میاں ابراہیم عُرف عبدالرحیم رحمتہ اللہ علیہ
میاں ابراہیم عُرف عبدالرحیم رحمتہ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
آپ کانام ونسب عام طورپریہ بیان کیاجاتاہے۔عبدالرحیم بن جانی بن ابراہیم بن بوڑا بن فتح محمد قوم بھٹی اور آپ کا اصلی وطن جلال پور بھٹیاں بیان کیاجاتاہے۔مگرایک پورانی تحریرجو ۱۱۲۱ھ کی ہے۔ اُس پرآپ کانام ابراہیم ولد جانی قوم کیڑولکھاہےاور سکونت موضع اورنگ شاہ پورڈلّالکھی ہے۔جو بھڑی کاقدیمی نام تھا۔اس سے ثابت ہوتاہے کہ آپ آباؤاجدادسے بھڑی کے رہنے والے تھے اور ابراہیم کا تلفظ بدل کرعبدالرحیم مشہورہوگیا۔
بیعتِ طریقت
ایک پورانی تحریرمیں جو میاں لدھانورپوری کے گھرمیں تھی۔آپ کا نام "میاں عبدالرحیم چشتی"لکھاہے۔جس سے ثابت ہوتاہے کہ آپ چشتی سلسلہ میں بیعت تھے اور کتاب مناقبات نوشاہیہ اورگلزارفقراوغیرہ کتابوں میں حضرت پاک صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے خلفأ کی فہرستوں میں کہیں آپ کانام درج نہیں۔مگررسالہ سبیل سلسبیل۱؎میں آپ کو حضرت پاک صاحب رحمتہ اللہ علیہ کامُریدلکھاہے۔آپ کی اولادبھی اسی بات کی مدعی ہے ۔لیکن کوئی پورانا قلمی تحریری ثبوت کسی کے پاس نہیں۔
ایک قطعہ زمین کا بیعنامہ
ایک پورانی دستاویز سے ثابت ہوتاہےکہ آپ نے ۱۱۲۱ھ میں موازی پندرہ ۱۵بیگہہ زمین بقیمت پندرہ روپیہ موضع اورنگ شاہ پورڈلّا(بھڑی شریف) کے زمینداران قوم ہرأ سے خریدکی۔آپ کے ساتھ زمین خریدنے میں نورمحمد ولد بختال کیڑواور بختاور ولد مہربان اندی بھی حصّہ دار اور شریک تھے۔اس دستاویزکی بلفظہٖ نقل یہاں درج کی جاتی ہے۔
ھوالغنی
اقروابمافیہ
مہُرمحمدخادم شرع سعید قاضی مُہر۲؎
اقرار کردند و اعتراف معتبر صحیح شرعی نمودند ہر یک مسمی داناولقمان وسلیمان ابنون ۔۔۔۳؎ و بختاور
بن موہن بن سکَھلّی وقائم بن جیوند ابن موہن مسطور۔دولیربن گلّابن موہن مذکور۔ومہروان و بخشا ابنانِ سعدی بن بھیرو وسلیمان بن متوالہ بن بکھو۔وفتاومتاابنانِ نہالہ بن سیکھو۔وشادی بن روپا بن فتو۔ود سوندھی ودرگاہی ابنانِ نعمت اللہ بن روپامسطور۔چنوں وکریماابنان روپامسطور گھلابن لعل بیگ بن روپامسطور۔حیات و عنایت ابنانِ جیون بن وساواوماہی بن جاہر بن نانک ۔وپھگوانہ بن روپا بن مانا۔ومہروان و کلوابنانِ بولابن باکھرعرفہم ہراؤ مقدمان ومالکان موضع اورنگ شاہ پورڈلّا عملہ پرگنہ حافظ آباد بریں وجہ کرہمگی وتمامی قطعہ زمین بنجرافتادہ لائق زراعت خارج مشتمل برموازی پانزدہ بیگہہ کہ کائن ست درموضع مذکورازاں چہ نمودندبایعین مسطورین کہ اراضی مذکورہ رادرملک ِ آنہابودہ ودرتحت تصرف مالکانہ شرعی خویش و اشتندتازمان ایں بیع و شریٰ محدود بحدود اربع ذیل خالیاً عن حق الغیروامایمنع عن جوازالبیعبہ بیع بیعاً باتاً ثباتاً بمقابلہ مبلغ پانزدہ۱۵ روپیہ کہالنصف منہ تاکید الاصل مبلغ ہفت۷ روپیہ دہشت آنہ موصوفہ میشود بدست نورمحمد ولد بختال کیڑو بختاورولد مہربان اندی دا براہیم ولد جانی کیڑوفروختہ ھٰھُنَارادرقبض و تصرف خودباآوردندومبیعہ مسطورہ راتسلیم مستری مذکورنمودند وتقابض بدلین درمجلس واقعہ شد۔