شیخ مجدالدین بغدادی
شیخ مجدالدین بغدادی (تذکرہ / سوانح)
شیخ مجدالدین بغدادی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسمِ گرامی:مجدالدین۔ کنیت :ابو سعید ۔لقب:ابوالفتح۔بغداد کی نسبت سے بغدادی کہلاتے ہیں۔سلسلہ نسب اسطرح ہے: ابوالفتح مجدالدین شرف بن مؤید بن ابی الفتح بغدادی ۔علیہم الرحمہ۔تصحیح: آپ کااسمِ گرامی:مجَدُالدّین ہے۔نہ کہ مجددالدین۔
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت 554ھ،مطابق 1159ءکوبغدادمیں ہوئی۔
تحصیلِ علم: آپ کے والدِگرامی اور والدہ محترمہ اپنے وقت کےتعلیم یافتہ انسان تھے۔والداوروالدہ دونوں طبیب تھے۔بغداد میں ان کاکوئی ثانی نہیں تھا۔ان کی مہارت کا اندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب شاہِ خوارزم نے خلیفہ بغداد سے اپنے علاج کےلئےکوئی طبیب مانگا،تو انہوں نے آپ کے والد کو بھیج دیا۔ابتدائی تعلیم وتربیت والدین کے زیر سایہ ہوئی۔پھربغداد کےصاحبان ِعلم سے تحصیل ِعلم کیا۔آپ کاشماراس وقت کے کاملین میں ہوتا تھا۔
بیعت وخلافت: امام الاولیاء حضرت شیخ نجم الدین کبری رحمۃ اللہ علیہ کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے اور خلافت سے ممتاز ہوئے۔
سیرت وخصائص:سیدالاولیاء،شیخ الاصفیاء،مجاہدِکبیر،ولیِ کامل،واعظِ اسلام،حضرت شیخ مجدالدین بغدادی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ کاشماراکابراولیاءِ کرام میں ہوتاہے۔آپ بہت خوبصورت تھے۔جب شیخ نجم الدین کی خدمت میں حاضرہوئے،توانہوں نے انکو وضو کے پانی بھرنے کی خدمت میں مشغول رکھا۔انکی والدہ نے سنا وہ طبیبہ تھیں۔شیخ بھی (روحانی وجسمانی)طبیب تھے۔ان کی والدہ نے کسی کو شیخ کے پاس بھیجا کہ فرزند مجدالدین ایک نازک آدمی ہے یہ کام اس سے مشکل ہوگا۔ اگر آپ فرمائیں۔تو میں دس غلام ترکی بھیج دیتی ہوں کہ وہ پانی کی خدمت کریں گے۔آپ اس کو کسی دوسری خدمت پر مقرر فرمائیں۔شیخ نے فرمایا کہ اس سےجا کر کہہ دو کہ یہ تمہاری عجیب بات ہے۔تم توعلمِ طب پڑھی ہوئی ہو۔تم خوب جانتی ہوکہ اگر تمہار بیٹے کو صفراوی تپ ہو تو میں اس کی دوا ترکی غلام کو دوں،تو تیرا بیٹا کیسےتندرست ہوگا۔ مقصدیہ تھاکہ ہم اس کی روحانی تربیت کررہے ہیں۔ان کی نزاکت ختم کرکےانہیں مجاہدبنانا ہے۔
خواب میں رسول اللہﷺ کی زیارت: شیخ رکن الدین علاؤ الدولہ فرماتے ہیں: کہ شیخ مجدالدین نے فرمایا:میں بغداد سے شام کو جارہا تھا،تا کہ وہاں سے روم جاؤں۔جب موصل تک پہنچا تو ایک رات جامع مسجد میں گزاری۔ جب میں سوگیا تو دیکھا کہ کوئی شخص کہتا ہے وہاں نہیں جاتےہوکہ فائدہ حاصل کرو۔ میں نے دیکھا تو ایک جماعت حلقہ مار کر بیٹھی ہوئی تھی۔ایک شخص ان کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے۔جن کا نور ان کے سرسےآسمان تک پہنچاہواتھاوہ باتیں کررہےتھے،اورسب سن رہےتھے۔میں نےکہایہ حضرت کون ہیں۔لوگوں نےکہا:کہ مصطفٰیﷺہیں۔آگے بڑھا اور سلام عرض کیا: آپ نےمجھےسلام کا جواب دیا،اور مجھےحلقہ میں جگہ دی۔ جب میں بیٹھ گیا تو میں نے عرض کیا:یا رسول اللہ ﷺ!ما یقول فی حق ابن سینا ؟(1)یعنی آپ بو علی سینا کے حق میں کیا فرماتے ہیں؟ آپ ﷺنے فرمایا: اضلہ اللہ تعالیٰ علی علمہ۔یعنی وہ شخص ہے جس کو خدائے تعالیٰ نے بوجود علم کے گمراہ کردیا۔ پھر میں نے عرض کی: ما نقول فی حق شھاب الدین المقتول؟یعنی آپ شہاب الدین مقتول کے بارے میں کیا فرماتے ہیں۔ فرمایا: ھو من متبعیہ یعنی وہ اسی کے تابع ہے۔
اس کے بعد میں نے علمائے اسلام کی بارے پوچھنا شروع کیا۔میں نے عرض کیا:ما تقول فی حق حجۃ الاسلام محمد الغزالی یعنی حجۃ الاسلام امام غزالی کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں۔فرمایا:ھو رجل وصل الی مقصودہ ۔یعنی وہ ایک ایساشخص ہے جو کہ اپنے مقصود تک پہنچ گیا ہے۔پھر میں نے عرض کیا: ماتقول فی حق امام الحرمین۔یعنی آپ امام الحرمین کے بارےمیں کیا فرماتے ہیں: فرمایا :ھو ممن نصر دینی۔ وہ ایساشخص ہے جس نےمیرے دین کی حمایت کی ہے۔ پھر میں نے عرض کیا:ما نقول فی حق ابی الحسن الاشعری ۔ یعنی امام ابو الحسن اشعری کے بارےمیں کیا فرماتے ہیں:آپ نے فرمایا : انا قلت و قولی صدق الایمان یمان و الحکمۃ یمانیۃ۔ یعنی میں پہلے ہی فرماچکاہوں، اور میری بات سچی ہے کہ ایمان یمن والوں کا ہے اور حکمت یمانی ہے۔اس کے بعد ایک شخص نے جومیرے نزدیک بیٹھاہوا تھا۔ مجھے کہا: کہ یہ سوالات کو کیوں کرتے ہو۔دعا کےلیے درخواست کرو کہ جس سے تمھارا فائدہ ہو۔اس کے بعد میں نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ مجھے کوئی دعا سکھلائیے۔آپﷺ نے فرمایا : کہو:اللھم تب علی حتی اتوب و اعصمنی حتی لا اعود وحبب الی الطاعات و کرہ الی الخطیآت۔یعنی اے پروردگار میری طرف نظرِ رحمت فرما یہاں تک کہ میں توبہ کروں ،اور مجھ کو بچا لے ۔یہاں تک کہ پھر گناہ نہ کروں۔مجھےعبادت کی محبت اور گناہوں کی کراہت دے۔
اس کے بعد مجھ سے حضورﷺ نے پوچھا کہ کہاں جاتے ہو۔میں نے عرض کیا روم کی طرف۔فرمایا :الروم ما دخلہ المعصوم۔ یعنی روم میں معصوم داخل نہیں ہوتا۔ جب میں اس خواب سے بیدار ہوا۔ وہاں ایک بالا خانہ تھا۔ جس میں مولانا موفق الدین کواشی رہتے تھے۔ اور آخر عمر میں نابینا ہوگئے تھے۔میں نے ان کی زیارت کی۔انہوں نےپوچھا کہ تم کون ہو؟ میں نے بتایا۔ پوچھاکہاں سے آئے ہو۔میں نے کہا:بغداد ۔ پوچھا اب کہاں جاؤ گے؟ میں نے کہا۔ روم ۔کہا روم کی طرف جاتے ہو۔میں نے کہا:ہاں ۔ کہا:الروم ما دخلہ المعصوم ۔جب انہوں نے یہ کلمہ کہا، تو میں تعجب کرنے لگا ۔میں نے کہاشاید آپ کل کی مجلس میں موجود تھے۔کہا دعنی دعنی یعنی اس بات کو رہنےدو، اورمیں واپس آگیا۔
وصال: شیخ مجدالدین بغدادی کو23ربیع الثانی607ھ،اوربعض کےنزدیک 610ھ،کوشہیدکیاگیا۔اسی طرح آپ کےمدفن کے بارےمیں بھی اختلاف ہے۔صحیح قول کےمطابق نیشاپورمیں حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ علیہ الرحمہ کے مزار میں آرام فرماہیں۔
ماخذومراجع: خزینۃ الاصفیاء۔ نفحات الانس۔ ضیائے ربیع الثانی۔