محمد بن عبد اللہ بن محمد بن عمر بلخی ہندوانی بلخ میں اپنے زمانہ کےشیخ جلیل القدر،امام کبیر،فقیہ بے نظیر محدث عدیم التمثیل صاحب ذکار وزہد ورع اور موضح مشکلات و معضلات تھے،ابو جعفر کنیت تھی اور بہ سبب کثرت فقاہت کے ابو حنیفہ صغیر کے لقب سے ملقب تھے،فقہ آپ نے ابی بکر عمش شاگرد ابی بکر اسکاف تلمیذ محمد بن سلمہ صاحب ابی سلیمان سے حاصل کی اور نیز علی بن احمد فارسی تلمیذ امام نصیر بن یحییٰ سے اخذ کیا اور آپ سے نصربن محمدابواللیث فقیہ اور جماعت کثیرہ نے تفقہ کیا۔مدت تک بلخ دماوراء النہر میں تحدیث کرتے اور بڑے بڑے مشکل مسائل کے فتوےٰ دیتے رہے۔آپ کا قاعدہ تھا کہ جب فجر کی نماز پڑھتے تو پہلے گھر میں داخل ہوتے اور تھوڑی دیر ٹھہر کر اپنے اصحاب کے پاس تشریف لے جاتے۔جب آپ کی والدہ ماجدہ نے وفات پائی تب آپ نے گھر میں جانا چھوڑدیا،لوگوں نے اس کا سبب پوچھا،آپ نے فرمایا میں گھر میں جاکر اپنی والدہ کے قدم چوما کرتا تھا کیونکہ حضرت نے فرمایا ہے کہ ان الجنۃ تحت اقدام الامھات چونکہ وہ فوت ہو گئی ہیں اس لئے حسب معمول میرا گھر میں جانا فضول ہے۔
روایت ہے کہ جب آپ اپنی والدہ کو کہتے کہ مجھ کو اپنا پاؤں دکھلاؤ کہ میں اس کو چوموں تو وہ کہتی تھیں کہ اے میرے بیتے اگر تم میری خوشی کےلیے ایسا کام کرتے ہو تو میں بغیر چو پانے پاؤں کے خوش ہوں،آپ فرماتے کہ میںیہ کام امتثا لاً للہ مر سبحٰنہ وتعالیٰ کرتا ہوں جیسا اس نے فرمایا ہے ووضینا الانسان بوالدیہ حسناً الآیۃ۔وفات آپ کی ۳۲۶ھ میں ہوئی اور نعش آپ کی بلخ میں لیجا کر دفن کی گئی۔ ’’سراج زمان‘‘ آپ کی تاریخ وفات ہے۔
(حدائق الحنفیہ)