امام عبد اللہ مبارک
امام عبد اللہ مبارک (تذکرہ / سوانح)
عبد بن مبارک بن واضح الخظی المروزی: شہر مرد میں ۱۱۸ھ میں پیداہوئے۔ کنیت ابو عبد الرحمٰن رکھتے تھے۔ جاپ آپ کا بڑا پر ہیز گار و متقی تھا اور ہمدان کے ایک سو دا گر کا جو قبیلہ بنی حنظلہ میں سے تھا،غلام تھا اس لئے آپ حنظلی کہتے ہیں اور والدہ آپ کی خوا زمی تھی ۔ آپ ابتداء یں شراب خوری اور ا کے لوزمات لہو لعب میں بڑے مصروف رہتے تھے ۔آپ کی توبہ کا یہ سبب ہوا کہ آ پ نے موسم بہار میں ایک دن مع اپنے یاروں و دوستوں کےایک باغ میں بڑا جلسہ کیا جس میں دن بھر آپ سروع غناء میں مشغول رہے اور رات کو شراب کےنشہ میں مخمور ہو کر بیہوش ہو گئے۔صبح کو آپ نے خواب میں کیا دیکھا کہ ایک جانور آپ کے سر پر درخت پر بیٹھا ہوا ت آیت الم یان للذین امنو اان تخشع قولبھم لذکر اللہ وما نزل من الحق پڑھ رہاہے جس کو آپ سن کر چونک پڑے او اسی وقت اسباب سرودو غنا کو توڑ کر اور شیشہ ہائے مے کو پھوڑ کر اور پار چات نفیس کو پھاڑ کر عبادت الٰہی میں مشغول ہو گئے ۔ بعض مؤ رخوں نے آپ کی توبہ کے اور کئی ایک سبب بیان کئے ہیں۔ سو بہر حال آپ کو یہاں تک درجہ حاصل ہوا کہ ایک روز آپ کی والدۂ ماجدہ باغ میں آپ کے دیکھنے کےلئے گئیں۔ کیا دیکھتی ہیں کہ آپ سوئے ہوئے ہیں اور ایک سانپ نرگس کی شاخ میں پکڑے آپ سے مکھیاں دور کر رہا ہے۔ پھر آپ مرو سے بغداد میں آکر امام ابو حنیفہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مدت تک ان سے ظاہری و باطنی فیض حاصل کیا اور بعد وفات امام موصوف کے مدینہ میں آکر امام مالک سے استفادہ کیا اور سو ا ان کے اور بھی بہت سے مشائخ مثل سفیان ثوری و سفیان بن عینیہ و ہشام بن عروہ و عاصم احول سلیمان تیمی و حمید طویل و خالد خداء و اسمٰعیل بن خالد وغیرہ تابعین و تبع تابعین سے علم حدیث کو اخذ کیا۔آپ کا قول ہے کہ میں نے چار ہزار مشائخ سے علم حاصل کیا ہے مگر روایت صرف ایک ہزار سے کرتا ہوں اور سائر طبقات عمدہ محدثین مثل عبد الرحمٰن اسدی ویحٰی بن معین وابو بکر وعثمان پسران ابی شیبہ وو امام احمد حسن بن عرفہ آپ کے شاگردون میں سے ہیں ،طرفہ یہ کہ سفیان ثوری نے جو آپ کے شیوخ اجلّہ میں سے ہیں،آپ سے اخذ کیا ہے۔
سفیان ثوری با وجود دیکہ حیرت وہ وہل کمال ہیں، فرماتے ہیں کہ میں نے بہت سعی کی کہ سال بھر میں تین رات دن ابن مبارک کی وضو پر بسر کروں مگر نہ ہو سکا ،کبھی یہ کہتے تھے کہ کا شکے میری تمام عمر تین را ت دن ابن مبارک کے برابر ہوتی ۔ابو اسامہ کہتے ہیں میں نےابن مبارک سے زیادہ کوئی آدمی طالب علم نہیں دیکھا۔ابن مہدی کا مقولہ ہے کہ امام چار ہیں ثوری ،حماد بن زید ، ابن مبارک ، مالک شعبہ نے کہا ہےکہ آپ جیسا کوئی ہمارے پاس نہیں آیا۔ابن عینیہ کہتے ہیں کہ میں نے ہر چند اصحاب رسول خدا کے امر میں غور سے نظر کی ہے مگر ان مبارک پر ان کی فضیلت کی بجز صحبت رسول خدا اور غز کے اور کوئی وجہ نہیں دیکھی ۔ سلام بن ابی مطیع کا قول ہے کہ آپ جیسا کوئی ہمارے پاس نہیں آیا ۔قواریری کہتے ہیں کہ ابن مہدی کسی کو ابن مبارک اور امام مالک پر حدیث پر مقدم نہیں سمجھتے تھے ۔ عباس بن مصعب کا مقولہ ہ۹ے کہ ابن مباارک نے حدیث ،فقہ عربی ،شجاعت ، تجارت ،سخاوت ،محبت کو جمع کیا ۔ ابنالجنید ابن معین سے روایت کرتے ہیں کہ ابن مبارک بڑے زیر ک ،ثقہ،عالم احادیث صحیحہ تھے،اسمٰعیل بن عیاش کہتے ہیں کہ روئے زمین پر کوئی شخص مثل ابن مبارک نہیں اور میں ایسی کوئی خصلت حسنہ نہی جانت جو خد نے آپ میں پید انہ کی ہو ۔ جواہر مصنیہ میں لکھا ہے کہ ایک دن ابن مبارک کے اصحاب مثل فضل بن موسیٰ و محمد بن حسن و محمد نضر جمع ہوئے اور انہوں نے کہا کہ آؤ ہم ابن مبارک کے فضائل شمار کریں ۔پس انہوں نے کہا کہ آپ میں حسب ذیل چیزیں موجود تھیں،علم،فقہ ، ادب ، نحو ، لغت ، شعر ، زہدفصاحت،ورع ، قیام لیل، عبادت حم ،جہاد ، سدافی الروایت ، ترک مالایعنی،حسن صحبت بہ اصحاب خود اوع عدم مخالفت ان کی۔؎
حاکم نے کہا ہے کہ آپ دنیا میں امام زمانہ تھے۔ ابن جریح کہتے ہیں کہ ہم نے کوئی عراقی آپ سے فصیح تر نہیں دیکھا ۔ ابن حبان نے کہا ہے کہ ابن مبارک میں اسی خصلتیں موجود ہیں کہ آپ کے زمانے میں تمام روئے زمین پر کسی اہل میں جمع نہیں کی گئیں ۔یحیٰ اندلسی کہتے ہیں کہ ہم امام مالک کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ابن مبارک وہاں آئے جن کو امام نے دیکھتے ہی یکسوہر کران کواپنی مجلس میں اپنے پاس بٹھایا حالانکہ میں نے اپنی تمام عمر میں ایک مالک کو بجز ابن مبارک کے اور کسی کےلئے مجلس میں یکسو ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔حسن بن شفیق ملبخی کہتے ہیں کہ میں ایک دن نماز عشاء کی پرھ کر ابن مبارک کے ساتھ گھر میں آنے لگا ۔ جب دروازۂ مسجد پر پہنچے تو میں نے ان سے ایک حدیث کا تذکرہ کیا ، آپ نے اس کا جواب دینا شروع کیا یہاں تک کہ ہم اسی جگہ کھڑے رہے کہ صبح ہو گئی اور موذن نے فجر کی بانگ نماز کہہ دی۔پر ہیز گاری آپ کی اس درجہ کی تھی کہ ایک دفعہ آپ بغداد سے مرد کو جو آپ کا وطن مالوف تھا ، محض واسطے پہنچانےاس قلم کے تشریف لے گئے جو وہان سے کسی سے واسطے لکھنے کے عاریۃً لیا تھا اور آتی اور آتی دفعہ بھول سے اپنے ہمراہ لے آئے تھے۔ آپ کا مقولہ ہے کہ جس درم کی حلّت میں کچھ شہبہ ہو میرے نزدیک اس کا پھیر دینا اس سے بہتر ہے کہ ایک لاکھ درم خدا کی راہ میں صدقہ دوں ۔
ایک دن کا ذکر ہےکہ آپ نے کسی دکاندار سے انگو ر خرید نا چاہا اور ایک دانہ اس انگوروں میں سے نمونہ کے طور پر چکھنے کے لئے اٹھالیا۔ جب آ پ انگور خرید کر گھر میں آئے تو آپ کے دل میں گذرا کہ میں نے بغیر اجازت فروشندہ انگور کا دانہ اٹھاکر کھالیا تھا ۔ اس پر آ پ نے واپس جاکر فروشند انگور سے اس دانہ کو بخشوانا چاہا،اس نے انکار کیا۔آپ نے فرمایا کہ دس درم لے کر بخش دے ، اس نے پھر انکار کیا،یہاں تک کہ نو سو درم وصول کرنے پر اس نے بخشا ۔ اس پر فروشندہ نے ہنس کر کہاکہ میں نے کیسے فریب سے اس قدر آپ سے روپیہ لیا ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ یہ کچھ بڑی بات نہ تھی،اگر پھر بی تو انکار کرتا تو میں پانچ ہزار روپیہ تک دینے کو راضی تھا ۔ کہتے ہیں اس گھوڑے کود ہیں چھوڑ دیا اور آئندہ اس پر کبھی سوار نہ ہوئے۔
