائق ہے۔
حضرت پیر کرم شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں تقریبا ہر زبان میں بلا استثناء ایسے مشترک الفاظ پائے جاتے ہیں جو متعدد معانی پر دلالت کرتے ہیں اور اہل زبان ان الفاظ کو بلا تامل ان کے مختلف معنوں میں استعمال کرتے رہتے ہیں۔ لیکن جب وہی لفظ کسی دوسری زبان میں استعمال ہونے لگتا ہے تو وہ اپنے اصلی مختلف معنوں میں سے کسی ایک معنی میں مشہور ہوجاتا ہے۔ اب جب ہم اسے اس کی اصلی زبان میں مستعمل ہوتے ہوئے پاتے ہیں تو اس کا وہی معنی جو ہمارے ذہن میں نشین ہوچکا ہوتا ہے چسپاں کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جب وہ چسپاں نہیں ہوتا تو پریشان ہوجاتے ہیں اس کی ایک مثال لفظ ’’مکر‘‘ ہے اس کا معنی حیلہ سازی بھی ہے اور یہی لفظ عربی میں صرف تدبیر کرنے اور کسی کی پنہاں سازش کو خفیہ طریقہ سے ناکام بنا دینے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے لیکن اردو میں ہم اس لفظ ’’مکر‘‘ کو صرف دھوکہ دہی اور فریب کاری کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں جب اس فعل کی نسبت ذات باری کی طرف ہوتی ہے تو ہمارا ذہن بلاوجہ طرح طرح کے شکوک و شبہات کی آما جگاہ بن جاتا ہے حالانکہ جب اس کا فاعل وہ ذات مقدس ہو جو ہر عیب ہر نقص اور نازیبا فعل سے پاک ہے تو ہم لفظ مکر کا معنی صرف خفیہ تدبیر یا خفیہ طریقہ جس سے دشمنان حق کے شیطانی منصوبوں کو خاک میں ملانا مقصود ہوتا ہے کریں گے اب کسی قسم کا شک باقی نہیں رہتا۔
’’قال المفضل و دبروا ودبر اللہ والمکر لطف التدبیر‘‘ (بحر محیط)
مفضل فرماتے ہیں:
’’ومکرو ومکراللہ‘‘ کا معنی ہے اور یہودیوں نے بھی(مسیح علیہ السلام کو قتل کرنے کی) خفیہ تدبیر کی اور اللہ تعالیٰ نے بھی(مسیح علیہ السلام کو بچانے کی) خفیہ تدبیر کی، کیونکہ مکر کا معنی یہاں صرف لطیف تدبیر، خفیہ تدبیر ہی لیا جاسکتا ہے اور اگر ان لغوی تحقیقات کے لیے انسان کے پاس وقت نہ ہو تو کم از کم علم بدیع کے قاعدہ مشاکلت کو ہمیشہ پیش نظر رکھے وہ یہ ہے کہ عربی میں کسی برے اور ناپسندیدہ فعل پر جو سزا دی جاتی ہے اسے اس لفظ سے تعبیر کردیتے ہیں حالانکہ وہ سزا کتنی مناسب اور قرین انصاف کیوں نہ ہو مثلاً
’’وَ جَزٰٓؤُا سَیِّئَةٍ سَیِّئَةٌ مِّثْلُهَا‘‘ یعنی برائی کا بدلہ برائی ہے۔ (آیت ۴۰ الشوریٰ)
اس طرح حالانکہ برائی کی سزا برائی نہیں ہوا کرتی بلکہ عین انصاف ہوا کرتی ہے یا مثلاً
’’فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَیْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْهِ‘‘ یعنی جو تم پر زیادتی کرے تم اس پر زیادتی کرو۔ (آیت ۱۹۴ البقرہ)
حالانکہ زیادتی اور تعدی کی روک تھام کرنا زیادتی اور ظلم نہیں بلکہ دین اور اخلاق کے تمام ضابطے اس کے درست ہونے کی تائید کرتے ہیں اس طرح یہاں بھی حضرت مسیح علیہ السلام کے قتل کرنے کی جو مکارانہ سازش ان یہودیوں نے کر رکھی تھی اللہ تعالی کی طرف سے اس کو ناکام بنانے کی جو تدبیر کی گئی اسے مکر سے تعبیر فرمادیا اور اس میں کوئی نقص نہیں۔ (ضیاء القرآن)
لیکن یہ نکات و ضوابط صرف اہل علم ہی جانتے ہیں عوام الناس ان سے بے خبر ہوتے ہیں ان کے سامنے وہی ترجمہ پیش کیا جاتا ہے جس سے وہ کوئی فائدہ حاصل کرسکیں ایسے تراجم کا کیا فائدہ جو شکوک و شبہات تو پید کریں لیکن کوئی نفع نہ دے سکیں۔
ایمان والوں سے عیسیٰ علیہ السلام کا امداد طلب کرنا:
فَلَمَّآ اَحَسَّ عِیْسٰى مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَى اللّٰهِ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ اشْهَدْ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَo رَبَّنَآ اٰمَنَّا بِمَآ اَنْزَلْتَ وَ اتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَo (پ ۳ سورت ال عمران آیت ۵۱)
پھر جب عیسیٰ نے ان سے کفر محسوس کیا تو کہا کون ہوتے ہیں میرے مددگار اللہ تعالیٰ کی طرف۔ حواریوں نے کہا ہم دین خدا کے مددگار ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ پر ایمان لائے اور آپ گواہ ہوجائیں کہ ہم مسلمان ہیں۔ اے ہمارے رب ہم اس پر ایمان لائے جو تونے اتارا اور رسول کے تابع ہوئے تو ہمیں حق پر گواہی دینے والوں میں لکھ دے۔
جب عیسیٰ علیہ السلام نے اپنا حکیمانہ کلام اور اپنے معجزات اس قوم کے سامنے پیش کیے تو انہوں نے بجائے اطاعت کے ان کے قتل کرنے کی تدبیر کی لہذا عیسیٰ علیہ السلام نے ان کے اس ارادہ اور پختہ کفر کو علامات سے محسوس فرمایا تو اپنے متبعین سے خطاب کیا کہ فی سبیل اللہ تعالی میرا مددگار کون ہے؟ ان کے خاص دوستوں نے کہا ہم اللہ تعالی کے دین کے مدگار ہیں اے عیسیٰ علیہ السلام ہم آپ کی ضرور مدد کریں گے۔
اس مدد پر کوئی دینوی اجرت مانگتے ہیں نہ کوئی اور چیز صرف خواہش یہ ہے کہ آپ قیامت کے دن ہماری اطاعت اور فرمانبرداری اور مسلمان ہونے کی گواہی دیں پھر رب تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوکر عرض کرنے لگے کہ اے مولی! ہم تیری تمام اتاری ہوئی کتابوں اور انبیائے کرام علیہم السلام کو عطا کروہ معجزات پر ایمان لائے اور سچے دل سے ظاہر و باطن میں تیرے اس رسول کے پیر و کار بنے۔ (از نعیمی)
عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر جانے کا واقعہ:
تفسیر خازن اور روح المعانی میں بیان کیا گیا ہے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ بنی اسرائیل کو جب عیسیٰ علیہ السلام نے تبلیغی فرمائی تو وہ آپ سے مقابلہ تو نہ کرسکے البتہ آپ کی شان میں گستاخی شروع کردی اور آپ کی والدہ مکرمہ پر عیب لگانے شروع کردیئے اور آپ کو طرح طرح کی تکالیف دینی شروع کردیں۔
ایک دن آپ شہر میں گشت فرمارہے تھے کہ شہر کے لوگوں نے آپ کو بہر پریشان کیا تب آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اے مولائے کائنات! میں کہاں تک صبر کروں اب بہتر یہی ہے کہ تو ان کو خنزیر بنادے۔ آپ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلے ہی تھے کہ وہ سب خنزیر بن گئے۔ اس واقعہ سے لوگوں پر ایک خوف طاری ہوگیا کسی نے اس وقت کے یہودی بادشاہ کو خبر دی کہ عیسیٰ علہ السلام کی دعا کو اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے آپ کی دعا سے اتنے لوگ خنزیر بن گئے ہیں تم بھی ان کے مخالف ہو اس لیے تم اپنی فکر رکھو کہیں وہ تمہارے خلاف بھی دعا نہ کردیں اور تمہارا بھی ایسا حال نہ ہوجائے۔
اس نے کہا کیا ہوسکتا ہے ایسے مقبول الدعا کے مقابلہ میں کوئی تدبیر بھی کام نہیں آسکتی البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ انہیں کسی حیلہ سے شہید کردیا جائے تو ان کی دعا کا خوف ختم ہوجائے گا کہ کہیں وہ مخالف دعا نہ کریں۔ اس نے ایک شخص ’’ططیانوس‘‘ کو اس کام کے لیے منتخب کردیا وہ ایک منافق شخص تھا بظاہر عیسیٰ علیہ السلام سے بھی ملتا تھا لیکن در پردہ وہ یہود سے بھی ملا ہوا تھا۔ جب یہ واقعہ درپیش آنے والا ہی تھا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے پہلے فرمادیا تھا کہ آج صبح سے پہلے ہی مجھے ایک شخص چند راہم کے عوض فروخت کردے گا۔
خیال رہے کہ منافقین تقریبا ہر دور میں رہے یعنی جہاں مخلصین ہوتے ہیں وہاں منافقین بھی ہوتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زمانہ میں بھی منافقین تھے جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم نہیں آیا تھا اس وقت تک جاننے کے باوجود آپ ان سے چشم پوشی فرماتے رہے جب حکم آگیا تو ایک ایک کا نام لے کر ان کو مسجد سے نکال دیا گیا۔
عیسیٰ علیہ السلام کو بھی معلوم تھا لیکن آپ بھی رب تعالیٰ کی مشیت پر شاکر تھے اسے کچھ نہیں کہا اور نہ ہی کسی اور کو کہا کہ اسے قتل کردیا جائے، چنانچہ ططیانوس کو اس یہودی بادشاہ نے جس کا نام بھی یہودا تھا تیس درہم دینے کا وعدہ کیا کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام کو خود شہید کردے یا کسی سے کرادے۔ تیس درہم کے لالچ میں آکر ططیانوس نے یہود کے چند آدمیوں کو ساتھ لیا اور آپ کی قیام گاہ پر آگیا ان لوگوں کو باہر کھڑا کیا اور خود اندر گیا۔ اس کے سامنے ہی عیسیٰ علیہ السلام کو کھڑکی کے ذریعے آسمانوں پر زندہ اٹھالیا گیا۔ وہ یہ ماجرا دیکھ کر بہت متعجب ہوا اور کافی دیر تک اس تعجب میں گم سم رہا، اس کے ساتھیوں نے سمجھا کہ شائد ططیانوس اور عیسیٰ علیہ السلام کے درمیان لڑائی ہو رہی ہے وہ اندر جانا ہی چاہتے تھے لیکن ان کا ساتھی باہر آگیا، اللہ تعالیٰ نے اسے عیسیٰ علیہ السلام کا ہم شکل بنادیا۔
اب اس کے باہر نکلتے ہی اس کے ساتھی یہودیوں نے یہی سمجھا کہ یہ عیسیٰ علیہ السلام ہیں کیونکہ یہ ان کا ہم شکل بھی تھا اس لیے انہوں نے اسے پکڑ لیا یہ چلا چلا کر انہیں بتا رہا تھا کہ میں تمہارا ساتھی ہوں حضرت مسیح کو قتل کرنے گیا تھا لیکن اس کی بات کو کسی ایک نے بھی نہ سنا بلکہ وہ کہنے لگے اے عیسیٰ (علیہ السلام)! تم نے ہمارے ساتھی کو قتل کردیا ہے اب ہمیں دھوکہ دینا چاہتے ہو یہ کہہ کر اسے سولی پر چڑھا دیا۔
خیال رہے کہ عیسائی بھی آج تک اسی وہم میں مبتلا ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام کو سولی پر چڑھا دیا گیا تھا البتہ پھر زندہ کر کے انہیں آسمانوں پر اٹھایا گیا ہے، اسی وجہ سے سارے عیسائی صلیب کو پوجتے ہیں اور اس سولی کو اپنے گناہوں کا کفارہ سمجھتے ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ططیانوس کو قتل کیا گیا نہ کہ عیسیٰ علیہ السلام کو،
وَّ قَوْلِهِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰهِ وَ مَا قَتَلُوْهُ وَ مَا صَلَبُوْهُ وَ لٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْهِ لَفِیْ شَكٍّ مِّنْهُ مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَ مَا قَتَلُوْهُ یَقِیْنًاo (پ ۶ سورت نساء آیت ۱۵۷)
اور ان کے اس قول سے کہ ہم نے قتل کردیا ہے مسیح عیسیٰ فرزند مریم کو جو کہ اللہ تعالیٰ کا رسول ہے حالانکہ انہوں نے نہ قتل کیا اور نہ اسے سولی چڑھا سکے بلکہ مشتبہ ہوگئی ان کے لیے (حقیقۃ) اور یقیناً جنہوں نے اختلاف کیا ان کے بارے میں وہ بھی شک شبہ میں ہیں ان کے متعلق نہیں ان کے پاس اس امر کا کوئی صحیح علم بجز اس کے کہ وہ پیروی کرتے ہیں گمان کی اور نہیں قتل کیا انہوں نے اسے یقیناً۔
یہود نے یہ دعوی کیا کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے رسول مسیح کو قتل کردیا ہے۔ مفسرین کرام علیہم الرضوان نے لکھا ہے کہ جب وہ آپ کو رسول مانتے تھے تو پھر قتل کا منصوبہ کیوں تیار کیا؟ اس کے دو جواب دیئے گئے ہیں:
۱۔ یہ الفاظ انہوں نے بطور تمسخر بڑھائے تھے وہ آپ کو رسول مانتے ہی نہیں تھے۔
۲۔ یہ الفاظ یہود نے نہیں بڑھائے تھے بلکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شان میں بیان کرنے کے لیے بڑھائے ہیں:
اگر یہود کی گذشتہ تاریخ کو دیکھا جائے تو یہ کچھ بعید معلوم نہیں ہوتا کہ آپ کو رسول اللہ مانتے ہوئے انہوں نے آپ کو قتل کرنے کی ٹھانی ہو۔ حضرت زکریا اور حضرت یحییٰ علیہما السلام کو نبی مانتے تھے لیکن جب ان بزرگواروں نے انہیں ان کی بد اخلاقیوں پر ٹوکا تو انہیں اپنے ہاتھ سے شہید کردیا بہر حال ان کا یہ دعوی کرنا کہ ہم نے مسیح کو قتل کردیا ہے۔ قرآن پاک میں اس کو مکمل اور واضح کردیا گیا ہے اور پھر ان کا اس پر اترانا اور فخر کرنا اس سے بڑھ کر ان کے کفر کی اور کیا دلیل ہوسکتی ہے۔
عجیب بات یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے دشمن یہود بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے ان کو قتل کردیا اور سولی پر دے دیا اور آپ کے ماننے والے اور پرستار بھی یہی یقین رکھتے ہیں کہ یہود نے حضرت مسیح کو سولی دے دی ’’گویا بیٹا سولی لٹکتے ہوئے ایلی ایلی (تم نے مجھے کیوں چھوڑ دیا) فریاد کرتا رہا اور باپ نے اس کی کچھ مدد نہ کی‘‘۔ اسی محاورے کے مطابق جب دشمن اور دوست اس بات پر متفق ہوچکے تھے تو قرآن نے آکر حضرت مسیح علیہ السلام کی عظمت و جلالت شان سے پردہ اٹھایا اور صرف الفاظ میں اعلان کیا کہ یہودی اپنی سازش میں کامیاب نہ ہوسکے، جس اللہ تعالیٰ کے رسول کو اپنے اللہ تعالیٰ کا پیغام سنانے کے باعث انہوں نے قتل کرنے کی سرتوڑ کوشش کی اللہ تعالیٰ نے ان کی اس نا پاک سازش کو نا کام بنادیا اور اپنے رسول کا بال بھی بیکانہ ہونے دیا۔ دونوں چیزوں کی نفی کردی یعنی یہودی نہ آپ کو قتل کر سکے اور نہ سولی پر چڑھ سکے جیسے مختلف انجیلوں میں مذکور ہے۔ (تحریف شدہ انجیلیں غیر معتبر ہیں)
مرزائیوں کو لاہوری پارٹی کے امیر مولوی محمد علی نے اپنے انگریزی ترجمہ قرآن پاک میں اس جگہ توضیح نوٹ لکھا ہے اس میں اس بات کی بڑی زحمت اٹھائی ہے کہ:
’’آیاتِ قرآن کو انجیلوں میں بیان کردہ حکایات پر منطبق کریں چنانچہ وہ ان تفصیلات کو جو انجیلوں میں موجود ہیں بڑی فراخدلی سے قبول کرتے ہیں کہ حضرت مسیح کو سولی دی گئی چنانچہ نیم جان ہوکر دوسرے دو مجرموں کی طرح نیچے گر پڑے آپ کے پہلو میں ضربیں لگا لگا کر چھلنی کردیا گیا اور خون کے فوارے بہہ نکلے وغیرہ پھر آخر میں نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ قرآن ان چیزوں کا انکار نہیں کرتا کیونکہ قرآن نے بھی سولی پر مرنے کی نفی کی ہے‘‘
لیکن اگر وہ ذرا سا تامل کرتے (سوچتے) تو قرآن کا ایک لفظ ہی ان کو اس زحمت لاطائل (بے فائدہ) سے بچا لیتا وہاں دونوں چیزوں کی نفی ہے مرنے کی بھی اور سولی پر چڑھائے جانے کی بھی، کیونکہ صلب کا معنی ہے:
’’الصلب ھو تعلیق الانسان للقتل‘‘ کسی انسان کو لٹکا دینا کہ وہ مرجائے۔
مرجانا صلب کے معنی موضوع میں داخل نہیں بلکہ اس فعل کا مقصد ہے اور مقصد و غایت مفہوم کو مستلزم ہو تو ہو لیکن معنی میں داخل نہیں ہوا کرتا۔
