امام محمد
امام محمد (تذکرہ / سوانح)
امام بن حسن بن فرقد الشیبانی : امام ابو حنیفہ کے شاگردوں میں سے آپ فقہ و حدیث و لغت کے امام اور فصیح بلیغ و ادیب بے نظیر تھے ، باپ آپ کا قبیلۂ شیبان سے شہر حرستا کا رہنے والا تھا جو د مشق میں وسط غوطہ کے اندر واقع ہے اور عراق میں آکر واسطہ میں اقامت گزیں ہوا تھا جہاں آپ ۱۳۲ھ یا ۱۳۵ھ میں پیدا ہوئے اور کوفہ میں نشو و نماپایا اور امام ابو حنیفہ وامام ابو یوسف و مسعر بن کدام و سفیان ثوری و امام مالک و مالک بن دینار و امام اوزاعی وربیعہ اور مالک بن مغول وغیرہ سے سنا اور آپسے امام شافعی او ابو عبید القاسم بن سلام وبو حفص کبیر احمد بن حفص وابو سلیمان جو رجانی و موسیٰ بن نصیر رازی و اسمٰعیل بن نولہ وعلی بن مسلم و محمد بن سماعہ ومعلی بن منصور و ابراہیم بن رستم و ہشام بن عبید اللہ وعیسٰی بن ابان و محمد بن مقاتل اور شداد بن حکیم وغیرہ نے روایت کی اور تفقہ کیا۔
ابو عبید کہتے ہیں کہ میں نے آپ کے سوا کوئی اعلم کتاب اللہ کا نہیں دیکھا ۔آپ عربیت ونحو حساب میں بڑے ماہر تھے۔ قاسم بن سلام محدث متوفی ۲۲۳ھ نے غریب الحدیث میں آپ سے استناد کیا تاریخ خلکان میں لکھا ہے کہ امام شافعی کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد سے ایک بوجھ اونٹ کا علم اخذ کیا ہے اور میں نے ان سے زیادہ کوئی عقیل نہیں دیکھا اور میں نے آپ کے سوا کوفی فربہ اندام ذ کی نہیں دیکھا۔ امام شافعی نے آ پکی کتابوں کو منگا کران کی نقل کی۔ امام احمد سے جب پوچھ اگیا کہ آپ کو یہ مسائل وقیفہ کہاں سے حاصل ہوئے تو انہوں نے فرمایا کہ امام احمد کی کتابوں سے حاصل ہوئے ہیں ۔ امام شافعی سے ابن عبد الحکیم نے روایت کی ہے کہ امام محمد نے کہا ہے کہ میں نے تین برس تک امام مالک کےدروازے پر اقامت کر کے کچھ او پر سات سواحادیث ان سماعت کی ہیں ۔
امام شافعی فرماتے ہیں کہ اگر یہودو نصاریٰ امام محمد کی تصانیف دیکھ لیں تو بے اختیار ایمان لے آئیں ۔عیسٰی بن ابان سے جب پوچھا گیا کہ امام ابو یوسف افقہ ہیں یا امام محمد ؟ تو انہوں نے کہا کہ ان دونوں کی کتابوں پر اع تبار کرنا چاہئے یعنی امام محمد ہیں اور یہ بھی فرمایا کہ جو شخص فقہ کا ارادہ کرے اس کو امام ابو حنیفہ کے اصحاب کی صحبت کرنی چاہئے کیونکہ معانی قرآن و حدیث کے انہیں کو میسر ہوئے ہیں اور خدا کی قسم میں امام محمد کی ہی کتابوں سے فقیہ ہوا ہوں ۔ کہتے ہیں کہ بعد وفات آپ کے کسی نے آپ کو خواب میں دیکھ کر پوچھا کہ آپ کا نزع کے وقت کیسا حال ہوا؟آپ نے فرمایا کہ میں اس وقت مکاتب کے مسائل میں سے ایک مسئلہ میں تامل کر رہا تھا۔مجھ کو روح کے نکلنے کی کچھ خبر نہیں ۔
روایت ہے کہ ایک مرتبہ امام شافعی نے آپ کے پاس رات بسر کی اور صبح تک نماز میں کھڑے رہےاور آپ بستر ے پر لیٹ گئے۔امام شافعی کو یہ بات نا گوار کزری ۔ جب فجر ہوئی تو آپ اٹھ بیٹھے اور بغیر تجدید وضو کے نماز پڑ ھ لی ۔ امام شافعی نے اس کا سبب دریافت کیا ۔ آپ نے فرمایا کہ تم نے اپنے نفس کے لئے عمل کر کےصبح کردی او ر میں نے امت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے عمل کر کے کچھ اور پر ہزار مسئلہ کتاب اللہ سے نکالا ۔ محمد بن سماعہ سے روایت ہے کہ آپ نے اپنے گھر کے لوگوں کو کہہ دیا تھا کہ مجھ سے کوئی اسی دنیاوی حاجت طلب نہ کرین جس سے میرا دل اس طرف لگ جائے اور جس چیز کی حاجت ہو میرے وکیل سے مانگ لیا کریں کہتے ہیں کہ آپ اس قدر علم میں مشغول تھے کہ مجھ سے کوئی ایسی دنیاوی حاجت طلب نہ کریں جس سے میرا دل اس طرف لگ جائے اور جس چیز کی حاجت ہو میرے وکیل سے مانگ لیا کریں کہتے ہیں کہ آپ اس قدر علم مشغول تھے پا چات آپ کے میلے ہو جاتے اور آپ کو ان کے اترنے کی فرصت نہ ہوتی تھی اس لیے آپ کے گھر کےلوگ،اور کپڑے آ پ پر ڈال دیتے تھے اور میلے اتروا کر دھونے کو دے دیا کرتے تھے۔ آپؔ کے گھر میں ایک مرغ تھا جو وقت بے وقت بانگ دے دیر کرتاتھا ، آپ نے اس کو ذبح کرادیا کہ یہ مجھ کو ناحق علم کے شغل میں خارج ہے۔
اسمٰعیل بن ابی رجا کہتے ہیں کہ میں نے بعد وفات آپ کے آپ کے کو خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ خدا نے آپ کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ آپ نے فرمایا کہ مجھ کو خدا نے بخش دیا اور فرمایا کہ اگر تجھ کو عذاب دینا ہوتا تو تجھ کو یہ علم نہ دیتا۔پھر میں نے پوچھا کہ امام ابو یوسف کہاں ہیں ؟فرمایا کہ وہ مجھ سے دور درجہ اوپر ہیں۔ پھر میں نے امام ابو حنیفہ کا حال پوچھا ، فرمایا کہ وہ بہت دور اعلیٰ علیین میں ہیں ۔کہتے ہیں کہ آپ نے امام شافعی کی والدہ سے ، جو بیواہ تھیں ،نکاح کیا اور جب آپ سوار ہوکر کہیں جایا کرتے تو امام شافعی اکثر پا پیادہ آپ کے ہمراہ ہوتے تھے۔ ابن خلکان نے لکھا ہے کہ آپ برے افصح الناس تھے۔جب کلام کرتے تھے تو سننے والا یہی خیال کرتا تھا کہ قرآن شریف آپ کی بولی میں نازل ہوا ہے اور جب امام شافعی بغداد میں تشریف لائے تو آپ کے اور امام شافعی کے درمیان کئی ایک مجالس ہارون رشید کے سامنے واقع ہوئیں اور امام شافعی نے فرمایاکہ آپ بڑےافصح الناس تھے۔ جب کلا م کرتے تھے تو سننے والا یہی خیال کرتا تھا کہ قرآن شریف آپ ک بولی میں نازل ہوا ہے اور جب امام شافعی بغداد میں تشریف لائے تو آپ کے اور امام شافعی کے درمیان کئی ایک مجالس ہاروں رشید کے سامنے واقع ہوئیں اور امام شافعی نے فرمایا کہ میں نے بجز امام محمد کے اور کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا کہ جب اس سے کوئی مشکل مسئلہ پوچھا گیا ہو تو اس کے چہرہ میں کراہیت ظاہر نہ ہوئی ہو انتہیٰ۔
شامی میں لکھا ہے کہ امام محمد ، فراءنحوی و لغوی کی خالہ کے بیٹے ہیں اور لغت میں بھی مثل ابی عبید اور اصمعی اور خلیل وکسائی وغیرہ کے امام ہیں اور آپ کی تقلید لغت میں واجب ہے چنانچہ ابو عبید نے با وجود جلالت قدر کے آپ کی تقلید کی اور ثعلب کہتے تھے کہ ہمارے نزدیک امام محمد سیبویہ کے اَ قران میں سے ہیں اور آپ کو قول لغت میں حجت ہے۔ آپ کہتے تھے کہ ہمارا باپ تیس ہزار رد رم چھوڑ کر فوت ہوا تھا ، جن میں سے پنرہ ہزار درم تو ہم نے نحو وشعر اور باقی فقہ حدیث کے حصول میں خرچ کیے۔ یہ بھی آپ کو قول تھا کہ جب میں پہلی دفعہ امام ابو حنیفہ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا تو امام نے مجھ سے پوچھا تھا کہ قرآن تجھ کو یا د ہے یا نہیں ؟ میں نے کہا کہ نہیں ۔ امام نے کہا کہ اول قرآن جاکر یاد کر پھر فقہ میں مشغول ہونا! اس پر میں پھر گیا اور سات روز میں قرآن شریف حفظ کر کے پھر حاضر ہوا ۔آپ نے فرمایا کہ کیا ہن نے تم کو نہیں کہا کہ قرآن شریف یاد کر کے ہمارے پاس آؤ؟ میں نے کہ اکہ قرآن حفظ کر آیا ہوں ۔ خطیب بغدادی نے اسمٰعیل بن حماد بن ابو حنیفہ سے روایت کی ہے کہ امام محمد اس وقت سے کوفہ کی مسجد میں فارغ التحصیل ہو کر بیٹھے کہ جب آپ کی بیش سال کی ہے عمر تھی۔ روایت ہے کہ جب آپ زانوئے اجتہاد سے سر اٹھاتے تو اکثر یہ مقولہ فرمایا کرتے ’’لذات الاذکار خیر من لذت الابکار ‘‘
کہتےہیں کہ ایک احبار نصاریٰ نے بہت سے علماء اسلام سے ملاقات کی تھی اور مسلمان نہ ہوا تھا ۔ جب امام محمدنے جامع کبیر کو تصنیف کیا تو وہ اس کو مطالعہ کر کے فوراً مسلمان ہو گیا اور کہا کہ اگر یہ پیغمبری کا دعویٰ کرتے اور معجزہ اپنا اس کتا ب کو پیش کرتے تو کوئی آپ کا مقابلہ نہ کر سکتا اور سب پر ایمان لا نا لازم ہوتا ۔ پس کجاوہ شخص جس کی امت میں سے یہ ایک شخص ہیں ۔جس قدر آپ نے امام ابو حنیفہ کے علم کو اپنی تصنیفات کے ذریعہ سے پھیلا یا ایسا کسی سے ظہو ر میں نہیں آیا چنانچہ آپ نے نو سوننا نوے تصنیفات دینی علوم میں کیں اور دس لاکھ ستر ہزار تیس اور ایک روایت میں دس لاکھ ستر ہزار ایک سو مسئلہ نکا لالیکن آپ کی تصنیفات میں سے اشہر یہ کتابیں ہیں: مبسوط ، زیادات جامع صغیر،جامع کبیر، نوادر، نوازل، رقیات، ہارونیات، کیسا نیات،جر جانیات،کتاب الآ ثار، مؤطا، طبقاتؔ تمیمی میں امام سر خسی کی شرح سیر الکبیر امام محمد کی آخر تصنیفات فقہ میں سے ہے جس کی تصنیف کا یہ سبب ہوا تا کہ آپ کی سیر صغیر ایک مرتبہ امام اوزاعی اہل شام کے ہاتھ میں آگئی جنہوں نے اس کو دیکھ کر فرمایا کہ عراق والوں کو ، با وجود یکہ اس باب میں یہ ایک تصنیف ان کے پاس موجود ہے ،کیا ہوا؟کیا ان کو سیر صغیر کا علم نہیں ہے ؟جب اس بات کی خبر امام محمد کو پہنچی تو آپ نے سیر کبیر کو تصنیف کیا ،پس جب اس کو امام اوازعی نے دیکھا تو فرمایا کہ اگر اس کتاب کو احادیث سے شامل نہ کیا جاتا تو البتہ میں کہتا کہ تحقیق انہوں نے اس میں علم رکھا ہے اور تحقیق اللہ تعالیٰ نے ان کی فکر میں جہت اصابت جواب کی معین کی ہے اور سچ کہا خدا نے کہ اوپر ذی علم کے علیم ہے ۔ اس کے بعد امام محمد نے اس کتاب کو ساٹھ دفاتر میں لکھو اکر خلیفہ ہارون رشید کے پاس بھیجدیا جس نے اس کو دیکھ کر نہایت پسند کیا اور اس کو آپ کے تفاخر ایام میں سے شمار کیا ۔میراتفانی نے شرح ہدایہ میں لکھا ہے کہ آ پ کی کتاب مبسوط کو علماء نے اصل ٹھہر ایا ہے کیونکہ آپ نے پہلے اسی کو تصنیف کیا ہے پھر جامع کبیر وزیادات کو تصنیف فرمایا۔
ہارون رشید نے پہلے آپ کو مقام رقہ کا قاضی مقرر کیا تھا جہاں آپ نے کتاب رقیات تصنیف کی پھر معزول ہو کر بغداد میں تشریف لائے ۔ جب ہارون رشید رَے میں آیا تو آپ کو بھی اپنے ساتھ لایا جہاں آپ نے ۱۸۹ھ میں وفات پائی ، اتفاق سے اسی روز امام ابو الحسن علی معروف کسائی نحوی نے بھی وفات پائی ،اس لئے ہارون رشید کہا کرتا تھا کہ میں نے فقہ ونحو کر رَے میں دفن کیا۔’’امام زین ‘‘ آپ کی تاریخ وفات ہے۔
(حدائق الحنفیہ)