آپ کی عادت تھی کہ جب حج کو جاتے تو بہت لوگ آپ کے ہمراہ حج کا ارادہ کرتے اور ہر ایک حسب حیثیت خود نقدس جنس آپ کے پاس جمع کر دیتا کہ بہ شرکت خرچ کریں گے ۔آپ ایک فہرست میں ہر ایک کا نام مع مقدار قسم مال لکھ لیتے ۔جب حج سے واپس آتے تو تمام مال ان کو واپس کردیتے ۔جب لوگ ا نکتہ کا سبب پوچھتے تو آپ فرماتے کہ اگر پہلے ہی ان کا مال پھیر دیا جاتا تویہ لوگ حج کا ارادہ چھوڑ کر اس سعادت سے محروم رہتے اور میں بھی ان کو ہمراہ لے جانے کے ثواب سے محروم رہتا کیونکہ یہ لوگ بہ گمان اس بات کے کہ ہم اپنا مال خرچ کرتے ہیں اور کسی کے دل کا بوجھ نہیں ہیں ،میرے ہمراہ جاتے ہیں ۔ابتداء میں آپ کے والد ماجد نے آپ کو پچاس ہزار روم واسطے تجارت کے دئے تھے جس کو آپ نے تحصیل علم حدیث میں صرف کردیا۔جب اپنے وطن میں واپس آئے تو با پ نے آپ سے پوچھا کہ آپ اس روپیہ سے کیا جنس لائےہیں ؟اور کیا نفع حاصل کیا ہے؟ آپ نے اس دفتر علم کو جو جمع کیا تھا، باپ کے آگے رکھ دیا اور کہا کہ یہ جنس لایا ہوں او ر دو جہان کا نفع اٹھایا ہے۔ باپ آپ کا بڑا خوش ہو ااور گھر میں لیجا کر چھ ہزار روپیہ اور آپ کو دیا کہ اس کو خرچ کر کے اپنی تجارت کو پورا کرو۔
ابو وہب کہتے ہیں کہ میرے دیکھنے کی بات ہے کہ ایک دفعہ آپ ایک اندھے کے پاس گذرے ، اس نے آپ سے سوال لیا کہ میرے لئے دعا کرو ۔ آپ نے اس کے حق میں دعاکی ، پس خدا نے اسی وقت ان کی آنکھیں روشن کردیں۔حسن بن عیسٰی کہتے ہیں کہ آپ مجاب الدعوات تھے۔آپ نے بہت سی کتابیں تصنیف کیں اور ماہ رمضان ۱۸۱ھ میں جہاد سے واپس آتے ہوئے مقام سوس میں بیمار ہو کر وفات پائی ۔ قبر آپ کی موضع ہیت واقعہ فرات میں زیارت گاہ عام ہے۔’’حبیب زمانیاں ‘‘ آپ کی تاریخ وفات ہے۔
کہتے ہیں کہ جب آپ کی وفات کا وقت قریب پہنچا تو آپ نے اپنے غلام نصر نام سے جو معتبرین رداۃ حدیث میں سے ہے :فرمایا کہ مجھ کو فراموش سے اتار کر خاک پر رکھ دو۔غلام رونے لگا ۔آپ نے فرمایا کیوں روتا ہے؟اسکہا کہ مجھ کو آپ کی ثروت و نعمت یاد آئی ہے اور یہ حالت غربت وہسکنت دیکھ کر بے تاب ہو اہوں۔آپ نے فرمایا کہ کچھ غم نہ کرد ، میں ہمیشہ خداسے یہی چاہتا تھا کہ میری زیست دولت مندوں کی طرح اور وفات عاجزون کے مانند ہو سوالحمدللہ ایسا ہی ہوا۔ مروزی شہر مرد کی طرف منسوب ہے جو خراسان میں واقع ہے اور جس کو مرد شاہجہان بھی کہتے ہیں ،یائے نسبت کے اول زائے معجمہ کو اس لئے زائد کیا گیا ہےکہ اس مرد اور اس شہر مروی میں فرق ہوجائے جو عرا میں کوفہ کے پاس واقع ہے جہاں ایک مشہور کپرا ہوتا ہے ۔
(حدائق الحنفیہ)