اگر یہ تسلیم کرلیا جائے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ یہود اپنے مقصد میں بظاہر کامیاب ہوگئے انہوں نے اپنے ساتھی ططیانوس کو مسیح سمجھ کر پکڑا بھی اور اس کے منہ پر تھوکا بھی اور اسے کانٹوں کا تاج بھی پہنایا اور پھر سولی پر بھی چڑھایا گویا اپنی طرف سے انہوں نے اس منحوس منصوبہ کو عملی جامہ پہنادیا اب یہ اور بات ہے کہ مسیح بچ گئے ان کو رب تعالیٰ نے آسمانوں پر اٹھالیا یہود بظاہر اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے کہ وہ اپنے ہی ساتھی کو مسیح سمجھ کر تذلیل و تحقیر بھی کرتے رہے اور اذیت رسانی کے سارے ارمان پورے کرتے رہے لیکن یہ ساری ذلت ان کے اپنے ہی ساتھ کو حاصل ہوئی ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہود کی نا پاک سازش کو نا کام کردیا اور اپنے برگزیدہ بندے اور جلیل القدر رسول کی توہین کرنے کا انہیں موقع قطعا نہیں دیا اور یہی قرآن کا واضح اعلان ہے یہود و نصاری کو عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کرنے اور سولی چڑھانے میں شک ہی رہا وہ فقط اپنے ظن ہی کی پیروی ہی کرتے رہے یہود کہتے تھے کہ اگر عیسیٰ علیہ السلام قتل ہوئے ہیں تو ہمارا ساتھی کہاں ہے اور اگر ہمارا ساتھی قتل ہوا ہے تو عیسیٰ علیہ السلام کہاں ہیں اور اس بارے میں نصاری کے مختلف اقوال کی توحد ہی نہیں امام ترمذی رحمہ اللہ نے تین مشہور فرقوں کی آراء نقل کی ہیں:
۱۔ نسطوریہ ۲۔ ملکانیہ ۳۔ یعقوبیہ
نسطوریہ فرقہ کا قول یہ ہے کہ حضرت مسیح کا ناسوت سولی چڑھایا گیا لیکن ان کا لاہوت سولی نہیں چڑھایا گیا۔
ملکانیہ کا خیال ہے کہ لاہوت کو بھی سولی چڑھایا گیا لیکن بالذات نہیں بلکہ بواسط ناسوت۔
یعقوبیہ کا نظریہ ہے کہ ناسوت اور لاہوت دونوں کو سولی چڑھایا گیا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کی یہ آراء کسی دلیل پر مبنی نہیں بلکہ سب کچھ ظن و گمان کی نقش آرائیاں ہیں حضرت مسیح کے نام سے واقف ہیں جتنی قومیں جہاں کہیں بستی تھیں سب اسی غلط فہمی کا شکار تھیں کہ آپ کو سولی پر چڑھایا گیا اس عالمی غلط فہمی کا ازالہ اور حضرت مسیح کی عظمت کا اعلان اگر قرآن حکیم نہ کرتا تو اور کون کرتا اس لیے بار بار اس حقیقت کو دہرایا گیا ہے ایک مرتبہ فرمایا:
’’وَ مَا قَتَلُوْهُ وَ مَا صَلَبُوْهُ‘‘ نہ انہوں نے قتل کیا اور نہ اسے سولی پر چڑھا سکے۔ (آیت ۱۵۷ سورۃ النساء)
اور پھر فرمایا: ’’وَ مَا قَتَلُوْهُ یَقِیْنًا‘‘ اور انہیں قتل کیا انہوں نے اسے یقیناً۔ (آیت ۱۵۷ النساء)
یعنی یہ بات یقینی بے شک و وہم اور گمان سے پاک ہے جس بات کو رب تعالیٰ یقینی کہے اس میں پھر شک کرنا کفر نہیں تو اور کیا ہے گویا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سولی چڑھانے اور آپ کی موت کا قول کرنے والے خود ہی اپنی زبان سے برملا طور پر اپنے کفر کا اعلان کر رہے ہیں۔
حضرت مسیح علیہ السلام کے بارے میں پھیلے ہوئے تمام نظریات کا بطلان کر کے اب قرآن خود بتاتا ہے کہ وہ کہاں گئے فرمایا:
’’بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَیْهِ‘‘ بلکہ اٹھالیا اسے اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف۔ (آیت ۱۵۸ النساء)
اب قدرتاً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کہاں اٹھالیا کہیں وہ خود بیٹھا تو ہے نہیں کہ وہاں بلالیا ہو تو اس کا جواب ہے کہ آسمان پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث معراج میں اس کی تصریح موجود ہے کیونکہ رفع کا معنی بلند کرنا ہے اگر کسی چیز کو نیچی جگہ سے اٹھا کر بلند جگہ رکھ دیا جائے یا کسی کا مرتبہ اور شان بلند کردی جائے تو وہاں رفع کا لفظ مستعمل ہوتا ہے اور اگر دونوں چیزیں اکٹھی ہوجائیں یعنی بلندی مقام اور بلندی شان تو رفع کا استعمال کیوں دل میں کھٹکے بات اتنی سی تھی بالکل مختصر اور دو ٹوک کہ یہودیوں کا دعوی اور عیسائیوں کا عقیدہ کہ حضرت مسیح کو سولی دی دیا گیا دونوں غلط ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی طرف اٹھالیا۔
اور حدیث رسول نے بتادیا کہ آپ کو آسمان پر اٹھالیا گیا لیکن انسان کو کج بختی یا ندرت آفرینی کا علاج جب تک سیدھی اور صاف بات میں اپنی پخ نہ لگالے حضرت کو قرار نہیں آتا۔
جناب مرزا صاحب تشریف لائے اور اپنے نبی اور مسیح ہونے کا دعوی کردیا اور اپنی نبوت کے ثبوت کے لیے وفات مسیح کو بطور اساس قرار دیا حالانکہ ختم نبوت کے مسئلہ کو حیات مسیح کے ساتھ دور کا بھی واسطہ نہیں اگر بفرض محال حیات مسیح ثابت نہ ہوسکے تو بھی خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کا کسی قسم کی نبوت کا دعوی کرنا آیات قرآنی اور احادیث نبوی کا صریح انکار اور کفر ہے۔
مزید برآں مرزا صاحب کا مسیح ہونے کا دعوی استدلال بھی کچھ کم دلچسپ نہیں آپ مسیح کیوں ہیں؟ اس لیے کہ احادیث میں موجود ہے کہ حضرت مسیح آئیں گے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فرمان غلط نہیں ہوسکتا اور اگر پوچھا جائے کہ جناب جن احادیث میں مسیح علیہ السلام کی آمد کا ذکر ہے ان میں تو مسیح کا نام اور ان کی والدہ کا نام اور محل نزول اور جو جو کارہائے نمایاں آپ انجام آپ دیں گے ان سب کا تفصیلی ذکر ہے اور حسن اتفاق کہ آپ میں اس تفصیلات میں سے کوئی ایک چیز بھی نہیں پائی جاتی تو پھر آپ وہ مسیح کیوں کر ہوئے؟ جس کی آمد کا وعدہ فرمایا گیا۔
جب کوئی جواب نہیں بن پڑتا تو پھر انہیں احادیث پر اعتراضات کی بوچھاڑ اور جب اس میں کامیابی نظر نہیں آتی تو پھر تاویلات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اگر بنی اسرائیل کے دانشوروں نے بچھڑے کو خدا مان لیا تھا تو آج اگر کوئی مرزا صاحب کو نبی یا مسیح موعود مان لے تو کیا تعجب ہے؟
وَ اِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكُوْنُ عَلَیْهِمْ شَهِیْدًاo (پ ۶ آیت ۱۵۹ النساء)
اور کوئی ایسا نہیں ہوگا اہل کتاب سے مگر وہ ضرور ایمان لائے گا مسیح پر ان کی موت سے پہلے اور قیامت کے دن وہ ہوں گے ان پر گواہ۔
یعنی عیسیٰ علیہ السلام وفات سے پہلے زمین پر نزول فرمائیں گے اور اس زمانہ میں جتنے اہل کتاب ہوں گے آپ پر ایمان لاکر دین اسلام میں داخل ہوں گے چنانچہ ان حیان کی عبارت ہے:
’’والظاھر ان الضمیرین فی بہ وموتہ عائدان الی عیسیٰ وھو سیاق الکلام‘‘ (بحر محیط)
ظاہر یہی ہے کہ لفظ بہ اور لفظ موتہ میں ضمیریں عیسیٰ علیہ السلام کی طرف لوٹ رہی ہیں سیاق کلام سے یہی سمجھ آتا ہے۔
اور امان ابن جریر فرماتے ہیں:
’’واولی الاقوال بالصحۃ والصواب قول من قال تاویل ذالک ان من اھل الکتاب الا لیومنن بعیسیٰ قبل موت عیسیٰ‘‘
تمام اقوال سے زیادہ صحیح اور درست قول یہ ہے کہ بہ اور موتہ کی ضمیروں کا مرجع عیسیٰ (علیہ السلام) ہے یعنی تمام کتابی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے فوت ہونے سے پہلے ان پر ایمان لے آئیں گے۔
اور علامہ قرطبی یہ قول نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’وقالہ قتادہ وابن زید وغیر ھما واختار الطبری ونحوہ عن الضحاک وعن سعید بن جبیر‘‘
کہ حضرت قتادہ ابن زید و غیر ہما کا یہی قول ہے ضحاک سعید بن جبیر اور امام طبری نے اسی کو ترجیح دی ہے۔
خیال رہے کہ بعض حضرات نے موتہ میں ضمیر کا مرجع اھل الکتاب کو بنایا تھا اور بعض نے ذات عیسیٰ علیہ السلام کو، یہی قول راجح ہے کہ بہ اور منہ کی ضمیریں ذات عیسیٰ علیہ السلام کی طرف لوٹ رہی ہیں اور اسی قول کی وجہ ترجیح یہ حدیث بیان کرتے ہیں جو حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:
’’عن النبی ﷺ انہ قال لینزلن ابن مریم حکما عدلا فلیقتلن الدجال ولیقتلن الخنزیر ولیکسرن الصلیب وتکون السجدۃ والحدۃ للہ رب العالمین ثم قال ابوھریرۃ قبل موت عیسیٰ علیہ السلام یعیدھا ثلاث مرات‘‘
حضور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابن مریم ایک عادل حاکم کی حیثیت سے تم میں ضرور اتریں گے وہ دجال اور خنزیر کو قتل کریں گے صلیب کو توڑیں گے اور سجدہ صرف اللہ تعالیٰ کو کیا جائے گا جو پروردگار عالم ہے پھر حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر دلیل کی ضرورت ہو تو یہ آیت پڑھو
’’وان من اھل الکتاب الا لیومنن بہ قبل موتہ‘‘ (آیت ۱۵۹ النساء)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا موتہ کی ضمیر ’’عیسی‘‘ کی طرف لوٹتی ہے آپ نے یہ بات تین مرتبہ کہی۔
یہ حدیث ان کثیر التعداد احادیث میں سے ایک ہے جن میں آنے والے مسیح کی والدہ کا نام ذکر کیا گیا ہے اور ان کی صفات اور ان کے کارہائے نمایاں کا تذکرہ ہے انصاف سے کہیے کیا جناب مرزا صاحب میں ان میں سے کوئی ایک بات بھی پائی جاتی ہے اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو پھر وہ مسیح موعود (یعنی وہ مسیح جس کے آمد کا وعدہ کیا گیا ہے) کیوں کر بن سکتے ہیں؟ (از ضیاء القرآن روح المعانی، خازن)
حیات عیسیٰ علیہ السلام:
عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق یہود کا عقیدہ یہ ہے کہ ہم نے انہیں سولی دے دی اور ان کی جان نکل گئی اور پھر ان کو دفن کردیا گیا اگرچہ آج تک وہ اس شبہ میں گرفتار ہیں کہ ہمارا ططیانوس کہاں گیا عیسائی یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ واقعی عیسیٰ علیہ السلام کو سولی پر چڑھایا گیا اور آپ کی جان بھی نکل گئی مگر پھر رب تعالیٰ نے آپ کو دوبارہ زندگی بخشی اور آسمان پر اٹھالیا اسی لیے وہ صلیب کو پوجتے ہیں اور اسی سولی کو سارے عیسائیوں کے گناہوں کا کفارہ سمجھتے ہیں کفارہ کا مسئلہ سولی پر ہی مبنی ہے۔
مسلمانوں کا عقیدہ یہ ہے کہ نہ آپ کو سولی دی گئی اور نہ آپ کی وفات واقع ہوئی بلکہ آپ کو اسی طرح بمع جسم شریف زندہ اٹھالیا گیا چنانچہ عیسیٰ علیہ السلام کا زندہ اٹھالیا جانا قطعی یقینی اجماعی مسئلہ ہے اس پر ساری امت مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتفاق ہے البتہ وہب کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو صرف تین ساعتوں کے لیے موت دی لیکن آپ کو سولی نہیں چڑھایا گیا پھر تین لمحات کے بعد آپ کو زندہ کر کے آسمانوں پر اٹھالیا گیا بہرحال وہب بھی عیسیٰ علیہ السلام کے اب زندہ ہونے اور آسمان پر زندہ اٹھائے جانے کے قائل ہیں خیال رہے کہ وہب کا قول جمہور مسلمانوں کے مخالف ہونے کی وجہ سے غیر معتبر ہے بہر حال اس مسئلہ میں آج تک مسلمانوں میں سے کسی کو اختلاف نہیں ہوا۔
مرزائیوں نے چودھویں صدی میں اس قطعی اور یقینی مسئلہ میں اختلاف کیا ہے وہ صرف مرزا صاحب کے نبی بنانے کے شوق میں ان کا عقیدہ یہ ہے کہ:
عیسیٰ علیہ السلام کو یہود نے تختہ دار پر لٹکا دیا اور انہیں بہت ذلیل بھی کیا مگر رب تعالیٰ نے ان کی جانب صلیب پر نہ نکلنے دی بلکہ یہود انہیں مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے آپ غشی کی حالت سے بیدار ہوکر نصیبین پہنچے، وہاں سے افغانستان گئے، وہاں سے کوہ نعمان پہنچے اور وہاں سے پنجاب کی طرف آئے اور یہاں سے کشمیر میں گئے، آخر میں ایک سو پچیس سال کی عمر میں آپ نے وفات پائی۔ وہاں ہی آپ کا مزار ہے۔
یہ من گھڑت کہانی مرزا صاحب نے اپنی تصنیفات میں تحریر کی ہے یعنی تبلیغ رسالت صفحہ ۶۰ تحفہ گولڑویہ صفحہ ۲۰ اور ایام الصلح سفحہ ۱۱۶ پر مرزا صاحب یہ داستان بے سروپا نقل کرکے اپنے نبی بننے کی راہ ہموار کرتے رہے، لیکن مسلمان بھی ان کی چالبازیوں کو بخوبی سمجھ گئے مرزا صاحب نے اس واقعہ کے ثبوت میں نہ کوئی آیت پیش کی ہے اور نہ ہی کوئی آیت پیش کی ہے اور نہ ہی کوئی حدیث اور یہاں تک کہ کوئی تاریخی حوالہ بھی نہیں پیش کرسکے اور بے چارے پیش بھی کا کرتے من گھڑت داستانوں کو کیسے دلائل سے ثابت کرتے ہاں البتہ ان کے چیلے چمچے کڑچھے اب مرزا صاحب کی کہانہوں پر مبنی کتابوں کا حوالہ دے کر اپنے دل کو تسلی دے سکتے ہیں لیکن بفضلہ تعالی مسلمانوں کو ورغلانے دھوکہ دینے اور مرزا کی نبوت کا قائل کرنے میں ان کا مقصد پورا نہیں ہوسکے گا۔(ان شاء اللہ) (از تفسیر نعیمی)
حیات عیسیٰ علیہ السلام پر دلائل:
وَ مَكَرُوْا وَ مَكَرَ اللّٰهُ وَ اللّٰهُ خَیْرُ الْمٰكِرِیْنَo (پ ۳ ع ۱۳)
اور کافروں نے مکر کیا اور اللہ تعالی نے خفیہ تدبیر فرمائی۔
علامہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
’’مکر اللہ تعالیٰ بھم ھوانہ رفع عیسیٰ علیہ السلام الی السماء‘‘ (کبیر)
یعنی اللہ تعالیٰ نے ان سے خفیہ تدبیر فرمائی یعنی بیشک اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو آسمانوں پر اٹھالیا۔
علامہ آلوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ومکر اللہ بان القی شبھہ علیہ السلام علی غیرہ فصلب ورفعہ الیہ‘‘ (روح المعانی)
اللہ تعالیٰ نے خفیہ تدبیر فرمائی یعنی ایک اور شخص کو آپ کے مشابہ کردیا جسے سولی دے دی گئی اور عیسیٰ علیہ السلام کو آسمانوں پر اٹھا لیا گیا۔
’’ومکر اللہ ای جازاھم علی مکرھم بان رفع عیسیٰ الی السماء والقی شَبہ علی من اراد اغتیالہ حتی قتل‘‘ (مدارک)
اللہ تعالی نے خفیہ تدبیر فرمائی یعنی ان کے مکر کی انہیں جزا دی کہ عیسیٰ علیہ السلام کو آسمانوں پر اٹھا لیا اور اسی شخص کو آپ کے مشابہ کودیا جو آپ کو دھوکہ سے قتل کرانا چاہتا تھا یہاں تک کہ وہ شخص خود ہی قتل ہوگیا۔
’’ومکر اللہ بان رفع عیسی علیہ الصلوۃ والسلام والقی شبھہ علی من قصد اغتیالہ حتی قتل ومکر اللہ بھم بان القی شبہ عیسیٰ علی من قصد قتلہ فقتلوہ ورفع عیسیٰ‘‘ (جلالین)
اللہ تعالیٰ نے ان سے خفیہ تدبیر فرمائی کہ جو شخص عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرانے کا ارادہ رکھتا تھا اے عیسیٰ علیہ السلام کے مشابہ کردیا تو انہوں نے اسے ہی قتل کردیا اور اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو آسمانوں پر اٹھالیا تمام مفسرین کرام کا اس مسئلہ پر اتفاق ہے کہ آپ کو زندہ آسمانوں پر اٹھا لیا گیا ہے۔
