احمد بن سلیمان رومی مشہور بہ ابن کمال پاشا: شمس الدین لقب تھا۔فقیہ محدث،علامۂ زماں اور فہامۂ دوراں تھے۔کفوی نے آپ کو اصحاب ترجیح میں سے شمار کیا ہے۔علم اپنے ولی لطفی تلمیذ سنان پاشا اور مولیٰ مصلح الدین قسطلانی وغیرہ فضلائے مشہور ین سے پڑھا،اول شہر ادرنہ کے مدرس مقرر ہوئے اور چند عرصہ کے بعد وہاں کے قضی ہوئے،پھر سلطان سلیم خاں نے آپ کو عسکر کا قاضی بنایا۔ جب سلطان سلیم خاں نے قوم چراکسہ سے قاہرہ کو فتح کیا تو آپ بھی قاہرہ میں تشریف لائے جہاں کے علماء اکابر و فاضل نے آپ سے مناظرہ و مباحثہ کیا اور آپ کے کلام کی فصاحت و بلاغت دیکھ کر بڑے متعجب ہوئے اور سب نے آپ کی فضیلت کا اقرار کیا۔۹۳۲ھ میں آپ بعد وفت علاء الدین علی جمالی کے قسطنطنیہ کے مفتی بنےحتیٰ کہ ۹۴۰ھ میں انتقال کیا۔’’محقق مشہور آفاق‘‘ تاریخ وفات ہے۔
شامی شرح در المختار میں بحوالہ طبقات تمیمی لکھا ہے کہ کوئی ایسا فن نہ ہوگا جس میں آپ کے ایک یا چند تصنیفات نہ ہوں چنانچہ آپ نے ایک تفسیر قرآن شریف اورتعلیق صحیح بخاری تصنیف کی اور تفسیر کشاف اور اوائل تفسیر بیضاوی پر حواشی لکھے اور فارسی میں تفسیر سورۃ الملک تصنیف کی۔علاوہ ان کے کتاب الاصلاح الایضاح اور تغییر التنفتیح اور اس کی شرح تجوید التجرید،تغییر السراجیہ اور اس کی شرح،تغییر المفتاح اور اس کی شرح حواشی تلویح،شرح مفتاح،شرح ہدایہ مگر نا تمام،حواشی تحافۃ الفلاسفہ مصنفیہ خواجہ زادہ،حواشی شرح چغمپنی،سنان پاشا وغیرہ کتب و رسائل فنون مختلفہ میں جو شاید تین سو سے زیادہ ہوں گے،تصنیف کیے اور ترکی زبان میں تاریخ آلِ عثمان لکھی۔[1]
صاحبِ طبقات تمیمی کہتے ہیں کہ جیسے ولایت مصر میں شیخ جلال الدین سیوطی کثرت تالیف اور سقہِ اطلاع کی روسے مشہور و معروف ہیں ویسے ہی آپ روم میں گزرے۔
1۔ دقائق الحقائق اور رسالہ فی طبقات المجتہدین بھی آپ کی تصنیفات ہیں،آپ قاضی عسکر بھی رہے،۲؍شوال ۹۴۱ھ کو وفات پائی،آپ کے والد سلیمان پاشا اور دادا کمال پاشا اور نہ کے رئیس تھے،دونوں نے بارہا دشمنان اسلام کے خلاف جہاد میں حصہ لیا۔(انسائیکلوپیڈیا آف اسلام) (مرتب)
(حدائق الحنفیہ)