امام ز فربن ہذیل بن قیس بن سلیم الغبری البصری
امام ز فربن ہذیل بن قیس بن سلیم الغبری البصری (تذکرہ / سوانح)
آپ کا والد ماجد اصفہان کا رہنے ولا تھا ،آپ ۱۱۰ھ میں۱ند پیدا ہوئے،امام ابو حنیفہ کے ان دس اصحاب میں سے تھے جنہوں نے امام کو کتب فقہ کی تدوین میں مدددی ۔ امام ابو حنیفہ آپ کی بڑی عزت کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ ہمارے اصحاب میں سے یہ اقیس ہیں ۔حسن بن زیادہ کہتے ہیں کہ آپ امام کی مجلس میں سے سے مقدم بیٹھا کرتے تھے۔ سلیمان عطار سے روایت ہے کہ آپ نے اپنے نکاح کی تقریب پر امام ابو حنفیہ کو بلایا اور امام کو خطبہ پڑھنے کے لئے کہا ، امام نے خطبہ میں فرمایا: ہٰذی از فرامان ائمۃ المسلمین وعلم من اعلا مہم فی شرفہ وحسبہ نسبہ حماد بن امام ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کے اصحاب میں بعد امام ابو یوسف کے ان جیسا اور کوئی فقیہ نہ تھا ۔ داؤد طائی سے روایت ہے کہ ابو یوسف اور زفر اکثر فقہ میں مناظرہ کیا کرتے تھے مگر ز فر جید اللسان تھے اس لئے ابو یوسف بسا اوقات مناظرہ میں مضطرب ہو جاتے تھے جس سے ز فران کو کہتے کہ آپ کہاں بھاگتے ہیں ،یہ دروازے کھلے ہیں جس کو چاہو اختیار کرلو۔ شداد کہتے ہیں کہ میں نے اسد بن عمر و سے پوچھا کہ ابو یوسف افقہ ہیں یا ز فر؟ انہوں نے جواب دیا کہ ز فر اور ع ہیں، میں نے کہ امیرا سوال فقابت سے ہے ، انہوں نے فرمایا کہ آدمی درع ہی سے بزرگ ہوتا ہے ۔ عبد اللہ بن مبارک سے روایت ہے کہ میں نے ز فر کو یہ کہتے سنا ہے حدیث کے ہوتے ہم قیاس پر ہرگز کار بند نہیں ہوتے اور جب حدیث مل جائے تو قیاس کو چھوڑ دیتے ہیں ۔ حسن بن زیادہ کو قول ہے کہ ز فراور داؤد آپس مین بھائی بنے ہوئے تھے ، پس داؤد نے تو فقہ کو چھوڑ کر عبادت اختیار کرلی اور فرمانے دونوں کو جمع کیا ۔ یحٰی بن اکثم کہتے ہیں کہ میں نے وکیع کو اخیر عمر میں دیکھا کہ وہ صبح کو ز فراور شام کو ابو یوسف کے پاس آتے تھے مگر پھر انہوں نے ابو یوسف کےپاس جانا چھوڑد یا اور دونوں وقت ز فر کے پاس آنا شروع کیا۔
محمد بن عبد اللہ انصاری سے روایت ہے کہ زفر کو قضا کے لئے کہا گیا تھا مگر انہوں نے اس کے قبول کرنے سے انکار کیا اور کہیں چھپ رہے جب آپ کا مکان گرادیا گیا تو اس وقت آپ نکلے اور اپنے مکان کو درست کرایاپھر آپ کو قضا کے لیے کہا گیا اور دوبارہ آپ کا مکان گرادیا گیا مگر پھر بھی آپ نے قضا کوہر گز قبول نہ کیا ۔ آپ امام ابو حنیفہ کے اصحاب حدیث میں سے تھے ۔ کہتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کی شاگردی سے پہلے ایک دفعہ آپ کو اور آ پ کے یاروں کو کوئی مسئلہ پیش آیا جس کے استکشاف کے لئے آپ امام ابو حنیفہ کے پاس گئے اور جواب با صواب پاکر امام موصوف سے پوچھا کہ تم نے یہ جواب کے متعلق چند سوال کئے جن کے جواب سے یہ بالکل نا بلد تھے اس لیے امام نے ان کی بھی توضیح کردی پس ز فرمانے اپنے اصحاب کے پاس آکر بطور امتحان کے وہ سوالات پوچھے وہ فرسے بھی زیادہ تر نا بلد تھے اس لیے زفرنے جو امام ابو حنیفہ سے سنا تھا بعینہ با دلیل ان کے سامنے پیش کیا بعد ازاں آپ نے امام ابو حنیفہ کی خدمت میں آکر ان کی صحبت اختیار کی،یہاں تک کہ اپنے زمانہ کے افقہ ہوئے ۔