اِذْ قَالَ اللّٰهُ یٰعِیْسٰٓى اِنِّیْ مُتَوَفِّیْكَ وَ رَافِعُكَ اِلَیَّ وَ مُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ جَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْٓا اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ ثُمَّ اِلَیَّ مَرْجِعُكُمْ فَاَحْكُمُ بَیْنَكُمْ فِیْمَا كُنْتُمْ فِیْهِ تَخْتَلِفُوْنَo (آیت ۵۵، ۵۶ سورۃ آل عمران)
یاد کرو جب اللہ تعالی نے فرمایا اے عیسیٰ میں تجھے پوری عمر تک پہنچاؤں گا اور اپنی طرف اٹھالوں گا اور تجھے کافروں سے پاک کردوں گا اور تیرے متبعین کو قیامت تک تیرے منکروں پر غلبہ دوں گا پھر تم سب میری طرف پلٹ کر آؤگے میں تم میں فیصلہ کردوں گا جس بات میں جھگڑتے ہو۔
اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو آسمانوں پر اٹھا کر کافروں سے نجات دی اور کافروں کی سازش سے آپ کو بچالیا کافروں سے پاک کرنے کا یہی مطلب ہے آپ کی تابعداری کرنیوالے یعنی مسلمان آپ پر صحیح عقیدہ رکھنے والے تاقیامت منکرین پر غالب رہیں گے اور اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ عیسائی حکومت وغیرہ کے لحاظ سے یہودیوں پر غالب رہیں گے اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے آپ کو پوری عمر تک پہنچانے اور آسمانوں پر اٹھانے اور کافروں کی سازشوں سے پاک کرنے کا ذکر واضح طور پر فرمایا۔
’’متوفیک‘‘ کا ترجمہ اعلیٰ حضرت بریلوی قدس سرہ اور حضرت پیر محمد کرم شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے کیا ہے: ’’میں تمہیں پوری عمر تک پہنچاؤں گا‘‘۔ یہی معنی سب سے بہتر ہے۔ پیر صاحب رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس کی تفسیر میں رقمطراز ہیں:
علم معانی کا یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ اگر کسی لفظ کا ایک حقیقی معنی ہو اور دوسرا مجازی تو حقیقی معنی کو مجازی پر ترجیح دی جائے گی، ہاں اگر کوئی ایسا قرینہ پایا جائے جس کے ہوتے ہوئے حقیقی معنی متعذر ہو تو اس وقت معنی حقیقی کو ترک کر کے معنی مجازی مراد لیا جائے، لیکن اگر ایسے قوی قرائن موجود ہوں جو حقیقی معنی مراد لینے کی ہی مؤید ہوں تو اس حالت میں حقیقی معنی کو ترک کرکے مجازی معنی مراد لینے پر اصرار کرنا تو الٹی گنگا بہانے کے مترادف ہے، اب آپ لفظ توفی کے معنی پر غور فرمائیے! تاج العروس میں لفظ وفیٰ کی تحقیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’وتو فاہ ای لم یدع منہ شیئا‘‘
یعنی پورے کا پورا لے لیا اور اس سے کوئی چیز باقی نہیں رہنے دی۔
امام ابو عبد اللہ رحمہ اللہ الاحکام میں لکھتے ہیں:
’’توفیت مالی من فلان ای قبضتۃ‘‘ یعنی میں نے اس سے سارا مال واپس لے لیا۔
یہ تو ہے لفظ توفی کا حقیقی معنی ہاں یہ لفظ موت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے لیکن یہ اس کا مجازی معنی ہے جیسے صاحب تاج العروس نے لکھا ہے:
’’ومن المجاز ادرکتہ الوفاۃ ای الموت والمنیہ و توفی فلان اذمات وتوفاہ اللہ عزوجل اذا قبص روحہ‘‘
اس کا مجازی معنی ہے کہ اسے موت نے پالیا جو کوئی شخص فوت ہوجائے تو ’’توفی فلان‘‘ کہا جاتا ہے اور جب اللہ تعالی کے حکم سے کسی کی روح کو قبض کرلیا جائے تو کہا جاتا: ’’تو فاہ اللہ عزوجل‘‘
اب آپ خود فیصلہ فرمالیں کہ ایک لفظ کا حقیقی معنی ترک کرکے بغیر قرینہ کے اس سے مجازی معنی اخذ کرنے پر اصرار کرنا اس لفظ کے ساتھ کتنی بے جا زیادتی ہے اور یہاں صرف اتنا ہی نہیں کہ مجازی معنی لینے کا کوئی قرینہ موجود نہیں بلکہ ایسی قوی قرائن موجود ہیں جو اس لفظ کے حقیقی معنی لیے جانے پر دلالت کرتے ہیں آپ پوچھیں گے کہ وہ کون سے ایسے قرائن ہیں تو اس کے متعلق عرض ہے کہ:
ایک تو اس آیت کا سباق اس امر کا قوی قرینہ ہے یہاں گفتگو تجران کے عیسائیوں سے ہورہی ہے جو حضرت مسیح کی الوہیت کے قائل تھے مقصد کلام ہے اثبات توحید باری اور بطلان الوہیت مسیح۔ اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام مرچکے ہوتے تو کتنی صاف بات تھی کہ نجران کے عیسائیوں سے کہہ دیا جاتا کہ جن کو تم خدا مانتے ہو وہ تو مرچکے ہیں اور جو مرجائے کیا وہ بھی کہیں خدا بن سکتا ہے لیکن قرآن کا اس اسلوب کو اختیار نہ کرنا بلکہ اس انداز کو اپنانا اس بات کی واضح دلیل ہے کہ قرآن کی اس آیت کا مدعی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت کو بیان کرنا نہیں۔ دوسرا واضح قرینہ حضور صلی اللہ علیہ کا یہ ارشاد گرامی ہے:
’’قال الحسن قال رسول اللہ تعالیٰﷺ للیھود ان عیسیٰ لم یمت وانہ راجع الیکم قبل یوم القیامۃ‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام مرے نہیں اور قیامت سے پہلے وہ تمہاری طرف لوٹ کر آئیں گے۔
ان تصریحات کی موجودگی میں حقیقی معنی کو چھوڑ کر مجازی معنی مراد نہیں ہوسکتا اسی لیے جمہور مفسرین اس حقیقی معنی کو مدنظر رکھے ہوئے ہیں:
’’متوفیک ای مستوفی اجلک ومؤخرک الی اجلک المسمی عاصما ایاک عن قتلھم‘‘
اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی مقررہ مدت تک زندہ رکھے گا اور تمہیں قتل سے بچائے گا۔
’’متوفیک ای مستوفی اجلک معانہ انی عاصمک من ان یقتلک الکفار‘‘ (کشاف)
اللہ تعالی تمہیں پوری عمر تک پہنچائے گا یعنی تمہیں کفار کے قتل سے بچائے گا۔
امام ابن جریر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’واولی الا قوال بالصحۃ عندنا قول من قال معنی ذالک انی قابضک من الارض ورافعک الی لتواتر الاخبار من رسول اللہﷺ‘‘
یعنی میرے نزدیک صحیح ترین قول یہ ہے کہ اے عیسیٰ میں تجھے زمین سے قبض کرنے والا ہوں اور اپنی طرف اٹھانے والا ہوں کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث متواتر سے یہی چیز ثابت ہے کہ آپ کو زندہ آسمان پر اٹھایا گیا۔ (ضیاء القرآن)
علامہ رازی فرماتے ہیں: ’’انی متوفیک‘‘ (آیت ۱۱۷ المائدہ)
اور اس کی مثل رب تعالیٰ کے دوسرے ارشاد گرامی:
’’فلما توفیتنی کنت انت الرقیب علیھم‘‘
پھر جب تو نے مجھے اٹھالیا تو تو ہی ان پر نگاہ رکھتا تھا۔
میں تفسیر دو طرح کی جاسکتی ہے ایک یہ کہ آیت کو اپنے ظاہر پر رکھا جائے اور کسی قسم کی تقدیم و تاخیر نہ کی جائے اور دوسری تفسیر میں تقدیم و تاخیر کا اعتبار کرنا فرض ہوگا۔ پہلی تاویل میں پھر چند وجوہات ہیں:
پہلی وجہ:
’’انی متوفیک ای متمم عمرک فحنینئذ اتوفاک فلا اترکھم حتی یقتلوک بل انا رافع الی سمائی ومقربک بملائکتی واصونک عن ان یتمکنوا من ذالک وھذا تاویل حسن‘‘ (کشاف)
یعنی ’’انی متوفیک‘‘ کا معنی یہ ہے کہ میں تمہیں پوری عمر تک پہنچاؤں گا اب ’’اتوفاک‘‘ کا مطلب یہ ہوگا کہ میں تمہیں ایسے ہی نہیں چھوڑدوں گا کہ یہود تمہیں قتل کر دیں بلکہ میں آسمانوں کی طرف تمہیں اٹھالوں گا اور فرشتوں کا مقرب بنادوں گا اور تمہیں اس سے محفوظ رکھوں گا کہ یہود تم پر قادر ہوسکیں علامہ رازی نے اسی تاویل کو اچھا کہا ہے۔
دوسری وجہ:
کہ ’’متوفیک‘‘ کا معنی ’’ممیتک‘‘ کا کیا جائے یہی معنی حضرت ابن عباد اور محمد بن اسحاق سے مروی ہے مقصد اس کا یہ ہے کہ یہود آپ کو قتل نہیں کرسکیں گے بلکہ آپ کو اپنے وقت پر طبعی طور پر وفات ہوگی اگرچہ ابن وہب نے تین ساعتیں وفات حاصل ہونے کے بعد آسمانوں پر اٹھائے جانے کا قول کیا ہے اور محمد بن اسحاق نے سات ساعتیں وفات حاصل ہونے کے بعد آسمانوں پر اٹھائے جانے کا ذکر کیا ہے۔
تیسری وجہ:
ربیع بن انس کا قول ہے: آپ کو آسمانوں پر اٹھاتے وقت وفات عطا کی گئی۔
چوتھی وجہ:
اگرچہ واؤ ترتیب پر دلالت نہیں کرتی لیکن اگر ترتیب والا معنی اعتبار کر ہی لیا جائے تو پھر اتنا مطلب نکل سکے گا اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرمایا کہ میں تمہیں پہلے فوت کرنے ولا ہوں اور پھر آسمانوں پر اٹھانے والا ہوں لیکن یہ کیسے کرے گا اور کب کرے گا اس کا ذکر نہیں یہ دلیل پر موقوف ہے اور دلیل سے ثابت ہے کہ آپ زندہ ہیں کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اتریں گے اور دجال کو قتل کریں گے پھر فوت ہوں گے اس سے معلوم ہوا کہ آپ کی وفات پہلے جو ہوگی وہ یہی ہے اور آسمانوں پر اٹھایا جانا بعد میں ہوگا جیسے پہلے تھا۔
پانچویں وجہ:
ابوبکر واسطی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ’’انی متوفیک‘‘ کا معنی یہ ہے کہ میں تمہارے خواہشات اور نفسانی منافع کے حصول کو مارنے والا ہوں اور میں تمہیں آسمانوں پر اٹھانے والا ہوں اور ان خواہشات سے دور کرنے والا ہوں تاکہ تمہیں خواہشات اور غیظ و غضب اور برے اخلاق کے زوال سے ملائکہ کا مقام حاصل ہو جائے کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے ما سوا کی محبت کو نہیں مارتا وہ اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل نہیں کرسکتا۔
چھٹی وجہ:
بیشک ’’التوفی‘‘ کا معنی کسی چیز کو مکمل طور پر لینا اللہ تعالیٰ علیم و خبیر ذات ہے جسے یہ معلوم تھا کہ کچھ لوگ کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو روح کو آسمانوں پر اٹھایا ہے جسم کو نہیں تو رب نے ’’متوفیک‘‘ ذکر کر کے اس وہم کا ازالہ کردیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مکمل طور پر یعنی روح اور جسم دونوں کو آسمانوں پر اٹھایا اس تاویل کے صحیح ہونے پر اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی: ’’وما یضرونک من شئی‘‘ وہ آپ کا کچھ نقصان نہیں کر سکیں گے۔ (۱۱۳ آیت النساء) دلالت کر رہا ہے۔
آہ رحمت و شفقت سے محرومی:
آج کئی دنوں کے تعطل کے بعد پھر قلم کو ہاتھ میں لیا کیونکہ والدہ مکرمہ جو پیرانہ سالی میں بھی قرآن پاک کے سترہ، اٹھارہ پارے ہر روز تلاوت کیا کرتی تھیں اور آخری دو سال دس پارے تلاوت کرنے کا معمول رہا، اچانک ایک دن ڈیڑھ پارہ تلاوت کرنے کے بعد کمر میں کچھ تکلیف ہوئی اگرچہ بظاہر تکلیف مندفع بھی ہوگئی لیکن خوراک میں کمی ہونی شروع ہوگئی، ضعف بڑھتا گیا تقریبا ڈیڑھ دو ماہ یہی کیفیت رہی قرآن پاک کی تلاوت بھی معمول کے مطابق جاری نہ رکھ سکیں اور آخر کار اتوار کی شب بعد از نماز عشارء ۱۴؍ جمادی الاول ۱۴۱۷ھ، ۲۸ ستمبر ۱۹۹۶ء اس دار فانی سے آپ نے رحلت فرمائی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
مرحومہ و مغفورہ اپنے بیٹے، بیٹیوں اور پوتے، پوتیوں اور نواسے، نواسیوں کو دعاء و رحمت اور شفقت محبت بھری نگاہوں سے محروم کردیا، راقم ان تمام حضرات کا شکر گذار ہے جنہوں نے کثیر تعداد میں جنازہ میں شرکت کی، خصوصاً علمائے کرام اور بالخصوص حضرت علامہ سید حسین الدین شاہ صاحب مدظلہ العالی ناظم اعلیٰ جامعہ رضویہ ضیاء العلوم راولپنڈی کا جنہوں نے نماز جنازہ اور سوئم کے ختم قرآن پاک میں شرکت فرما کر میری حوصلہ افزائی کی اور والدہ مکرمہ کو دعاء مغفرت کا ہدیہ پیش کیا۔ اللہ تعالیٰ والدہ محترمہ کو جنت الفردوس عطا فرمائے اور مدارج بلند فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین۔
قارئین کرام سے بھی دعائے مغفرت کی درخواست کرتا ہوں، امید ہے کہ شرف قبولیت عطا فرمائیں گے۔ جزاھم اللہ احسن الجزاء
ساتویں وجہ:
’’انی متوفیک‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ میں تمہیں فوت ہونے والے کی طرح کرنے والا ہوں جس طرح اس کی خبر منقطع ہوجاتی ہے اور ظاہر زمین پر اس کے اثرات ختم ہوجاتے ہیں ایسے ہی تم سے بھی ظاہر طور پر لوگ کوئی نفع حاصل نہیں کرسکیں گے تمہاری زیارت سے مشرف نہیں ہوسکیں گے۔
آٹھویں وجہ:
’’التوفی‘‘ کا معنی قبض کرنا بھی آتا ہے جیسے کہا جاتا ہے۔
’’وفاتنی فلان دراھمی‘‘
یعنی فلاں شخص نے میرے درہم میرے قبضہ میں دے دئیے۔
اور کبھی کہا جاتا ہے: ’’توفیتھا منہ‘‘ تو اس کا معنی ہوتا ہے میں نے اس سے دراہم قبضہ میں لے لیے۔
اب معنی یہ ہوگا کہ میں تمہیں زمین سے نکال کر اپنے قبضہ قدرت میں لے کر آسمانوں پر اٹھانے والا ہوں۔
اعتراض:
اس صورت میں تو دونوں لفظوں کا ایک معنی ہوگا کیونکہ ’’متوفیک‘‘ کا معنی ہوگا قبض کرنا یعنی اٹھانا اور ’’رافعک‘‘ کا معنی بھی اٹھانا ہوگا یہ تکرار ہے اس کا کیا فائدہ؟
جواب:
’’متوفیک‘‘ ایک عمومی معنی پر دلالت کر رہا ہے یعنی یہ جنس ہے اس کے تحت مختلف نوعیں ہیں کیونکہ قبض کرنا کبھی موت کے ذریعے ہوتا ہے اور کبھی آسمانوں پر اٹھا کر ہوتا ہے اب واضح ہوا کہ ’’متوفیک‘‘ سےپتہ چلا کہ آپ کو قبض کرنا ہے کہ وہ کیسے؟ پھر رافعک سے یہ واضح ہوگیا کہ آسمانوں پر اٹھاکر۔
نویں وجہ:
’’متوفیک‘‘ کا معنی فوت کرنے والا نہیں بلکہ مکمل کرنا مراد لیا گیا ہے اور مضاف یہاں محذوف ہے اصل عبارت متوفی عملک ہے یعنی میں تمہارے اعمال کو اپنے حضور مکمل طور پر قبول کرنے والا ہوں یہاں تک تو پہلی تاویل کے مطابق کلام ہے جو اپنے ظاہر پر ہے کوئی تقدیم و تاخیر کا اعتبار نہیں۔
دوسری تاویل:
یعنی جب واؤ کو اپنی اصلی حالت میں رکھا جائے کہ واؤ میں ترتیب کا کوئی لحاظ نہیں ہوتا تو اب معنی میں تقدیم و تاخیر ہوگی اب آیت کریمہ کا مطلب یہ ہوگا:
وانی متوفیک و رافعک الی و مطھرک من الذین کفروا ومتوفیک بعد انزالی ایاک فی الدنیا o(آیت ۵۵ آل عمران)
بیشک میں تمہیں اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اور کافروں سے تمہیں پاک کرنے والا ہوں اور پھر تمہیں دنیا میں جب اتار دوں گا اس کے بعد فوت کرنے والا ہوں۔ (از کبیر)
تقدیم و تاخیر قرآن پاک میں کثیر جگہ واقع ہے اتقان میں علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے اس کی کئی مثالیں دیں ہیں چند ملاحظہ ہوں، حضرت مریم علیہا السلام کو رب تعالیٰ نے حکم دیا:
وَاسْجُدِیْ وَارْکَعِیْ o (آیت ۴۳ آل عمران)
