حسین بن خضر بن محمد بن[1]یوسف نسفی: اپنے زمانہ کے امام فاضل،فقیہ جید محدث ثقہ تھے۔کنیت آپ کی ابو علی تھی،بخارا میں آپ نے امام ابی بکر محمد بن فضل اور ابا عمر و محمد بن محمد بن صابر اور ابا سعید بن خلیل بن احمد سجزی اور بغداد میں ابا الفجل عبید اللہ بن عبد الرحمٰن الزہری اور ابا الھسن علی بن عمر بن محمد ادرکوفہ میں ابا عبد اللہ محمد بن عبد اللہ بن حسین الہروی اور مکہ معظمہ میں ابا الحسن احمد بن ابراہیم اور ہمدان مین امام ابا بکر احمد بن علی بن دلال اور رے میں ابا القاسم جعفر بن عبد اللہ بن یعقوب رازی اور مرو میں ابا علی محمد عمرو مروزی اور ان کے طبقہ سے حدیث کو سنا اور تفقہ کیا،اور آپ سے ایک جم غفیر اور جماعت کثیرہ نے حدیث کو سنا اور روایت کیا۔مدت تک بغداد میں تعلیم و تدریس اور مناظرہ میں مصروف رہے، جب جعفر اسروشنی فوت ہوئے تو آپ کو بخارا کی قضا تفویض ہوئی۔
کہتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ کا اہل تشیع کے پیشوا مرتضٰی نام سے مسئلۂ توریث انبیاء میں مباحثہ ہوا۔آپ نے اپنے دعویٰ میں حدیث لَا ْنُورَثُ وَمَا تَرکُنَاہُ صَدَقَۃ ٌ کو پیش کیا جس پر مرتضٰی نے یہ اعتراض کیا کہ صدقہ کا اعراب رفع سے پڑھنا درست نہیں بلکہ یہ نصب سے پڑھنا درست ہے۔آپ نے فرمایا کہ بقول آپ کے حدیث کا فائدہ باطل ہو جاتا ہے کیونکہ ہر کوئی جانتا ہے کہ جب آدمی مرجاتا ہے تو اس کے ترکہ کے اس کے قریبی لوگ وارث ہوتے ہیں اور وہ صدقہ نہیں ہوتا اور اس میں کسی طرح کا کوئی اشکال واقع نہیں ہو سکتا پس مرتضٰی لا جواب ہوگیا ۔آپ نے کتاب فوائد اور کتاب فتاویٰ تصنیف کیں اور راستی برس کی عمر میں منگل کے روز ۲۳؍ماہ شعبان ۴۲۴ھ میں فوت ہوئے اور بخارا کےمقبرۂ کلا باذ میں دفن کیے گئے۔ ’’امام والا قدر‘‘ آپ کی تاریخ وفات ہے۔
1۔ فشید یرجی ’’جواہر المضیۃ‘‘ (مرتب)
(حدائق الحنفیہ)