واخبار کردندبریں کہ قطعہ معلوم الحدود درتحت و تصرّف مالکانہ بایعین مذکور ین بودہ است تازمانِ ایں مبایعہ صحیحہ شرعیہ مسمی ہزاری خوجہ و سیرک دھوتھڑ ساکنان موضع بھڑی دھوتھڑ عملہ پر گنہ مذکوروضمان ورک در شریعت غرامعتبرست اگربوقوع آید ایں چند کلمہ برسبیل سندشرعی نوشتہ دارند کہ عند الحاجت موجب اعتماد گردد۔
عرض طول اراضی ؎۱۵ بیگہہ
شرقی آں متصل زمین آئمہ حافظ موسےٰ |
غربی آں متصل زمین آئمہ حافظ یوسف |
جنوبی آں متصل زمین چاہ روپا ہراؤ |
شمالی آں متصل زمین آئمہ محمد سعید |
تحریر فی التاریخ ۹ شہرشوال ۳ جلوس والا۴؎
گواہ شد۔احمد بیگ جالپ گواہ شد۔محمد خوجہ گواہ شد۔ہزاری وخانو
گواہ شد۔رکھاسوار گواہ شد۔عبداللہ وہامر گواہ شد۔محمد
گواہ شد۔سیناچندہڑ گواہ شد۔فقراللہ دھوتھڑ گواہ شد۔میرک دھوتھڑ
گواہ شد۔اودادھوتھڑ گواہ شد۔بڈھا دھوتھڑ
گواہ شد۔گوپال رائے دجسونت رائے قانونگوئے گواہ شد۔کپورچندوچوہڑمل قانونگوئے۔" بلفظہٖ
۱؎یہ رسالہ ۱۳۴۲ھ کی تصنیف ہے۱۲۔۲؎یہ مُہر کرم خوردہ تھی پڑھی نہیں گئی۱۲۔۳؎ یہ عبارت کرم خوردہ تھی۱۲ سید شرافت
۴؎اس سے مرادشاہ عالم بہادرشاہ اورنگ زیب کا جلوس ہے۱۲۔سیّد شرافت
نکاح
آپ کی شادی حضرت حسین خاتون دخترحضرت شیخ عبدالرحمٰن پاک صاحب رحمتہ اللہ علیہ سے تھی۔اُن کے بطن سے اولادہوئی۔چونکہ آج تک میاں ابراہیم کی اولاد دوحِصّوں میں وارث ہے۔اس لیے خیال ہے کہ بی بی صاحبہ کی وفات کے بعد حضرت پاک صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی چوتھی بیٹی بھی ان کے نکاح میں آئی ہوگی۔اسی لیےدرگاہِ رحمانیہ میں یہ دوحِصّوں کے حقدار ہیں۔
اولاد
آپ کے تین بیٹے تھے۔
۱۔حکیم عبدالمجید المعروف حکیم صاحب۔
۲۔میاں محمد زمان دُولا رحمتہ اللہ علیہ ۔
۳۔میاں جیواشاہ رحمتہ اللہ علیہ۔
آپ کی اولاد کوخاندان رحیمی کے نام سے موسوم کیاجاتاہے۔آپ نے بیٹوں کو دعادی۔حکیم صاحب کو فرمایا۔زمینداری تیری اور تیری اولاد کی ہے۔میاں محمد زمان کو فرمایافقیری تیری اور تیری اولاد کی ہے۔میاں جیواشاہ کوفرمایاتعویذدھاگہ اوردم درود تیرااور تیری اولاد کا ہے۔چنانچہ آپ کے یہ تینوں ارشاد تاحال بدستورصحیح و ثابت ہیں۔
تاریخ وفات
میاں ابراہیم کی وفات ۱۱۲۵ھ میں ہوئی۔قبربھڑی شریف گورستانِ رحمانیہ میں ہے۔
مادۂ تاریخ ہے "شکرِ خدا"۔
(سریف التواریخ جلد نمبر ۲)