اور سجدہ کرو اور رکوع کرو۔
حالانکہ اس وقت بھی نماز میں رکوع پہلے او رسجدہ بعد میں تھا لیکن یہاں تقدیم و تاخیر کے طور پر ذکر ہوا۔
’’خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ‘‘ اللہ تعالیٰ نے موت و حیات کو پیدا کیا۔ (آیت ۲ الملک)
حالانکہ حیات موت سے پہلے ہے۔
’’ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ‘‘ (وہ ذات جس نے) تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا۔ (آیت ۲۱ البقرہ)
یہاں بھی مخاطبین کا ذکر پہلے ہوا اور ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کا ذکر بعد میں کیا گیا۔
وَ لَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیْكَ وَ اِلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكَ o (۶۵ آیت الزمر)
اور تحقیق آپ کی طرف اور آپ سے پہلے انبیاء علیہم السلام کی طرف وحی کی گئی۔
یہاں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر پہلے اور آپ سے پہلے گذرے ہوئے انبیاء کا ذکر بعد میں۔ (از نعیمی)
وَ مَا قَتَلُوْهُ وَ مَا صَلَبُوْهُ وَ لٰكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْهِ لَفِیْ شَكٍّ مِّنْهُ مَا لَهُمْ بِهٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَ مَا قَتَلُوْهُ یَقِیْنًۢاo بَلْ رَّفَعَهُ اللّٰهُ اِلَیْهِo (۱۵۷ آیت النساء)
اور انہوں نے نہ اسے قتل کیاا ور نہ اسے سولی دی بلکہ ان کے لیے ان کی شبیہ کا ایک بنادیا گیا اور وہ جو اس کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں ضرور اس کی طرف سے شبہ میں پڑے ہوئے ہیں انہیں اس کی کچھ بھی خبر نہیں مگر یہی گمان کی پیروی اور یقینی طور پر انہوں نے اس کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی طرف اٹھالیا ہے۔
اس آیت کریمہ کے ماقبل یہود کے وعدہ توڑنے اللہ تعالیٰ کی آیات سے کفر کرنے انبیائے کرام علیہم السلام کو شہید کرنے کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ ذکر کیا گیا ہے کہ ان کے دلوں پر مہر لگادی گئی ہے اس کی وجہ ان کا کفر کرنا اور حضرت مریم علیہا السلام پر بہتان لگانا اور یہ کہنا کہ ہم نے مسیح بن مریم کو قتل کردیا ہے اس سے واضح ہوا کہ ان کا یہ کہنا ہی کفر تھا کہ ہم نے عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کر دیا ہے۔ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں علامہ آلوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’وھو حی فی السماء الثانیۃ علی ماصح عن النبی ﷺ فی حدیث المعراج وھو ھنالک مقیم حتی ینزل الی الارض یقتل الدجال ویملو ھا عدلا کماملنت جورا‘‘
وہ دوسرے آسمان میں زندہ ہیں یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث معراج سے ثابت ہے آپ وہیں مقیم ہیں یہاں تک کہ زمین میں اتریں گے دجال کو قتل کریں گے اور زمین کو اس عدل و انصاف سے بھر دیں گے جیسے وہ پہلی ظلم سے بھری ہوئی ہوگی۔
سید الاولیاء حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کلمہ بل آیت مذکورہ میں جس کا ترجمہ بلکہ ہوتا ہے ابطال ما قبل کے لیے ہے یعنی اللہ تعالیٰ ذعم یہود کو جو عیسیٰ بن مریم کی مقتولیت او مصلوبیت کے قائل تھے باطل کرتا ہے اور ماقبل اور مابعد بل اضرابیہ ابطالیہ کے متضاد ہوتے ہیں یعنی دونوں میں معاً متحقق نہیں ہوتے۔ (شمس الھدیہ ص ۸)
’’وما قتلوہ یقینا بل رفعہ اللہ الیہ‘‘ میں حسبِ مقتضی کلمہ بل مقتولیت (قتل ہوجانا) اور مرفوعیت (اٹھایا جانا) یعنی مسیح کے مارے جانے اور اٹھائے جانے میں منافات اور عدم اجتماع فی التحقیق چاہیے اور ظاہر ہے کہ مابین مارے جانے اور اٹھائے جانے روح کے آسمان کی طرف کچھ منافات نہیں دونوں امر معاپائے جاتے ہیں۔ مقربین سے جو قتل کیا جاتا ہے ان کی ارواح بھی عالم علوی کو اٹھائی جاتی ہیں اب بالضرورۃ رفع جسمانی لینا پڑے گا کیونکہ مسیح کے قتل جسمی اور رفع جسمی دونوں میں تضاد اور تنافی ہے اگر جسم مسیح یہود کے ہاتھ میں مقتول ہو تو وہی جسم عالم بالا کی طرف مرفوع نہ ہوا (نہ اٹھایا گیا) اور اگر مسیح بجسدہ العنصری (اپنے ظاہر جسم کے ساتھ) بحفظ و امان اٹھائے گئے تو یہود کے ہاتھ میں مقتول نہیں ہوسکتے۔
توضیح مقام:
اس مقام کی وضاحت یہ ہے کہ رفعہ اللہ تعالی یا تو کنایہ ہوگا اعزاز اور رفع منزلت ہے جیسا کہ مرزا صاحب بشہادت محاورہ اور حوالہ کتب لغت لیتے ہیں، اس صورت میں ظاہر ہے کہ قتل اور قرب الٰہی میں تضاد نہیں بلکہ قتل اور شہادت موجب مستقل ہے رفع منزلت عند اللہ تعالیٰ کے لیے سوائے نبوت کے اور یامراد اس سے رفع روحی بطریق موت طبعی کے ہوگا بقرینہ وعدہ توفی یعنی .....
’’یا عیسیٰ انی متوفیک ورافعک الی‘‘ (آیت ۵۵ آل عمران)
فقط لفظ ’’متوفیک‘‘ اگرچہ مطلق موت پر دال ہے عام اس سے کہ اپنے آپ ہو یا قتل کی وجہ سے لیکن حصر جو مستفاد ہے ضمیر متکلم کے مسندالیہ اور صیغہ مشتق کے مند بنانے سے مفید ہے موتِ طبعی کا اس تقریر میں اگرچہ تضاد متحقق ہے مگر بلحاظ اس کے کہ ماضویت توفی اور رفع کے .....
..... ’’بل توفاہ اللہ ورفعہ اللہ الیہ‘‘ میں یہ نسبت ماقبل کلمہ بل کے طرف ہونی چاہیے کہ موت طبعی مسیح کی قبل ازواقعہ قتل وصلیب زعمی متحقق ہو حالانکہ کوئی مؤرخ اسلامی اور غیر اسلامی اس کی شہادت نہیں دیتا بلکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما اور تمام اہل اسلام آج تک اسی کے قائل ہیں کہ آپ کے جسم کو سولی چڑھانے سے پہلے ہی اٹھالیا گیا ہے۔ (از شمس الھدایت مع حاشیہ ص ۱۱)
وَ اِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَیُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یَكُوْنُ عَلَیْهِمْ شَهِیْدًاo (آیت ۱۵۹ النساء)
اور کوئی کتابی ایسا نہیں جو اس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوگا۔
اس آیت کریمہ کی تفسیر میں علامہ آلوسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’والمعنی انہ لا یبقی احد من اھل الکتاب الموجو دین عند نزول عیسیٰ الا لیومنن بہ قبل ان یموت و تکون لادیان کلھا دینا واحدا‘‘
مطلب یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے آسمانوں سے اترنے کے وقت جتنے اہل کتاب موجود ہوں گے ان میں سے کوئی ایسا نہیں ہوگا جو آپ کی وفات سے پہلے آپ پر ایمان نہ لائے یعنی سب ایمان لے آئیں گے تمام دین ختم ہوجائیں گے اور صرف ایک دین ہوجائے گا۔ (روح المعانی)
اس آیت میں بھی آپ کے آسمانوں سے اترنے اور آپ پر اہل کتاب کے ایمان لانے کا ذکر ہے۔
وَ اِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَ اتَّبِعُوْنِ هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌo (آیت ۶۱ الزخرف)
اور بیشک عیسیٰ علیہ السلام قیامت کی خبر ہے تو ہر گز قیامت میں شک نہ کرنا اور میری تابعداری کرنا یہ سیدھی راہ ہے۔
’’یعنی نزولہ سبب للعلم بقرب الساعۃ ویجتمع عیسیٰ علیہ السلام والمھدی رضی اللہ عنہ فیقوم عیسیٰ بالشریعۃ والا مامۃ والمھدی بالسیف والخلاقۃ‘‘ (حاشیہ جلالین شریف)
عیسیٰ علیہ السلام کا نزول قیامت کے قریب ہونے کی علامت ہوگا عیسیٰ علیہ السلام اور امام مہدی کا اجتماع ایک زمانہ میں ہوگا عیسیٰ علیہ السلام شریعت و امامت کے امور سر انجام دیں گے اور حضرت مہدی کے سپرد خلافت و جہاد کے معاملات ہوں گے۔
’’انہ بنزولہ شرط من اشراطھا وتسمیتہ علما لحصولہ بہ‘‘ (ابو السعود ۹)
بیشک عیسیٰ علیہ السلام کا اترنا قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے آپ کے اترنے کو علم کہا گیا ہے کیونکہ آپ کے اترنے سے قیامت کا علم حاصل ہوجائے گا کہ قیامت اب آرہی ہے۔
علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے بھی ان الفاظ سے ہی روح المعانی میں تفسیر کی ہے جن الفاظ سے ابوالسعود نے کی ہے اس آیت میں بھی واضح ہوا کہ آپ ابھی تک زندہ ہیں اور قیامت کے قریب اتریں گے۔
وَ یُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَ كَهْلًاo (آیت ۴۶ آل عمران)
اور لوگوں سے کلام کرے گا پنگھوڑے میں اور پکی عمر میں۔
یہاں عیسیٰ علیہ السلام کے معجزات کا ذکر کیا گیا ہے بچپن کی وہ عمر جس میں عام بچے کلام نہ کرتے ہوں گے اس وقت کلام کرنا ایک معجزہ ہے لیکن پکی عمر میں تو ہر انسان کلام کرتا ہے اس میں عیسیٰ علیہ السلام کی تخصیص کیسے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے علامہ رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’وکھلا ان یکون کھلا بعد ان ینزل من السماء فی آخر الزمان ویکلم الناس ویقتل الدجال قال الحسین بن الفضل وفی ھذہ الایۃ نص فی انہ علیہ الصلوۃ والسلام سینزل الی الارض‘‘
پکی عمر میں کلام کرنے کا یہ مطلب ہے کہ آپ آخر زمانہ میں آسمانوں سے اتریں گے اس وقت آپ کی عمر پکی ہوگی اور آپ لوگوں سے کلام فرمائیں گے اور دجال کو قتل کریں گے حسین بن فضل نے کہا یہ آیت واضح طور پر نص ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زمین پر اتریں گے۔
احادیث مبارکہ:
عیسیٰ علیہ السلام کا آسمانوں سے نازل ہونا کئی احادیث سے ثابت ہے:
’’عن ابی ھریرہ قال قال رسول اللہ والذی نفسی بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم حکما عدلا فیکسر الصلیب ویقتل الخنزیر ویضع الجزیۃ ویفیض المال حتی لا یقبلہ احد حتی تکون السجدۃ الواحدۃ خیر من الدنیا وما فیھا ثم یقول ابوھریرۃ فاقرؤا ان شئتم (وان من اھل الکتاب الالیؤمنن بہ قبل موتہ) الآیۃ‘‘ (بخاری، مسلم، مشکوۃ باب نزول عیسیٰ علیہ السلام)
حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے رسول اللہ تعالیٰ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام تم میں حاکم اور عادل بن کر اتریں گے صلیب کو توڑ ڈالیں گے جزیہ کا حکم ختم کردیں گے آپ مال لوگوں کو عطا کریں گے کوئی قبول کرنے والا نہیں ہوگا اس وقت کا ایک سجدہ دنیا اور دنیا کے مال و دولت سے افضل ہوگا پھر حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں اگر تم چاہتے ہو تو یہ آیات پڑھ لو۔
’’وان من اھل الکتاب الا لیومن بہ قبل موتہ‘‘ (آیت ۱۵۹ النساء)
اہل کتاب میں سے کوئی بھی نہیں رہے گا یہاں تک کہ آپ پر ایمان لے آئے گا موت سے پہلے۔
آپ حاکم اور عادل بن کر آئیں گے یعنی نصرانیت کو باطل کردیں گے اور ملت حنیفیہ یعنی دین اسلام کو قبول کرنے کا حکم دیں گے یہودیوں اور عیسائیوں کے باطل گمان کو ختم کرنے کے لیے صلیب کو توڑ دیں گے خنزیر کو قتل کریں گے یہ ثابت کریں گے کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہونے کی حیثیت سے آیا ہوں چونکہ آپ کی شریعت میں خنزیر حرام ہے اس لیے اے عیسائیو تمہارا اسے پالنا اور خرید و فروخت کرنا حرام ہے اہل کتاب سے صرف اسلام کو قبول کریں گے کوئی جزیہ ان سے نہیں لیں گے آپ کے زمانہ میں مال کی کثرت ہوگی یہاں تک کہ جس طرح وادیوں میں پانی چلتا ہے ایسے ہی مال کی فراوانی ہوگی اس وقت عبادت میں سے صرف لوگ اتنی لذت محسوس کریں گے کہ ایک سجدہ اور ایک نماز انہیں دنیا بھر سے بہتر محسوس ہوں گے حضرت ابوہریرہ نے آیت کو بطور دلیل پیش کیا کہ اس وقت تمام لوگ دین اسلام کو قبول کر لیں گے۔
’’عن ابو ھریرہ قال قال رسول اللہ ﷺ واللہ لینزلن ابن مریم حکما عادلا فلیکسرن الصلیب ولیقتلن الخنزیر ولیضع الجزیۃ ولیترکن القلاص فلا یسعی علیھا ولتذھبن الشحنۃ والتباغض والتحاسد والیدعون الی الکمال فلا یقبلہ احد رواہ مسلم وفی روایۃ الھما قال کیف انتم اذا نزل ابن مریم فیکم وامامکم منکم‘‘ (مشکوۃ باب نزول عیسیٰ علیہ السلام مسلم و بخاری)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا قسم ہے اللہ تعالیٰ کی ابن مریم حاکم دعا دل بن کر ضرور بضرور اتریں گے صلیب کو توڑ دیں گے اور ضرور بر ضرور خنزیر کو قتل کریں گے اور یقینی طور پر جزیہ کو ختم کردیں گے اونٹوں کو چھوڑ دیں گے، ان پر کوئی عمل نہیں کریں گے، عداوت، بغض اور حسد کو ختم کردیں گے، مال کی طرف لوگوں کو بلائیں گے کوئی اسے قبول نہیں کرے گا۔ یہ مسلم شریف کی روایت ہے بخاری اور مسلم دونوں نے یہ بھی روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب ابن مریم تم میں اتریں گے اور تمہارے امام بھی تم میں ہوں گے اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا۔
اس حدیث شریف میں تمام تاکید کے صیغے استعمال ہوئے ہیں کہ آپ کا اترنا یقینی ہے شک و شبہ سے پاک ہے۔
قلاص:
بکسر القاف قلوص کی جمع ہے جو ان اونٹنی کو کہا جاتا ہے آپ اونٹوں کو کام میں لانا چھوڑ دیں گے کیونکہ اونٹ کی ضرورت ختم ہوجائے گی اس وقت اونٹ کے بغیر اور سواریاں بوجھ اٹھانے اور سامان کی نقل و حرکت کے لیے کثیر تعداد میں ہوں گی یا اس کا معنی یہ ہے کہ آپ کسی ایک کو اونٹوں کے حصول کے لیے مقرر نہیں کریں گے زکوۃ کے اونٹ حاصل کیے جائیں کیونکہ اس وقت زکوۃ لینے والا کوئی نہیں ہوگا۔
نہایہ میں ذکر کیا گیا ہے:
’’تترک زکاتھا فلا یکون لھا ساع‘‘
آپ کوۃ لینی چھوڑدیں گے اور زکوٰۃ وصول کرنے کے لیے کوئی عامل مقرر نہیں کریں گے۔
تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے مخالف کوئی حکم دیں گے زکوٰۃ لینے والا کوئی نہیں ملے گا اس لیے کوئی عامل مقرر نہیں کیا جائے گا یہ خبر بھی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی دی ہے۔
’’فلا یسعی علیھا‘‘ اس کا ایک معنی ہے:
’’ولا یامر احدا ان یسعی علیھا ویاخذھا لانہ لایجد من یقبلھا اللہ لاستغناء الناس عنھا‘‘
کہ آپ کسی کو اونٹ بطور کوٰۃ وصول کرنے کے لیے عامل نہیں بنائیں گے کیونکہ اس وقت تمام لوگ غنی ہوں گے کوئی زکوٰۃ وصول کرنے والا نہیں ملے گا۔
دوسرا معنی اس کا یہ ہے:
’’والمراد بالسعی العمل‘‘ سعی سے مراد عمل ہے۔