ابو نعیم نے کہا ہے کہ زفر ثقہ مامون ہیں، بصرہ میں اپنے بھائی کا ورثہ لینے آئے مگر لوگوں نے آپ کو یہاں سے واپس جانے نہ دیا اس لیے ہی میں آپ ۱۵۸ھ میں فوت ہوئے ۔
ومیاطی نے تعالیق الانوار علی الدر لامختار میں لکھا ہے کہ آپ بصرہ کی دار القضاء کے متولی بھی رہے ہیں ۔ ابن خلکان میں لکھا ہے کہ معافا بن زکریا نے کتاب جبلیس الانیس میں عبد الرحمٰن بن معز سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے امام ابو حنیفہ سے پوچھا کہ میں نے رات کو شراب پی تھی مجھ کو احتما ل ہے کہ شاید میں نے نشہ میں اپنی عورت کو طلاق دے دی ہو،امام نے فرمایا کہ جب تک تجھ کو طلاق کا یقین نہ ہو تب تک عورت تیری ہی ہےاور مطلقہ نہیں ہوئی ، پھر اس نے سفیان ثوری سے جاکر پوچھا ، انہوں نے کہا کہ تو اپنی عورت سےرجوع سے کچھ مضائقہ نہیں ۔پھر اس نے شریک بن عبد اللہ سے جاکر پوچھا ،انہوں نے یہ کہاکہ تو پہلے اپنی عورت کو طلاق دے دے اور پھر اس سے رجوع کر لے ۔ ان تینون کے بعد یہ شخص زفر کے پاس آیا اور رسو سوال مذکور کیا آپ نے فرمایا کہ تونے میرے سوا کسی اور سے بھی یہ مسئلہ پوچھا ہے ؟اس نے کہاکہ امام ابو حنیفہ سے ، فرمایا کہ پھر انہوں نے کیا جواب دیا ؟ اس نے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ جب تک تجھ کو اپنی عورت کی طلاق کا یقین نہ ہو تب تک وہ عورت تیری ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ امام نے ٹھیک فرمایا ہے ، پھر کہا کہ کسی اور سے بھی پوچھا ہے ؟ اس نے کہاکہ سفیان ثوری سے ۔ آپ نے کہاکہ انہوں نے کیا جواب دیا ، کہا کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ عورت سے رجوع کرلے کیونکہ اگر طلاق دی ہوگی تو اس سے طلاق کی تلافی ہو جائے گی ،نہیں تو اس رجعت سے کچھ حرج نہیں ۔ آپ نے کہا کہ یہ جواب اچھا نہیں ، پھر پوچھا کہ کیا کسی اور سے بھی پوچھا ہے ؟اس نےکہا شریک سے ، فرمایا کہ انہوں نے کیا جواب دیا ؟کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ پہلے اپنی عورت کو طلاق دے اور پھر اس سے رجوع کرلے ۔ آپ یہ جواب سن کر بڑے ہنسے اور کہاکہ اس مسئلہ کی مثال اس طرح پر ہے کہ ایک شخص پانی کے بدر رو کے پاس سے گزر ا اور اس کے کپڑوں پر چھینٹیں پرانے کا احتما ہو ، پس امام ابو حنیفہ نے تو کہا کہ جب تک چھینٹیں پڑنے کا یقین نہ ہو ، کپڑے پاک ہیں اور سفیان نے کہا کہ ان کو دھوڈالنا چاہئے ، اگر پلید تھے تو دھونے سے پاک ہوجائیں گے ورنہ زیادہ تر پاک ہو جائیں گے اور شریک نے کہا کہ پہلے اس پر پیشاب کر پھر اس کو دھوڈال ! بعد اس مثال کے صاحب کتاب مذکور زفر کی تعریف کرتے ہیں کہ انہوں نے تینوں ائمہ کے فتوے میں کیسی عمدہ مثال دے کر تفصیل کی !’’اصحاب دانا‘‘ آپ کی تاریخ وفات ہے۔
۱ ابو ہذیل کنیت تھی دستور الاعلام ،(مرتب)
(حدائق الحنفیہ)