آپ ذات کے نجار تھے اور پیشہ نجاری کیا کرتے تھے۔ پہلے آپ کو سحر سیکھنے کا بہت شوق تھا۔ حضرت صاحب کی صحبت کی برکت سے وہ شوق جاتا رہا۔ آپ کا اصلی نام اللہ دیا تھا۔جب حضرت صاحب سے بیعت ہوئے۔ تو حضور نے تبدیل کر کے الٰہی بخش رکھا۔ آپ ان پڑھ تھے۔ مگر متقی و صالح تھے۔ ذکر و شغل میں بہت مشغول رہتے تھے۔ حتیٰ کہ درود شریف ہر روز چوبیس ہزار بار پڑھتے۔ خلیفہ عبد اللہ شاہ نے جو میاں صاحب قبلہ کے پیر بھائی تھے آپ کے لیے خلافت کی سفارش کی۔ میاں صاحب نے فرمایا کہ اگرچہ یہ ذاکر شاغل اور مرتاض ہے۔ مگر فیض و نسبت ابھی خلافت کے لائق نہیں۔ تیرے کہنے سے خلافت دیتا ہوں۔ اجازت کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو نسبت و فیضان میں ترقی دی۔ بوجہ فنافی الشیخ آپ کی ظاہری صوررت حضرت صاحب سے بہت مشابہ ہوگئی تھی۔
آپ اکثر سیاحت میں رہا کرتے۔ اور مزارات سے استفاضہ کیا کرتے تھے۔ اس طرح گجرات پنجاب میں پہنچ کر حضرت شاہ دولہ رحمۃ اللہ علیہ کے مزار سے خوب فیض حاصل کیا۔اور صاحب تصرف ہوگئے۔ گجرات میں آپ سے بہت فیض ہوا۔ اور بہت لوگ آپ سے بیعت ہوئے۔ پھر وہاں سے حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور حضور سے اجازت حاصل کر کےحج کو گئے۔ اور حرمین شریفین کی زیارت کے بعد میاں صاحب قبلہ کی خدمت میں واپس تشریف لائے۔
وصال مُبارک:
شاہ صاحب قبلہ کے وصال کے تھوڑے دنوں بعد آپ نے ایک دفعہ فصد لگوائی اور حجام سے کہا کہ اگر خون نکلنے سے آرام ہوتا ہے۔ تو خوب گہرا نشتر لگاؤ۔ حجام نے ایسا ہی کیا۔ اآپ کے بازو پر ورم ہوگیا اور اسی میں وصال فرمایا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
حسب بیان صاحب ذکر خیر آپ کا ایک عجیب و غریب قصہ ہے۔ کہ جس روز ان کا وصال ہوا ہے۔ ایک صاحب کو ان کے مدفون ہونے کے بعد یہ حالت نظر آئی۔ کہ جب اُن کے پاس منکر نکیر آئے ہیں۔ تو ان کو دیکھ کر بہت ہی بیتاب ہوگئے بلکہ بیہوش ہوکر گر گئے۔ اتنے میں حضرت شاہ صاحب کی روحانیت تشریف لائی۔ تو آپ کو ہوش آگیا۔ اُٹھ کر بیٹھ گئے اور زبان سے کچھ نہیں کہا۔ حضرت شاہ صاحب علیہ الرحمۃ کی طرف اشارہ کر کے فقط اتنا کہا کہ میں آپ کا مرید ہوں۔ اور حضور شاہ صاحب علیہ الرحمۃ نے فرمایا کہ ہاں میرا مرید ہے۔ اتنا کلام سن کر منکر نکیر واپس چلے گئے اور خلیفہ پر آثار مغفرت کے ظاہر ہوگئے۔ اور درود خوانی میں مشغول ہوگئے۔
(مشائخ نقشبند)