یعنی اونٹوں کے ذریعے تجارت اور زمین میں سفر مال کے طلب کرنے اور دوسری ضروریات کے حاصل کرنے کے لیے چھوڑ دیں گے کیونکہ اس وقت ان کی ضرورت ختم ہوجائے گی۔
شحنا: کا معنی ہے وہ عداوت جو دلوں کو کینہ اور غیظ و غضب سے بھردے۔ تبا غض بغض رکھنا یہ عداوت کا سبب ہے تحاسد حسد کرنا یعنی کسی کی نعمت کا زوال طلب کرنا اور اسی نعمت کو اپنے لیے طلب کرنا یہ حسد بغض کا سبب ہے ان تمام برائیوں کا سبب دنیا کے مال سے محبت رکھنا ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام لوگوں کے دلوں سے دنیا کی محبت زائل کردیں گے جس کی وجہ سے یہ برائیاں خود بخود زائل ہوجائیں گی۔
دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ اس وقت تمام دنیا چونکہ ایک ہی دین پر قائم ہوگی یعنی سب کا دین اسلام ہوگا بغض اور حسد وغیرہ جیسی برائیاں مختلف دینوں اور مذاہب کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔
ملا علی قاری رحمہ اللہ کے نزدیک پہلا معنی ہی زیادہ معتبر ہے کیونکہ آپ فرماتے ہیں آج کے زمانہ میں بہت سے شہروں میں لوگ اسلام پر اتفاق رکھتے ہیں اور ان میں علماء کرام مشائخ کرام بھی موجود ہوتے ہیں باوجود اس کے ان میں بغض حسد عداوت جیسے عیوب پائے جاتے ہیں اور لڑائی جھگڑے قتل و غارت پائے جاتے ہیں ان کے اسباب صرف مخلوق میں بلند مرتبہ حاصل کرنا اور حرام مال کی طرف میلان ہیں۔ عیسیٰ علیہ السلام کا جب نزول ہوگا اس وقت مسلمانوں کے امام مہدی ہوں گے جو قریش سے ہوں گی آپ اتر کر پہلی نماز امام مہدی کی اقتداء میں ادا کریں گے تاکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی عظمت واضح ہوجائے کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت مطہرہ کے احکام ہی لوگوں پر نافذ کریں گے ان کی اپنی شریعت تو کب کی منسوخ ہوچکی ہے نبی کریم کا ارشاد ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام جب تم میں اتریں گے اور تمہارے امام تم میں سے موجود ہوں گے اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا یعنی تمہیں اپنی عظمت و تکریم پر تعجب ہونا چاہیے کہ عیسیٰ علیہ السلام آتے وقت پہلی نماز تمہارے امام کی اقتداء میں ادا کریں گے۔
’’عن جابر قال قال رسول اللہ ﷺ لاتزال طائفۃ من امتی یقاتلون علی الحق ظاھر ین الی یوم القیامۃ قال فینزل عیسیٰ ابن مریم فیقول امیرھم تعال صل لنا فیقول لا ان بعضکم علی بعض امراء تکرمۃ للہ ھذہ الامۃ‘‘ (مسلم، مشجوۃ باب نزول عیسیٰ علیہ السلام)
حضرت جابر سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہمیشہ ایک گروہ میری امت میں سے حق پر جہاد کرتا رہے گا اور قیامت تک ان کو غلبہ حاصل رہے گا آپ نے فرمایا عیسیٰ ابن مریم اتریں گے لوگوں کے امیر انہیں کہیں گے آؤ ہمیں نماز پڑھاؤ آپ فرمائیں گے نہیں بیشک تم میں سے بعض امیر ہیں بعض پر۔ آپ کا یہ ارشاد اس تکریم کے پیش نظر ہوگا جو اللہ تعالیٰ نے اس امت کو عطا کیا ہے۔
عیسیٰ علیہ السلام کے اترنے پر امام مہدی انہیں نماز پڑھانے کے متعلق کہیں گے کیونکہ
’’فان الاولی بالا مامۃ ھو الافضل وانت النبی علیہ السلام الرسول الکمل‘‘
امامت کا زیادہ حقدار وہ شخص ہے جو افضل ہو چونکہ آپ نبی اور رسول ہیں اور کامل درجہ رکھنے والے ہیں۔
یہاں سے یہ بھی واضح ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام کا مقام نبوت ختم نہیں ہوگا صرف آپ کی شریعت کے احکام جاری نہیں ہوں گے بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے احکام کی تبلیغ فرمائیں گی آپ کے نازل ہونے پر پہلی نماز امام مہدی پڑھائیں گے تاکہ اس امت کی فضیلت واضح ہوجائے اس کے بعد عیسیٰ علیہ السلام ہی نمازیں پڑھائیں گے اس حدیث پاک سے بھی عیسیٰ بن مریم کا نزول واضح طور پر ثابت ہوا۔
’’عن عبد اللہ بن عمر وقال قال رسول اللہ ﷺ ینزول عیسیٰ بن مریم الی الارض فیتزوج ویولد لہ ویمکث خمسا وار بعین سنۃ ثم یموت فیدفن فی قبری فاقول انا وعیسیٰ بن مریم فی قبر واحد بین ابی بکر و عمر رواہ ابن الجوزی فی کتاب الوفاء‘‘ (مشکوۃ باب نزول عیسیٰ علیہ السلام)
حضرت عبد اللہ بن عمر و رضی اللہ سے مروی ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عیسیٰ بن مریم زمین پر اتریں گے پھر شادی کریں گے اور آپ کی اولاد ہوگی اور پیتالیس سال ٹھہریں گے پھر آپ فوت ہوں گے پھر میرے ساتھ میرے مقبرے میں دفن ہوں گے میں اور عیسیٰ علیہ السلام ایک ہی مقبرہ سے اٹھیں گے یہاں تک کہ ابوبکر اور عمر کے درمیان ہوں حدیث شریف میں جو لفظ قبر استعمال ہوا ہے اس کا معنی مقبرہ ہے یعنی میرے مقبرے میں دفن ہوں گے۔
’’فی قبر واحد‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ ایک ساتھ ہم اپنی اپنی قبروں سے اس طرح اٹھیں گے جیسے ایک قبر سے اٹھ رہے ہوں حضرت عمر اور حضرت ابوبکر دونوں نبیوں کے دائیں بائیں ہوجائیں گے تاکہ یہ دونوں حضرات ایک ساتھ ہوں دائیں جانب ابوبکر اور دوسری جانب عمر ہوں گے۔
بعض راویوں سے ہے:
’’وقد بقی فی الیت موضع قبر‘‘
یعنی قبر مبارک کے پاس جگہ خالی ہے عیسیٰ علیہ السلام کے واسطے۔
محقق ابن جوزی فرماتے ہیں عمر کے پاس مدفون ہوں گے کیونکہ ہمیں بہت سے لوگوں نے خبردی ہے جو حجرہ شریف کے اندر گئے ہیں کہ عمر کے پہلو میں جگہ خالی ہے۔
’’واخرج البخاری فی تاریخہ والطبرانی عن عبد اللہ بن سلام قال یدفن عیسیٰ بن مریم مع رسول اللہ ﷺ وصاحبیہ فیکون قبرہ رابعا‘‘
بخاری نے اپنی تاریخ میں اخراج کیا ہے اور طبرانی نے عبد اللہ بن سلام سے کہ وہ فرماتے ہیں عیسیٰ بن مریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور شیخین کے پاس دفن کئی جائیں گے اور ان کی قبر چوتھی ہوگی۔
’’واخرج الترمزی وحسنہ عن محمد بن یوسف بن عبد اللہ بن سلام عن ابیہ عن جدہ قال مکتوب فی التوراۃ صفۃ محمد وعیسیٰ بن مریم یدفن معہ‘‘
ترمذی نے حدیث کا اخراج کیا ہے اور اسے حسن کہا ہے کہ عبد بن اللہ سلام نے فرمایا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت توراۃ میں موجود ہے اور یہ بھی توراۃ میں ہے کہ عیسیٰ بن مریم خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدفون ہوں گے۔
’’عن عائشۃ قالت قلت یا رسول اللہ انی اری اعیش بعدک فتأذن لی ان ادفن الی جنبک فقال وانی لی بذلک الموضع مافیہ الا موضع قبری وقبر ابی بکر وعمر وعیسیٰ بن مریم‘‘
حضرت عائشہ نے فرمایا میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ میں آپ کے بعد زندہ رہوں گی اگر اجازت ہو تو میں آپ کے پاس مدفون ہوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس تو ابوبکر اور عمر کی قبر کے سوا اور جگہ نہیں۔
سید الاولیاء حضرت پیر مہر علی شاہ فرماتے ہیں:
آثار دربارۂ مرفوع ہونے جسم مسیح کے اور احادیث نزول عیسیٰ علیہ السلام کی سوا ان کے جو بیان کرچکا ہوں اور بھی بکثرت موجود ہیں جس کاجی چاہے تفسیر ابن کثیر اور تفسیر در منثور اور تفسیر ابن جریر کو ملاحظہ فرمائے اگر اس سے بھی اطمینان حاصل نہ ہوتو کنز العمال و مسند احمد وغیرہ کتب احادیث کو مطالعہ فرمائے مگر مومن فھیم کے واسطے آثار اور احادیث سے جو بیان کرچکا ہوں کافی ہیں، یہ احادیث متواترہ ہیں نزول مسیح کا جو مستلزم ہے رفع کو سب میں اتفاق ہے زیادہ بیان ہونا افعال اور صفات کا بعض حدیثوں میں اور بعضوں میں کم، وجہ اس کی یہ ہے کہ جس قدر اوصاف بذریعہ وحی صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوئے ان کو بیان فرمایا سامع نے ان کو یاد رکھا پھر جب اور معلوم ہوئے ان کو پھر بیان فرمایا علی ھذا القیاس۔
’’وما ینطق عن الھوی ان ھو الاوحی یوحی‘‘ (آیت ۳ ۔ ۴ النجم)
یہی وجہ ہے کہ بعض راویوں میں سے بعض صفات اور احوال مروی ہیں دوسرے سے کچھ اور کبھی ایک راوی کی روایت میں کمی بیشی ہوا کرتی ہے اس کی بھی یہی وجہ ہے۔
جو احادیث عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے متعلق مروی ہیں وہ ان جلیل القدر صحابہ کرام سے مروی ہیں ابوہریرہ عبد اللہ بن مسعود عثمان بن ابی العاص ابی امامہ نواس ابن سمعان عبد اللہ بن العاص مجمع بن جاریہ ابی شریحہ حذیفہ بن اسید جابر سمرہ بن جندب عمرہ بن عوف عمران بن حصین کیسان حذیفہ بن یمان عائشہ عبد اللہ بن عباس انس رضی اور ان کے علاوہ دیگر حضرات سے بھی مروی ہیں۔ (از شمس الھدیہ ص ۳۸)
افسوس جہالت ایسا مرض ہے کہ ہزاروں ارد و خوانوں سادہ لوحوں کے لیے روز بروز ہلاک کرنے والا ثابت ہو رہا ہے نہ توصحابہ کرام کی طرح مہارت لسانی انہیں حاصل ہے اور نہ ہی صحابہ کرام کی طرح ان کے دل کو روشن و منور کیا گیا ہے کہ وہ حق بات کو سمجھ کر راہ راست پر چلیں اور نہ ہی علمی استعداد کہ فصاحت و بلاغت اور کلام کے سیاق و سباق سے مقصد کو سمجھیں اور نہ ہی یہ صلاحیت حاصل ہے کہ مقتضی حال کے مطابق مراد کو سمجھ سکیں۔
ان جہلاء کے بھٹکنے کی زیادہ وجہ یہ ہے کہ انہوں نے گمراہ اور بھٹکے ہوئے شخص کو اپنا راہ نما بنالیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی اپنے فضل و کرم سے ہدایت عطا فرمائے۔ (ماخوذ از شمس الھدیہ ص ۵۴)
مقام توجہ:
بیان کردہ احادیث سے واضح طور پر ثابت ہوا کہ آسمانوں سے اترنے والی شخصیت کا نام عیسیٰ ہوگا وہ مریم علیہا السلام کے بیٹے ہوں گے ان کے زمانہ میں مال کی کثرت ہوگی کوئی زکوۃ لینے والا نہیں ملے گا دین ایک ہوجائے گا یہودیت و نصرانیت ختم ہوجائیں گی مرزا غلام احمد قادیانی کہتے ہیں کہ ان احادیث میں عیسیٰ بن مریم سے میں مراد ہوں مگر خیال رہے کہ مرزا جی کا نام عیسیٰ ہے اور نہ ان کی ماں کا نام مریم علیہا السلام ہے بلکہ ان کا نام غلام احمد اور ان کی ماں کا نام چراغ بی بی ہے اور مرزا جی مدینہ پاک میں نہیں مرے عیسیٰ بن مریم علیہ السلام تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دفن ہوں گے لیکن مرزا جیسے ناپاک جسم کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھ کیسے قبول کرسکتے تھے اس لیے اسے قادیان میں ہی مرنا پڑا۔
نیز مرزا صاحب کے زمانہ میں مال و دولت کی کثرت بھی نہیں ہوئی خود وہ انگریز سے چندہ لیتے رہے بلکہ وہ انگریز کا لگایا ہوا ہی پودا تھا آج تک مرزائیوں کی یہ حالت ہے ربوہ میں دیکھیے دو قبرستان ہیں ایک میں پودے لگے ہوئے ہیں اور دوسرا پودوں اور پھولوں سے خالی ہے اس میں گھاس پھوس اور جھاڑیاں نظر آتی ہیں زیادہ پیسے دے دے اسے باغیچہ والے قبرستان میں جگہ دی جاتی ہےا ور جو تھوڑے پیسے دے اسے دوسرے میں جگہ دی جاتی ہے گویا قبریں بیچ کر وہ اب بھی اپنا گزارہ چلا رہے ہیں اور مرزا صاحب کے زمانہ میں یہودیت و نصرانیت کو ختم کر کے ایک دین اسلام میں سب لوگ آگئے ہیں ایسا بھی نہیں ہوا تو مرزا صاحب مسیح موعود کیسے؟
حیات عیسیٰ علیہ السلام کا ثبوت ائمہ کرام سے:
تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ائمہ انام رحمۃ اللہ علیہم اجمعین کا اس پر اتفاق ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں اور قیامت کے قریب تشریف لائیں گے۔
حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں بہت سی احادیث درج فرمائی ہیں۔ ایک روایت حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بیان فرمائی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام آکر دعوت اسلام فرمائیں گی۔ ان کے زمانہ پاک میں اسلام کے سوا تمام دین مٹ جائیں گے اور شیر اونٹ کے ساتھ اور چیتا گائے کے ساتھ اور بھیڑیا بکری کے ساتھ چریں گے اور بچے سانپ سے کھیلیں گے اور وہ انہیں نقصان نہ دے گا۔
مسند احمد کی ایک اور روایت شمس الہدایہ کے حوالے سے ہی نقل کی جاچکی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضور سے آپ کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہاں چار قبروں سے زیادہ کی کوئی گنجائش نہیں۔ چوتھی قبر عیسیٰ کی ہوگی۔
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فقہ اکبر میں فرماتے ہیں:
دجال کا نکلنا یاجوج و ماجوج کا خروج، آفتاب کا مغرب سے طلوع ہونا، عیسیٰ کا آسمان سے اترنا اور یہ ساری علامات قیامت حق ہیں۔
امام مالک نے کہا:
اس حال میں کہ لوگ کھڑے ہوئے نماز کی تکبیر سن رہے ہوں گے کہ بادل چھائے گا اور اچانک عیسیٰ السلام اتریں گے۔
علامہ زرقانی مالکی اپنی کتاب قسطلانی میں فرماتے ہیں:
’’عیسیٰ علیہ السلام اتر کر ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر فیصلہ فرمائیں گے وہ اگرچہ امت محمدیہ کے خلیفہ ہوں گے لیکن ساتھ نبی بھی ہوں گے کیونکہ شریعت کے نسخ سے نبوت زائل نہیں ہوتی‘‘۔
حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے متبعین امام جلال الدین سیوطی اور امام رازی رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس مسئلہ پر تفصیلی طور پر بحثیں کی ہیں اور وہ بھی عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے قائل ہیں۔ اسی طرح امام بخاری، امام مسلم، امام ترمذی، ابوداؤد اور تمام محدثین کرام احمہم اللہ تعالیٰ کا یہی عقیدہ تھا۔ نیز امام غزالی، امام رازی، امام جوزی اور حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہم اجمعین بھی اسی کے قائل ہیں۔ آسان لفظوں میں یوں بیان کیا جائے کہ ’’سوائے مرزا قادیانی اور اس کے متبعین کے اہل علم میں سے کوئی بھی نزول عیسیٰ علیہ السلام کا منکر نظر نہیں آتا‘‘۔ (از نعیمی)
معجزات و حیات عیسیٰ علیہ السلام پر اعتراضات و جوابات:
عیسیٰ علیہ السلام کے جن معجزات کا ذکر کیا گیا ہے ان تمام کا مرزائیوں نے انکار کیا ہے اور اس آیت میں یہودیا نہ تحریفات کیں، اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کے گھر کے نبی اور خود ساختہ مثیل مسیح یعنی مرزا غلام احمد قادیانی میں کوئی کمال نہ تھا لہذا انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے ان تمام کمالات کا انکار کردیا۔
