محمد بن عبد الوحد بن عبد الحمید سکندری سیواسی المعروف بہ ابن ہمام: کمال الدین لقب تھا۔ا مام محقق،علامہ مدقق نظار،فروعی،اصولی،محدث،مفسر، حافظ،نحوی،کلامی،منطقی،جلدی،فارس میدان بحث تھے،بعض نے طبقہ اہل ترجیح اور بعض نے اہلِ اجتہاد سے آپ کو شمار کیا ہےباپ آپ کا شہر سیواس کا جو روم کے علاقہ میں ہے،قاضی تھا۔پھر قاہرہ میں آیا جہاں اس کو قاضی حنفی سے خلافت حکم کی ملی پھر اسکندریہ کا قاضی ہوا اور قاضی مالکی کی لڑکی سے نکاح کیا جس سے ۷۸۸ھ میں آپ یضے کمال الدینمحمد پیا ہوئے اور ہوش سنبھالتے ہی اپنے باپ اور شہر کے علماء و فضلاء سے علم پڑھنا شروع کردیا چنانچہ فقہ واصول سراج الدین الشہیر بہ قاری الہدایہ اور بساطی سے پڑھی اور جب ۸۱۳ھ کو قاہرہ میں آئے تو قاضی محب الدین ابن شحنہ سے استفادہ کیا اور ان کے ساتھ حلب کو مراجعت کی۔عربیت کو جمال حمیدی سے اخذ کیا اور حدیث کو ابی زرعہ عراقی اور جمال حنبلی اور شمس شامی سے سنا اور مراعی وابن ظہیرہ سے اجازت حاسل کی یہاں تک کہ اپنے اقران پر تمام علوم میں غالب آئے۔اشرف نے آپ کو مدرسہ کا شیخ بنایا تھا جس کو آپ نے کچھ مدت تک انجام دیکر چھوڑ دیا اور شیخونیہ کی مشیخت کے متولی ہوئےت پھر کچھ مدت تک افتاء کا کام دیتے رہے مگر آخر الامر ان سب کو یکبار گی چھوڑ دیا اور تصنیف و تالیف اور نشِ علوم میں مشغول ہوئے چنانچہ ہدایہ کی شرح فتح القدیر نام ایسی محققانہ لکھی کہ جس کی نطیر آج تک نہیں ملتی اور اس میں تعصب واعتساف مذہبی سے اجتناب کر کے نہایت منصفانہ دلائل سے مذہب خفیہ کو ثابت کیا۔اس شرح کو آپ نے کتاب وکالت تک تصنیف کیا تھا کہ اجل کا پیغام آگیا اس لیے اس مقام سے اس کو اخیر کتاب تک مولیٰ شمس الدین احمد بن فور المعروف بہ قاضی زادہ مفتی رومی متوفی ۹۸۸ھ نے کامل کیا اور اصول میں کتاب تحریر ایسی تصنیف کی کہ اپنا نظیر نہیں رکھتی جس کی شرح آپ کے فاضل تلمیذ ابن امیر حاج حلبی نے کی۔عقائد میں کتاب مسائرہ اور عبادات میں زادا لفقر تصنیف کی۔
علاوہ علوم ظاہری کےصوفی بھی کامل اور صاحبِ کشف و کرامات تھے اور علم موسیقی میں بھی کمال و دسترس رکھتے تھے۔ابتداء میں آپ نے بالکلیہ تجرو اختیار کر لیا تھا مگر اہلِ طریقت نے آپ کو کہا کہ آپ اس سے رجوع کرلیں کیونکہ لوگوں کو آپ کے علم کے بڑی حاجت ہے۔آپ کو اہلِ تصوف کی طرھ حالت آتی تھی مگر بسبب اختلاط لوگوں کے آپ سے ول حالت جلد دور ہوجاتی تھی آپ سے شمس الدین محمد الشہیر بہ ابن امیر حاج حلبی ار محمد بن محمد بن شحنہ اور سیف الدین بن عمر بن قطلو بغا وغیرہ جم غفیر نے اخذ کیا اور قاہرہ میں جمعہ کے روز۷؍رمضان ۸۶۱ھ میں وفات پائی اور سلطان مع اعیان واکران سلطنت کے آپ کے جنازہ پر حاضر ہوا۔’’نور اخدا‘‘اور’’رونق شہر‘‘ تاریخ وفات ہیں[1]۔
سیوطی نے حسن المحاضرہ میں شیخ ابی العباس احمد بن محمد سرسی صوفی متوفی ۸۶۱ھ کے تذکرہ میں لکھا ہے کہ شیخ کمال الدین ابن ہمام اکثر آپ کے پاس آیا کرتے تھے،ایک دن کا ذکر ہے کہ آپ کے پاس کتاب تحریر جو انہوں نے تصنیف کی تھی،موجود تھی،شیخ ابی العباس نے اس کو مطالعہ کر کے فرمایا کہ کتاب تو ملیح ہے لیکن لوگ اس سے کم منتفع ہوں گے پس ایسا ہی ہوا۔
1۔ شیخ ابو الفتح علامی کاپوری متوفی ۸۶۸ھ(تذکرہ علمائے ہند)
(حدائق الحنفیہ)