(سیّدہ )خنساء( رضی اللہ عنہا)
(سیّدہ )خنساء( رضی اللہ عنہا) (تذکرہ / سوانح)
خنساء دختر عمرو بن شرید بن رباح بن یقظہ بن عصبہ بن خفاف بن امروالقیس بن بہثہ بن سلیم سلمیہ شاعرہ:ابو عمر نےان کا نسب اسی طرح بیان کیا ہے،اور ہشام بن کلبی نے صخر،معاویہ اور خنساء تینوں کا ذکر کیاہے اور خنساء کا نسب یوں بیان کیا ہے،خنساء کا نام تماضراز نمو عمرو بن شرید بن رباح بن یقظہ بن عصیہ بن خفاف بن امرء القیس بن سلیم، ہشام لکھتا ہے ورید بن صمہ نے اسی خاتون کے متعلق کہاتھا" جیواتماضرواربعواصحبی "ایک خاتون رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے قبیلے کے ساتھ حاضر ہوئیں اور ایمان لائیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس خاتون سے شعر خوانی کی فرمائش کرتے اور تحسین فرماتے،منقول ہے،کہ آغاز کار میں خنساء دو تین اشعار سے زیادہ نہ کہتی تھیں لیکن جب ان کے سگے بھائی معاویہ کو ہاشم اور زیدالمر بان نے قتل کردیا،اور بعد میں ان کا سوتیلا بھائی صخر بھی،جس سے خنساء کو بہت محبت تھی،مارا گیا،یہ شخص کریم ،حلیم اور سارے خاندان کا چہیتا تھا،یہ!ابو ثور اسدی کے نیزے سے زخمی ہوا تھا،سال بھر بستر پر پڑارہا،اور آخر کار مرگیا،اس کی موت پر خنساء نے بڑے درد انگیز مرثیے لکھے۔
ا اے میرے دوستو! ٹھہرو اور تماخر کو سلام کہو جو سو سال سے زیادہ عمر کا تھا،تماخر پر فریفتہ ہوگیا،(مترجم)
(۱) اَغیَنَّی جُودُاوَلَاتَجَمَدَا اَلَاتَبلَیَانِ لِصخرِالنَدَی
(ترجمہ)اے میری آنکھو! خوب آنسو بہاؤ،اور رونا بند مت کرو،کیا تم صخر ایسے کریم النفس آدمی پر آنسو نہیں بہاؤ گی۔
(۲) اَلَاتَبلَیَانِ الجَرِیِّ الجَمِیلِ اَلَاتَبلَیَانِ الفَتَی السَّیَّدَا
(ترجمہ)کیا تم بہادر اور خوش شکل اور جوان سردار پر آنسو نہیں بہاؤگی۔
(۳) طَوِیلُ العِمَادِعَظِیمُ الرِّمَادِ سَادَعَشِیرَتَہٗ امَرَدَا
(ترجمہ)اس کے علم اونچے ہیں،اور اس کے دروازے پر خاکستر کے بڑے بڑے ڈھیر ہیں،جسے لڑکپن ہی میں قبیلے کی سیادت سونپ دی گئی تھی۔
(۱) اَ شَمُّ اَبلَجُ یَاتَمُ الھُداۃُ بِہٖ کَاَنَّہٗ عِلمٌ فِی رَاسِہٖ نَارٌ
(ترجمہ)اس کی ناک اُونچی اور پیشانی روشن ہے،اور سردارانِ قوم اسے اپنا امام تسلیم کرتے ہیں،گویا وہ ایسا علم ہے،جس کے سر میں آگ ہے۔
(۲) وَاَنَّ صَخَّرَانَمَولَاوَسَیَّدِنَا وَاَنَّ صَخَّراًاِذَانَشتُولَنَحَّار
(ترجمہ)بلا شُبہ صخر ہمارا مولیٰ اور ہمارا سردار تھا،اور بلا شبہ جب لوگ تکلیف میں ہوتے تو صخران کے اونٹ ذبح کرتا تھا۔
اہل علم کا اس پر اجماع ہے،کہ آج تک کسی خاتون نے نہ خنساء سے پہلے اور نہ ان کے بعد ایسے شعر کہے ہیں زبیر بن بکار نے محمد بن حسن مخزومی سے،انہوں نے عبدالرحمٰن بن عبداللہ سے،انہوں نے ابو وجرہ سے،انہوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ خنساء اپنے چاروں لڑکوں کے ساتھ معرکۂ قادسیہ میں موجود تھیں، انہوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ خنساء اپنے چاروں لڑکوں کے ساتھ معرکۂ قادسیہ میں موجود تھیں،انہوں نے ایک رات پہلے اپنے بیٹوں کو مخاطب کر کے کہا۔
"اے میرے بیٹو!تم نے اسلام قبول کیا،اور اپنی خوشی سے ہجرت کی،اور خدا واحد لاشریک ہے،تم سب ایک ہی مرد اور ایک ہی عورت کے بیٹے ہو،میں نے تمہارے باپ کی خیانت کی نہ تمہارے ننھیال کو شرمندہ کیا،نہ تمہارے حسب کو رسوا کیا،اور نہ تمہارے نسب کی توہین کی،اور تم اچھی طرح جانتے ہو،کہ خدا نے ان مسلمانوں کے لئے جو کفار سے جنگ کرتے ہیں آخرت میں کتنا عظیم اجر مقرر فرمایا ہے اور دار باقی دار فانی سے بہتر ہے،اللہ تعالےٰ کا فرمان ہے۔
یَاَیُّھَاالَّذِینَ اٰمَنُوااصبِرُواوَصَابِرُووَرَابِطُواوَاتَّقُواللہَ لَعَلَّکُم تُفلِحُونَ۔
(آل عمران)
جب کل صبح اللہ کے فضل وکرم سے تم بہ خیریت جاگو،اور دشمن سے لڑنے کے لئے روانہ ہو تو دشمن پر فتح پانے کے لئے خدا سے نصرت کی التجا کرو اور جب تم دیکھو،کہ لڑائی اچھی طرح بھڑک اُٹھی ہے اور تلواریں آگ کے شعلوں کی طرح چمک رہی ہیں،اور میدانِ جنگ کے اطراف پر آگ برس رہی ہے،تو اس بھڑکتی آگ میں کُود پڑو،اور دشمن کے بہادر پہلوانوں کا مقابلہ کرو،جب لشکر آمادۂ پیکار ہو،اس سے تمہیں دارالخلد والمقامہ میں انعام و اکرام سے نوازا جائے گا"۔
دوسرے دن ان کے بیٹے ماں کی نصیحتوں پر عمل کرتے ہوئے میدانِ جنگ میں اُترے،اور دشمن کی طرف مردانہ وار بڑھے،وہ لڑرہے تھے اور یہ رجز پڑھ رہے تھے، وَابلُوابَلَاءٍحَسَناً،آخر کارچاروں بھائی شہید ہو گئے،جب شیر دل ماں کو اطلاع ملی تو اِنَّالِلہ کہنے کی بجائے انہوں نے ذیل کا کلمہ اپنی زبان سے نکالا، اَلحَمدُلِلہِ الَذِی شَرِّفنِی بِقَتلِھِمٖ اور مجھے اللہ کی رحمت سے توقع ہے کہ وہ ہمیں اگلی دنیا میں اکٹھا کرے گا۔
اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب تک زندہ رہے،جناب خنساءکوان کے چاروں بیٹوں کے دوسودرہم فی آدمی دیتے رہے،ابوعمر نے ان کا ذکر کیا ہے۔