اعتراض:
پیدا کرنا خدا کی صفت ہے، رب تعالیٰ فرماتا ہے:
قُلِ اللّٰهُ خَالِقُ كُلِّ شَیْءٍ o(سورۃ الرعد آیت ۱۶)
فرما دیجیے! اللہ ہر چیز کا خلق ہے۔
نیز فرماتا ہے: خَلَقَ کُلَّ شَیْءٍo (سورۃ الفرقان آیت ۲)
اس نے ہر چیز کو پیدا کیا۔
نیز فرماتا ہے: رَبُّنَا الَّذِیْٓ اَعْطٰى كُلَّ شَیْءٍ خَلْقَهٗo
ہمارا رب جس نے ہر چیز کو صورت خلق عطا کی۔
ان تمام آیات سے معلوم ہوا کہ خالق صرف رب تعالیٰ ہی ہے غیر خدا میں یہ صفت ماننا شرک ہے رب تعالیٰ فرماتا ہے:
اَمْ جَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَكَآءَ خَلَقُوْا كَخَلْقِهٖo (۱۳ سورۃ الرعد آیت ۱۶)
کہا انہوں نے اللہ کے شریک بنا رکھے ہیں کہ وہ ایسے پیدا کرتے ہیں جیسے اللہ پیدا کرتا ہے۔
نیز بتوں کے بارے میں فرماتا ہے:
لَا یَخْلُقُوْنَ شَیْـًٔا وَّ هُمْ یُخْلَقُوْنَo (۱۴ سورۃ النحل آیت ۲۰)
وہ کسی چیز کو پیدا نہیں کرتے بلکہ وہ خود گھڑے گئے ہیں۔
لہذا اگر عیسیٰ علیہ السلام مٹی میں پھونک کر پرندے بناتے ہوں تو انہیں خدا ماننا پڑے گا، مشرکین بتوں کو خالق مان کر ہی مشرک ہوئے، اور مسلمان عیسیٰ علیہ السلام کو خالق مان کر مرتد۔ (نعوذ باللہ من جھالتہ وکفرہ)
اس آیت کے معانی صرف یہ ہیں کہ:
’’میں تمہارے دلوں کو نور ایمانی سے منور کر دیتا ہوں جس سے وہ پرندہ بن کر راہِ الٰہی طے کرتا ہے نہ کہ کوئی مٹی کا کھلونا‘‘
حدیث شریف میں شہداء کے متعلق ہے کہ شہیدوں کی روح سبز چڑیوں کے پیٹ میں رہ کر جنت کی سیر کرتی ہے اس کا بھی یہ ہی مطلب ہے۔ (بیان القرآن مصنفہ محمد علی لاھوری، مرزائی)
دوسری جگہ کہتے ہیں:
’’مر کر دنیا میں لوٹنا قانون قدرت کے خلاف ہے، حدیث شریف میں ہے کہ شہید شہادت کے بعد دنیا میں آنے کی تمنا کرتے ہیں مگر ان کی یہ تمنا پوری نہیں کی جاتی، کیونکہ قانون قدرت کے خلاف نہیں ہوسکتا۔ عیسیٰ علیہ السلام بھی باقی مردوں کو زندہ نہیں کرسکتے کیونکہ مردے اگر اپنی عمر پوری کر کے مرے تھے تو انہیں دوبارہ عمر کیسے ملی اور اگر ان کی عمر باقی تھی تو پہلے موت کیوں آگئی‘‘۔ (بیان القرآن مصنفہ مولوی محمد علی لاھوری، مرزائی)
جواب
’’خلق‘‘ کا ایک معنی ہے پیدا کرنا، یعنی عدم سے وجود میں لانا، حیات بخشنا اور دوسرا معنی ہے بنانا، گھڑنا، اندازہ لگانا، اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ خاص جو خلق ہے وہ بمعنی پیدا کرنے کے ہے۔ شکل و صورت بنانا یہ صفت بندوں کو بھی حاصل ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام نے پرندے کی صورت بنائی اور اس کو حیات اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی۔ البتہ عیسیٰ علیہ السلام کے عرض کرنے پر اس لیے یہ آپ کا معجزہ ہوا۔ معجزہ ہوتا ہی وہ ہے جو عام عادت کے خلاف ہو اور مدعی نبوت سے سرزد ہو۔
عیسیٰ علیہ السلام کے اس معجزہ کو رب تعالیٰ نے بیان فرمایا:
وَ اِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّیْنِ كَهَیْـَٔةِ الطَّیْرِ بِاِذْنِیْ فَتَنْفُخُ فِیْهَا فَتَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِیْo (پ ۷ سورۃ المائدۃ آیت ۱۱۰)
اور جب تو مٹی سے پرندے کی سی مورت میری حکم سے بناتا پھر اس میں پھونک مارتا تو وہ میرے حکم سے اڑنے لگتی۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰهِo (پ ۳ سورہ آل عمران آیت ۴۹)
عیسیٰ علیہ السلام نے کہا میں اس شکل و صورت میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے۔
ان آیات سے بخوبی واضح ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام مٹی کی مورتی بناتے تھے اور اس میں پھونک مارتے اور یہ کہتے کہ اللہ کے حکم سے اڑ، وہ پرندہ بن کر اڑجاتا تھا، یعنی اللہ تعالیٰ اسے حیات عطا فرماتا تھا۔
جو توجیہ محمد علی صاحب نے بیان کی ہے اس میں عیسیٰ علیہ السلام کی کوئی تخصیص نہیں اور نہ ہی آپ کا معجزہ ہے کیونکہ دلوں کو نور ایمانی سے تمام انبیائے کرام منور کرتے رہے بلکہ یہ وصف اولیائے عظام اور علمائے کرام کو بھی حاصل ہے۔
یہ کہنا کہ موت کے بعد زندہ ہونا قانون قدرت کے خلاف ہے تو اس کا جواب بھی واضح ہے کہ معجزہ تو ہے ہی وہ کہ عادت کے خلاف ہو۔ یعنی ہلاک شدہ بستیوں کو زندہ کرنا قانون نہیں، البتہ خصوصیات اس کے علاوہ ہیں۔ قرآن حکیم نے حضرت عُزیز علیہ السلام کا واقعہ یوں بیان فرمایا:
فَاَمَاتَهُ اللّٰهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهٗo (پ ۳ سورۃ البقر آیت ۲۵۹)
اللہ تعالیٰ نے انہیں سو سال مردہ رکھ کر پھر زندہ کیا۔
پھر فرمایا:
وَ انْظُرْ اِلَى الْعِظَامِ كَیْفَ نُنْشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوْهَا لَحْمًا o (پ ۳ سورۃ البقر آیت ۲۵۹)
اے عزیر اپنے مرے ہوئے گدھے کی خشک ہڈیوں کو دیکھ کہ ہم انہیں کس طرح جمع کر کے گوشت پہناتے ہیں۔
حضرت حزقیل علیہ السلام کی قوم کا پورا واقعہ یوں بیان فرمایا:
فَقَالَ لَهُمُ اللّٰهُ مُوْتُوْا ثُمَّ اَحْیَاهُمْo (۲ سورۃ البقرہ آیت ۲۴۳)
یعنی رب تعالیٰ نے ان کو پہلے موت دی پھر ان سب کو زندہ فرمایا۔
نیز قرآن کریم نے بنی اسرائیل سے فرمایا کہ تم نے ایک دفعہ موسیٰ علیہ السلام کی اطاعت سے منہ موڑا۔
فَاَخَذَتْكُمُ الصّٰعِقَةُ وَ اَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَo ثُمَّ بَعَثْنٰكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَوْتِكُمْo (پ ۱ سورۃ البقر آیت ۵۵ ۔ ۵۶)
یعنی تمہیں دیکھتے ہوئے کڑک نے پکڑ لیا پھر ہم نے تمہیں مرے بعد زندہ کیا۔
غرضیکہ مردے زندہ کرنے کے لیے بے شمار واقعات قرآن کریم نے بیان فرمائے۔
حدیث پاک میں آتا ہے کہ قیامت کے قریب دجال لوگوں کو مار کے زندہ کرے گا، اگر ان سب آیات اور احادیث میں مجازی معنی مراد لیے جائیں تو پھر قرآن و احادیث ایک تماشہ بن کر رہ جائیں اور کسی آیت پر اعتماد نہ رہے۔ (از نعیمی پارہ ۳ ص ۵۵۰)
اعتراض:
اندھوں اور کوڑھیوں کو اچھا کرنا عیسیٰ علیہ السلام کی شان کے خلاف ہے، وہ نبوت کرنے آئے تھے نہ کہ طبابت، لہذا یہاں سے دل کے اندھے مراد ہیں۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے:
وَ لٰكِنْ تَعْمَى الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِo (۱۷ سورۃ الحج آیت ۴۶)
ایسے ہی برص یعنی کوڑھی سے وہ بدی مراد ہے جو بظاہر بھلی معلوم ہو۔
اور حضرت مسیح یہ فرما رہے ہیں کہ میں دل کے اندھوں اور بدکاری کے کوڑھیوں کو ایمان و تقوی کا راستہ بتاکر اچھا کرسکتا ہوں۔ (بیان القرآن، محمد علی مرزائی)
جواب:
اگر بغیر کسی دلیل کے اپنی رائے سے تفسیر کرنی ہوتو جو چاہو کرلو، لیکن اگر دلائل کی بات کرنی ہے تو یہ بتاؤ کہ یہ معانی کس مفسر نے کیے ہیں؟ بے شک نبوت میں احکام کی تبلیغ ہے۔ مگر نبوت منوانے کے لیے معجزات کی ضرورت اور معجزہ میں عاجز کرنا شرط ہے اور یہ جب ہی ہوسکتا ہے کہ ایسا معجزہ دکھایا جائے جس سے کام کے ماہر عاجز رہ جائیں تاکہ یہ خدا داد اختیار، نبوت کی دلیل ہو، چونکہ آپ علیہ السلام کے زمانے میں طب کا بہت زور تھا تو طبیبوں کو عاجز کرنے کے لیے یہ معجزات عطا فرمائے گئے، جس کی صدہا روایتیں ملتی ہیں، لیکن مرزا صاحب کے چیلے اپنے موقف پر ایک روایت بھی پیش نہیں کرسکتے۔ (از نعیمی پ ۳ ص ۵۵۲)
اعتراض:
عیسیٰ علیہ السلام بغیر والد پیدا نہیں ہوئے بلکہ مریم یوسف نجار کے نکاح میں آئیں آپ ان کے بیٹے ہیں۔
جواب:
قرآن کریم نے عیسیٰ علیہ السلام کے بغیر باپ پیدا ہونے کی بے شمار گواہیاں دی ہیں:
۱۔ انہیں آدم علیہ السلام سے مشابہت دی ہے۔
اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَo (پ ۳ سورۃ آل عمران ۵۹)
عیسیٰ علیہ السلام کی مثال اللہ تعالیٰ کے نزدیک آدم علیہ السلام کی طرح ہے۔
۲۔ انہیں عیسیٰ بن مریم کہا، حالانکہ قرآن کریم نے سوائے مریم کے عورت کا نام نہ لیا اگر وہ کسی مرد کے فرزند ہوتے تو اسکی طرف نسبت کی جاتی۔
۳۔ یہود نے حضرت مریم کو تہمت زنا لگائی تھی تو عیسیٰ علیہ السلام کو بچپن میں کلام کرنے کی طاقت عطا کر کے ان سے ماں کی پاکدامنی بیان کرائی، اگر مریم شادی شدہ تھیں تو یہود تہمت کیوں لگاتے؟ اور اس تہمت کے دفع کرنے کے لیے اتنا بڑا واقعہ کیوں ہوتا؟ صرف یوسف نجار کہہ دیتا کہ یہ میرا بچہ ہے۔
۴۔ عیسیٰ علیہ السلام کا لقب روح اللہ اور کلمۃ اللہ ہوا کیونکہ وہ کلمہ ’’کن‘‘ سے پیدا ہوئے۔
۵۔ قرآن کریم نے ان کی ماں کا یہ قول بار بار نقل فرمایا:
وَّ لَمْ یَمْسَسْنِیْ بَشَرٌo (پ ۳ سورۃ آل عمران ۴۷)
مجھے کسی انسان نے نہیں چھوا۔
اگر ان کا نکاح ہوچکا تھا تو اس کہنے کا کیا مطلب ہوسکتا ہے؟
۶۔ حضرت مریم جنگل میں جاکر وضع حمل سے فارغ ہوئیں اگر یوسف نجار کی بیوی ہوتیں تو اس قدر مشقت اٹھانے کی کیا ضرورت تھی؟ (از نعیمی پ ۳ ص ۵۳۶)
خیال رہے کہ مرزائیوں نے یہ عقیدہ یہودیوں سے حاصل کیا ہے۔
’’والیھود تقذف امہ بیوسف النجار‘‘ (روح المعانی ج ۲ حصہ دوم ص ۱۶۳)
یہود عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ کو یوسف نجار سے تہمت لگاتے تھے۔
اعتراض:
وتکون الملل کلھا ملۃ الاسلام فقرہ کو یہ آیت معارض ہے:
وَ لَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ اُمَّةً وَّاحِدَةً وَّ لَا یَزَالُوْنَ مُخْتَلِفِیْنَo اِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَ وَ لِذٰلِكَ خَلَقَهُمْ وَ تَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَاَمْلَـَٔنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَo (پ ۱۲ سورۃ ھود ۱۱۸ ۔ ۱۱۹)
چنانچہ فاضل امروہوی (مرزا کا چیلہ) صاحب اعلام الناس لکھتے ہیں کیونکہ بحسب مقتضی اس آیت کے کسی زمانہ میں اتفاق ایک ملت پر ممکن نہیں۔
جواب:
اس فقرہ حدیث کو بوجہ عدم قبول تاویل کے حسب مطلب اپنے کے اپ کاٹنا چاہتے ہیں آیت میں استشناء (الا من رحم ربک) موجود ہے اور استشناء زمانیات کا مستلزم ہے۔ استشناء زمان کو لہذا مسیح کے وقت سب کا مرحوم ہونا اور سب کا متفق ہونا ملت واحدہ پر ممکن ہوگا۔ ضروری امر بمقتضی آیت کے صرف اتنا ہی ہے کہ اختلاف فی الجملہ اور جھنم کا بھر دینا متحقق ہو، وہاں اگر بعد (لا یزالون مختلفین) کے (الا من رحم ربک) نہ ہوتا تب بوجہ اختلاف دائمی کے زمان مسیح کا اتفاقی ہونا نا ممکن تھا۔ (شمس الھدایۃ ص ۶۸)
اعتراض:
جس حدیث سے سمجھ آرہا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے وقت تمام لوگ ایک دین پر قائم ہوجائیں گے وہ اس آیت کے مخالف ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو سب لوگوں کو ایک دین پر قائم کردیتا اور لوگ ہمیشہ اختلاف پر رہیں گے۔ جب یہ حدیث آیت کے مخالف ہے تو اس پر عمل نہیں ہوسکے گا۔
جواب:
یہ یہودی طرز عمل ہے کہ کچھ کتاب پر ایمان لانا اور کچھ پر ایمان نہ لانا حالانکہ ساتھ ہی یہ بھی آرہا ہے کہ مگر جس پر تیرے رب نے رحم کیا یعنی وہ ایک دین پر قائم ہوں گے مسیح کے زمانہ میں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمام لوگوں پر رحم کیا جائے گا، لہذا وہ سب ایک دین پر قائم ہوجائیں گے۔
اعتراض:
حدیث پاک میں مسیح موعود کی جو علامات بیان کی گئی ہیں وہ مرزا صاحب میں پائی گئی ہیں صحیح بخاری میں ہے:
’’ارانی اللیلۃ عند الکعبۃ فی المنام فاذا رجل آدم کا حسن ماتری من آدم الرجال تضرب لمتہ بین منکبیہ رجل الشعر‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے خواب میں کعبہ کے پاس ایک شخص دیکھا جس کا رنگ گندمی ہےا ور بہت خوبصورت ہے اس کے بال سیدھے ہیں اور کندھوں تک پہنچ رہے ہیں مرزا صاحب کا حلیہ بھی یہی ہے ان کا رنگ گندمی ہے بال سیدھے ہیں یعنی گھونگر والے نہیں کندھوں کے قریب کانوں کی لو کے نیچے لٹکے ہیں۔
جواب:
اسی صحیح بخاری میں اس کے قریب ہی مسیح حقیقی یعنی صاحب انجیل کا حلیہ یہ لکھا ہے سرخ رنگ اور گھونگریلے بال چوڑا سینہ
’’فاما عیسیٰ فاحمر عریض الصدور‘‘
ناظرین یہ مغالطہ بھی قابل غور ہے سرخ اور گندمی رنگت دونوں کے راوی ابن عباس رضی اللہ عنہ ہیں ایسا ہی گھونگر والے اور غیر گھونگر والے دونوں حدیثوں کا مقصد ایک ہی ہے، کیونکہ مسیح ابن مریم کی رنگت میں سرخی مائل سفیدی تھی ایسا ہی بالوں میں جعودۃ غیر تامہ یعنی تھوڑے گھونگر والے بال تھے نہ بہت زیادہ پیچیدہ اور نہ سیدھے، اس لیے آپ کے رنگ کو سرخ کہنا بھی صحیح ہے اور گندمی رنگ کہنا بھی صحیح ہے اسی طرح آپ کے بالوں کو گھونگر والے کہنا صحیح ہے اور غیر گھونگرے والے بھی۔
تنبیہ:
بخاری شریف میں جو ..... عن مجاھد عن ابن عمر قال قال رسول اللہ ﷺ عیسیٰ و موسی و ابراھیم فاما عیسیٰ فاحمر جعد عریض الصدر ..... آیا ہے یعنی حضرت ابن عمر کی روایت ہے جس میں عیسیٰ علیہ السلام کا رنگ سرخ اور بال گھونگر یالے اور سینہ چوڑا ذکر ہے یہ بخاری کی خطا ہے حقیقت میں یہ روایت حضرت ابن عباس سے ہی ہے یعنی عن مجاھد عن ابن عباس دیکھو اخراجات محمد بن کثیر اور اسحاق بن منصور سلولی اور ابن ابی زائدۃ اور یحییٰ بن آدم وغیرہ کے (رحمۃ اللہ علیہم)۔
’’وعن ابن عباس عن النبی ﷺ قال رأیت لیلۃ اسری بی موسی رجلا آدم طوالا جعدا کانہ من رجال شئوۃ و رایت عیسیٰ رجلا مربوع الخلق الی الحمرۃ والبیاض سبط الراس‘‘ (متفق علیہ)
اس حدیث میں ابن عباس ہی عیسیٰ علیہ السلام کا رنگ سرخی سفیدی سے ملا ہوا بیان کرتے ہیں اور آپ کے بال بہت زیادہ پیچدار نہیں تھے(بلکہ معمولی گھونگریالے تھے)۔ یہ بھی ابن عباس بیان کر رہے ہیں اور اب یہ گمان کرنا کہ سرخ رنگ والے عیسیٰ علیہ السلام اور تھے اور گندمی رنگ والے عیسیٰ علیہ السلام اور ہیں صحیح نہیں ہوسکتا کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد دونوں روایتوں میں واقعہ معراج کے متعلق ہے جس کے پہلے بروایت مسلم.....
عن جابر ان رسول اللہﷺ قال عرض علی الانبیاء
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھ پر انبیائے کرام پیش کیے گئے ہیں۔ اس سے صاف ثابت ہو رہا ہے کہ دونوں روایتوں میں اسی عیسیٰ علیہ السلام کا ذکر ہے جو انبیائے کرام کی جماعت میں اسی طرح شامل ہیں جس طرح موسیٰ اور ابراہیم علیہم السلام داخل ہیں کسی حدیث پاک میں بھی مثیل مسیح یعنی مرزا صاحب کا کوئی ذکر نہیں اگر عیسیٰ علیہ السلام اور ہوتے اور مثیل عیسیٰ اور ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے میں نے عیسیٰ علیہ السلام اور مثیل عیسیٰ کو دیکھا حالانکہ آپ نے ایسا نہیں فرمایا پس واضح ہوا کہ حدیث پاک سے مرزا صاحب کا اپنے آپ کو مسیح موعود اور مثیل عیسیٰ ثابت کرنا باطل ہے۔ (شمس الھدایۃ ص ۶۸)
اعتراض:
مرزا صاحب کا ذکر حدیث پاک میں ہے صحیح مسلم میں ہے:
’’لو کان العلم معلقا بالثریا لنالہ رجل من ابناء فارس‘‘
اگر علم ثریا کے ساتھ بھی متعلق ہوتو فارس کے لوگوں میں سے ایک شخص اسے پائے گا۔
مرزا صاحب کے ایک مرید امروہی نے اس حدیث سے مراد بھی اپنے مرزا صاحب کو ہی لیا ہے۔
جواب:
اول: متفق علیہ شیخین یعنی بخاری و مسلم کی حدیث میں اس طرح مذکور ہے:
’’قال فوضع النبیﷺ یدہ علی سلمان ثم قال لو کان العلم۔۔۔ الخ‘‘
یہ حدیث آپ نے سلمان فارسی کے کندھے پر ہاتھ مبارک رکھ کر بیان فرمائی جس سے سلمان فارسی کا مصداق ہونا ثابت ہوتا ہے یعنی سیاق و سباق سے یہ حدیث مختص ہے عام ہے ہی نہیں
دوم: اگر حدیث کو عام رکھا جائے اور مراد فارس کا کوئی شخص بھی لیا جائے تو پھر بھی اس سے مراد مرزا صاحب نہیں ہوسکتے کیونکہ انہوں نے خود ’’ایام الصلح‘‘ میں اپنا سمر قندی ہونا ثابت کیا ہے حالانکہ سمر قند خراسان سے ہے نہ کہ فارس سے۔ جن لوگوں کو کچھ بھی جغرافیہ وغیرہ میں مہارت ہے ان پر یہ بات واضح ہے۔
سوم: اگر حدیث پاک سے مراد زیادہ عموم لیا جائے یعنی اہل فارس کا ایک بامحاورہ معنی یہ لیا جائے کہ اس سے مراد عجمی لوگ ہیں تو پھر بھی مرزا صاحب کا مدعی ثابت نہیں ہوسکاتا کیونکہ حدیث میں ’’لو کان العلم لفظ العلم‘‘ معروف باللام ہے الف لام عہد خارجی ہے جس سے مراد وہ علم ہے جو کتاب و سنت کے مطابق ہے نہ کہ مخالف، مرزا صاحب کا علم تو شیطانی علم تھا قرآنی علم نہیں تھا ورنہ وہ کفر اختیار کرکے جھوٹی نبوت کا دعوی نہ کرتے۔ (از شمس الھدایۃ ص ۷۰)
جھوٹوں کی کہاوتیں:
امروی صاحب نے اپنے مرزا کو مسیح موعود مانا ہے اس لیے یہ دعویٰ بھی کیا کہ مرزا صاحب دین نصرانیت کو مٹادیں گے سید اولیاء پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’آج تاریخ ۱۵؍ شعبان ۱۳۱۷ھ تک بالکلیہ دین نصرانیت کا مٹ جانا متحقق نہیں ہوا حالانکہ مرزا صاحب جو مسیح موعود ہونے کے دعویدار ہیں وہ کتنے عرصہ سے آچکے ہیں، بلکہ مرزا صاحب اپنی موت تک بھی یہ کرشمہ نہ دکھاسکے‘‘
عیسیٰ علیہ السلام کی صفات میں یہ بھی ذکر ہے کہ آپ ’’لید عون الی المال فلا یقبلہ احد‘‘ لوگوں کو مال کی طرف بلائیں گے لیکن کوئی ایک بھی قبول نہیں کرے گا۔
اس کا مطلب امروہی نے یہ بیان کیا ہے:
کہ اس سے مراد بھی مرزا صاحب ہیں؛ کیونکہ انہوں نے بذریعہ اشتہارات روپیہ دینے کا وعدہ مخالفین اسلام(ان کے بناوٹی اسلام) کو فرمایا اور کسی نے قبول نہیں کیا۔
اس کا جواب حضرت پیر صاحب یوں دیتے ہیں:
کہ حدیث میں ’’فلا یقبلہ منہ‘‘ مذکور ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں سب سے لوگ اہل اسلام ہوں گے اور سب کو عبادت کی بہت زیادہ رغبت ہوگی اور سب تارک دنیا اور زاہد ہوں گے اس پر حدیث پاک کے الفاظ شاہد ہیں:
حتی تکون السجدۃ الواحدۃ خیرا من الدنیا وما فیھا
اس لیے کہ اس وقت مسلمان زاہد اور عابد ہوں گے جو دنیا کو قبول نہیں کریں گے حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ اس وقت مخالفین اسلام بھی ہوں گے(جیسا کہ مرزائیوں نے معاذ اللہ مسلمانوں کو مخالفین اسلام کہا) اور ان کو حقیقت اسلام ظاہر کرنے کے مقابلہ میں اشتہارات کے ذریعے روپیہ دینے کا وعدہ دیا جائے گا اور وہ قبول نہیں کریں گے خیال رہے کہ اسلام بذات خود امر حق ہے واقع کے مطابق ہے قیامت تک کوئی مخالف بھی یہ نہیں کرسکتا کہ اسلام کے حق ہونے کو زائل کرسکے یا اسلام کے ناحق ہونے کو ثابت کرسکے۔
اسلام اپنے حق ہونے میں کسی انسان کا محتاج نہیں بلکہ رب تعالیٰ نے خود اس کے غلبہ کا ذمہ اٹھا رکھا ہے حدیث پاک ’’ظاھرین الی یوم القیامۃ‘‘(اسلام کو قیامت تک غلبہ حاصل رہے گا) اس پر شاہد ہے۔ (از شمس الھدایۃ ص ۷۰)
اعتراض:
آیت ’’وَ مَنْ نُّعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِی الْخَلْقِ‘‘ دال ہے وفات عیسیٰ علیہ السلام پر کیونکہ حسب مفاد اس آیت کے جو شخص اسی یا نوسے سال کو پہنچتا ہے اس کو نکوس اور ژاژ گوئی بنسبت پہلی حیاتی کے پیدا ہوتی ہے تو کیسا حال ہوگا اس شخص کا جو دو ہزار سال تک زندہ ہے۔ (ایام الصلح از مرزا)
جواب:
اسی یا نوے سال کی قید جو آپ نے لگائی ہے یہ قرآن پاک کے کون سے الفاظ مبارکہ سے سمجھ آئی خدارا یہودیوں کی طرح کلام الہی کی تحریف سے باز آئیں کیا آپ کو قرآن پاک میں یہ آیت نظر نہیں آئی:
وَ لَبِثُوْا فِیْ كَهْفِهِمْ ثَلٰثَ مِائَةٍ سِنِیْنَ وَ ازْدَادُوْا تِسْعًاo (پ ۱۵ سورۃ الکھف آیت ۲۵)
وہ(اصحاب کہف) اپنی غار میں تین سو نو سال رہے۔
’’ وَ مَنْ نُّعَمِّرْهُ نُنَكِّسْهُ فِی الْخَلْقِ‘‘ کا مفہوم اگر تمہارے خیال میں اسی یا نوے سال کی عمر تک محدود ہے تو پھر اس آیت ’’وَ لَبِثُوْا فِیْ كَهْفِهِمْ ثَلٰثَ مِائَةٍ سِنِیْنَ وَ ازْدَادُوْا تِسْعًا‘‘ سے اصحاب کہف کا تین سو نو سال غار میں کیسے ثابت ہوسکتا ہے اور نوح علیہ السلام کی عم ایک ہزار چار سو(۱۴۰۰) سال اور حضرت آدم علیہ السلام کی عمر نوسو تیس(۹۳۰) سال اور حضرت شیث علیہ السلام کی نوسو بارہ(۹۱۲) سال اور حضرت ادریس علیہ السلام کی تین سو چھپن سال(۳۵۶) اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ایک سو بیس سال(۱۲۰) اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عمر دوسو تئیس سال (۲۲۳) کیسے ہوسکتی تھی۔ (شمس الھدایۃ ص ۷۸)
اصل میں یہ سب غلط تاویلیں مرزا صاحب سے اس وجہ سے سرزد ہوئیں۔
وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍo (پ ۲۴ سورۃ الزمر آیت ۳۶)
کہ جسے اللہ تعالیٰ گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔
ان کے گمراہ کن شیطانی علم نے انہیں جہنم کا ایندھن بنادیا۔
اعتراض:
وَ مِنْكُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰى وَ مِنْكُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰٓى اَرْذَلِ الْعُمُرِo (پ ۱۷ سورۃ الحج آیت ۵)
تم میں سے بعض کو فوت کیا جاتا ہے اور بعض کو بڑی عمر تک پہنچایا جاتا ہے۔
اس آیت میں دو ہی صورتیں ذکر ہیں یا گھٹیا عمر سے پہلے فوت کردینا اور یا اس عمر تک پہنچا دینا جس میں انسان کے ہوش و حواس قائم نہیں رہتے اس آیت سے پتہ چلا کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں کیونکہ رذیل عمر تو نبی کی شان کے لائق نہیں اور کسی جگہ قرآن میں بھی ذکر نہیں۔
’’ومنکم من صعد الی السماء بجسدہ العنصری ثم یرجع فی اخر الزمان‘‘
اور تم میں بعض اپنے عنصری جسم کے ساتھ آسمانوں پر چڑھ جائیں گے اور پھر آخر زمانہ میں لوٹ آئیں گے۔
آیت میں صرف دو چیزوں کا ذکر ہے اگر اور کوئی تیسری صورت مانی جائے تو آیت میں جو دو چیزوں کے اندر ایک مسئلہ کو بند کیا ہے کا مقصد فوت ہوجائے یعنی عیسیٰ علیہ السلام کے آسمانوں پر اٹھائے جانے کو اگر مانا جائے تو آیت کا حصر باطل ہوتا ہے۔
جواب:
پہلی بات تو یہ ہے کہ آیت میں کوئی حصر ہے نہیں اگر بالفرض حصر کو مان بھی لیا جائے تو پھر بھی واضح قانون ہے کسی چیز کے ذکر کرنے سے اس کا وجود ختم نہیں ہوتا نیز تمہارا قوال کہ عیسیٰ علیہ السلام کو سولی چڑھایا گیا اس کا ذکر بھی تو قرآن پاک میں نہیں جب تمہارے نزدیک اس سے حصر باطل نہیں تو آپ کے آسمانوں پر اٹھائے جانے والے قول سے حصر کیسے باطل ہے۔
نیز اہل کشف کے نزدیک ’’ارذل العمر‘‘ کی کوئی حد معین نہیں نہ اس پر کوئی آیت و حدیث دلالت کر رہی ہے اور نہ ہی عقلی طور پر ثابت ہے کہ اس سے متجاوز ہونا موت کا سبب ہو علماء طبعین نے جو حد مقرر کی ہے اس کو شیخ اکبر نے اپنے کشفی طریقہ سے فتوحات میں رد فرماتے ہیں ان کے قول کا مضمون یہ ہے کہ اگر جو کچھ علم طبعی میں ہمارے اوپر مکشوف ہوا ہے وہ علماء طبعین کو معلوم ہوتا تو ہر گز انسان کی عمر طبعی کو وہ کسی حد سے معین نہ کرتے نیز اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ اس سے مراد رذیل عمر ہے تو پھر بھی اس سے اہل علم مستثنی ہیں۔ ان کا حکم ہی اور ہے۔
’’قال عکرمۃ من قرأ القرآن ان لم یصر بھذہ الحالۃ ای فھو مخصوص بغیر من قرأ القرآن والعلماء واماھم فلا یردون الی الارذل بل یذداد عقلھم کلما طال عمر ھم کما ھو مشاھد‘‘ (صاوی، جلالین ص ۲۷۹)
حضرت عکرمہ فرماتے ہیں جس نے قرآن پاک کا علم حاصل کیا اسے یہ حالت نہیں حاصل ہوتی کہ اس کی عقل میں کمی آجائے یعنی یہ حکم ان لوگوں کے ساتھ خاص ہے جنہوں نے قرآن پاک کا علم حاصل نہ کیا جنہوں نے قرآن پاک پڑھا اور علم حاصل کیا انہیں اس حالت کی طرف نہیں پہنچایا جاتا بلکہ ان کی عقل عمر کی زیادتی کے ساتھ بڑھتی رہتی ہے اس پر مشاہدات دلالت کر رہے ہیں۔
جب اہل علم کا یہ مقام ہے تو اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر نبی کیا کیا مقام ہوگا یقیناً زیادہ عمر کا دیا جانا رذالت کی طرف نہیں پہنچائے گا۔ نیز آپ کو ’’ومن یتوفی‘‘ میں بھی داخل کیا جاسکتا ہے کیونکہ آپ پر وفات بھی یقینی آنی ہے اور آپ کو دنیا کی جس عمر میں اٹھایا گیا ہے اور پھر دنیا میں آپ نے جتنی مدت رہنا ہے آپ کی وہی عمر شمار ہوگی آسمانوں کی زندگی پر وہاں کے قوانین ہی نافذ ہیں نہ وہاں موت نہ بوڑھا ہونا جب لوگ جنت میں جائیں گے تو ان کو وہ زندگی حاصل ہوگی جو ختم ہونے والی نہیں ہوگی اور ان پر کوئی بڑھاپا طاری نہیں کیا جائے گا۔
اعتراض:
’’انک میت وانھم میتون‘‘ سے واضح طور پر ثابت ہو رہا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں کیونکہ یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام انبیاء کرام کی وفات کا ذکر ہے۔
جواب:
’’اِنَّکَ مَیِّتٌ..... اور .....وَاِنَّھُمْ مَیِّتُوْنَ‘‘ یہ دونوں قضیہ مطلقہ عامہ ہیں، دائمہ مطلقہ نہیں اگر دائمہ ہوتے تو حکم ہمیشہ ہر زمانے میں ثابت ہوتا مطلقہ عامہ میں تو حکم تین زمانوں میں کسی زمانے میں بھی پایا جانا کافی ہوتا ہے اب آیت کریمہ کا مطلب یہ ہوا تحقیق اے حبیب تم فوت ہونے والے ہو اپنے وقت معین میں اور وہ انبیاء سابقہ بھی اپنے اپنے اوقات معینہ میں مرنے والے ہیں۔
اس سے واضح ہوا کہ عیسیٰ علیہ السلام نے بھی چونکہ اپنے وقت مقرر میں فوت ہونا ہے لہذا وہ ’’انھم میتون‘‘ میں داخل ہیں نزول آیت کے وقت اگر آپ کا فوت شدہ ہونا ضروری ہوتا تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس وقت اموات میں داخل ہوتے حالانکہ ایسا سوچنا سرا سر غلطی پر مبنی ہے۔ (ازشمس الھدایۃ ص ۷۷)
خیال رہے کہ اس سوال و جواب کی حیثیت اسی وقت ہوگی جب ’’انھم‘‘ کی ضمیر کا مرجع عام لوگ ہوں جن میں انبیائے کرام بھی داخل ہوں اور اگر ضمیر کا مرجع کفار ہوں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہتے تھے کہ یہ فوت ہوجائیں گے اور ان کے بیٹے بھی نہیں خود بخود ختم ہوجائے گا تو ان کے جواب میں کہا گیا ہے کہ آپ فوت ہوجائیں گے تو کیا یہ لوگ زندہ رہ جائیں گے؟ یہ کسی کی موت پر خوشی کیوں مناتے ہیں اپنی فکر کریں اس صورت میں سوال ہی وارد نہیں ہوگا اور نہ جواب کی کوئی ضرورت ہے
اعتراض:
’’میت‘‘ مشتق ہے جس کا مبدأ اشتقاق موت ہے قانون یہ ہے کہ مشتق کو کو جب کسی قضیہ میں محمول بنایا جائے تو وہ مبدا کے ساتھ قیام کو چاہتا ہے اس ضابطہ کے پیش نظر عیسیٰ علیہ السلام پر موت کا واقع ہونا بھی ثابت ہوا۔
جواب:
قیام مبدا کا وقت مضمون قضیہ ضروری ہوتا ہے نہ وقت صدق قضیہ۔ (شمس الھدایہ ص ۷۷)
یعنی جس وقت اس حکم نے واقع ہونا ہے اس وقت مشتق کا قیام مبد اسے ضروری ہونا ہے۔
اور یہ بات درست ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام پر اپنے وقت میں موت آنی ہے آپ نے میت بننا ہے اس وقت میت کا قیام موت سے ہی ہوگا یہ کوئی ضروری نہیں کہ جب قضیہ عامہ کا بولا جائے اسی وقت محمول کا قیام موضوع سے ہو اور مشتق کا قیام مبدا اشقاق سے ہو۔
اعتراض:
وَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا یَخْلُقُوْنَ شَیْـًٔا وَّ هُمْ یُخْلَقُوْنَo اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآءٍ وَ مَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَo (پ ۱۴ سورۃ النحل آیت ۲۰ ۔ ۲۱)
اور اللہ تعالیٰ کے سوا جن کو پوجتے ہیں وہ کچھ بھی نہیں بناتے وہ خود بنائے ہوئے ہیں مردے ہیں زندہ نہیں اور انہیں خبر نہیں لوگ کب اٹھائے جائیں گے۔
اس آیت سے ثابت ہو رہا ہے کہ اللہ کے سوا سارے معبود مرچکے ہیں زندہ نہیں چونکہ عیسیٰ علیہ السلام کو بھی لوگوں نے معبود مانا اور وہ بھی اللہ کے سوا معبودوں میں داخل ہیں اس لیے وہ مرچکے ہیں زندہ نہیں۔ واضح ہوا کہ یہ آیت وفات مسیح پر دلالت کررہی ہے۔
جواب:
یہ آیت سورۃ نحل کی ہے جس کا نزول مکہ(زادھا اللہ شرقاً وتکریماً) میں ہوا ہے اس لحاظ سے من دون اللہ سے مشرکین مکہ کے معبود ہیں حضرت ابن عباس ’’اموات‘‘ کی تفسیر میں ’’اصفام اموات‘‘ تحریر فرماتے ہیں یعنی بت تو خود بے جان ہیں۔ (شمس الھدایہ ص ۷۷)
خیال رہے کہ راقم نے اپنی کتاب ’’شمع ہدایت‘‘ میں اس آیت کی تفسیر میں مودودی صاحب سے جو غلطیاں ہوئیں ہیں یا دیدہ دانستہ غلط تفسیر کی اس کا تفصیلی رد کیا ہے۔
اعتراض:
قانون یہ ہے کہ عموم لفظ کا اعتبار ہوا کرتا ہے نہ کہ خصوص مورد کا اس قانون کے پیش نظر تو یہ چاہیے کہ من دون اللہ سے مطلق معبود ان باطلہ مراد ہوں بتوں کے ساتھ خاص کرنا درست نہیں اس لحاظ سے تو مسیح بن مریم بھی اس آیت کے حکم میں داخل ہوں گے یعنی مر چکے ہیں۔
جواب:
اگر اس آیت میں حکم کو بتوں کے ساتھ خاص نہ کیا جائے تو ملائکہ بھی اس میں داخل ہوں گے کیونکہ ان کو بھی لوگوں نے معبود مانا تو اس طرح وہ بھی اللہ کے سوا معبود ہیں تو یہ لازم آئے گا کہ فرشتے سب مرچکے ہوں اس طرح جبرائیل بھی مرچکے ہوں گے اس سے تو زیادہ مصیبت مرزا صاحب پر ہی پڑے گی کہ ان کا دعوی شروع سے ہی باطل ہوجائے گا کیونکہ وحی تو تمام انبیائے کرام کے پاس جبرائیل ہی لاتے رہے جب ان کو ہی مردہ قراردے دیا گیا تو مرزا صاحب کا دعوی نبوت خود بخود باطل ہوگیا۔
اگر بالفرض اللہ کے سوا تمام معبود مراد لینے ہوں تو جب قضیہ مطلقہ عامہ مانا جائے تو پھر صرف اتنا ہی ثابت ہوگا کہ اپنے اپنے وقت پر ان کو موت آنی ہے اس طرح عیسیٰ علیہ السلام پر بھی یہ آیت صادق آئے گی کیونکہ ان کو بھی موت اپنے وقت پر آنی ہے اور فرشتے بھی اس میں داخل ہوسکیں گے کیونکہ نفخ صور پر ان کو بھی موت آنی ہے لیکن اس سے مرزا صاحب کا مقصد ثابت نہیں ہوسکے گا کہ عیسیٰ علیہ السلام تو مرچکے ہیں اور میں مسیح موعود ہوں۔ (از شمس الھدایۃ ص ۷۷)
اعتراض:
رب تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ‘‘ (پ ۴ سورۃ آل عمران آیت ۱۴۴)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے سارے رسول وفات پاچکے ہیں۔
یہ تمام رسولوں کے متعلق ہے جن میں عیسیٰ علیہ السلام بھی ہیں اس سے پتہ چلا کی عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں۔
جواب:
معترضین نے ’’خلت‘‘ کا معنی ’’توفت‘‘ (فوت ہوگئے) کیا ہے جو غلط ہے؛ کیونکہ یہ معنی کرنے سے دو آیتوں میں صریح طور پر تنا قص لازم آئے گا اس لیے کہ ایک آیت میں فرمایا:
’’سُنَّۃَ اللہِ الَّتِیْ قَدْخَلَتْ‘‘ (پ ۲۶ سورۃ الفتح آیت ۲۳)
اور دوسری آیت میں فرمایا:
’’وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللہِ تَبْدِیْلاً‘‘ (پ ۲۶ سورۃ الفتح آیت ۲۳)
اگر ’’خلت‘‘ کا معنی موت کیا جائے تو پہلی آیت کا معنی یہ ہوگا سنت خداوندی مرچکی اور معدوم ہو گئی حالانکہ دوسری کا مفاد یہ ہے کہ سنت الہیہ متغیر نہیں ہوتی یعنی ہمیشہ اپنے حال پر باقی رہتی ہے اس لیے یہ بھی صحیح ہے کہ
’’قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ‘‘ کا ترجمہ یہ ہے ان سے پہلے اور رسول ہوچکے (گزر گئے) (پ ۴ سورۃ آل عمران آیت ۱۴۴)
اور ’’سُنَّۃَ اللہِ الَّتِیْ قَدْ خَلَتْ فِیْ عِبَادِہٖ‘‘ (پ ۲۴ سورۃ المؤمن آیت ۸۵)
کا ترجمہ یہ ہے اللہ کا دستور جو اس کے بندوں میں گزرچکا۔
توجہ سے سنیے کہ ’’خلت‘‘ مشنق ہے ’’خلی‘‘ سے جس کا معنی ہے تنہا ہونا جیسا کہ:
’’وَاِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیَا طِیْنِھِمْ‘‘ (پ ۱ سورۃ البقرۃ آیت ۱۴)
میں یہی معنی ہے اور جب اپنے شیطانون کے پاس اکیلے ہوں۔
اور دوسرا معنی گزرنا ہے اور یہ معنی زمانہ کی صفت بالذات ہوتا ہے جس طرح کہا جاتا ہے السنۃ الماضیۃ گزشتہ سال اور قرونِ خالیۃ (گزرے ہوئے زمانے) اور یہ معنی زمانے کی صفت بالعرض ہوتا ہے یعنی جو اشیاء زمانہ میں موجود ہوتی ہیں ان کو بھی ظرفیت و مظروفیت کے تعلق کی وجہ سے گزرا ہوا کہہ دیا جاتا ہے۔
اب آیت کا معنی یہ ہوگا ان سےپہلے اور رسول گزر چکے ہیں اس معنی کے لحاظ سے جو فوت ہوچکے ہیں ان کے متعلق بھی کہا جاتا ہے کہ وہ گزرچکے ہیں اور جو رسالت سے فارغ ہوچکے ہیں اور زمین سے آسمانوں پر اٹھالیے گئے ہیں یعنی ابن مریم ان کے متعلق بھی کہا جاتا سکتا ہے وہ گزر گئے ہیں جیسا کہ عام محاوہ میں کہا جاتا ہے ’’فلاں حاکم شہر میں تحصیلدار ہو گزرا ہے‘‘ یہ محاورہ دنوں صورتوں میں صادق آتا ہے اگر وہ مرگیا ہو پھر بھی اور اگر وہ ملازمت سے فارغ ہوچکا ہو تو پھر بھی۔ (ماخوذ از شمس الھدایہ ص ۷۸)
اعتراض
اس کے بعد ذکر ہے:
’’اَفَاِن مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰی اَعْقَابِکُمْ‘‘ (پ ۴ سورۃ آل عمران آیت ۱۴۴)
کیا وہ (نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم) اگر انتقال فرمائیں یا شہید ہوں تو تم الٹے پاؤں پھر جاؤ گے۔
یہ قرینہ ہے کہ ’’قد خلت‘‘ میں بھی معنی موت ہی لیا جائے یعنی حضور سے پہلے اور تمام رسول فوت ہوگئے۔
جواب:
افان مات چونکہ بمقابلہ اوقتل کے واقع ہوا ہے لہذا مات سے مراد موت حتف انفہ ہوگی یعنی اپنے آپ مرنا بغیر کسی کے قتل کرنے کے یہ بات سمجھ کر انصاف سے خود ہی بتایا جائے کہ اگر افان مات کو قرینہ ارادہ معنی موت پر ’’قد خلت‘‘ سے ٹھہرائیں تو ضرور قد خلت سے مراد بھی موت حتف انفہ یعنی موت طبعی ہوگی اس طرح (معاذ اللہ) ’’قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ‘‘ کا کاذب ہونا لازم آئے گا؛ کیونکہ تمام انبیائے کرام طبعی موت نہیں فوت ہوئے بلکہ کوئی اپنی طبعی موت فوت ہوئے اور بعض کو شہید کیا گیا۔ اور اگر خلت کا معنی مطلق موت لے بھی لیا جائے تو دوسری آیت ’’بل رفعہ اللہ‘‘ اس کے عموم کے لیے مخصص ہوگی یعنی دوسرے انبیائے کرام تو دنیا سے رخصت ہو گئے فوت ہوگئے عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ نے آسمانوں پر اٹھالیا اسی طرح قرآن پاک کو کئی آیات مبارکہ کو دوسری آیات سے خاص کیا گیا ہے۔
جیسے رب تعالیٰ نے فرمایا:
اَلَمْ نَخْلُقْكُّمْ مِّنْ مَّآءٍ مَّهِیْنٍo (پ ۲۹ سورۃ المرسلت آیت ۲۰)
اور ایسا ..... خُلِقَ مِنْ مَّآءٍ دَافِقٍo یَّخْرُجُ مِنْۢ بَیْنِ الصُّلْبِ وَ التَّرَآىِٕبِo (پ سورۃ الطارق آیت ۶ ۔ ۷)
یہ دنوں آیتیں عام مخصوص البعض ہیں یعنی ان آیات میں انسان کی پیدائش کا ذکر کیا گیا کہ اسے منی سے پیدا کیا گیا ہے حالانکہ یہ حکم آدم علیہ السلام اور حضرت حوا کو شامل نہیں کیونکہ ان کو منی (نطفہ) سے پیدا نہیں کیا گیا اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام کو بھی نفخ جبریل سے پیدا کیا گیا ہے اس مثال سے اب سمجھنا ہوگا کہ:
’’قَدْخَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ‘‘ (پ ۴ سورۃ آل عمران آیت ۱۴۴)
آیت بھی مخصوص البعض ہے کیونکہ ’’بل رفعہ اللہ الیہ‘‘ اور دوسری آیات جن سے عیسیٰ علیہ السلام کا زندہ ہونا ثابت ہے ان سے واضح ہو رہا ہے کہ یہ حکم دوسرے انبیائے کرام کے لیے ہے حضرت مسیح کے لیے نہیں۔ (از شمس الھدایۃ ص ۷۹)
اعتراض:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی:
’’فِیْھَا تَحْیَونَ وَفِیْھَا تَمُوْتُوْنَ‘‘ (پ سورۃ الاعراف آیت ۲۵)
زمین میں ہی تم کو زندہ رہنا ہے اور اس میں ہی تمہاری موت آنی ہے۔
بہت بڑی دلیل ہے کہ انسان کے رہنے کہ جگہ صرف زمین ہی ہے اور کوئی جگہ رہنے کی نہیں تو عیسیٰ علیہ السلام آسمانوں پر کیسے زندگی بسر کر رہے ہیں۔
جواب:
اصل تو یہی ہے کہ انسان کے رہنے کی جگہ زمین ہی ہے لیکن عارضی طور پر کسی کو آسمانوں پر رب تعالیٰ خود رکھے تو اس میں کیا حرج ہے؟ جیسا کہ ملائکہ کا اصل رہنے کا مقام آسمان ہیں لیکن ان کی آمدورفت زمین پر بھی رہتی ہے جب فرشتوں کا زمین پر آنا جانا منع نہیں تو عیسیٰ علیہ السلام کا آسمانوں پر جانا کیونکر منع ہوسکتا ہے؟
اس واضح ہوا کہ آیت میں حصر اضافی ہے حقیقی نہیں یعنی بنسبت استقرار اصلی کے ہے اور دوسری آیت ’’وَلَکُمْ فِی الاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ‘‘ سے بظاہر جو سمجھ آرہا ہے کہ اس میں لام تخصیص کا ہے اور مطلب یہ ہے کہ تمہارا زمین میں رہنا خاص ہے اس سے مراد یہ بھی ہے کہ تمہارا رہنے کا مقام زمین کو بنایا گیا ہے لیکن یہ بھی لازم نہیں کیونکہ ایک چیز کو کسی کے لیے بنایا گیا ہو تو ضروری نہیں کہ وہ اس سے جدا نہ ہو۔
جیسا کہ : ’’وَّ جَعَلْنَا الَّیْلَ لِبَاسًاo وَّ جَعَلْنَا النَّهَارَ مَعَاشًا‘‘ (پ ۳۰ سورۃ النبا آیت ۱۰ ۔ ۱۱)
رب تعالیٰ نے رات کو لباس بنایا اور دن کو معاش۔
یعنی رات سونے کے لیے بنائی ہے اور دن روزی کمانے کے لیے حالانکہ بعض اوقات انسان رات کو کام کرتا ہے اور دن کو سوتا ہے تو مقصد یہ نکلا کہ عمومی طور پر رات سونے کے لیے اور دن روزی کمانے کے لیے ہے لیکن کبھی اس کے خلاف بھی ہوسکتا ہے اور اس میں کوئی حرج بھی نہیں ایسے ہی زمین رہنے کے لیے عمومی طور پر مختص ہے لیکن کسی کو رب تعالیٰ خود آسمانوں میں ٹھہرا لے تو اس میں کسی کو کلام کرنے کیا کیا مجال ہوسکتی ہے۔ (از شمس الھدایۃ ۷۹)
(تذکرۃ الانبیاء)